قربانی سنت ابراہیمؑ اور مہنگے جانور
گزشتہ کئی سال سے قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں ہر سال بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔ یہ اضافہ 2000 سے قبل اتنا۔۔۔
گزشتہ کئی سال سے قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں ہر سال بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔ یہ اضافہ 2000 سے قبل اتنا زیادہ نہیں ہوتا تھا جتنا اب گزشتہ کئی سال سے ہونے لگا ہے جس کی وجہ سے غریب تو قربانی کا تصور بھی نہیں کرسکتا جب کہ کم آمدنی والا سفید پوش طبقہ بھی جو پہلے پوری گائے یا بکروں کی قربانی کرلیا کرتا تھا بری طرح متاثر ہوا ہے اور سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے اپنی انفرادی قربانی ترک کردی ہے اور گائے میں حصہ لینے پر مجبور ہوگیا ہے۔
اب آٹھ نو ہزار روپے میں مدارس کے زیر اہتمام فی کس حصہ تو مل جاتا ہے وہ درمیانے سائز کی گائے ہوتی ہے جس کی کھال مدارس کے لیے عطیہ ہوجاتی ہے اور گایوں کے کچھ دنوں پالنے کے لیے ملازم نہیں رکھنا پڑتے اور مدارس کے طلبہ ہی یہ کام سرانجام دے لیتے ہیں۔
انفرادی قربانی کے خواہشمند اپنی معقول آمدنی والوں کی اکثریت بھی اب بھاری بھرکم موٹی تازی گائے کی قربانی نہیں کرسکتی اور پچیس سے پینتیس چالیس ہزار روپے مالیت کی گائے خرید کر قربانی کرلیتے ہیں۔ ستر اسی ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی گائے خریدنے والوں کی تعداد میں بھی مہنگائی کی وجہ سے کمی ہورہی ہے اور وہ بھی کم قیمت کی گائے یا بیل کی خریداری کو ترجیح دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
کراچی کی سپر ہائی وے پر لگنے والی سب سے بڑی منڈی میں اب جانور بھی وی آئی پی ہوگئے ہیں جہاں قربانی کے مہنگے جانور تیار کرنے والے فارموں نے کئی سال سے قربانی کے جانوروں کی فروخت کے لیے وی آئی پی بلاک مخصوص رکھنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے جہاں لاکھوں روپے مالیت کے گائے اور بیل خوبصورت ٹینٹ لگا کے رکھے جاتے ہیں جن کی خدمت اور حفاظت کے لیے ملازم تعینات ہوتے ہیں وہاں روشنی اور صفائی کا معقول انتظام رکھا جاتا ہے اور ان جانوروں کی خریداری کے خواہش مند خاص لوگ ہی ہوتے ہیں جو اپنے حفاظتی گارڈز کی معیت میں مہنگی گاڑیوں میں ان وی آئی پی کیمپس تک آتے ہیں اور اپنی پسند کے جانور مہنگے داموں خرید کر لے جاتے ہیں اور یہ خریدار کروڑ پتی سے زیادہ ارب پتی ہوتے ہیں اور ان کے جانوروں کی خریداری پر ایک کروڑ کے لگ بھگ لاگت آ جاتی ہے۔
ان قیمتی اور مہنگے جانوروں کی رہائش کا انتظام وہ اپنے بڑے بنگلوں کے باہر کرتے ہیں اور زیادہ جانور ہونے کی صورت میں گلیاں بند کرکے راستوں کو بلاک کرکے قربانی کے جانور نمائش کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ ڈیفنس، کلفٹن اور کراچی کے دیگر پوش علاقوں میں مہنگے اور قیمتی جانوروں کی باقاعدہ فری نمائش کی جاتی ہے اور لوگ دور دور سے یہ صحت مند جانور دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
