ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کی ہڑتالیں روکنے کیلئے قانون سازی کا فیصلہ

بلوچستان حکومت کا ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کی ہڑتالیں روکنےکیلئے بلوچستان ایسنشل ہیلتھ سروسز بل لاگو کرنے کا فیصلہ

بلوچستان حکومت کا ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کی ہڑتالیں روکنےکیلئے بلوچستان ایسنشل ہیلتھ سروسز بل لاگو کرنے کا فیصلہ

بلوچستان حکومت نے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کی ہڑتالوں کی روک تھا م کیلئے بلوچستان ایسنشل ہیلتھ سروسز بل2019ء کو لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اس بات کا فیصلہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی زیر صدارت ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ صوبائی حکومت اس بل کو منظوری کیلئے صوبائی اسمبلی میں پیش کرے گی جس کا رواں اجلاس جاری ہے بل کی شکل میں منظوری کے بعد یہ لاگو ہو جائے گا۔

جس کے بعد ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس اور نرسز تنظیموں میں سے جو بھی غیر قانونی ہڑتال کرے گا قانون حرکت میں آجائے گا اور اس حوالے سے اُن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تین سال قید اور5 لاکھ روپے جرمانہ کی سزائیں ہوں گی ،اس سے قبل بلوچستان میں اساتذہ کی ہڑتالوں پر بھی پابندی کیلئے ایک بل منظور کیا جا چکا ہے اس سلسلے میں صوبائی حکومت نے جو وعدے کئے تھے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں اُن کی بھی منظوری دے دی گئی ہے۔

جس کے تحت بلوچستان میں موسم سرما اور موسم گرما کی تعطیلات کے دوران اساتذہ اور دیگر اکیڈمک اسٹاف کے کنوینس الاؤنس کی بحالی،100 ہائی اسکولوں اور200 مڈل اسکولز کے انفراسٹرکچر اور معیار کو بہتر بنانے کیلئے فنڈز کی منظوری، گلوبل پارٹنر شپ کے تحت کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرنے والے1400 اساتذہ کے کنٹریکٹ میں ایک سال کا اضافہ کرنے کے فیصلے شامل ہیں جبکہ ٹائم اسکیل کے تحت تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دے دی گئی جو کہ اس حوالے سے جلد ہی اپنی رپورٹ مرتب کرے گی اور اس رپورٹ کی روشنی میں صوبائی کابینہ فیصلہ کرے گی۔

سیاسی اور عوامی حلقوں نے محکمہ صحت اور تعلیم میں اصلاحات کیلئے صوبائی حکومت کے ان اقدامات کو انقلابی قرار دیتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ عام لوگوں کو ان محکموں کے حوالے سے جو تکالیف و پریشانیاں اُٹھانی پڑرہی ہیں اس میں اب ریلیف ملنے کا قوی امکان ہے اور ساتھ ہی ساتھ آئے روز کی ہڑتالوں سے جس ذہنی کوفت کاعام لوگ شکار ہو رہے تھے۔

اس سے بھی چھٹکارا ملے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اساتذہ اور ڈاکٹرز و پیرامیڈیکس کی تنظیمیں صوبائی حکومت کے اس اقدام پر شدید تنقید کر رہی ہیں اور دونوں شعبوں کے حوالے سے اُن کا یہ موقف ہے کہ آگے چل کر حکومت ان کی نجکاری کرنا چاہتی ہے اس لئے یہ اُن کی آواز کو دبا رہی ہے اُنہوں نے صوبائی حکومت کے ان فیصلوں کے خلاف احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے۔


دوسری جانب جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے27 اکتوبر کو اسلام آباد میں آزادی مارچ کے تحت دھرنے کے اعلان کے بعد جہاں ملکی سیاست میں تیزی کا رجحان پیدا ہوا ہے وہاں بلوچستان کی سیاست بھی ہچکولے کھا رہی ہے اور مختلف سیاسی محفلوں اور بیٹھک میں آزادی مارچ کا چرچا اور ذکر خیر ہے۔

جمعیت علماء اسلام (ف) بلوچستان نے بھی آزادی مارچ کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ اپنی عوامی مہم تیز کردی ہے اور صوبے کے مختلف علاقوں، اضلاع اور تحصیلوں میں عوامی اجتماعات کا انعقاد جاری ہے اور عوام الناس کو اس آزادی مارچ میں شرکت کی دعوت دی جا رہی ہے جمعیت علماء اسلام (ف)کی صوبائی قیادت کا یہ دعویٰ ہے کہ بلوچستان سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے اپنی کامیابی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیئے جانے کے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے فیصلے کو معطل کرنے کی درخواست کی تھی جس پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی اور الیکشن ٹریبونل کے اس فیصلے کوعبوری طور پر معطل کردیا اور سپریم کورٹ نے یہ حکم بھی صادر کیا ہے کہ درخواست پر فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن حلقے میں ضمنی انتخابات نہ کرائے اور درخواست کا فیصلہ ہونے تک قاسم سوری بدستور رکن قومی اسمبلی رہیں گے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قومی اسمبلی کی اس نشست پر الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے بعد صوبے کی سیاسی و قوم پرست اور مذہبی جماعتوں نے کوئٹہ شہر کی قومی اسمبلی کی اس نشست پر دوبارہ الیکشن کیلئے ابھی سے تیاریاں شروع کرتے ہوئے مضبوط اُمیدواروں کے ناموں پر غور شروع کردیا تھا بعض اُمیدوار تو اپنی انتخابی مہم بھی چلا رہے تھے اور حلقے کے عوام سے ملاقاتیں کرکے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں مصروف تھے تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے عبوری حکم امتناعی دیئے جانے کے بعد ان سیاسی جماعتوں اور اُمیدواروں میں ایک دفعہ پھر مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جبکہ اس تمام صورتحال میں تحریک انصاف کے حامی ابھی تک مطمئن گھوم رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے ساتھ انصاف نہیں ہوا عدالت عظمیٰ انہیں ضرور انصاف فراہم کرے گی۔

وفاقی حکومت نے سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019ء جاری کردیا ہے یہ آرڈیننس وزارت قانون نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بعد جاری کیا جبکہ اس حوالے سے چین کی حکومت نے سی پیک پر موثر اور تیز عملدرآمد کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے تحت سی پیک اتھارٹی قائم کی جائے گی۔

جس میں چیئرمین سمیت2 ایگزیکٹو اور چھ ممبران شامل ہونگے جنہیں وزیراعظم چار سال کیلئے تعینات کریں گے آرڈیننس کے تحت سی پیک اتھارٹی پاکستان اور چین کے درمیان فریم اور ایم او یوز کے مطابق کام کرے گی جبکہ اتھارٹی دو طرفہ تعاون کے نئے منصوبوں کی بھی نشاندہی کرے گی۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں خصوصاً نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے اس اتھارٹی کے قیام کی پہلے ہی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا آرڈیننس جاری ہونے کے بعد صوبے کی قوم پرست جماعتوں نے اس اتھارٹی کے قیام کو آئین کے خلاف قرار دیا اور اسے صوبائی خود مختاری میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے اس عمل پر سخت احتجاج کی دھمکی دی ہے۔
Load Next Story