کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
دیگر ممالک کے شہری قریبی سعودی سفارت خانے یا قونصل خانے سے سیاحتی ویزہ حاصل کر سکیں گے۔
ABBOTTABAD:
پرسوں یعنی اتوار تک سعودی حکومت غیر ملکیوں کو تین اقسام کے ویزے جاری کرتی تھی۔حج و عمرے کا ویزہ، فیملی ویزہ اور کاروباری و ملازمتی ویزہ۔اب پہلی بار ٹورسٹ ویزہ بھی متعارف کرا دیا گیا ہے۔ابتدائی طور پر انچاس ممالک کے شہری آن لائن یاملک میں آمد کے بعد ایئرپورٹ پر ہی ایک برس کا ملٹی پل ٹورسٹ ویزہ حاصل کر سکیں گے اور ایک دورے میں نوے دن تک قیام کر سکیں گے۔جب کہ دیگر ممالک کے شہری قریبی سعودی سفارت خانے یا قونصل خانے سے سیاحتی ویزہ حاصل کر سکیں گے۔
سعودی حکومت ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن دو ہزار تیس کے تحت تیل کی آمدنی پر انحصار کم سے کم اور سعودی نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں کمی کے لیے اگلے گیارہ برس میں قومی آمدنی کا لگ بھگ دس فیصد سیاحتی و تفریحاتی شعبے سے حاصل کرنا چاہتی ہے۔اس وقت سعودی باشندے بیرونِ ملک تفریحات پر سالانہ بائیس ارب ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔سعودی حکومت کا ہدف ہے کہ کچھ ایسا سیاحتی ڈھانچہ بنایا جائے کہ سعودی باشندے بیرون کے بجائے اندرونِ ملک سیر سپاٹے اور ثقافتی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی لیں اور اپنا کم ازکم ایک تہائی تفریحی بجٹ ملک کے اندر ہی خرچ کریں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے مئی دو ہزار سولہ میں خادمِ حرمین و شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے قیام کا فرمان جاری کیا۔اس کا مقصد اندرونِ ملک جدید تفریحی سہولتوں کو منظم کرنا ہے۔اتھارٹی کا سالانہ ابتدائی بجٹ لگ بھگ تین ارب ڈالر ہے۔گزشتہ برس اتھارٹی کے تحت ریاض اور جدہ سمیت کئی شہروں میں بین الاقوامی شہرت یافتہ مغربی اور عرب کنسرٹس نے پرفارمنس دی۔مقامی سطح پر تین سو کے لگ بھگ تقریبات ، مقابلوں اور انٹرٹینمنٹ شوز کا اہتمام کیا گیا۔اس برس زیادہ بڑے پیمانے پر تفریحِ طبع کا اہتمام ہے۔
تنہا ڈرائیونگ پر پابندی ختم ہونے سے گھر سے باہر سماجی زندگی میں خواتین کی شرکت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔اور اب ان میں بلا خوف و خطر گروپ کی شکل میں لمبی ڈرائیونگ اور تفریحی سرگرمیوں اور کھیلوں کے مقابلوں سے محظوظ ہونے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
تازہ پیش رفت یہ ہے کہ خواتین اپنے سرپرست (والد ، بھائی، شوہر وغیرہ ) کی تحریری اجازت یا ہمراہی کے بغیر شناختی دستاویزات دکھا کر کسی بھی ہوٹل میں قیام کر سکتی ہیں۔سعودی عرب میں مقیم غیرملکی خواتین کو اقامے کی نقل اور سیاح خواتین کو پاسپورٹ کی فوٹو کاپی دکھانے پر کمرہ مل سکتا ہے۔
اب تک ہوٹل میں جوڑے قیام کرنے کے لیے نکاح نامے کی نقل جمع کرانے کے پابند تھے مگر نئے قانون کے تحت غیر ملکی جوڑے اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیے گئے ہیں اور مقامی سعودی جوڑے کو اگر ہوٹل میں قیام کرنا ہے تو مرد کی شناختی دستاویزات کافی ہوں گی۔
پہلے کے برعکس غیر ملکی خواتین کے لیے عبایا پہننا لازمی نہیں البتہ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مقامی تہذیب و ثقافت کا خیال رکھتے ہوئے شائستہ لباس میں باہر نکلیں۔
