میرا کام محض غالب سے عقیدت کا اظہار ہے
’’غالب از غالب‘‘ کے مرتب، میاں شہباز علی کا احوال
میاں شہباز علی، جو مرزا غالب کی نثر اور شاعری کے عاشق ہیں، انہیں ایک دن خیال سوجھا کہ خطوط میں تو دراصل غالب نے اپنی زندگی کا احوال بیان کیا ہے۔
اسے زمانی ترتیب (chronological order) سے لکھ لیا جائے تو ایک طرح سے جناب غالب کی ''خودنوشت سوانح حیات'' مرتب ہو جائے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ایسا کوئی کام پہلے نہیں ہوا تو وہ خوشی خوشی عشق کی اس مزدوری (labour of love) میں ُجت گئے اور سات سال کے بعد ''غالب از غالب'' تین جلدوں میں شائع ہوگئی۔ کام کی منفرد نوعیت کی وجہ سے علمی و ادبی حلقوں نے اسے تحسین کی نظر سے دیکھا۔
ممتاز فکشن نگار اکرام اللہ کے بقول تو، ''کتاب دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ غالب نے اپنی خودنوشت سوانح حیات لکھ کر کہیں سنبھال کر رکھ دی تھی، اب کہیں اس پر کسی کی نظر پڑی تو اس نے طباعت سے آراستہ کر کے ایک تحفے کے طور پر غالب کے سخن فہموں کی خدمت میں پیش کر دی ہے۔''
میاں شہباز علی کی دانست میں انہوں نے کوئی علمی یا تحقیقی کارنامہ انجام نہیں دیا، بلکہ خطوط میں بکھرے ہوئے حالات زیست کو 34 ابواب کے تحت ایک لڑی میں پرویا ہے۔ یہ محض غالب سے عقیدت کا اظہار ہے۔ کہتے ہیں، ''میں دندان سازی کا کاروبار کرتا ہوں، ادب و تدوین میرا شعبہ نہیں، اسی واسطے اہل علم سے توقع کرتا ہوں کہ وہ اس میں موجود کوتاہیوں اور خامیوں کو نظرانداز کردیں گے۔
میرا یہ منصب بھی نہیں کہ مرزا غالب کی نثر پر بات کروں۔ علمائے ادب بہت اچھے انداز میں اس کی خوبیاں بیان کر چکے۔ غالب کے ایک پرشوق قاری کی حیثیت سے میں ان کی نثر سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ پھر میرے ذہن میں آیا کہ ہر شخص اپنے بارے میں سب سے بہتر جانتا ہے، تو جو مرزا صاحب نے خود اپنے بارے میں لکھ دیا اس میں شک وشبہے کی گنجائش ہی نہیں۔ اپنے دوستوں شیخ احمد علی اور اسلم گورداسپوری سے ذکر کیا تو انہوں نے مجھے اس کام میں دھکیل دیا۔''
خلیق انجم کی مرتبہ غالب کے خطوط کی پانچ جلدیں، اور مکتوبات غالب فارسی کے مترجم و مرتب پرتو روہیلہ کی ضخیم کتاب ان کے پیش نظر رہی۔ تین سال انہیں پڑھنے اور مختلف عنوانات کے ذیل میں متن ترتیب دینے میں لگ گئے۔ پھر لکھنے کا مرحلہ درپیش آیا۔ ایک دن لکھنے بیٹھے تو ''عالم بے رنگی'' میں جناب غالب سے ملاقات کا ذکرکیا اور ان سے احوال زیست سنانے کی درخواست کی، اس پر مہمان کی خاطرداری کو ملحوظ رکھتے ہوئے، غالب کہتے ہیں: ''۔۔۔دیکھو میاں! ہمیں دریچہ نسیاں سے جو منظر، جیسا نظر آتا ہے تمھیں بتائے دیتے ہیں، تم اس کو ضبط تحریر میں لے آؤ۔ اور ہاں دھیان رہے کہ ہم یہ سب تمھارا جی رکھنے کے واسطے کیے دیتے ہیں۔ لو اب کہانی سنو، میری سرگذشت میری زبانی سنو۔'' تو اس طرح مکالمے کی شکل میں اس کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔
میاں شہبازعلی کے بقول انہوں نے اپنی طرف سے شعوری کوشش کی ہے کہ اس کتاب میں ایک تسلسل قائم رہے، کسی خاص موضوع پر بات ہو رہی ہے تو پڑھنے والا ایک روانی میں پڑھ سکے۔ اس کے ساتھ اس بات کو بھی ملحوظ رکھا کہ ایک ہی بات کا بار بار ذکر نہ آئے۔ چند مقامات کے علاوہ، جہاں کچھ جملے دہرانا ضروری تھا، انہوں نے اس سے اجتناب کیا ہے۔
بتاتے ہیں، ''اس کام میں مجھے ایک مسئلے کا بھی کئی بار سامنا کرنا پڑا کہ کچھ موضوعات پر بات کرتے ہوئے آگے ایک بند گلی آ گئی ہے، یعنی اس قصے کا تذکرہ ادھورا رہتا ہے، لیکن اس سے آگے کوئی بات غالب کے خطوط میں نہیں ملتی۔تو یہاں مجھے غالب کی زندگی پر لکھی ہوئی مختلف کتابوں سے مدد ملی۔ مولانا حالی، غلام رسول مہر، مالک رام، کالی داس گپتا رضا، پروفیسر حمید احمد خان، ڈاکٹر سید معین الرحمٰن اور دوسرے ماہرین غالبیات نے بہت عمدہ کام کیا ہے۔ وہ اس کے سزاوار ہیں کہ ان کے کام کو تحقیق کہا جائے۔ تو میں نے کبھی کسی کی انگلی پکڑی،کبھی کسی کا ہاتھ تھاما اور وہ مجھے اس بند گلی سے باہر نکال لائے۔''
اردو اور فارسی خطوط میں فرق کے سوال پر وہ کہتے ہیں، ''پہلے میں یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں فارسی دان نہیں۔ پھر بھی فارسی خطوط کا ورق ورق میری نظر سے گزرا ہے، جنہیں میں نے پرتو روہیلہ کے اردو ترجمے کی روشنی میں دیکھا ہے۔ پرتو صاحب کا ترجمہ بہت خوبصورت ہے، اس ترجمے کی روشنی میں صرف اتنا کہوں گا کہ فارسی خطوط کی نثر بہت مرصع ہے، اردو میں انہوں نے آسان پیرایہ اختیار کیا ہے۔''
میاں شہباز علی کے غالب سے عشق کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب شائع کرنے کے لیے تقریباً دس لاکھ روپے خود مہیا کیے۔ ناشر ''شیخ مبارک علی، 62مزنگ روڈ، صفاں والا چوک، لاہور'' نے اسے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ کتاب کا ایک باب ''غالب اور فن طب'' ابھی زیر تکمیل ہے، جسے وہ اپنے دوست حکیم محمد عمران کی مدد سے مکمل کر رہے ہیں۔
1959ء میں لاہور میں آنکھ کھولنے والے میاں شہبازعلی کا حلقہ احباب علم دوست لوگوں پر مشتمل ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1982ء میں پہلی ملازمت کسٹم کے محکمے میں کی۔ پھر مصنوعی دندان سازی کا فن سیکھنے برطانیہ چلے گئے اور 1991ء سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔
وہ پاکستان میں اس کام کا آغاز کرنے والے ابتدائی لوگوں میں سے ہیں اور اب پاکستان کے علاوہ چار ملکوں میں مصنوعی دانت ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ دو بیٹوں عثمان علی، شاہ زیب علی اور ایک بیٹی عائشہ شہباز کے والد ہیں۔ غالب سے ان کے جنون کی حد تک لگاؤ کی وجہ سے ان کے بیوی بچے بھی ''متاثرین غالب'' بن چکے ہیں۔ کہتے ہیں، ''میری بیوی عالیہ شہباز جوشعر و ادب سے کچھ خاص شغف نہیں رکھتیں، اتنے برسوں میں ان کا یہ عالم ہوا کہ جب میں غالب کا کوئی شعر پڑھتا تو اس کا دوسرا مصرعہ وہ لگاتی ہیں۔ میرے بچوں کی زبان پر جناب غالب کا یہ جملہ عام طور پر گردش میں رہتا ہے کہ ''ایک بات اور ہے اور وہ محل غور ہے۔''