مہنگے جانوروں کی ایسی قربانیاں اور نمائش کراچی ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں ہوتی ہیں اور ایسے دولت مند اپنی قربانی کی تشہیر اور اپنی امارت کا رعب جھاڑنے کے لیے یہ قربانی کرتے ہیں جو سنت ابراہیمی کی پیروی کم اور دکھاوا زیادہ ہوتا ہے جس ملک میں غریبوں کو روٹی میسر نہ ہو۔ جہاں دو تین بار کے بجائے صرف ایک وقت کھا کر لوگ زندگی سے اپنا ناتا جوڑے رکھنے پر مجبور ہوں۔
جن لوگوں کے گھروں میں سال بھر گائے کا گوشت نہ پکتا ہو اور وہ گوشت کے لیے بقر عید کے انتظار میں رہتے ہوں ایسے ہی غریبوں کے ملک پاکستان میں دکھاوے کی قربانی پر کروڑوں روپے خرچ کردیے جاتے ہیں اب تو مہنگے اور قیمتی جانوروں کی فروخت کے لیے میڈیا پر اشتہار دیے جاتے ہیں۔ مویشی فارم والے ایسے جانوروں کو صحت مند رکھنے کے لیے سال بھر تیاری کرتے ہیں اور گاہک کو پسند آجانے والے جانوروں کی قیمت لاکھوں روپے مقرر کرتے ہیں۔
اخباروں میں عید الاضحی سے قبل ایسے جانوروں کی میڈیا کوریج کرائی جاتی ہے اور جانوروں کے خصوصی نام رکھے جاتے ہیں اور فخریہ بتایا جاتا ہے کہ ہمارا یہ صحت مند جانور پستے بادام اور صحت بنانے والی غذا کھاتا ہے۔ دودھ، شہد اور گھی پیتا ہے اور سال بھر اس کے ناز و نعم سے پرورش کی جاتی ہے تاکہ یہ صحت مند اور خوبصورت ہوجائے اور مہنگے سے مہنگا فروخت ہو۔ ٹی وی کی خبروں میں لاہور کے ایک بکرے کا تذکرہ ہے جس کا وزن 7 من اور مالیت لاکھوں میں ہے اس طرح بھاری بھرکم بیل بھی فروخت کے لیے مارکیٹ میں آئے ہوئے ہیں اور عید الاضحی تک ان مہنگے جانوروں کی فروخت بھی عروج پر رہے گی مگر ان مہنگے اور قیمتی جانوروں کے خریدار وہ سرمایہ دار ہوں گے جنھیں دکھاوے کا شوق زیادہ اور قربانی کے اصل مقصد کو سمجھنے کا کم ہوگا مگر یہ اپنی امارات دکھاتے آرہے ہیں اور دکھاتے رہیں گے۔ اسلام میں قربانی کے جانوروں کی قربانی کا ذکر ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی پیروی میں کی جاتی ہے مگر دکھاوے اور نام و نمود کے لیے کی جانے والی قربانی کی ممانعت ہے۔
لاکھوں روپے مالیت کے جانوروں کے لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے جسم پر چربی زیادہ اور گوشت کم ہوتا ہے اور یہ گوشت سخت اور بے لذت ہوتا ہے مگر دکھاوے کے لیے قربان کیے جانے والے ان جانوروں کا گوشت قربانی کرنے والے سرمایہ دار خود استعمال نہیں کرتے اور تقسیم کرا دیتے ہیں۔
اپنی ضرورت اور استعمال کے لیے وہ مہنگے جانوروں کے ساتھ مناسب ساخت کے جانور بھی مذبح کراتے ہیں اور مہنگے جانوروں کا گوشت دیگر کا مقدر ٹھہرتا ہے۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم کے 3 شرعی طریقے بتائے جاتے ہیں مگر اس پر بھی خلوص سے عمل نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ بکرے کے گوشت سے فریج بھر لیتے ہیں اور گائے بیل کا گوشت تقسیم کردیتے ہیں۔ بہت سے گھروں میں پسند کا گوشت اپنے استعمال کے لیے رکھ لیا جاتا ہے جس کے بعد عزیزوں کو دیکھا جاتا ہے اور ہڈیوں بھرا گوشت غریبوں اور ملازمین کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ متوسط طبقے میں اب یہ رجحان بھی بڑھ گیا ہے کہ بکرے کی ران کے بدلے میں ان کے پاس بھی ران آنی چاہیے تاکہ جو گوشت ان کے یہاں سے گیا ہے اتنا ہی واپس آجائے اور عاشورہ تک فریج بھرا رہے اور حلیم میں بھی قربانی کا گوشت کام آجائے۔ عیدالاضحی کے موقع پر ریفریجریٹرز اور ڈی فریزرز کی فروخت بڑھ جاتی ہے تاکہ گوشت اسٹاک کیا جاسکے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بکروں کے گوشت کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ عام لوگ نہیں خرید سکتے اور غریبوں میں تو اب گائے کے گوشت کی خرید کی بھی سکت باقی نہیں رہی انھیں یہ بقر عید پر ہی میسر آتا ہے۔ بقر عید پر مہنگائی کے باعث قربانیاں بھی اب کم ہورہی ہیں مگر دکھاوے کی قربانی کرنے والوں پر اس کا کوئی خاص اثر دیکھنے میں نہیں آرہا۔
اب آٹھ نو ہزار روپے میں مدارس کے زیر اہتمام فی کس حصہ تو مل جاتا ہے وہ درمیانے سائز کی گائے ہوتی ہے جس کی کھال مدارس کے لیے عطیہ ہوجاتی ہے اور گایوں کے کچھ دنوں پالنے کے لیے ملازم نہیں رکھنا پڑتے اور مدارس کے طلبہ ہی یہ کام سرانجام دے لیتے ہیں۔
انفرادی قربانی کے خواہشمند اپنی معقول آمدنی والوں کی اکثریت بھی اب بھاری بھرکم موٹی تازی گائے کی قربانی نہیں کرسکتی اور پچیس سے پینتیس چالیس ہزار روپے مالیت کی گائے خرید کر قربانی کرلیتے ہیں۔ ستر اسی ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی گائے خریدنے والوں کی تعداد میں بھی مہنگائی کی وجہ سے کمی ہورہی ہے اور وہ بھی کم قیمت کی گائے یا بیل کی خریداری کو ترجیح دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
کراچی کی سپر ہائی وے پر لگنے والی سب سے بڑی منڈی میں اب جانور بھی وی آئی پی ہوگئے ہیں جہاں قربانی کے مہنگے جانور تیار کرنے والے فارموں نے کئی سال سے قربانی کے جانوروں کی فروخت کے لیے وی آئی پی بلاک مخصوص رکھنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے جہاں لاکھوں روپے مالیت کے گائے اور بیل خوبصورت ٹینٹ لگا کے رکھے جاتے ہیں جن کی خدمت اور حفاظت کے لیے ملازم تعینات ہوتے ہیں وہاں روشنی اور صفائی کا معقول انتظام رکھا جاتا ہے اور ان جانوروں کی خریداری کے خواہش مند خاص لوگ ہی ہوتے ہیں جو اپنے حفاظتی گارڈز کی معیت میں مہنگی گاڑیوں میں ان وی آئی پی کیمپس تک آتے ہیں اور اپنی پسند کے جانور مہنگے داموں خرید کر لے جاتے ہیں اور یہ خریدار کروڑ پتی سے زیادہ ارب پتی ہوتے ہیں اور ان کے جانوروں کی خریداری پر ایک کروڑ کے لگ بھگ لاگت آ جاتی ہے۔
ان قیمتی اور مہنگے جانوروں کی رہائش کا انتظام وہ اپنے بڑے بنگلوں کے باہر کرتے ہیں اور زیادہ جانور ہونے کی صورت میں گلیاں بند کرکے راستوں کو بلاک کرکے قربانی کے جانور نمائش کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ ڈیفنس، کلفٹن اور کراچی کے دیگر پوش علاقوں میں مہنگے اور قیمتی جانوروں کی باقاعدہ فری نمائش کی جاتی ہے اور لوگ دور دور سے یہ صحت مند جانور دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
مہنگے جانوروں کی ایسی قربانیاں اور نمائش کراچی ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں ہوتی ہیں اور ایسے دولت مند اپنی قربانی کی تشہیر اور اپنی امارت کا رعب جھاڑنے کے لیے یہ قربانی کرتے ہیں جو سنت ابراہیمی کی پیروی کم اور دکھاوا زیادہ ہوتا ہے جس ملک میں غریبوں کو روٹی میسر نہ ہو۔ جہاں دو تین بار کے بجائے صرف ایک وقت کھا کر لوگ زندگی سے اپنا ناتا جوڑے رکھنے پر مجبور ہوں۔
جن لوگوں کے گھروں میں سال بھر گائے کا گوشت نہ پکتا ہو اور وہ گوشت کے لیے بقر عید کے انتظار میں رہتے ہوں ایسے ہی غریبوں کے ملک پاکستان میں دکھاوے کی قربانی پر کروڑوں روپے خرچ کردیے جاتے ہیں اب تو مہنگے اور قیمتی جانوروں کی فروخت کے لیے میڈیا پر اشتہار دیے جاتے ہیں۔ مویشی فارم والے ایسے جانوروں کو صحت مند رکھنے کے لیے سال بھر تیاری کرتے ہیں اور گاہک کو پسند آجانے والے جانوروں کی قیمت لاکھوں روپے مقرر کرتے ہیں۔
اخباروں میں عید الاضحی سے قبل ایسے جانوروں کی میڈیا کوریج کرائی جاتی ہے اور جانوروں کے خصوصی نام رکھے جاتے ہیں اور فخریہ بتایا جاتا ہے کہ ہمارا یہ صحت مند جانور پستے بادام اور صحت بنانے والی غذا کھاتا ہے۔ دودھ، شہد اور گھی پیتا ہے اور سال بھر اس کے ناز و نعم سے پرورش کی جاتی ہے تاکہ یہ صحت مند اور خوبصورت ہوجائے اور مہنگے سے مہنگا فروخت ہو۔ ٹی وی کی خبروں میں لاہور کے ایک بکرے کا تذکرہ ہے جس کا وزن 7 من اور مالیت لاکھوں میں ہے اس طرح بھاری بھرکم بیل بھی فروخت کے لیے مارکیٹ میں آئے ہوئے ہیں اور عید الاضحی تک ان مہنگے جانوروں کی فروخت بھی عروج پر رہے گی مگر ان مہنگے اور قیمتی جانوروں کے خریدار وہ سرمایہ دار ہوں گے جنھیں دکھاوے کا شوق زیادہ اور قربانی کے اصل مقصد کو سمجھنے کا کم ہوگا مگر یہ اپنی امارات دکھاتے آرہے ہیں اور دکھاتے رہیں گے۔ اسلام میں قربانی کے جانوروں کی قربانی کا ذکر ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی پیروی میں کی جاتی ہے مگر دکھاوے اور نام و نمود کے لیے کی جانے والی قربانی کی ممانعت ہے۔
لاکھوں روپے مالیت کے جانوروں کے لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے جسم پر چربی زیادہ اور گوشت کم ہوتا ہے اور یہ گوشت سخت اور بے لذت ہوتا ہے مگر دکھاوے کے لیے قربان کیے جانے والے ان جانوروں کا گوشت قربانی کرنے والے سرمایہ دار خود استعمال نہیں کرتے اور تقسیم کرا دیتے ہیں۔
اپنی ضرورت اور استعمال کے لیے وہ مہنگے جانوروں کے ساتھ مناسب ساخت کے جانور بھی مذبح کراتے ہیں اور مہنگے جانوروں کا گوشت دیگر کا مقدر ٹھہرتا ہے۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم کے 3 شرعی طریقے بتائے جاتے ہیں مگر اس پر بھی خلوص سے عمل نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ بکرے کے گوشت سے فریج بھر لیتے ہیں اور گائے بیل کا گوشت تقسیم کردیتے ہیں۔ بہت سے گھروں میں پسند کا گوشت اپنے استعمال کے لیے رکھ لیا جاتا ہے جس کے بعد عزیزوں کو دیکھا جاتا ہے اور ہڈیوں بھرا گوشت غریبوں اور ملازمین کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ متوسط طبقے میں اب یہ رجحان بھی بڑھ گیا ہے کہ بکرے کی ران کے بدلے میں ان کے پاس بھی ران آنی چاہیے تاکہ جو گوشت ان کے یہاں سے گیا ہے اتنا ہی واپس آجائے اور عاشورہ تک فریج بھرا رہے اور حلیم میں بھی قربانی کا گوشت کام آجائے۔ عیدالاضحی کے موقع پر ریفریجریٹرز اور ڈی فریزرز کی فروخت بڑھ جاتی ہے تاکہ گوشت اسٹاک کیا جاسکے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بکروں کے گوشت کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ عام لوگ نہیں خرید سکتے اور غریبوں میں تو اب گائے کے گوشت کی خرید کی بھی سکت باقی نہیں رہی انھیں یہ بقر عید پر ہی میسر آتا ہے۔ بقر عید پر مہنگائی کے باعث قربانیاں بھی اب کم ہورہی ہیں مگر دکھاوے کی قربانی کرنے والوں پر اس کا کوئی خاص اثر دیکھنے میں نہیں آرہا۔