خوابوں کی تجارت اور ہمارے دُکھ
تاریخ انسانی گمراہیوں سے بھری پڑی ہے۔دنیا کے تمام الہامی مذاہب ان گمراہیوں کی تفصیلات بیان کرتے اوران سے بچنے۔۔۔
تاریخ انسانی گمراہیوں سے بھری پڑی ہے۔دنیا کے تمام الہامی مذاہب ان گمراہیوں کی تفصیلات بیان کرتے اوران سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔مختلف ممالک کی تاریخ میں ہمیں انسانی جرائم کی داستانیں دکھائی دیتی ہیں۔کئی ملکوں کی عدالتوں نے انسانی گمراہیوں کوپابندِ سلاسل کیا،اس کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ہر باشعور انسان گمراہیوں کی ان تفصیلات سے واقف ہے ،جو انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہیں۔
ہمارا معاشرہ بھی کچھ عرصے سے ایسی ہی گمراہیوں میں گھرا ہواہے۔انسانیت سوز اوردل کو کچوکے لگانے والے واقعات نے ذہن کا سکون لوٹ لیا۔میں کئی دن تک اس موضوع پر لکھنے سے گریز کرتارہا،مگر اب ضبط جواب دے گیا۔ہم کیسے سیاہ اوربدکار معاشرے میں رہتے ہیں،جہاں مالی کرپشن نے اپنی جڑیں مضبوط کیں اوراب بداخلاقی سے انسانیت سسک کر دم توڑ رہی ہے۔
گزشتہ دنوںمیں معصوم بچیوں کے ساتھ پے درپے ہونے والے زیادتی کے واقعات کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔بس چند وجوہات بیان کروں گا،جن کی وجہ سے معاشرے میں اس طرح کے انسانیت سوز واقعات رونما ہوتے ہیں۔جنوبی ایشیامیں خاص طورپر پاکستان اوربھارت میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔
بالخصوص پاکستان میں ان واقعات کے مسلسل رونما ہونے کے پیچھے دوبنیادی محرکات ہیں،ان کا تعلق سماجیات اورنفسیات سے ہے۔قیام پاکستان کے بعد سے عوام مسلسل،جمہوریت اورآمریت کے مابین لڑائی میں پِس رہے ہیں۔لڑائی کسی کی بھی ہو،اس میں گھسیٹا عوام کو جاتاہے۔عوام ایک آسان تختۂ مشق ہیں،انھیں جس طرح کوئی چاہے،استعمال کرلے۔ہمارے حکمرانوں کی اکثریت پہلے عوام سے وعدوں کی پُر فریب سیاست کرتی ہے،اقتدار حاصل ہونے کے بعد یہ وعدے وفا نہیں ہوتے۔
ہمارے ہاں اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والے کے پاؤں زمین پر نہیں رہتے۔انھیں عوام کیڑے مکوڑے دکھائی دینے لگتے ہیں اورجو حزب اختلاف میں ہوتے ہیں،وہ عوام کی ہمدردی کاٹھیکہ لے لیتے ہیں اس وقت تک کے لیے،جب تک انھیں مسند اقتدار حاصل نہ ہوجائے،اس کے بعد محمودوایاز ایک ہی ہوجاتے ہیں ۔عوام کو دکھانے کے لیے آپس میں کبھی کبھار بیانات کی حدتک تندوتیز جملوں کا تبادلہ کرلیاجاتا ہے،تاکہ جمہوریت کاعمل مشکوک نہ ہو جائے۔ جمہوریت کاحسن تو شاید ہمیں کب دیکھنا نصیب ہوگا،البتہ اس کی بدصورتی جی بھر کردیکھنے کو مل رہی ہے۔اس کی تازہ مثال موجودہ حکومت کے دوتحائف ہیں،بجلی اورپٹرول کی نئی قیمتیں ۔مجھے بتائے کوئی ۔یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے گزشتہ حکومت کو اسی مہنگائی کے طعنے دیے تھے اورعوام کواُن سے چھٹکارا دلانے کا عہد کیاتھا۔
میں اکثر اپنے سینئر صحافیوں اوردانشور دوستوں سے اس نام نہادجمہوریت کے بارے میں سوالات پوچھتاہوں ،تو اکثریت کا جواب یہ ہوتا ہے کہ جمہوریت کو وقت ہی اتنا کم دیا گیا،تو یہ کیسے پنپتی؟جب اسے مغربی ممالک کی طرح ایک خاص وقت دیاجائے گا،تب یہ پنپے گی اورپھر اس کامیٹھا پھل کھانا ہمیں نصیب ہوگا۔کیا جمہوریت کا بدنما چہرہ بھگتنے کے لیے ہم ہی رہ گئے ہیں،اس کے حسن کی کچھ خوبیاں بھی تو ہونگی،وہ بھی تو سامنے آئیں،لیکن اس جمہوریت کے مستقبل کی ضمانت کسی کے پاس نہیں ہے، سب ا پنے اندازوں کے نقارے بجا رہے ہیں۔
ان سب باتوں کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ وہ سیاسی رویے ہیں،جن سے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔مہنگائی ہوتی ہے،تو ہر کوئی اس کو اپنے اپنے طریقے سے برداشت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔کوئی بے ایمانی کرکے اپنا بجٹ برابر کرتا ہے ،توکوئی پیٹ کاٹ کر اپنی بھوک مٹاتا ہے،لیکن کیا جمہوریت کے پاؤں جمانے کے لیے صرف عوام ہی رہ گئے ہیں ،ان حکمرانوں کی شاہ خرچیوں پر کوئی قدغن نہیں لگائے گا؟
جب یہ حالات ہوں گے،تو غربت جہالت کو جنم دے گی اور اس میں ہم پہلے ہی خودکفیل ہیں۔نہ ہمارے پاس کوئی تعلیمی پالیسی ہے اورنہ ہی تعلیمی مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی۔جس ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے ایک درجن نظام ہوں اورپھر ان سے یہ کہاجاتاہے کہ ''ایک''ہوکرذمے دارشہری کا رویہ اختیار کریں،کوئی کیسے یکجا اورذمے دارہو؟آپ نے ہی تو اسے تقسیم کیاہے۔فرقوں میں بانٹ کر،قومیتوں میں منقسم کرکے عوام کے خوابوں کی تجارت میں سب مشغول ہیں۔جس باپ کے پاس اپنے بچے کی دوائی کے پیسے نہیں ہوں گے،وہ پہلے بھیک مانگے گااورپھر ڈاکہ بھی ڈالے گا۔جس کے بچے فیس ادا نہ ہونے کی پاداش میں اسکول سے نکال دیے جائیں ،وہ اپنے احساس محرومی کاانتقام اسی معاشرے سے لے گا۔ہمارے حکمران زبانی جمع خرچ کرنے کے علاوہ توعوام کے لیے کچھ کرتے نہیں۔
یہ تو حکمرانوں کا حال ہے،لیکن ہم عوام بھی کچھ کم نہیں ہیں۔پٹرول کی نئی قیمت کااطلاق جس دن ہونا ہوتا ہے، پٹرول پمپ ایک دن پہلے بند ہوجاتے ہیں،اشیائے خورونوش پر لیبل پرانی قیمت کاچسپاں ہوتا ہے،مگر دکاندار نئی قیمت پر اسے فروخت کرتاہے۔ایک ریڑھی والا سبزی فروش،تندور پر روٹی لگانے والا،ایک دکاندار،ایک تاجر،دفتر میں چائے دینے والا ملازم ،ان سے لے کر اعلیٰ عہدوں اور اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں تک سے لے کر اقتدار کی راہداریوں تک سب اپنے اپنے حصے کی کرپشن کسی نہ کسی صورت میں کرتے ہیں۔ان باتوں کا کوئی ثبوت تو نہیں ،لیکن ہم سب جانتے ہیں، یہ کس طرح ہوتا ہے۔
ہمارے سماج کی اس ناہمواری نے احساس محرومی کوجنم دیا،جس کی وجہ سے انتقامی رویوں نے جنم لیا۔انصاف میں جانبداری نہیں ہے۔
ہمارے معاشرے میں رونما ہونے والے استحصالی رویوں کے پیچھے موجود دوسری وجہ نفسیاتی ہے۔عوام ملک میں دہشت گردی کے ہاتھوں پریشان ہیں اورکتنے برس گزر گئے،صرف ڈھکوسلے دیے گئے۔امریکا جس کو کافر کہہ کر ہمیں بہت تسکین ملتی ہے،اس کافر ملک میں دس افراد مرتے ہیں،توان کاصدرآنسوؤں سے روتاہے۔گزشتہ حکومت میں سیلاب آیا،تو سابق صدر زرداری بیرونی دوروں پر تھے،بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس رویے پر تنقید کی،یہ سب ریکارڈ پر ہے۔ابھی زلزلہ آیا،پشاور کے بم دھماکے اورکراچی کے خراب ترین حالات میں کتنی جانیں گئیں،مگر ہمارے حکمران اس طرح کے اقدامات نہیں کر سکے جس کی ان سے توقع تھی ۔جس کا بچہ مرے گا،وہ دوسرے کو مارے گا۔جس کی عزت پر حرف آگا،وہ دوسرے کے سر سے چادر کھینچے گا۔ایک دوسرے کے لیے اب برداشت ختم ہوچکی۔
بیٹیوں والے کہاں جائیں،کس در پہ فریاد کریں، کمزور حافظے والے تو کچھ دنوں میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔حکمرانی صرف دوروں اوراداروں کی عیاشی تک محدود نہیں ہوتی،اس سے وابستہ ایک ذمے داری بھی ہوتی ہے۔پاکستانیوں کو اس نیرنگی سیاست نے نفسیاتی امراض کی طرف دھکیل دیاہے۔بچوں کی عزتیں لوٹنے والوں کو سرعام چوراہوں پر پھانسیاں دینی چاہیں ،صرف کمیٹیاں بنانے اورمیڈیا پر جذباتی بیانات دینے سے بے چین والدین کو سکون نہیں ملے گا۔
اب بھی اگر عملی طورپر اقدامات نہ کیے گئے، توتاریخ ان حکمرانوں کوآنے والی نسلوں کے سامنے ایسے ہی پیش کرے گی،جس طرح آج کی نسل ماضی کے ظالموں اورقاتلوں کے بارے میں پڑھتی ہے اورسوچتی ہے کہ یہ کس طرح کے انسان تھے۔اگر اب بھی والدین کے دُکھ کی کوئی دوا نہ کی گئی۔عوام کے خوابوں کی تجارت کرنے والوں نے اس کو غفلت کی نذر کردیا، تو پھر تاریخ اسے ضرور رقم کرے گی اورانھیں غالب کی طرح یہ اعتراف کرنا پڑیگا۔
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہمارا معاشرہ بھی کچھ عرصے سے ایسی ہی گمراہیوں میں گھرا ہواہے۔انسانیت سوز اوردل کو کچوکے لگانے والے واقعات نے ذہن کا سکون لوٹ لیا۔میں کئی دن تک اس موضوع پر لکھنے سے گریز کرتارہا،مگر اب ضبط جواب دے گیا۔ہم کیسے سیاہ اوربدکار معاشرے میں رہتے ہیں،جہاں مالی کرپشن نے اپنی جڑیں مضبوط کیں اوراب بداخلاقی سے انسانیت سسک کر دم توڑ رہی ہے۔
گزشتہ دنوںمیں معصوم بچیوں کے ساتھ پے درپے ہونے والے زیادتی کے واقعات کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔بس چند وجوہات بیان کروں گا،جن کی وجہ سے معاشرے میں اس طرح کے انسانیت سوز واقعات رونما ہوتے ہیں۔جنوبی ایشیامیں خاص طورپر پاکستان اوربھارت میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔
بالخصوص پاکستان میں ان واقعات کے مسلسل رونما ہونے کے پیچھے دوبنیادی محرکات ہیں،ان کا تعلق سماجیات اورنفسیات سے ہے۔قیام پاکستان کے بعد سے عوام مسلسل،جمہوریت اورآمریت کے مابین لڑائی میں پِس رہے ہیں۔لڑائی کسی کی بھی ہو،اس میں گھسیٹا عوام کو جاتاہے۔عوام ایک آسان تختۂ مشق ہیں،انھیں جس طرح کوئی چاہے،استعمال کرلے۔ہمارے حکمرانوں کی اکثریت پہلے عوام سے وعدوں کی پُر فریب سیاست کرتی ہے،اقتدار حاصل ہونے کے بعد یہ وعدے وفا نہیں ہوتے۔