اسے زمانی ترتیب (chronological order) سے لکھ لیا جائے تو ایک طرح سے جناب غالب کی ''خودنوشت سوانح حیات'' مرتب ہو جائے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ایسا کوئی کام پہلے نہیں ہوا تو وہ خوشی خوشی عشق کی اس مزدوری (labour of love) میں ُجت گئے اور سات سال کے بعد ''غالب از غالب'' تین جلدوں میں شائع ہوگئی۔ کام کی منفرد نوعیت کی وجہ سے علمی و ادبی حلقوں نے اسے تحسین کی نظر سے دیکھا۔
ممتاز فکشن نگار اکرام اللہ کے بقول تو، ''کتاب دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ غالب نے اپنی خودنوشت سوانح حیات لکھ کر کہیں سنبھال کر رکھ دی تھی، اب کہیں اس پر کسی کی نظر پڑی تو اس نے طباعت سے آراستہ کر کے ایک تحفے کے طور پر غالب کے سخن فہموں کی خدمت میں پیش کر دی ہے۔''
میاں شہباز علی کی دانست میں انہوں نے کوئی علمی یا تحقیقی کارنامہ انجام نہیں دیا، بلکہ خطوط میں بکھرے ہوئے حالات زیست کو 34 ابواب کے تحت ایک لڑی میں پرویا ہے۔ یہ محض غالب سے عقیدت کا اظہار ہے۔ کہتے ہیں، ''میں دندان سازی کا کاروبار کرتا ہوں، ادب و تدوین میرا شعبہ نہیں، اسی واسطے اہل علم سے توقع کرتا ہوں کہ وہ اس میں موجود کوتاہیوں اور خامیوں کو نظرانداز کردیں گے۔
میرا یہ منصب بھی نہیں کہ مرزا غالب کی نثر پر بات کروں۔ علمائے ادب بہت اچھے انداز میں اس کی خوبیاں بیان کر چکے۔ غالب کے ایک پرشوق قاری کی حیثیت سے میں ان کی نثر سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ پھر میرے ذہن میں آیا کہ ہر شخص اپنے بارے میں سب سے بہتر جانتا ہے، تو جو مرزا صاحب نے خود اپنے بارے میں لکھ دیا اس میں شک وشبہے کی گنجائش ہی نہیں۔ اپنے دوستوں شیخ احمد علی اور اسلم گورداسپوری سے ذکر کیا تو انہوں نے مجھے اس کام میں دھکیل دیا۔''
خلیق انجم کی مرتبہ غالب کے خطوط کی پانچ جلدیں، اور مکتوبات غالب فارسی کے مترجم و مرتب پرتو روہیلہ کی ضخیم کتاب ان کے پیش نظر رہی۔ تین سال انہیں پڑھنے اور مختلف عنوانات کے ذیل میں متن ترتیب دینے میں لگ گئے۔ پھر لکھنے کا مرحلہ درپیش آیا۔ ایک دن لکھنے بیٹھے تو ''عالم بے رنگی'' میں جناب غالب سے ملاقات کا ذکرکیا اور ان سے احوال زیست سنانے کی درخواست کی، اس پر مہمان کی خاطرداری کو ملحوظ رکھتے ہوئے، غالب کہتے ہیں: ''۔۔۔دیکھو میاں! ہمیں دریچہ نسیاں سے جو منظر، جیسا نظر آتا ہے تمھیں بتائے دیتے ہیں، تم اس کو ضبط تحریر میں لے آؤ۔ اور ہاں دھیان رہے کہ ہم یہ سب تمھارا جی رکھنے کے واسطے کیے دیتے ہیں۔ لو اب کہانی سنو، میری سرگذشت میری زبانی سنو۔'' تو اس طرح مکالمے کی شکل میں اس کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔
میاں شہبازعلی کے بقول انہوں نے اپنی طرف سے شعوری کوشش کی ہے کہ اس کتاب میں ایک تسلسل قائم رہے، کسی خاص موضوع پر بات ہو رہی ہے تو پڑھنے والا ایک روانی میں پڑھ سکے۔ اس کے ساتھ اس بات کو بھی ملحوظ رکھا کہ ایک ہی بات کا بار بار ذکر نہ آئے۔ چند مقامات کے علاوہ، جہاں کچھ جملے دہرانا ضروری تھا، انہوں نے اس سے اجتناب کیا ہے۔
بتاتے ہیں، ''اس کام میں مجھے ایک مسئلے کا بھی کئی بار سامنا کرنا پڑا کہ کچھ موضوعات پر بات کرتے ہوئے آگے ایک بند گلی آ گئی ہے، یعنی اس قصے کا تذکرہ ادھورا رہتا ہے، لیکن اس سے آگے کوئی بات غالب کے خطوط میں نہیں ملتی۔تو یہاں مجھے غالب کی زندگی پر لکھی ہوئی مختلف کتابوں سے مدد ملی۔ مولانا حالی، غلام رسول مہر، مالک رام، کالی داس گپتا رضا، پروفیسر حمید احمد خان، ڈاکٹر سید معین الرحمٰن اور دوسرے ماہرین غالبیات نے بہت عمدہ کام کیا ہے۔ وہ اس کے سزاوار ہیں کہ ان کے کام کو تحقیق کہا جائے۔ تو میں نے کبھی کسی کی انگلی پکڑی،کبھی کسی کا ہاتھ تھاما اور وہ مجھے اس بند گلی سے باہر نکال لائے۔''
اردو اور فارسی خطوط میں فرق کے سوال پر وہ کہتے ہیں، ''پہلے میں یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں فارسی دان نہیں۔ پھر بھی فارسی خطوط کا ورق ورق میری نظر سے گزرا ہے، جنہیں میں نے پرتو روہیلہ کے اردو ترجمے کی روشنی میں دیکھا ہے۔ پرتو صاحب کا ترجمہ بہت خوبصورت ہے، اس ترجمے کی روشنی میں صرف اتنا کہوں گا کہ فارسی خطوط کی نثر بہت مرصع ہے، اردو میں انہوں نے آسان پیرایہ اختیار کیا ہے۔''
میاں شہباز علی کے غالب سے عشق کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب شائع کرنے کے لیے تقریباً دس لاکھ روپے خود مہیا کیے۔ ناشر ''شیخ مبارک علی، 62مزنگ روڈ، صفاں والا چوک، لاہور'' نے اسے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ کتاب کا ایک باب ''غالب اور فن طب'' ابھی زیر تکمیل ہے، جسے وہ اپنے دوست حکیم محمد عمران کی مدد سے مکمل کر رہے ہیں۔
1959ء میں لاہور میں آنکھ کھولنے والے میاں شہبازعلی کا حلقہ احباب علم دوست لوگوں پر مشتمل ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1982ء میں پہلی ملازمت کسٹم کے محکمے میں کی۔ پھر مصنوعی دندان سازی کا فن سیکھنے برطانیہ چلے گئے اور 1991ء سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔
وہ پاکستان میں اس کام کا آغاز کرنے والے ابتدائی لوگوں میں سے ہیں اور اب پاکستان کے علاوہ چار ملکوں میں مصنوعی دانت ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ دو بیٹوں عثمان علی، شاہ زیب علی اور ایک بیٹی عائشہ شہباز کے والد ہیں۔ غالب سے ان کے جنون کی حد تک لگاؤ کی وجہ سے ان کے بیوی بچے بھی ''متاثرین غالب'' بن چکے ہیں۔ کہتے ہیں، ''میری بیوی عالیہ شہباز جوشعر و ادب سے کچھ خاص شغف نہیں رکھتیں، اتنے برسوں میں ان کا یہ عالم ہوا کہ جب میں غالب کا کوئی شعر پڑھتا تو اس کا دوسرا مصرعہ وہ لگاتی ہیں۔ میرے بچوں کی زبان پر جناب غالب کا یہ جملہ عام طور پر گردش میں رہتا ہے کہ ''ایک بات اور ہے اور وہ محل غور ہے۔''