درد کی انجمن جو میرا دیس ہے
’’یوں تو مجنوں اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سب ہی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیزیں ہیں اور۔۔۔
''یوں تو مجنوں اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سب ہی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیزیں ہیں اور یہ سب ہی تصور کر سکتے ہیں کہ امن گندم کے کھیت ہیں، سفیدے کے درخت،دلہن کا آنچل اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ، شاعر کا قلم ہے اور مصور کا موئے قلم ۔ آزادی ان سب صفات کی ضامن اور غلامی ان سب خوبیوں کی قاتل ہے جو انسان اور حیوان میں تمیز کرتی ہیں،یعنی شعور اور ذہانت، انصاف اور صداقت، وقار اور شجاعت، نیکی اور رواداری، اس لیے بظاہر امن اور آزادی کے حصول اور تکمیل کے متعلق ہوش مند انسانوں میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے یوں نہیں ہے، وہ اس لیے نہیں ہے کہ انسان کی ابتدا سے اب تک ہر عہد اور ہر دور میں متضاد عوامل اور قوتیں برسرعمل اور برسرپیکار ہیں،یہ قوتیں ہیں تخریب و تعمیر، ترقی اور زوال، روشنی اور تیرگی، انصاف دوستی اور انصاف دشمنی کی قوتیں۔
یہی صورت آج بھی ہے اور اسی نوعیت کی کشمکش آج بھی جاری ہے،لیکن ساتھ ہی ساتھ آج کل انسانی مسائل اور گزشتہ دور کی انسانی الجھنوں میں کئی نوعیتوں سے فرق بھی ہے؛دورِ حاضر میں جنگ سے دو قبیلوں کا باہمی خون خرابہ مراد نہیں ہے،نہ آج کل امن سے خون خرابے کا خاتمہ مراد ہے،آج کل جنگ اور امن کے معنی ہیں ؛ابنِ آدم کی بقا اور فنا۔ ان دو لفظوں پر انسانی تاریخ کے خاتمے یا تسلسل کا دارومدار ہے،انھی پر انسانی سرزمین کی آبادی اور بربادی کا انحصار ہے، یہ پہلا فرق ہے ۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ اب سے پہلے انسانوں کو فطرت کے ذخائر پر اتنی دسترس اور پیداوار کے ذرایع پر اتنی قدرت نہ تھی کہ ہر گروہ اور برادری کی ضرورتیں پوری طرح سے تسکین پا سکتیں،اس لیے آپس میں چھین جھپٹ اور لوٹ مار کا کچھ نہ کچھ جواز بھی موجود تھا، لیکن اب یہ صورت نہیں ہے۔
اب انسانی عقل، سائنس اور صنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میں سب تن بخوبی پل سکتے ہیں اور سب ہی جھولیاں بھر سکتی ہیں،بشرطیکہ قدرت کے یہ بے بہا ذخائر پیداوار کے یہ بے اندازہ خرمن،اجارہ دار اور مخصوص طبقوں کی تسکین ہوس کے لیے نہیں بلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لیے کام میں لائے جائیں اور عقل و سائنس اور صنعت کی کل ایجادیں اور صلاحیتیں تخریب کی بجائے تعمیری منصوبوں میں صرف ہوں،لیکن یہ جب ہی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اور انسانی معاشرے کے ڈھانچے کی بنیادیں ہوس، استحصال اور اجارہ داری کی بجائے انصاف، برابری، آزادی اور اجتماعی خوشحالی میں اٹھائی جائیں ۔اب یہ ذہنی اور خیالی بات نہیں بلکہ عملی کام ہے۔
اس عمل میں امن کی جدوجہد اور آزادی کی جدوجہد کی حدیں آپس میں مل جاتی ہیں،اس لیے کہ امن کے دوست اور دشمن ایک ہی قبیلے کے لوگ، ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں۔ ایک طرف وہ سامراجی قوتیں ہیں جن کے مفاد،جن کے اجارے، جبر اور حسد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے اور جنھیں ان اجاروں کے تحفظ کے لیے پوری انسانیت کی بھینٹ بھی قبول ہے۔ دوسری طرف وہ طاقتیں ہیں جنھیں بینکوں اور کمپنیوں کی نسبت انسانوں کی جان عزیز ہے،جنھیں دوسروں پر حکم چلانے کی بجائے آپس میں ہاتھ بٹانے اور ساتھ مل کر کام کرنے میں زیادہ لطف آتا ہے، سیاست و اخلاق، ادب اور فن، روز مرہ زندگی، غرض کئی محاذوں پر کئی صورتوں میں تعمیر اور تخریب، انسان دوستی اور انسان دشمنی کی یہ چپقلش جاری ہے۔
آزادی پسند اور امن پسند لوگوں کے لیے ان میں سے ہر محاذ اور ہر صورت پر توجہ دینی ضروری ہے ۔ مثال کے طور پر سامراج اور غیر سامراجی قوتوں کی لازمی کشمکش کے علاوہ بدقسمتی سے بعض ایسے ممالک میں بھی شدید اختلافات موجود ہیں، جنھیں حال ہی میں آزادی ملی، ایسے اختلافات ہمارے ملک پاکستان اور ہمارے سب سے قریبی ہمسایہ ہندوستان اور بعض افریقی حکومتوں میں موجود ہیں جو امن عالم اور انسانی برادری کی دوستی اور یگانگت کو پسند نہیں کرتیں، اس لیے صلح پسند اور امن دوست صفوں میں ان اختلافات کے منصفانہ حل پر غور و فکر اور اس حل میں امداد دینا بھی لازم ہے۔''
اب دل پر ہاتھ رکھ کر خدا لگتی کہیے کہ اگر یہ نہ بتایا جائے کہ مذکورہ تقریر فیض نے 1962ء میں ماسکو میں لینن امن ایوارڈ لینے کے موقع پر کی تھی تو کیا اسے موجودہ حالات کے تناظر سے الگ کیا جا سکتا ہے ؟ کیا کہیں سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تقریر آج سے لگ بھگ نصف صدی قبل کی گئی ہے ؟ اور اگر آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے تو ایک بار پھر بغور حرف بہ حرف اس کا مطالعہ کر لیں۔ وسائل پر مخصوص گروہوں کی اجارہ داری، اس اجاری داری کے تحفظ کے لیے انسانوں کو بھینٹ چڑھانا، امن اور آزادی کے حصول کے لیے جنگ، بھلا یہ اپنے دیس کی نہیں تو اور کس کی بات ہو رہی ہے ؟
اس لیے اگر آپ اس تقریر کو غور سے پڑھ لیں گے تو نہ صرف اس پس منظر میں اس کا مفہوم فیض کے اکثر شعروں کی طرح کئی نئے دَر وَا کر دے گا بلکہ دھرتی سے محبت کا جذبہ اور بڑھ جائے گا، جس کی اِن دنوں شدید ضرورت ہے۔ شدید ضرورت ہے اس بات کی کہ ہر نوجوان، اس دھرتی کا ہر باشندہ 'وطن' کو اپنی محبوبہ بنائے اور اس کے مظلوم و محکوم انسانوں کو اس محبت کا محور اور اپنی خوبصورت نازک اندام، ستواں ناک، غزالی آنکھوں، ناگن جیسی زلفوں، پنکھڑی جیسے ہونٹوں کی ملکہ محبوبہ سے یہ کہہ سکے کہ فی الحال ''مجھ سے پہلی سی محبت ' مرے محبوب نہ مانگ!'' ۔ دیس کی محکومی کی طرف اشارہ کر کے اس سے یہ کہہ سکے کہ ''لوٹ جاتی اِدھر کو بھی نظر کیا کیجیے!''۔
فیض سے انٹرویو کرنے والے ایک صحافی نصرت چوہدری نے ان سے پوچھا ؛'مجھ سے پہلی سی محبت نہ مانگ' جیسی نظمیں لکھ کر آپ نے عاشقی کو شاعری سے نکال نہیں دیا کیا ؟'' اس شاعرِ خوش نوا نے مسکرا کر بڑا دلچسپ جواب دیا تھا، ؛''نہیں ! ہم نے بالکل نہیں نکالا بلکہ یہ کہنا بھی تو ایک طرح سے عاشقی کا اعتراف ہے،بات صرف اہمیت کی آ جاتی ہے۔ کب، کس وقت، کون سے مسائل اہم ہیں اور کون سے غیر اہم! مگر شامل تو سبھی ہوتے ہیں۔ایک طرح سے اخبار کی مثال لے لیجیے؛ یوں تو دنیا بھر کی خبریں ہوتی ہیں، بیشتر اخباروں کے پاس ساری خبریں آ بھی جاتی ہیں مگر سب خبریں تو نہیں چھپتیں،پہلا انتخاب تو یہ ہوتا ہے کہ کون سی خبریں چھپیں گی اور کون سی نہیں، اس کے بعد پھر یہ تعین ہوتا ہے کہ کس خبر کے لیے کتنی بڑی سرخی ہو، ہم اس کو پہلے صفحے پر چھاپیں گے یا پانچویں صفحہ پر ...یہی شاعری میں ہوتا ہے۔''
سچ تو یہ ہے کہ یہی زندگی میں ہوتا ہے۔ ہم اسی فارمولے کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ کبھی سرد کبھی گرم، کبھی سخت کبھی نرم،کبھی صبح و کبھی شام... لیکن اِن دنوں مسلسل رات چھائی ہے۔ ایک ایسی رات جس کا کوئی انت نظر نہیں آتا ۔ایک ایسی رات جس نے میرے دیس کی روشنیوں کو کھا لیا ہے۔ ایک ایسی رات جو ہجر کی ہزار راتوں پر بھاری ہے۔ فیض ؔنے کہا تھا ''شبِ غم بری بلا ہے'' ہم اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ دھرتی پر طاری ہونے والی شبِ غم سے بری بلا اس کائنات میں اور کوئی نہ ہو گی!فیض ؔ نے اپنی ایک کتاب کے انتساب میں لکھا تھا؛
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم ...
کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بَن
زرد پتوں کا بن، جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن، جو مرا دیس ہے