ہمارے ہاں اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والے کے پاؤں زمین پر نہیں رہتے۔انھیں عوام کیڑے مکوڑے دکھائی دینے لگتے ہیں اورجو حزب اختلاف میں ہوتے ہیں،وہ عوام کی ہمدردی کاٹھیکہ لے لیتے ہیں اس وقت تک کے لیے،جب تک انھیں مسند اقتدار حاصل نہ ہوجائے،اس کے بعد محمودوایاز ایک ہی ہوجاتے ہیں ۔عوام کو دکھانے کے لیے آپس میں کبھی کبھار بیانات کی حدتک تندوتیز جملوں کا تبادلہ کرلیاجاتا ہے،تاکہ جمہوریت کاعمل مشکوک نہ ہو جائے۔ جمہوریت کاحسن تو شاید ہمیں کب دیکھنا نصیب ہوگا،البتہ اس کی بدصورتی جی بھر کردیکھنے کو مل رہی ہے۔اس کی تازہ مثال موجودہ حکومت کے دوتحائف ہیں،بجلی اورپٹرول کی نئی قیمتیں ۔مجھے بتائے کوئی ۔یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے گزشتہ حکومت کو اسی مہنگائی کے طعنے دیے تھے اورعوام کواُن سے چھٹکارا دلانے کا عہد کیاتھا۔
میں اکثر اپنے سینئر صحافیوں اوردانشور دوستوں سے اس نام نہادجمہوریت کے بارے میں سوالات پوچھتاہوں ،تو اکثریت کا جواب یہ ہوتا ہے کہ جمہوریت کو وقت ہی اتنا کم دیا گیا،تو یہ کیسے پنپتی؟جب اسے مغربی ممالک کی طرح ایک خاص وقت دیاجائے گا،تب یہ پنپے گی اورپھر اس کامیٹھا پھل کھانا ہمیں نصیب ہوگا۔کیا جمہوریت کا بدنما چہرہ بھگتنے کے لیے ہم ہی رہ گئے ہیں،اس کے حسن کی کچھ خوبیاں بھی تو ہونگی،وہ بھی تو سامنے آئیں،لیکن اس جمہوریت کے مستقبل کی ضمانت کسی کے پاس نہیں ہے، سب ا پنے اندازوں کے نقارے بجا رہے ہیں۔
ان سب باتوں کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ وہ سیاسی رویے ہیں،جن سے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔مہنگائی ہوتی ہے،تو ہر کوئی اس کو اپنے اپنے طریقے سے برداشت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔کوئی بے ایمانی کرکے اپنا بجٹ برابر کرتا ہے ،توکوئی پیٹ کاٹ کر اپنی بھوک مٹاتا ہے،لیکن کیا جمہوریت کے پاؤں جمانے کے لیے صرف عوام ہی رہ گئے ہیں ،ان حکمرانوں کی شاہ خرچیوں پر کوئی قدغن نہیں لگائے گا؟
جب یہ حالات ہوں گے،تو غربت جہالت کو جنم دے گی اور اس میں ہم پہلے ہی خودکفیل ہیں۔نہ ہمارے پاس کوئی تعلیمی پالیسی ہے اورنہ ہی تعلیمی مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی۔جس ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے ایک درجن نظام ہوں اورپھر ان سے یہ کہاجاتاہے کہ ''ایک''ہوکرذمے دارشہری کا رویہ اختیار کریں،کوئی کیسے یکجا اورذمے دارہو؟آپ نے ہی تو اسے تقسیم کیاہے۔فرقوں میں بانٹ کر،قومیتوں میں منقسم کرکے عوام کے خوابوں کی تجارت میں سب مشغول ہیں۔جس باپ کے پاس اپنے بچے کی دوائی کے پیسے نہیں ہوں گے،وہ پہلے بھیک مانگے گااورپھر ڈاکہ بھی ڈالے گا۔جس کے بچے فیس ادا نہ ہونے کی پاداش میں اسکول سے نکال دیے جائیں ،وہ اپنے احساس محرومی کاانتقام اسی معاشرے سے لے گا۔ہمارے حکمران زبانی جمع خرچ کرنے کے علاوہ توعوام کے لیے کچھ کرتے نہیں۔
