تعلیمی پسماندگی کا ذمے دار کون

بحیثیت قوم ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم دیگر اقوام کے مقابلے میں پیچھے کیوں ہیں؟ ہم کس ماحول میں اپنے آپ کو۔۔۔


Shabbir Ahmed Arman October 07, 2013
[email protected]

بحیثیت قوم ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم دیگر اقوام کے مقابلے میں پیچھے کیوں ہیں؟ ہم کس ماحول میں اپنے آپ کو کس مقام پر پاتے ہیں؟ ہماری یہ سماجی و معاشی ناگفتہ بہ حالت کیوں ہے؟ ہم خاص طور پر تعلیمی میدان میں کس مقام پر کھڑے ہیں؟ قوم و ملت کی دہائی تو سب دیتے ہیں مگر اس ہمہ جہتی پستی کے ذمے دار کون ہیں؟ تعلیمی اداروں کی ابتر صورت حال کیوں ہے؟ امتحانات کے دوران نقل کا رجحان کیوں پروان چڑھ رہا ہے؟ ملک میں لاکھوں بچے ابتدائی تعلیم سے کیوں محروم ہیں؟ سرکاری اسکولوں میں طالبات کی انرولمنٹ کم کیوں ہے؟ اسی طرح کے اور بھی سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں۔

جو اس شعبے میں ہماری حکومتوں کی ناقص ترین کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور المیہ یہ ہے کہ پاکستان تعلیمی میدان میں نیپال اور ایتھوپیا کے بعد پسماندگی کی آخری صف میں کھڑا ہے۔ جس دین متین (اسلام) نے ہر مرد اور عورت کے لیے حصول علم لازم قرار دیا ہے اس کے نام پر بننے والے ملک (پاکستان) میں 51لاکھ بچے ابتدائی تعلیم سے بھی محروم ہیں اور اس کی شرح خواندگی بڑی تگ و دو کے بعد 75فیصد ہے۔ جب کہ بھارت میں یہ شرح 92فیصد، مالدیپ، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بالترتیب 96،94 اور 85فیصد ہے حتیٰ کہ بھوٹان میں بھی یہ 88فیصد کی حدود کو چھورہی ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے غیر فعال اسکولوں سے متعلق از خود نوٹس کیس میں سندھ بھر کے سیشن ججز کو اسکولوں کا دورہ کرکے تفصیلی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی تھی جو اب پیش کی جاچکی ہے اس چشم کشا رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں 6721سرکاری اسکول غیر فعال ہیں جن میں سے 2181اسکولوں کا وجود صرف کاغذوں پر ہے۔ صوبائی دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی 72گھوسٹ اور 34اسکول غیر فعال ہیں اور 19اسکولوں پر تجاوزات قائم ہیں۔ اندرون سندھ کے دور دراز کے علاقوں میں قائم اسکولوں کی زمین پر تجاوزات قائم ہیں، مقامی زمین داروں اور وڈیروں کا قبضہ ہے، کئی اسکولوں میں بھینسوں کے باڑے قائم ہیں، سندھ میں 27اضلاع میں 48227سرکاری اسکول قائم ہیں۔

جن میں 4540اسکولوں کی عمارتیں تو موجود ہیں مگر وہاں تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں جب کہ 2181اسکول صرف کاغذوں پر قائم ہیں۔ ان اسکولوں کا کوئی وجود نہیں، 524اسکولوں کی عمارتوں پر قبضہ کرکے وہاں بھینسوں کے باڑے، شادی ہال وغیرہ قائم کردیے گئے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے ضلع دادو میں 271گھوسٹ اسکولوں کا انکشاف ہوا ہے،26پر تجاوزات قائم ہیں، اسی طرح کراچی کے ضلع جنوبی میں 421اسکولوں میں 49گھوسٹ اور ایک اسکول پر تجاوزات قائم ہیں، ضلع شرقی میں 739میں سے 709اسکول فعال ہیں جب کہ 30غیر فعال، 8گھوسٹ اور 13اسکولوں کی عمارتوں پر قبضہ ہے، ضلع غربی میں 405اسکول فعال، 4غیر فعال اور 12اسکولو فعال جب کہ 2اسکولوں کی عمارتوں پر قبضہ ہے، ضلع وسطی میں 706میں سے 704اسکول فعال جب کہ 2اسکولوں کی عمارتوں پر قبضہ ہے، ضلع ملیر میں 668اسکول فعال، 3گھوسٹ اور 4اسکولوں کی عمارتوں پر قبضہ ہے۔

پاکستان میں آنے والی تمام ہی حکومتیں تعلیمی شعبے میں انقلاب برپا کرنے کے لیے بڑے بڑے منصوبوں کے اعلانات کرتی اور چند ہی سالوں میں اس میدان میں ملک کی کایا پلٹ دینے کے دعوے کرتی ہیں۔ لیکن جب ان کے جانے کے بعد اصل حقیقت سامنے آتی ہے تو پتہ چلتاہے کہ یہ سب اعداد وشمار کی جادو گری تھی اور خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا جیسی صورت حال ہے بھلا جس ملک میں ہزاروں گھوسٹ اسکول موجود ہوں، سیکڑوں اسکولوں کی عمارتیں اور فرنیچر تک ناپید ہو اور جن اسکولوں کی عمارتیں موجود ہیں وہاں با اثر وڈیروں اور جاگیرداروں نے بھینسوں کے باڑے بنالیے ہوں۔ اساتذہ پڑھانے کی بجائے مفت تنخواہیں لینے کے عادی ہوں اور اسکولوں میں جانے کا تکلف بھی نہ کرتے ہوں وہاں شرح خواندگی کا یہی حال ہوگا جس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

ہمارے یہاں متفرق نظام تعلیم کی وجہ سے بھی غریب والدین کے بچے نہایت اہم مقام پر پہنچنا تو دور کی بات ہے اس مقام تک پہنچنے کی سوچ بھی نہیں رکھتے۔ کیوں؟ جس غلام گردش نظام میں ہم سانسیں لے رہے ہوتے ہیں وہاں ہماری سوچ پست کردی گئی ہے۔ ہمارا ذہن کام نہیں کررہاہے کہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کتنے بیدار مغز ہیں؟ بس ایک خواہش ہے کہ ہمارا بچہ پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل تابناک بنائے۔

والدین کا اپنے بچوں کو کسی اسکول و مدرسہ میں داخلہ دلانے سے ان کی ذمے داری ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ذمے داریوں کا آغاز ہوتاہے مگر آغاز سے ہی اکثر والدین غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مشاہدہ ہے کہ والدین سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں کو کسی اسکول و مدرسہ میں داخل کردیاہے اب تمام تر ذمے داری اسکول و مدرسے کی ہے۔ پڑھائی لکھائی کی ذمے داری بس صرف اساتذہ کی ہے لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم اپنے بچوں کو کتنا وقت دے رہے ہیں؟ آج درس گاہ میں کیا ہوا؟ آج کس استاد نے کیا پڑھایا؟ آج کا ہوم ورک کیا ہے؟ کیا ہوم ورک مکمل کرلیا؟ ہم نے بچوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ ہوم ورک یا درسی عمل میں ہم نے ان کا ساتھ دیا؟ کیا والدین اپنے بچوں پر توجہ دیے بغیر ان سے بہترین نتیجے کی امید کرسکتے ہیں؟

امتحانات کے دنوں میں خوب محنت کرنی پڑتی ہے اور اس کا پھل نتیجہ کی شکل میں ملتاہے۔ والدین خوش ہوجاتے ہیں کہ ان کا بچہ فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوا ہے جو در حقیقت اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیوںکہ نمبرات معیار کی کسوٹی نہیں ہے بلکہ وقت خوشی ہے اور اس پر مطمئن ہوجانا ایک سنگین غلطی ہے۔

اصل کامیابی یہ ہے کہ نمبرات کے ساتھ ساتھ بچے میں نمایاں تبدیلیاں بھی آنی چاہیے۔ اس کے برتاؤ میں، اس کے نظریے میں، اس کے فعل میں جو وہ کررہا ہوتاہے، کیا وہ صحیح ہے؟ کسی کام کو انجام دینے کے لیے وہ صحیح طریقہ استعمال کررہاہے یا نہیں؟ اس میں سائنسی نقطہ نظر پیدا ہوا یا نہیں؟ ''کیا، کیوں، کیسے'' اگر اس کے ذہن میں یہ تین باتیں ہیں تو یقیناً اس میں سائنس ،نقطہ نظر پیدا ہورہاہے جو ایک خوش آیند بات ہے۔

اب جب کہ موجودہ نواز شریف حکومت نے اس سال 6لاکھ بچوں کو اسکول بھجوانے کا بندوبست کیا ہے خدا کرے کہ ان کا یہ منصوبہ تکمیل کو پہنچے۔ اسی طرح سندھ میں 40لاکھ بچے اسکولوں سے دور ہیں، انھیں اسکول میں داخل کرنے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بندوبست کرنے میں کامیاب ہوجائیں اور پاکستان تعلیمی پسماندگی کی آخری صف سے نکل کر اتنا آگے بڑھے کہ اسے اقوام عالم کی برادری میں سبکی اور ندامت کی بجائے وقار کا مقام حاصل ہو۔ ایسا ہوسکتاہے شرط صرف یہ ہے کہ منصوبے محض کاغذی نہ ہوں۔ ان پر عمل بھی کیاجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں