معاشرے کو روایتی تعلیم سے زیادہ ہنرمند افراد کی ضرورت ہے
نوجوان ملازمت کے بجائے ذاتی کام کو ترجیح دیں، ماہر تعلیم منصور فیصل سے گفتگو
ISLAMABAD:
ماہر تعلیم منصور فیصل ''ایڈوانس ایجوکیشن ٹرسٹ'' کے صدر ہیں، جس کے تحت وہ ایک کالج چلا رہے ہیں۔
انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ ایک نجی یونیورسٹی سے ایم فل منیجمنٹ کی ڈگری حاصل کی اور اب 64 برس کی عمر میں پی ایچ ڈی بھی کر رہے ہیں، جو اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ علم حاصل کرنے اور سیکھنے کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اپنے 43 سالہ پیشہ ورانہ سفر میں مختلف کاروباری اداروں سے منسلک رہے اور کئی کثیرالملکی کمپنیوں کے ملکی اور خطے کی سطح تک کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
گزشتہ کچھ برسوں سے اپنی صلاحیتیں شعبہ تعلیم کے لیے وقف کر دی ہیں۔ وہ قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور دوسری نجی یونیورسٹیوں میں 20 برس وزیٹنگ استاد کے طور پر پڑھانے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں، جبکہ اب مکمل طور پر تعلیمی میدان میں فعال ہیں۔ ان سے گفتگو میں نظام تعلیم، تعلیمی رجحانات اور اس کے معاشرتی پہلو، روزگار کے امکانات، ٹیکنالوجی کے اثرات وغیرہ جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔
منصورفیصل سمجھتے ہیں کہ ہمیں عمومی طرز تعلیم کو تبدیل کر کے مہارت اور ہنر پر مبنی تعلیم دینی چاہیے۔ اس سے ہماری صنعتوں کی ضروریات پوری ہوں گی اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ان کے بقول، ''ملک کو مختلف بحرانوں کا سامنا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ طالب علم اپنی مرضی سے ایک خاص سطح تک بنیادی تعلیم حاصل کریں۔
اس کے ساتھ وہ ایسے ہنر اور مہارتیں سیکھیں جن سے انہیں روزگار ملے یا وہ آگے چل کر خود اپنے کاروبار (انٹرپرینیورشپ) کا آغاز کر سکیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ طالب علم ایف اے، بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کر لیں لیکن انہیں کوئی 10ہزار کی نوکری دینے کے لیے بھی آمادہ نہ ہو۔ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے اور انہیں اس قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس وہ مطلوبہ مہارتیں نہیں جو مارکیٹ کو درکار ہیں۔ اسی سبب ہمارے ایم فل اور پی ایچ ڈی پاس کرنے والے طلبہ بھی سڑکوں پر بے روزگار پھرتے ہیں۔اس کے برعکس ترقی یافتہ دنیا میں تعلیم کو ضروری علم اور معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اسے روزگار سے نتھی نہیں کیا جاتا۔ بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طالب علم اپنی مرضی کے شعبوں میں کام سیکھتے اور سرٹیفیکیٹس حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں فوراً کام مل جاتا ہے اور بے روزگاری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔''
منصور فیصل کہتے ہیں کہ اچھے تعلیمی ادارے کے لیے بڑی عمارتوں، انفراسٹرکچر، پروفیسرز کا ہونا ضروری نہیں۔ امریکا اور جنوبی افریقہ کے کچھ علاقوں میں 'گیراج یونیورسٹی' کا تصور دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی عمارت ضروری نہیں، آپ بے شک سو، ڈیڑھ سو طلبہ کو تعلیم دیں، لیکن انہیں ہنرمند اور اپنے کام کا ماہر بنا دیں۔
اس طرح وہ کروڑوں روپے انفراسٹرکچر پر ضائع کرنے کے بجائے صرف تعلیم اور سکھانے پر توجہ دیتے ہیں۔ 20 کروڑ کی آبادی کے ملک کو تعلیم دینے اور ہنرمند بنانے کے لیے ہمیں بھی اس ماڈل پر عمل کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر وہ لوگ جن کے پاس روزگار نہیں ہے، ایک سونامی کی طرح اس نظام کوبہا لے جائیں گے۔ لوگوں کے روزگار کا بندوبست نہ ہوا تو سوشل سٹرکچر کمزور ہو گا، خاندان ٹوٹیں گے، جرائم میں اضافہ ہو گا۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور حل کرنے کے لیے جامع پالیسی تشکیل دی جائے۔
وہ انگریزی کے علاوہ دنیا کی دوسری اہم زبانیں سیکھنے پر بھی زور دیتے ہیں۔ بتاتے ہیں، ''میںکئی برسوں سے کہہ رہا ہوں کہ بچوں کو ترقی یافتہ ممالک کی زبانیں سیکھنی چاہئیں۔ دنیا تبدیل ہو رہی ہے، چین دنیا کی بڑی معاشی قوت بننے والا ہے۔ہمارے ہاں اب چینی زبان سکھانے کی بات ہو رہی ہے۔ اسی طرح روسی، جرمن اور دوسری اہم زبانیں سیکھنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ چھوٹی عمر میں سیکھنے کی استعداد زیادہ ہوتی ہے۔ طالب علموں کوآسانی سے ان کی پسند کی دو، تین زبانیں سکھائی جا سکتی ہیں۔''
منصور فیصل کے نزدیک ہمارے پورے نظام تعلیم کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال کی ذمہ دار ماضی کی تمام حکومتیں اور موجودہ حکومت بھی ہے، جس کی ابھی تک تعلیمی پالیسی سامنے نہیں آئی۔ اصلاح احوال کے لیے سب سٹیک ہولڈرز کو مل کر بیٹھنا ہو گا ، جامع اور موثرحکمت عملی تشکیل دینا ہوگی۔ ان کے بقول، ''دنیا میں جو ڈسپلن پڑھائے جا رہے ہیں ان کی دو ہزار تعداد ہو گئی ہے۔ ہم ابھی تک انٹرمیڈیٹ میں چار کمبی نیشن پڑھا رہے ہیں۔ والدین بھی بات سننے کو آمادہ نہیں کہ 'ہوٹل منیجمنٹ' کوئی مضمون ہو سکتا ہے۔ اس کے بجائے وہ بچے کو ایف اے، بی اے یا بی کام کرا دیں گے، جس کے بعد انہیں کوئی کام نہیں ملے گا۔
بی کام تو ویسے ہی ختم ہو رہا ہے، یہ سوفٹ ویئر پر منتقل ہو گیا ہے، صرف ڈیٹا انٹری کرنا ہوتی ہے۔ تو اس کثیرالجہتی بحران کا کوئی سادہ حل نہیں۔ سب کو مل بیٹھنا ہو گا۔ ہمارے تعلیمی اداروں نے کبھی مارکیٹ سے پوچھا ہی نہیں کہ انہیں کس طرح کی ہنرمند افرادی قوت درکار ہے۔ آیا زبان دانی اور ابلاغ کی مہارتوں کی ضرورت ہے یا اکاؤٹنگ سکلز کی۔ یہ فاصلہ ختم کرنا ہو گا۔مارکیٹ میں گنجائش محدود ہے، جب آپ بین الاقوامی معیار کے مطابق بچوں کو مہارتیں دینا شروع کریں گے تو وہ بچہ دنیا میں کہیں بھی کام کر سکتا ہے۔ سکینڈے نیوین ممالک میں کام کے لیے نوجوان نہیں مل رہے، جرمنی کو پانچ لاکھ نوجوان درکار ہیں، کوریا میں تین لاکھ لوگوں کی ضرورت ہے، اگر یہ مطلوبہ صلاحیتیں ہمارے نوجوان حاصل کریں تو ان کی مانگ زیادہ ہو گی، ہم محنتی لوگ ہیں، جو جسمانی طور پر مضبوط ہیں، ذہین اور خوبصورت بھی۔ لیکن کسی حکومت نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔''
منصور فیصل کے مطابق ہمارے میڈیا کوبھی چاہیے کہ نظام تعلیم کی اصلاح کے لیے آواز اٹھائے اور اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ان کے بقول چینلوں میں ہر وقت سیاست پر بات ہوتی ہے۔ رات کو پرائم ٹائم میں چار پانچ گھنٹے سیاسی مباحث چلتی رہتی ہیں، جو بے کار ہیں۔ ہر چینل کو پابند کیا جائے کہ وہ پرائم ٹائم میں تعلیم، کردار سازی اور صحت و صفائی کے پروگرام دکھائے۔ سیاسی مباحث رات کو بارہ بجے دکھائی جائیں۔ جنیہں دلچسپی ہو گی، اس وقت دیکھ لیں گے۔ ایک حقیقت پسند آدمی کی حیثیت سے وہ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ راتوں رات تبدیلی ممکن نہیں، بہتری کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا پڑیں گے۔کہتے ہیں، ''رائے دینا آسان لیکن عمل کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ہمیں اصلاح احوال کے لیے آغاز میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا ہوں گے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ایک دو سال میں نظام تبدیل ہو جائے، اگلے 25 سال میں بھی ایسا ہو جائے تو اچھا ہو گا لیکن اس کی بنیاد تو ابھی سے رکھنا ہو گی، تب جا کر یہ مقصد حاصل ہو سکے گا۔حکومت اپنی تعلیمی پالیسی مرتب کرے، تعلیمی ماہرین نئی دنیا کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، میڈیا آغاز میں پرائم ٹائم میں ایک گھنٹے کا وقت مختص کر ے جس میں تعلیم، صحت اورکردار سازی پر بات ہو۔ اخبارات ابتدا میں پہلے صفحے پر تعلیم اور سماجی بہتری کے متعلق ایک دو خبریں چھاپنا شروع کریں۔ اس طرح بہتری کا سفر شروع ہو گا تو اس میں بتدریج تیزی آتی جائے گی۔ اس بڑے بحران سے نمٹنا کسی ایک ادارے یا ریگولیٹر کے بس کی بات نہیں۔''
وہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کو حصول تعلیم کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔ یہ کافی نہیں کہ طلبہ کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ دے دیا جائے۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ فزکس، کیمسٹری اوردوسرے مضامین الگ سے پڑھائے جاتے ہیں، پھر 'کمپیوٹر' کے مضمون کی تعلیم کے لیے طلبہ کمپیوٹر لیب کا رخ کرتے ہیں۔حالانکہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ سب مضامین پڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی سے مدد لی جاتی ہے اور طلبہ کو اس کا مثبت استعمال سکھایا جاتا ہے۔ ہمیں بھی یہ کرنا پڑے گا۔ دوسرے ملکوں میں دفتر کا جو ملازم ہے، اسے کمپیوٹر کے ذریعے کام دیا جاتا ہے اور وہ اپنی مطلوبہ ذمہ داری پوری کرتا ہے۔
منصور فیصل سماجی اصلاح پر بہت زور دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہنرمند افراد کی دل سے عزت کرنی چاہیے، مثلاً پلمبر، الیکٹریشن، مکینک وغیرہ۔ باہر کی دنیا میں ایسے ہنرمند افراد کی بہت قدر ہے اور ان کی آمدنی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے پاس اپنی گاڑی ہوتی ہے، جس میں انہوں نے اپنے اوزار رکھے ہوتے ہیں۔ موبائل فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے انہیں پتا چلتا ہے کہ کہاں ان کی ضرورت ہے، وہ ادھر پہنچ کر کام کرتے ہیں اور اپنا معاوضہ لیتے ہیں۔ یہ باعزت روزگار کے ذرائع ہیں جن سے معقول آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ حکومت کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نوجوانوں کو یہ ہنر سکھا کر سرٹیفیکیٹس دیئے جائیں۔
ان کی ایک جگہ رجسٹریشن کی جائے۔ پھر حکومت انہیں تین، چار لاکھ روپے کے قرضے دے تاکہ وہ اس سے اپنے اوزار اور سواری خریدیں اور اپنے کام کا آغاز کریں۔ قرضے کی ادائیگی دس سال میں ہو اور صرف دو فیصد اضافی رقم سروس چارجز کے طور پر وصول کی جائے۔ جب نوجوانوں کو اتنی عزت اور سہولیات ملیں گی تو ملک میںواضح طور پر معاشی بہتری نظر آئے گی۔ ہمیں کام کرنے والے اور رزق حلال کمانے والے کو عزت دینی ہو گی۔ بدقسمتی سے بڑا گھر، بڑی گاڑی، مہنگا موبائل اور لباس، عزت کی علامت بن گئے ہیں، حالانکہ وہ جعلی عزت ہے، ہمیں اخلاقی اقدار کواہمیت دینی ہے اور معاشرے سے حرص کا خاتمہ کرنا ہے۔
ماہر تعلیم منصور فیصل ''ایڈوانس ایجوکیشن ٹرسٹ'' کے صدر ہیں، جس کے تحت وہ ایک کالج چلا رہے ہیں۔
انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ ایک نجی یونیورسٹی سے ایم فل منیجمنٹ کی ڈگری حاصل کی اور اب 64 برس کی عمر میں پی ایچ ڈی بھی کر رہے ہیں، جو اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ علم حاصل کرنے اور سیکھنے کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اپنے 43 سالہ پیشہ ورانہ سفر میں مختلف کاروباری اداروں سے منسلک رہے اور کئی کثیرالملکی کمپنیوں کے ملکی اور خطے کی سطح تک کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
گزشتہ کچھ برسوں سے اپنی صلاحیتیں شعبہ تعلیم کے لیے وقف کر دی ہیں۔ وہ قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور دوسری نجی یونیورسٹیوں میں 20 برس وزیٹنگ استاد کے طور پر پڑھانے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں، جبکہ اب مکمل طور پر تعلیمی میدان میں فعال ہیں۔ ان سے گفتگو میں نظام تعلیم، تعلیمی رجحانات اور اس کے معاشرتی پہلو، روزگار کے امکانات، ٹیکنالوجی کے اثرات وغیرہ جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔
منصورفیصل سمجھتے ہیں کہ ہمیں عمومی طرز تعلیم کو تبدیل کر کے مہارت اور ہنر پر مبنی تعلیم دینی چاہیے۔ اس سے ہماری صنعتوں کی ضروریات پوری ہوں گی اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ان کے بقول، ''ملک کو مختلف بحرانوں کا سامنا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ طالب علم اپنی مرضی سے ایک خاص سطح تک بنیادی تعلیم حاصل کریں۔
اس کے ساتھ وہ ایسے ہنر اور مہارتیں سیکھیں جن سے انہیں روزگار ملے یا وہ آگے چل کر خود اپنے کاروبار (انٹرپرینیورشپ) کا آغاز کر سکیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ طالب علم ایف اے، بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کر لیں لیکن انہیں کوئی 10ہزار کی نوکری دینے کے لیے بھی آمادہ نہ ہو۔ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے اور انہیں اس قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس وہ مطلوبہ مہارتیں نہیں جو مارکیٹ کو درکار ہیں۔ اسی سبب ہمارے ایم فل اور پی ایچ ڈی پاس کرنے والے طلبہ بھی سڑکوں پر بے روزگار پھرتے ہیں۔اس کے برعکس ترقی یافتہ دنیا میں تعلیم کو ضروری علم اور معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اسے روزگار سے نتھی نہیں کیا جاتا۔ بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طالب علم اپنی مرضی کے شعبوں میں کام سیکھتے اور سرٹیفیکیٹس حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں فوراً کام مل جاتا ہے اور بے روزگاری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔''
منصور فیصل کہتے ہیں کہ اچھے تعلیمی ادارے کے لیے بڑی عمارتوں، انفراسٹرکچر، پروفیسرز کا ہونا ضروری نہیں۔ امریکا اور جنوبی افریقہ کے کچھ علاقوں میں 'گیراج یونیورسٹی' کا تصور دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی عمارت ضروری نہیں، آپ بے شک سو، ڈیڑھ سو طلبہ کو تعلیم دیں، لیکن انہیں ہنرمند اور اپنے کام کا ماہر بنا دیں۔
اس طرح وہ کروڑوں روپے انفراسٹرکچر پر ضائع کرنے کے بجائے صرف تعلیم اور سکھانے پر توجہ دیتے ہیں۔ 20 کروڑ کی آبادی کے ملک کو تعلیم دینے اور ہنرمند بنانے کے لیے ہمیں بھی اس ماڈل پر عمل کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر وہ لوگ جن کے پاس روزگار نہیں ہے، ایک سونامی کی طرح اس نظام کوبہا لے جائیں گے۔ لوگوں کے روزگار کا بندوبست نہ ہوا تو سوشل سٹرکچر کمزور ہو گا، خاندان ٹوٹیں گے، جرائم میں اضافہ ہو گا۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور حل کرنے کے لیے جامع پالیسی تشکیل دی جائے۔
وہ انگریزی کے علاوہ دنیا کی دوسری اہم زبانیں سیکھنے پر بھی زور دیتے ہیں۔ بتاتے ہیں، ''میںکئی برسوں سے کہہ رہا ہوں کہ بچوں کو ترقی یافتہ ممالک کی زبانیں سیکھنی چاہئیں۔ دنیا تبدیل ہو رہی ہے، چین دنیا کی بڑی معاشی قوت بننے والا ہے۔ہمارے ہاں اب چینی زبان سکھانے کی بات ہو رہی ہے۔ اسی طرح روسی، جرمن اور دوسری اہم زبانیں سیکھنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ چھوٹی عمر میں سیکھنے کی استعداد زیادہ ہوتی ہے۔ طالب علموں کوآسانی سے ان کی پسند کی دو، تین زبانیں سکھائی جا سکتی ہیں۔''
منصور فیصل کے نزدیک ہمارے پورے نظام تعلیم کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال کی ذمہ دار ماضی کی تمام حکومتیں اور موجودہ حکومت بھی ہے، جس کی ابھی تک تعلیمی پالیسی سامنے نہیں آئی۔ اصلاح احوال کے لیے سب سٹیک ہولڈرز کو مل کر بیٹھنا ہو گا ، جامع اور موثرحکمت عملی تشکیل دینا ہوگی۔ ان کے بقول، ''دنیا میں جو ڈسپلن پڑھائے جا رہے ہیں ان کی دو ہزار تعداد ہو گئی ہے۔ ہم ابھی تک انٹرمیڈیٹ میں چار کمبی نیشن پڑھا رہے ہیں۔ والدین بھی بات سننے کو آمادہ نہیں کہ 'ہوٹل منیجمنٹ' کوئی مضمون ہو سکتا ہے۔ اس کے بجائے وہ بچے کو ایف اے، بی اے یا بی کام کرا دیں گے، جس کے بعد انہیں کوئی کام نہیں ملے گا۔
بی کام تو ویسے ہی ختم ہو رہا ہے، یہ سوفٹ ویئر پر منتقل ہو گیا ہے، صرف ڈیٹا انٹری کرنا ہوتی ہے۔ تو اس کثیرالجہتی بحران کا کوئی سادہ حل نہیں۔ سب کو مل بیٹھنا ہو گا۔ ہمارے تعلیمی اداروں نے کبھی مارکیٹ سے پوچھا ہی نہیں کہ انہیں کس طرح کی ہنرمند افرادی قوت درکار ہے۔ آیا زبان دانی اور ابلاغ کی مہارتوں کی ضرورت ہے یا اکاؤٹنگ سکلز کی۔ یہ فاصلہ ختم کرنا ہو گا۔مارکیٹ میں گنجائش محدود ہے، جب آپ بین الاقوامی معیار کے مطابق بچوں کو مہارتیں دینا شروع کریں گے تو وہ بچہ دنیا میں کہیں بھی کام کر سکتا ہے۔ سکینڈے نیوین ممالک میں کام کے لیے نوجوان نہیں مل رہے، جرمنی کو پانچ لاکھ نوجوان درکار ہیں، کوریا میں تین لاکھ لوگوں کی ضرورت ہے، اگر یہ مطلوبہ صلاحیتیں ہمارے نوجوان حاصل کریں تو ان کی مانگ زیادہ ہو گی، ہم محنتی لوگ ہیں، جو جسمانی طور پر مضبوط ہیں، ذہین اور خوبصورت بھی۔ لیکن کسی حکومت نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔''
منصور فیصل کے مطابق ہمارے میڈیا کوبھی چاہیے کہ نظام تعلیم کی اصلاح کے لیے آواز اٹھائے اور اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ان کے بقول چینلوں میں ہر وقت سیاست پر بات ہوتی ہے۔ رات کو پرائم ٹائم میں چار پانچ گھنٹے سیاسی مباحث چلتی رہتی ہیں، جو بے کار ہیں۔ ہر چینل کو پابند کیا جائے کہ وہ پرائم ٹائم میں تعلیم، کردار سازی اور صحت و صفائی کے پروگرام دکھائے۔ سیاسی مباحث رات کو بارہ بجے دکھائی جائیں۔ جنیہں دلچسپی ہو گی، اس وقت دیکھ لیں گے۔ ایک حقیقت پسند آدمی کی حیثیت سے وہ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ راتوں رات تبدیلی ممکن نہیں، بہتری کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا پڑیں گے۔