یہ تو حکمرانوں کا حال ہے،لیکن ہم عوام بھی کچھ کم نہیں ہیں۔پٹرول کی نئی قیمت کااطلاق جس دن ہونا ہوتا ہے، پٹرول پمپ ایک دن پہلے بند ہوجاتے ہیں،اشیائے خورونوش پر لیبل پرانی قیمت کاچسپاں ہوتا ہے،مگر دکاندار نئی قیمت پر اسے فروخت کرتاہے۔ایک ریڑھی والا سبزی فروش،تندور پر روٹی لگانے والا،ایک دکاندار،ایک تاجر،دفتر میں چائے دینے والا ملازم ،ان سے لے کر اعلیٰ عہدوں اور اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں تک سے لے کر اقتدار کی راہداریوں تک سب اپنے اپنے حصے کی کرپشن کسی نہ کسی صورت میں کرتے ہیں۔ان باتوں کا کوئی ثبوت تو نہیں ،لیکن ہم سب جانتے ہیں، یہ کس طرح ہوتا ہے۔
ہمارے سماج کی اس ناہمواری نے احساس محرومی کوجنم دیا،جس کی وجہ سے انتقامی رویوں نے جنم لیا۔انصاف میں جانبداری نہیں ہے۔
ہمارے معاشرے میں رونما ہونے والے استحصالی رویوں کے پیچھے موجود دوسری وجہ نفسیاتی ہے۔عوام ملک میں دہشت گردی کے ہاتھوں پریشان ہیں اورکتنے برس گزر گئے،صرف ڈھکوسلے دیے گئے۔امریکا جس کو کافر کہہ کر ہمیں بہت تسکین ملتی ہے،اس کافر ملک میں دس افراد مرتے ہیں،توان کاصدرآنسوؤں سے روتاہے۔گزشتہ حکومت میں سیلاب آیا،تو سابق صدر زرداری بیرونی دوروں پر تھے،بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس رویے پر تنقید کی،یہ سب ریکارڈ پر ہے۔ابھی زلزلہ آیا،پشاور کے بم دھماکے اورکراچی کے خراب ترین حالات میں کتنی جانیں گئیں،مگر ہمارے حکمران اس طرح کے اقدامات نہیں کر سکے جس کی ان سے توقع تھی ۔جس کا بچہ مرے گا،وہ دوسرے کو مارے گا۔جس کی عزت پر حرف آگا،وہ دوسرے کے سر سے چادر کھینچے گا۔ایک دوسرے کے لیے اب برداشت ختم ہوچکی۔
بیٹیوں والے کہاں جائیں،کس در پہ فریاد کریں، کمزور حافظے والے تو کچھ دنوں میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔حکمرانی صرف دوروں اوراداروں کی عیاشی تک محدود نہیں ہوتی،اس سے وابستہ ایک ذمے داری بھی ہوتی ہے۔پاکستانیوں کو اس نیرنگی سیاست نے نفسیاتی امراض کی طرف دھکیل دیاہے۔بچوں کی عزتیں لوٹنے والوں کو سرعام چوراہوں پر پھانسیاں دینی چاہیں ،صرف کمیٹیاں بنانے اورمیڈیا پر جذباتی بیانات دینے سے بے چین والدین کو سکون نہیں ملے گا۔
اب بھی اگر عملی طورپر اقدامات نہ کیے گئے، توتاریخ ان حکمرانوں کوآنے والی نسلوں کے سامنے ایسے ہی پیش کرے گی،جس طرح آج کی نسل ماضی کے ظالموں اورقاتلوں کے بارے میں پڑھتی ہے اورسوچتی ہے کہ یہ کس طرح کے انسان تھے۔اگر اب بھی والدین کے دُکھ کی کوئی دوا نہ کی گئی۔عوام کے خوابوں کی تجارت کرنے والوں نے اس کو غفلت کی نذر کردیا، تو پھر تاریخ اسے ضرور رقم کرے گی اورانھیں غالب کی طرح یہ اعتراف کرنا پڑیگا۔
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی