مولانا فضل الرحمٰن اور سہرا سجانے کا نادر موقع
ایک طرف سیاسی طور پر ناکارہ ہوجانے کی شہرت ہے تو دوسری طرف پاکستان کے انتخابی نظام کو دھاندلی سے پاک کرنے کا سہرا
مولانا فضل الرحمٰن کون ہیں؟ عامل، مکافاتِ عمل، مجبور محض، بارہویں کھلاڑی، کٹھ پتلی، مداری، ہیرو یا زیرو؟ فیصلہ یقیناً وقت ہی کرے گا۔ لیکن گزارش تو ہم بھی کرسکتے ہیں، سو کیے دیتے ہیں۔
پیارے مولانا صاحب! وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ الٹ پھیر دنیا کا پرانا وتیرہ ہے۔ جو آج جہاں ہے، اس کے کل وہاں نہ ہونے میں کچھ اچنبھا نہیں، بلکہ یہ تو عین اصول فطرت ہے۔ کل جو آزادی مارچ کررہے تھے اور دھرنا دے رہے تھے، آج وہ یہی کرنے والوں کو برا کہہ رہے ہیں اور کل جو ایسا کرنے والوں کو برا کہہ رہے تھے آج خود یہی کرنے جارہے ہیں۔ لیکن اس میں نیا کیا ہے؟
انسانی تاریخ بھری پڑی ہے۔ قاتل قتل ہوتے رہتے ہیں۔ ظالم مظلوم بنتے رہتے ہیں۔ شاہ گدا بنتے رہتے ہیں۔ یوسف سرِ بازار بکتے رہتے ہیں اور انہیں مارنے کا اہتمام کرنے والے ان کے در پر سوالی بن کر بھی جاتے رہتے ہیں۔ دنیا ایسی ہی ہے۔ کبھی طالبان مصلح بنے تو کبھی دہشتگرد۔ کبھی صدام حسین ہیرو بنا تو کبھی انسانیت کا دشمن۔ کبھی ہم امریکا بہادر کے Most allied of the allies بنے، تو کبھی ہم نے امریکا مردہ باد کے نعرے لگائے۔ کبھی ہم نے دنیا کی دوسری بڑی طاقت پر حملوں کےلیے امریکا بہادر کو اڈے دیئے تو کبھی اس کی افواج کی سپلائی لائن ہی کاٹ دی۔ یہی دنیا ہے۔
لیکن بڑا کھلاڑی یا زیرک سیاستدان یا عظیم مذاکرات کار وہ نہیں ہوتا جو بہت بڑا مطالبہ لے کر جائے اور اس کے پاس تخت اور تختہ کے سوا تیسرا کوئی آپشن ہی نہ ہو۔ بڑا کھلاڑی یا دانا سیاستدان وہ ہوتا ہے جو بیچ کی راہ نکالنا جانتا ہو۔ جو سانپ بھی مار دے اور لاٹھی بھی بچا لے۔ جو اپنے لیے بھی اسپیس لے لے اور دوسرے کو بھی اسپیس دے۔ کامیابی انتہا کا نام نہیں۔ کامیابی آگے بڑھنے کا نام ہے۔ انتہاؤں کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے کامیاب صرف وہ ہوتے ہیں جو خود بھی بے انتہا دیوانے ہوں۔ جو خود بھی کسی شمع کے پروانے ہوں۔ جن میں آخری سانس تک لڑنے کا حوصلہ ہو۔ جو زندگی بھر سیدھے راستے پر چلتے رہے ہوں۔ جنہوں نے بھٹکنا یا ڈگمگانا سیکھا ہی نہ ہو۔ جن کی ہمت، حوصلہ اور جہد مسلسل زمانوں کو تھکا دے، شیطانوں کو ہرا دے اور سارے عالم کو اپنا گرویدہ بنا لے اور دنیا کے سامنے برائی کی قوتوں کو بے نقاب کردے۔ یہاں تک کہ برائی کے پاس غروب ہونے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے۔
ہو سکتا ہے کہ اگر ہم گننے بیٹھیں تو ایسے مینارۂ ہائے نور کم ملیں، لیکن ایسا بھی نہیں کہ دھرتی محمد علی جناح، نیلسن منڈیلا، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر روتھ فاؤ اور ان جیسے دیگر رجل ہائے رشید سے بے بہرہ رہی ہو۔
خیر، پیارے مولانا صاحب! بات ہورہی تھی بیچ کی راہ کی۔ کیونکہ آپ بہرحال دیوانے تو ہیں نہیں۔ ماشاء اللہ اچھے خاصے عقلمند انسان ہیں۔ کم و بیش ہر دور میں اقتدار میں رہے ہیں۔ جہان دیدہ ہیں۔ سرد گرم چشیدہ ہیں۔ پھر عمران خان سے کوئی تو سبق سیکھیے۔ دھرنا، وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ، ناکامی، اور واپسی، یہ ہے خان صاحب کی 126 دن کی عظیم جدوجہد کا لب لباب۔ شروع میں لگتا تھا فرشتے ان کے ساتھ ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا، ان کا صرف ایک گروہ ساتھ تھا، اس لیے ناکام رہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق، آپ کے ساتھ تو وہ ایک گروہ بھی نہیں کھڑا اور آپ ان کھڑے ہونے والوں کے ماضی، حال اور مستقبل سے بدرجہ اتم واقف بھی ہیں۔ بعض اوقات بندے کو وہاں مارتے ہیں، جہاں پانی بھی نہیں ملتا۔ پھر وہی خان صاحب والی غلطی کیوں دہرا رہے ہیں؟
خان صاحب جب لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوئے تو گو نواز گو کے نعرے لگوا رہے تھے اور جب چاروں شانے چِت ہوکر ڈی چوک سے قومی اسمبلی پہنچے تو 'کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے' کے طعنے تیروں کی طرح انہیں لہولہان کررہے تھے۔ چنانچہ اگر 'ن لیگ' اور 'پی پی' کے انکار کے بعد بھی آپ واقعی اسلام آباد جانے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا چکے ہیں اور ہر صورت وہاں جائیں گے ہی، تو ضرور جائیے، لیکن ازراہِ کرم جانے سے پہلے اپنے مطالبات پر تھوڑی سی نظرِثانی کرلیجئے۔
اگر آپ وزیراعظم اور حکومت کی برطرفی کا یک نکتی ایجنڈا لے کر وہاں پہنچے تو تصادم، بدمزگی، شور شرابے، ہنگامے اور بریکنگ نیوز در بریکنگ نیوز کے ایک سلسلے کے سوا شاید ہی کچھ ہاتھ آئے۔ اس کے برعکس اگر آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت غیرقانونی ہے، دھاندلی سے وجود میں آئی ہے اور خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے پہلے ہر حکومت دھاندلی سے وجود میں آئی تھی تو پھر کیوں نہ آپ انہیں مجبور کردیں کہ وہ انتخابی اصلاحات کریں۔ وہ ایسا ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں۔ اب آپ بھی ان کی ضرورت محسوس کررہے ہیں۔ اگر اب کی بار غلط حکومت آبھی گئی ہے تو صبر شکر کہ اس ملک میں شاید ہمیشہ سے یہی ہورہا ہے، لیکن کم از کم آئندہ سے تو غیرقانونی یا ناجائز حکومتوں کا راستہ روک دیں۔ انتخابی اصلاحات کروائیں۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں منگوائیں اور پاکستان میں بھی ویسے ہی انتخابات کروائیں جیسے ساری دنیا میں ہوتے ہیں۔ جھرلو سسٹم کو شکست ہوگئی، پٹواری، تھانیدار، آر اوز اس کھیل سے باہر ہو گئے تو سمجھیں سارا مسئلہ ہی ہمیشہ کےلیے حل ہوگیا۔ پھر نہ تو کوئی خلائی مخلوق کچھ کرسکے گی اور نہ کوئی کٹھ پتلی راج سنگھاسن پر شعبدے دکھا سکے گی۔
چھوٹے لوگ آج، مگر بڑے لوگ کل کا سوچتے ہیں۔ اپنی آنے والی نسلوں کا سوچتے ہیں۔ ن لیگ اور پی پی کی بظاہر بے وفائی نے اگر آپ کو بے دست و پا کرنے اور باندھ کر مارنے کی کوشش کی ہے تو بھی آپ تھوڑی سی بہتر تدبیر کے ساتھ بازی پلٹ سکتے ہیں۔ ن اور پی پی کے بغیر نہ چل سکنے کا طعنہ سننے سے بھی بچ جائیں گے اور ملک میں ہمیشہ سے رائج فرسودہ انتخابی نظام کو جدت آشنا کروا کر اس نئی نسل کی ہمدردیاں بھی حاصل کرلیں گے، جو مذہبی جماعتوں سے بالعموم اور آپ سے بالخصوص نالاں رہتی ہے۔
یقین جانیے مولانا صاحب! تقدیر نے آپ کو کامیابی کا سہرا سجانے کا نادر موقع فراہم کیا ہے۔ ایک طرف ناکامی کے طعنے ہیں اور دوسری طرف کامیابی کا جشن۔ ایک طرف سیاسی طور پر ناکارہ ہوجانے کی شہرت ہے تو دوسری طرف پاکستان کے انتخابی نظام کو دھاندلی سے پاک کرنے کا سہرا۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
پیارے مولانا صاحب! اٹھارہویں ترمیم کے وقت مخدوم جاوید ہاشمی اور میاں رضا ربانی نے میاں صاحب کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ لگے ہاتھوں آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کو بھی آئین سے نکال باہر کریں، ورنہ بادشاہ گر صدر کے بجائے عدالت کے ذریعے پارلیمان پر حملے شروع کروا دیں گے اور پرنالہ وہیں رہے گا۔ مگر میاں صاحب شاید اس وقت تک باسٹھ تریسٹھ کو اپنے مخالفوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کےلیے زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ پھر زمانہ بدل گیا اور آج میاں صاحب اسی باسٹھ تریسٹھ کے ہاتھوں گھائل ہوکر چاروں شانے چِت پڑے ہیں۔ اب اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ انتخابی اصلاحات ہوگئیں تو پھر شاید جے یو آئی بھی مستقبل میں کم از کم اپنی بلوچستان والی نشستوں سے تو ہاتھ دھو ہی بیٹھے گی، چنانچہ ان اصلاحات کے بغیر ہی کام چلانا چاہیے، تو پھر یاد رکھیے گا آج اگر آپ نے اپنے مدارس کے طلباء کی قوت کو استعمال کرکے کوئی انہونی کر بھی دی اور جتھوں کی قوت سے حکومت گرا کر ریاست پاکستان میں ایک اور بری روایت قائم کر بھی دی تو پھر کیا ہوگا؟ بادشاہ گروں کا کیا جائے گا؟ وہ کسی اور کٹھ پتلی کو اسٹیج پر لا کھڑا کریں گے اور آپ کے ہاتھ پھر کچھ نہیں آئے گا۔
چنانچہ اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ سراب کے پیچھے بھاگنا ہے، نقشِ باطل کو جا لینا ہے یا اپنی جماعت، اپنے کارکنوں اور اپنی سیاسی بصیرت کی قوت کو قوم کی تقدیر بدلنے کےلیے بروئے کار لانا ہے؟
یاد رکھیے مولانا صاحب! جب تک انتخابی نظام خودکار میکانی طریقوں پر استوار ہوکر انسانی چیرہ دستیوں سے مبرا نہیں ہوجاتا اور سینیٹ الیکشن کا الیکٹورل کالج عوام نہیں بن جاتے، اس وقت تک کٹھ پتلیاں ناچتی رہیں گی اور مداری کھیل دکھاتے رہیں گے اور سیاستدان بِکنے پر مجبور ہوتے رہیں گے۔ جب جب، جس جس کو آئی جے آئی یا ایم ایم اے یا ق لیگوں کی لڑی میں پرو کر تخت پر بٹھایا جاتا رہے گا تب تب وہ بادشاہ گروں کے اقبال کی بلندی کےلیے دعاگو رہے گا اور جب جب، جس جس کو میدان سے باہر کیا جاتا رہے گا، تب تب وہ وکٹیں اکھاڑ کر میدان الٹانے کی کوششیں کرتا رہے گا۔ فیصلہ تو بہرحال آپ ہی کو کرنا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پیارے مولانا صاحب! وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ الٹ پھیر دنیا کا پرانا وتیرہ ہے۔ جو آج جہاں ہے، اس کے کل وہاں نہ ہونے میں کچھ اچنبھا نہیں، بلکہ یہ تو عین اصول فطرت ہے۔ کل جو آزادی مارچ کررہے تھے اور دھرنا دے رہے تھے، آج وہ یہی کرنے والوں کو برا کہہ رہے ہیں اور کل جو ایسا کرنے والوں کو برا کہہ رہے تھے آج خود یہی کرنے جارہے ہیں۔ لیکن اس میں نیا کیا ہے؟
انسانی تاریخ بھری پڑی ہے۔ قاتل قتل ہوتے رہتے ہیں۔ ظالم مظلوم بنتے رہتے ہیں۔ شاہ گدا بنتے رہتے ہیں۔ یوسف سرِ بازار بکتے رہتے ہیں اور انہیں مارنے کا اہتمام کرنے والے ان کے در پر سوالی بن کر بھی جاتے رہتے ہیں۔ دنیا ایسی ہی ہے۔ کبھی طالبان مصلح بنے تو کبھی دہشتگرد۔ کبھی صدام حسین ہیرو بنا تو کبھی انسانیت کا دشمن۔ کبھی ہم امریکا بہادر کے Most allied of the allies بنے، تو کبھی ہم نے امریکا مردہ باد کے نعرے لگائے۔ کبھی ہم نے دنیا کی دوسری بڑی طاقت پر حملوں کےلیے امریکا بہادر کو اڈے دیئے تو کبھی اس کی افواج کی سپلائی لائن ہی کاٹ دی۔ یہی دنیا ہے۔
لیکن بڑا کھلاڑی یا زیرک سیاستدان یا عظیم مذاکرات کار وہ نہیں ہوتا جو بہت بڑا مطالبہ لے کر جائے اور اس کے پاس تخت اور تختہ کے سوا تیسرا کوئی آپشن ہی نہ ہو۔ بڑا کھلاڑی یا دانا سیاستدان وہ ہوتا ہے جو بیچ کی راہ نکالنا جانتا ہو۔ جو سانپ بھی مار دے اور لاٹھی بھی بچا لے۔ جو اپنے لیے بھی اسپیس لے لے اور دوسرے کو بھی اسپیس دے۔ کامیابی انتہا کا نام نہیں۔ کامیابی آگے بڑھنے کا نام ہے۔ انتہاؤں کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے کامیاب صرف وہ ہوتے ہیں جو خود بھی بے انتہا دیوانے ہوں۔ جو خود بھی کسی شمع کے پروانے ہوں۔ جن میں آخری سانس تک لڑنے کا حوصلہ ہو۔ جو زندگی بھر سیدھے راستے پر چلتے رہے ہوں۔ جنہوں نے بھٹکنا یا ڈگمگانا سیکھا ہی نہ ہو۔ جن کی ہمت، حوصلہ اور جہد مسلسل زمانوں کو تھکا دے، شیطانوں کو ہرا دے اور سارے عالم کو اپنا گرویدہ بنا لے اور دنیا کے سامنے برائی کی قوتوں کو بے نقاب کردے۔ یہاں تک کہ برائی کے پاس غروب ہونے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے۔
ہو سکتا ہے کہ اگر ہم گننے بیٹھیں تو ایسے مینارۂ ہائے نور کم ملیں، لیکن ایسا بھی نہیں کہ دھرتی محمد علی جناح، نیلسن منڈیلا، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر روتھ فاؤ اور ان جیسے دیگر رجل ہائے رشید سے بے بہرہ رہی ہو۔
خیر، پیارے مولانا صاحب! بات ہورہی تھی بیچ کی راہ کی۔ کیونکہ آپ بہرحال دیوانے تو ہیں نہیں۔ ماشاء اللہ اچھے خاصے عقلمند انسان ہیں۔ کم و بیش ہر دور میں اقتدار میں رہے ہیں۔ جہان دیدہ ہیں۔ سرد گرم چشیدہ ہیں۔ پھر عمران خان سے کوئی تو سبق سیکھیے۔ دھرنا، وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ، ناکامی، اور واپسی، یہ ہے خان صاحب کی 126 دن کی عظیم جدوجہد کا لب لباب۔ شروع میں لگتا تھا فرشتے ان کے ساتھ ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا، ان کا صرف ایک گروہ ساتھ تھا، اس لیے ناکام رہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق، آپ کے ساتھ تو وہ ایک گروہ بھی نہیں کھڑا اور آپ ان کھڑے ہونے والوں کے ماضی، حال اور مستقبل سے بدرجہ اتم واقف بھی ہیں۔ بعض اوقات بندے کو وہاں مارتے ہیں، جہاں پانی بھی نہیں ملتا۔ پھر وہی خان صاحب والی غلطی کیوں دہرا رہے ہیں؟
خان صاحب جب لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوئے تو گو نواز گو کے نعرے لگوا رہے تھے اور جب چاروں شانے چِت ہوکر ڈی چوک سے قومی اسمبلی پہنچے تو 'کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے' کے طعنے تیروں کی طرح انہیں لہولہان کررہے تھے۔ چنانچہ اگر 'ن لیگ' اور 'پی پی' کے انکار کے بعد بھی آپ واقعی اسلام آباد جانے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا چکے ہیں اور ہر صورت وہاں جائیں گے ہی، تو ضرور جائیے، لیکن ازراہِ کرم جانے سے پہلے اپنے مطالبات پر تھوڑی سی نظرِثانی کرلیجئے۔
اگر آپ وزیراعظم اور حکومت کی برطرفی کا یک نکتی ایجنڈا لے کر وہاں پہنچے تو تصادم، بدمزگی، شور شرابے، ہنگامے اور بریکنگ نیوز در بریکنگ نیوز کے ایک سلسلے کے سوا شاید ہی کچھ ہاتھ آئے۔ اس کے برعکس اگر آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت غیرقانونی ہے، دھاندلی سے وجود میں آئی ہے اور خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے پہلے ہر حکومت دھاندلی سے وجود میں آئی تھی تو پھر کیوں نہ آپ انہیں مجبور کردیں کہ وہ انتخابی اصلاحات کریں۔ وہ ایسا ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں۔ اب آپ بھی ان کی ضرورت محسوس کررہے ہیں۔ اگر اب کی بار غلط حکومت آبھی گئی ہے تو صبر شکر کہ اس ملک میں شاید ہمیشہ سے یہی ہورہا ہے، لیکن کم از کم آئندہ سے تو غیرقانونی یا ناجائز حکومتوں کا راستہ روک دیں۔ انتخابی اصلاحات کروائیں۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں منگوائیں اور پاکستان میں بھی ویسے ہی انتخابات کروائیں جیسے ساری دنیا میں ہوتے ہیں۔ جھرلو سسٹم کو شکست ہوگئی، پٹواری، تھانیدار، آر اوز اس کھیل سے باہر ہو گئے تو سمجھیں سارا مسئلہ ہی ہمیشہ کےلیے حل ہوگیا۔ پھر نہ تو کوئی خلائی مخلوق کچھ کرسکے گی اور نہ کوئی کٹھ پتلی راج سنگھاسن پر شعبدے دکھا سکے گی۔
چھوٹے لوگ آج، مگر بڑے لوگ کل کا سوچتے ہیں۔ اپنی آنے والی نسلوں کا سوچتے ہیں۔ ن لیگ اور پی پی کی بظاہر بے وفائی نے اگر آپ کو بے دست و پا کرنے اور باندھ کر مارنے کی کوشش کی ہے تو بھی آپ تھوڑی سی بہتر تدبیر کے ساتھ بازی پلٹ سکتے ہیں۔ ن اور پی پی کے بغیر نہ چل سکنے کا طعنہ سننے سے بھی بچ جائیں گے اور ملک میں ہمیشہ سے رائج فرسودہ انتخابی نظام کو جدت آشنا کروا کر اس نئی نسل کی ہمدردیاں بھی حاصل کرلیں گے، جو مذہبی جماعتوں سے بالعموم اور آپ سے بالخصوص نالاں رہتی ہے۔
یقین جانیے مولانا صاحب! تقدیر نے آپ کو کامیابی کا سہرا سجانے کا نادر موقع فراہم کیا ہے۔ ایک طرف ناکامی کے طعنے ہیں اور دوسری طرف کامیابی کا جشن۔ ایک طرف سیاسی طور پر ناکارہ ہوجانے کی شہرت ہے تو دوسری طرف پاکستان کے انتخابی نظام کو دھاندلی سے پاک کرنے کا سہرا۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
پیارے مولانا صاحب! اٹھارہویں ترمیم کے وقت مخدوم جاوید ہاشمی اور میاں رضا ربانی نے میاں صاحب کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ لگے ہاتھوں آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کو بھی آئین سے نکال باہر کریں، ورنہ بادشاہ گر صدر کے بجائے عدالت کے ذریعے پارلیمان پر حملے شروع کروا دیں گے اور پرنالہ وہیں رہے گا۔ مگر میاں صاحب شاید اس وقت تک باسٹھ تریسٹھ کو اپنے مخالفوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کےلیے زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ پھر زمانہ بدل گیا اور آج میاں صاحب اسی باسٹھ تریسٹھ کے ہاتھوں گھائل ہوکر چاروں شانے چِت پڑے ہیں۔ اب اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ انتخابی اصلاحات ہوگئیں تو پھر شاید جے یو آئی بھی مستقبل میں کم از کم اپنی بلوچستان والی نشستوں سے تو ہاتھ دھو ہی بیٹھے گی، چنانچہ ان اصلاحات کے بغیر ہی کام چلانا چاہیے، تو پھر یاد رکھیے گا آج اگر آپ نے اپنے مدارس کے طلباء کی قوت کو استعمال کرکے کوئی انہونی کر بھی دی اور جتھوں کی قوت سے حکومت گرا کر ریاست پاکستان میں ایک اور بری روایت قائم کر بھی دی تو پھر کیا ہوگا؟ بادشاہ گروں کا کیا جائے گا؟ وہ کسی اور کٹھ پتلی کو اسٹیج پر لا کھڑا کریں گے اور آپ کے ہاتھ پھر کچھ نہیں آئے گا۔
چنانچہ اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ سراب کے پیچھے بھاگنا ہے، نقشِ باطل کو جا لینا ہے یا اپنی جماعت، اپنے کارکنوں اور اپنی سیاسی بصیرت کی قوت کو قوم کی تقدیر بدلنے کےلیے بروئے کار لانا ہے؟
یاد رکھیے مولانا صاحب! جب تک انتخابی نظام خودکار میکانی طریقوں پر استوار ہوکر انسانی چیرہ دستیوں سے مبرا نہیں ہوجاتا اور سینیٹ الیکشن کا الیکٹورل کالج عوام نہیں بن جاتے، اس وقت تک کٹھ پتلیاں ناچتی رہیں گی اور مداری کھیل دکھاتے رہیں گے اور سیاستدان بِکنے پر مجبور ہوتے رہیں گے۔ جب جب، جس جس کو آئی جے آئی یا ایم ایم اے یا ق لیگوں کی لڑی میں پرو کر تخت پر بٹھایا جاتا رہے گا تب تب وہ بادشاہ گروں کے اقبال کی بلندی کےلیے دعاگو رہے گا اور جب جب، جس جس کو میدان سے باہر کیا جاتا رہے گا، تب تب وہ وکٹیں اکھاڑ کر میدان الٹانے کی کوششیں کرتا رہے گا۔ فیصلہ تو بہرحال آپ ہی کو کرنا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