کہتے ہیں، ''رائے دینا آسان لیکن عمل کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ہمیں اصلاح احوال کے لیے آغاز میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا ہوں گے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ایک دو سال میں نظام تبدیل ہو جائے، اگلے 25 سال میں بھی ایسا ہو جائے تو اچھا ہو گا لیکن اس کی بنیاد تو ابھی سے رکھنا ہو گی، تب جا کر یہ مقصد حاصل ہو سکے گا۔حکومت اپنی تعلیمی پالیسی مرتب کرے، تعلیمی ماہرین نئی دنیا کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، میڈیا آغاز میں پرائم ٹائم میں ایک گھنٹے کا وقت مختص کر ے جس میں تعلیم، صحت اورکردار سازی پر بات ہو۔ اخبارات ابتدا میں پہلے صفحے پر تعلیم اور سماجی بہتری کے متعلق ایک دو خبریں چھاپنا شروع کریں۔ اس طرح بہتری کا سفر شروع ہو گا تو اس میں بتدریج تیزی آتی جائے گی۔ اس بڑے بحران سے نمٹنا کسی ایک ادارے یا ریگولیٹر کے بس کی بات نہیں۔''
وہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کو حصول تعلیم کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔ یہ کافی نہیں کہ طلبہ کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ دے دیا جائے۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ فزکس، کیمسٹری اوردوسرے مضامین الگ سے پڑھائے جاتے ہیں، پھر 'کمپیوٹر' کے مضمون کی تعلیم کے لیے طلبہ کمپیوٹر لیب کا رخ کرتے ہیں۔حالانکہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ سب مضامین پڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی سے مدد لی جاتی ہے اور طلبہ کو اس کا مثبت استعمال سکھایا جاتا ہے۔ ہمیں بھی یہ کرنا پڑے گا۔ دوسرے ملکوں میں دفتر کا جو ملازم ہے، اسے کمپیوٹر کے ذریعے کام دیا جاتا ہے اور وہ اپنی مطلوبہ ذمہ داری پوری کرتا ہے۔
منصور فیصل سماجی اصلاح پر بہت زور دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہنرمند افراد کی دل سے عزت کرنی چاہیے، مثلاً پلمبر، الیکٹریشن، مکینک وغیرہ۔ باہر کی دنیا میں ایسے ہنرمند افراد کی بہت قدر ہے اور ان کی آمدنی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے پاس اپنی گاڑی ہوتی ہے، جس میں انہوں نے اپنے اوزار رکھے ہوتے ہیں۔ موبائل فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے انہیں پتا چلتا ہے کہ کہاں ان کی ضرورت ہے، وہ ادھر پہنچ کر کام کرتے ہیں اور اپنا معاوضہ لیتے ہیں۔ یہ باعزت روزگار کے ذرائع ہیں جن سے معقول آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ حکومت کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نوجوانوں کو یہ ہنر سکھا کر سرٹیفیکیٹس دیئے جائیں۔
ان کی ایک جگہ رجسٹریشن کی جائے۔ پھر حکومت انہیں تین، چار لاکھ روپے کے قرضے دے تاکہ وہ اس سے اپنے اوزار اور سواری خریدیں اور اپنے کام کا آغاز کریں۔ قرضے کی ادائیگی دس سال میں ہو اور صرف دو فیصد اضافی رقم سروس چارجز کے طور پر وصول کی جائے۔ جب نوجوانوں کو اتنی عزت اور سہولیات ملیں گی تو ملک میںواضح طور پر معاشی بہتری نظر آئے گی۔ ہمیں کام کرنے والے اور رزق حلال کمانے والے کو عزت دینی ہو گی۔ بدقسمتی سے بڑا گھر، بڑی گاڑی، مہنگا موبائل اور لباس، عزت کی علامت بن گئے ہیں، حالانکہ وہ جعلی عزت ہے، ہمیں اخلاقی اقدار کواہمیت دینی ہے اور معاشرے سے حرص کا خاتمہ کرنا ہے۔