صحرائے تھر کی پیاس بجھنے لگی

بجلی کے نرخوں میں یکایک یکطرفہ اضافے کے نادرشاہی حکومتی اعلان نے عوام کے غم و غصے کو انتہا پر پہنچا دیا۔۔۔


Shakeel Farooqi October 07, 2013
[email protected]

بجلی کے نرخوں میں یکایک یکطرفہ اضافے کے نادرشاہی حکومتی اعلان نے عوام کے غم و غصے کو انتہا پر پہنچا دیا جس کا بالآخر عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیا اور انجام کار پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر کو گزشتہ 2 اکتوبر کو عدالت کے روبرو پیش ہوکر یہ اطلاع دینے پر مجبور ہونا پڑا کہ حکومت گھریلو صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے اپنے 30ستمبر کے نوٹیفکیشن پر نظرثانی کرے گی۔ اس پر ہمیں یہ پرانی کہاوت یاد آگئی کہ ''لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے''۔ پاکستانی عوام کو جن کی غالب اکثریت نے گزشتہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے پرکشش وعدوں اور بلندبانگ دعوؤں سے متاثر ہوکر اسے کامیاب کرایا تھا سپریم کورٹ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے بروقت اقدام کے ذریعے حکومت کے پنجہ ستم سے بچالیا۔

سچی بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت نے مسلم لیگ (ن) کی الیکشن میں حمایت اسی امید پر کی تھی کہ وہ ان کے دیرینہ اور سنگین مسائل پر فوری توجہ دے گی اور انھیں لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائے گی۔ مگر حکومت کی جانب سے اب تک کے اقدامات سے تو یہی لگ رہا ہے کہ بزبان غالب!

ہم کو جن سے وفا کی تھی امید
وہ نہیں جانتے وفا کیا ہے

پاکستان کے بے بس اور مظلوم عوام کو چیف جسٹس عزت مآب افتخار محمد چوہدری کی صورت میں ایک نوشیرواں عادل نظر آرہا ہے اور انھیں اب رہ رہ کر یہ خوف ستا رہا ہے کہ چیف صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا کیا بنے گا اور ان بے چاروں کی دادرسی کون کرے گا۔ پاکستانی عوام کو اب یہ احساس بھی ہورہا ہے کہ سابقہ حکومت نے اپنے 5 سالہ دور حکومت نے ان پر اتنا بوجھ نہیں ڈالا تھا جتنا نئی حکومت نے اپنے سو روزہ دور اقتدار میں ڈال دیا ہے۔ ایک جانب ہوش ربا مہنگائی میں روز بروز اضافے نے عوام کی رہی سہی کمر بھی توڑدی ہے تو دوسری طرف پٹرول اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اور من مانے اضافے نے ان کی بچی کھچی سکت بھی ختم کردی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 6 جون 2013 میں جب سے اقتدار سنبھالا ہے تب سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی کے ساتھ کمی واقع ہورہی ہے اور ڈالر کی قدروقیمت میں اضافے نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ برسراقتدار آنے سے قبل میاں نواز شریف نے عوام سے کشکول توڑنے کا وعدہ کیا تھا مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ کشکول توڑنے کے بجائے انھوں نے غریب عوام کی کمر توڑ ڈالی ہے۔ نوازشریف عوام دشمن اقدامات کرکے نہ صرف اپنے منشور کی نفی کر رہے ہیں بلکہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کر رہے ہیں۔ نااہل حکومت نے صرف دو ماہ کے مختصر عرصے میں 8 سو ارب کے نوٹ چھاپ کر ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک زبردست طوفان آگیا ہے، جو بے سہارا عوام کو تنکوں کی طرح اڑا کر لے جائے گا، ستم بالائے ستم یہ کہ ملک و قوم کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھ دیا گیا ہے اور اس طریقے سے اپنے اقتدار کو دوام بخشا جارہا ہے۔

ستم رسیدہ عوام دہائیاں دے رہے ہیں اور انتہائی مایوسی کسمپرسی کے عالم میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے تو پچھلی حکومت ہی غنیمت تھی۔ گویا اب نوبت choicing the lesser evilتک آن پہنچی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ گزشتہ عام انتخابات میں جو کچھ پیش آیا وہ بد اچھا بدنام برا والی کہاوت کے مصداق تھا۔ اس کا عملی تجربہ ہمیں تب ہوا جب گزشتہ دنوں ہمیں تھرپارکر کے علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ہم نے عوام کی زندگی میں ایک نئی خوشگوار تبدیلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ہم اس بات کے قائل ہوگئے کہ seeing is believingزیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ اس علاقے میں پانی کی اتنی شدید قلت تھی کہ الامان والحفیظ۔ اس علاقے کے لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے تھے اور پانی کی تلاش میں انھیں دور دراز تک جانا پڑتاتھا۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ پانی اگر کہیں دستیاب بھی ہوتا تھا تو وہ اس قدر آلودہ ہوتا تھا کہ اسے پینے کے بعد اچھا خاصا صحت مند انسان بیٹھے بٹھائے بیمار پڑجاتا تھا۔ گندہ پانی پینے کے سبب جتنے امراض اس علاقے میں تھے وہ شاید پورے ملک میں اور کہیں نہ ہوں گے۔ ہم جب کئی برس قبل اس علاقے میں گئے تھے تو لوگوں کی حالت کو دیکھ کر ہمیں بے اختیار رونا آگیا تھا۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک اور مردوں سے لے کر خواتین تک سب کے چہرے بجھے بجھے سے تھے اور ایک مردنی کی سی کیفیت ان پر طاری تھی۔ انسان کیا تھے سوکھے ہوئے درخت تھے۔ مگر اس مرتبہ یوں لگا جیسے خزاں رسیدہ اشجار پر بہار آگئی ہو۔ مرجھائے ہوئے چہروں پر ایک خوشگوار رونق نظر آرہی تھی۔