سعودی حکومت نے سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے یونیسکو کی عالمی وراثتی فہرست میں شامل پانچ آثارِ قدیمہ و تاریخی مقامات بھی کھول دیے ہیں۔البتہ مکہ اور مدینہ میں غیر مسلموں کے داخلے پر پابندی بدستور عائد رہے گی۔
اس کے علاوہ بحیرہ قلزم کے ساحل پر غیرملکی سرمایہ کاروں کو ٹورسٹ ریزورٹ میں سرمایہ کاری کی اجازت دی جا رہی ہے۔اگلے گیارہ برس میں ملک گیر سطح پر بیس بڑے انٹرٹینمٹ کمپلیکس تعمیر کیے جائیں گے۔اس سلسلے کا پہلا منصوبہ ریاض سے چالیس کیلومیٹر پرے القدیا میں سعودی انٹرٹینمٹ وینچرز نامی کمپنی تعمیر کر رہی ہے۔اس کے امریکی سربراہ بل ارنسٹ کو والٹ ڈزنی انٹرٹینمنٹ کمپنی کے تحت ڈزنی لینڈ تھیم پارکس چلانے اور نت نئی تفریحات متعارف کروانے کا وسیع تجربہ ہے۔
القدیا انٹرٹینمنٹ کمپلیکس کے انتظام کی خاطر ساٹھ سعودی نوجوانوں کے پہلے جتھے کو فلوریڈا یونیورسٹی میں انٹرٹینمٹ کے مختلف شعبوں میں ڈگری کورسز کے لیے بھیجا گیا ہے۔یہ نوجوان تکمیل کے بعد واپس آ کر ماسٹر ٹرینرز کا بھی کام کریں گے۔مقامی سطح پر گزشتہ ماہ سے ریاض میں کھلنے والی انٹرٹینمنٹ اکیڈمی میں بھی پڑھائی کا آغاز ہو گیا ہے۔تاکہ مقامی لڑکے لڑکیاں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں روزگار کے لیے مختلف شعبوں میں ڈپلومے کی سطح تک تعلیم حاصل کر سکیں۔
پہلا انٹرٹینمنٹ کممپلیکس ایک لاکھ مربع میٹر رقبے پر ہوگا۔اس میں تقریباً تین سو تفریحی و تعلیمی سہولیات میسر ہوں گی۔ لگ بھگ بائیس ہزار مقامی نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ملک گیر سطح پر اگلے گیارہ برس کے دوران اس نوعیت کے بیس انٹرٹینمنٹ کمپلیکس تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔اندازہ ہے کہ سالانہ لگ بھگ پانچ کروڑ مقامی و غیر ملکی سیاح ان تفریحی مراکز میں پیسہ خرچ کریں گے۔
سعودی عرب میں انیس سو پچھتر میں آخری سینما بند کر دیا گیا۔تب سے یہ لگژری صرف ان سعودی شہریوں کی دسترس میں رہی جو بحرین ، متحدہ عرب امارات ، جنوب مشرقی ایشیا، بھارت یا پھر مغربی ممالک میں چھٹیاں گذارنے یا آمدو رفت کی سکت رکھتے تھے۔مگر اب عام سعودیوں کو بھی سینما بینی کی سہولت حاصل ہو رہی ہے۔
پینتیس برس بعدپہلا ملٹی اسکرین سینما کمپلیکس ریاض میں امریکی کمپنی اے ایم سی نے گزشتہ برس اپریل میں کھولا۔تب سے کئی شہروں میں سات سینما کھل چکے ہیں اور اگلے تین برس میں ان کی تعداد پچاس تک پہنچ جائے گی۔ان پچاس سینماؤں میں ساڑھے چار سو اسکرینز ہوں گی۔
سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی محض کنسرٹس، ثقافتی نمائشیں، کھیلوں کے مقابلے اور دیگر مروجہ تفریحات کو ہی فروغ نہیں دے رہی بلکہ دینی ثقافت میں نئی پود کی دلچسپی بڑھانے پر بھی کماحقہ توجہ دے رہی ہے۔مثلاً اس برس اگست میں اتھارٹی نے قرأت اور اذان کا پہلا بین الاقوامی مقابلہ منعقد کرایا۔اس کے پہلے مرحلے میں ایک سو باسٹھ ممالک کے بیالیس ہزار سے زائد قاریوں اور موذنوں نے حصہ لیا۔سب سے زیادہ انٹریز سعودی عرب، مصر ، پاکستان ، بھارت اور انڈونیشیا سے آئیں۔ ستمبر میں دوسرے مرحلے کا مقابلہ ہوا۔فائنل یعنی تیسرا مرحلہ لائیو ہوگا۔اس میں کامیاب ہونے والے قاری کو تیرہ لاکھ ڈالر اور موذن کو پانچ لاکھ تیس ہزار ڈالر نقد انعام ملے گا۔
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے ( غالب )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)