بارانی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں کھیتی باڑی کے لیے موسم سازگار نہیں تھا۔ چناں چہ زراعت کے بجائے علاقے کے لوگوں کا بنیادی پیشہ مویشی بانی تھا۔ مگر یہ کام بھی اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ مویشیوں کے لیے بھی پانی کی دستیابی اولین شرط ہے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ جہاں انسانوں تک کو پینے کا پانی میسر نہ ہو وہاں جانوروں کے لیے پانی کہاں سے آئے گا۔ بحالت مجبوری جہاں اور جیسا پانی مل جاتا تھا وہی مویشیوں کو پلادیا جاتا تھا۔ چونکہ یہ پانی انتہائی غلیظ اور آلودہ ہوتا تھا اس لیے اسے پینے کے بعد اکثر جانور بیمار پڑجایا کرتے تھے جس کے نتیجے میں بسا اوقات ان کی موت واقع ہوجاتی تھی اور مویشی پالنے والوں کو ناگہانی نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔

ان نامساعد حالات میں سندھ کی حکومت نے اس علاقے کی کایا پلٹنے کا منصوبہ بنایا اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کا بیڑہ اٹھایا۔ حکومت سندھ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اس کام کو انجام دینے کے لیے اس نے ایک پاکستانی نجی کمپنی کا انتخاب کیا ۔ اس کمپنی نے اپنے کام کا آغاز کھارے پانی کو میٹھا کرکے پینے کے قابل بنانے سے کیا تھا۔ حکومت سندھ کے منصوبے کے تحت مذکورہ نجی کمپنی نے اپنا پہلا پروجیکٹ صوبے کے صحرائی علاقے تھرپارکر ہی میں شروع کیا تھا۔ یہ پروجیکٹ ڈی سیلینیشن (Desalination) کے چار ذیلی منصوبوں پر مشتمل تھا۔ اس پروجیکٹ کو تین ماہ کے انتہائی مختصر عرصے میں پایہ تکمیل کو پہنچا دیا گیا ۔ اس پروجیکٹ کے نتیجے میں آج تھرپارکر کے 54 مختلف مقامات پر پینے کا صاف پانی آسانی کے ساتھ دستیاب ہے اور اب وہاں کے لوگوں کو پانی کی تلاش میں دربدر مارے مارے نہیں پھرنا پڑتا۔

ہماری جن مقامی لوگوں سے ملاقات ہوئی وہ حکومت سندھ کے اس اقدام کو سراہ رہے تھے جس کے نتیجے میں ان کی زندگیوں میں ایک انقلاب برپا ہورہا ہے۔ انھیں اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ یہ پانی انھیں صرف 16 پیسے فی گیلن کے نرخ پر مل رہا ہے جب کہ یہی پانی اگر انھیں نہری ذریعے سے حاصل ہوتا تو اس کی قیمت کم سے کم 28 پیسے فی گیلن ہوتی۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ پانی نہ صرف انتہائی سستے نرخوں پر دستیاب ہے بلکہ وافر مقدار میں موجود ہے۔

اس کے ان لوگوں کی معاشرتی زندگی کے علاوہ معاشی زندگی پر بھی بڑے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ مویشی بانی جو کبھی ان لوگوں کا بنیادی ذریعہ معاش ہوا کرتا تھا اب ایک انڈسٹری کا درجہ اختیار کررہا ہے۔ پینے کے صاف پانی سے نہ صرف تھرپارکر کے انسانوں کی بلکہ جانوروں کی صحت بھی نمایاں طور پر بہتر ہورہی ہے۔ جن علاقوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹ لگ گئے ہیں وہاں اسپتالوں میں داخلہ لینے والے مریضوں کی شرح میں 70فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

چونکہ ملک میں اس وقت بجلی کا شدید بحران ہے، اس لیے کمپنی نے اندرون ملک ایسے واٹرفلٹریشن پلانٹس تیار کرنا شروع کرائے ہیں جو شمسی توانائی سے نہایت کامیابی سے چل رہے ہیں۔ اب ایک بیرونی کمپنی کے اشتراک سے شمسی توانائی سے چلنے والے واٹر پمپس بھی تیار کرے گی جس سے ملک کے اندر بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے بحران سے نمٹنے کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ یومیہ 500 تا 1000 سولر پینلز (Solar Panels) تیار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جس سے یومیہ 25 تا 50 کلوواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لیے بھی کام ہورہا ہے۔کوشش یہ ہورہی ہے کہ پاکستان کے عوام کو پینے کے محفوظ اور صاف پانی کا حق حاصل ہو جوکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کے تحت ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