ایسا کیوں نہ ہوتا
کارکردگی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے جس پر چلنے کا ہنر پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس نظر نہیں آتا
BAHRAIN/OMAN SUMMIT:
خالد احمد صاحب کا شعر ہے:
میری انا نے نہلایا ہے مجھ کو میرے خون میں
مجھ پر ہوا ہے اول و آخر وار میری تلوار کا
پنجاب کی انتظامی صورتحال تنزلی کا شکار ہوکر بدترین درجات پر کیوں فائز نہ ہوتی؟ جب حکمتِ عملی ہی ناقص ہو تو نتائج سے گلہ کیسا؟ محض ڈیڑھ سال قبل تک جو صوبہ پنجاب انتظامی امور کے حوالے سے پاکستان کے دیگر صوبوں کےلیے رول ماڈل کی سی حیثیت اختیار کرچکا تھا، آج وہی صوبہ انتظامی نااہلیوں کا شکار ہوکر کسی بھی دوسرے صوبے سے کچھ بہت پیچھے نہیں رہ گیا۔
عثمان بزدار نے وزیرِاعظم کے سوچے سمجھے فیصلے کے تحت شہباز شریف کی جگہ پاکستان کے اہم ترین صوبے کی کمان سنبھالی تھی۔ عثمان بزدار کا انتخاب ضمانت تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت شہباز شریف کے قائم کردہ شو شا والے مصنوعی انتظامی معیارات کو پچھاڑ کر پنجاب کے عوام کےلیے طرزِ حکمرانی اور حقیقی انتظام کے نئے اعلیٰ ترین معیار مقرر کرے گی۔ ستم ظریفی لیکن یہ ہے کہ 14 ماہ کی بدترین کارکرگی بے قابو ہوئے ڈینگی مچھر، چہار سو پھیلی گندگی، بڑھتے جرائم، پھلتی پھولتی بیماریوں، پولیس گردی، ناقص سیکیورٹی اور علاج کی دگرگوں سہولیات کی صورت میں عوام کا منہ چڑھانے کے باوجود بھی وزیرِاعظم پاکستان اپنے اس نونہال کو دنیا میں بے مثال ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ پنجاب کے عوام بزدار صاحب کو واقعتاً بے مثال ہی سجمھتے ہیں، لہٰذا مزید کچھ ثابت کرنا وقت کا ضیاع اور عوام سے زیادتی کے مترادف ہے۔
شہباز شریف جیسے کامیاب اور تجربہ کار منتظم کے بعد عثمان بزدار جیسے ناتجربہ کار اور غیر آزمودہ شخص کی تعیناتی کپتان کی صوبہ پنجاب کے حوالے سے فاش ترین غلطی ثابت ہورہی ہے، جس کےلیے وہ چاہتے ہوئے بھی پچھلی حکومتوں کو ذمے دار قرار نہیں دے سکتے۔
پاکستان کی معیشت کا بھٹہ کیوں نہ بیٹھتا؟ جب وزیرِاعظم معاشی امور سے نابلد ہو، ناتجربہ کار ہو، پیچیدہ مسائل کا حل ٹوٹکوں اور نسخوں میں ڈھونڈتا پھرے، مسیحائی کا دعویدار ہو اور ذاتی نظریات و مفروضات کو تمام مسائل کا آخری حل مانتا ہو، تو معیشت کا بگڑ جانا طے تھا۔ مالی بدعنوانی ختم کرنے کا ٹوٹکا سادہ سا تھا کہ اوپر والا نیک نیت، نیک سیرت اور ایماندار ہوجائے تو نیچے والے بدنیت، بدسیرت اور بے ایمان افراد سو دن کے اندر ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔
معیشت ٹھیک کرنے کا سہل نسخہ یہ تھا کہ حکومت سنبھالتے ہی معیشت کی لگام شہرِ خام خیال کے باسی کو تھما کر ابتدائی چند ماہ دنیا کے ہر میسر چوراہے پر کھڑے ہو کر ملک میں انجام دئیے گئے تمام اچھے برے کاموں پر پوری قوت سے تھوک دیا جائے۔ جو شعبے اور صنعتیں ملک کی شرح نمو بڑھانے کا سبب بنی تھیں ان کی ترقی کا پہیہ روکنے کا بھرپور بندوبست کرتے ہوئے شرح نمو گرانے کی سرتوڑ کوشش کی جائے۔ اسی دوران مسلسل روپے کی قدر گراتے ہوئے کامل یقیں سے تکرار کی جائے کہ بدقسمت روپے کی پولیو زدہ ٹانگوں کا پانچ سال تک اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑا رہنا مصنوعی عمل تھا۔
قرضہ جات سے شدید نفرت کا اظہار جاری رکھتے ہوئے صرف پچھلی دو بدعنوان ترین سیاسی حکومتوں کے سربراہان کو اس قماش کے قرض خور ثابت کیا جائے جو قرضے کی رقوم قومی خزانے سے نکلوانے اور لانچوں میں بھر کر غیر ممالک میں لے جاکر جائیدادیں خریدنے پر ملکہ رکھتے تھے۔ اس اظہار کے ساتھ پوری نیک نیتی سے کربناک تاثرات دیتے ہوئے ملک میں چہار سو پھیلی بدعنوانی، جعلی ترقی اور دیوالیہ ہونے کا راگ الاپنا جاری رکھا جائے، تاکہ غیرملکی سرمایہ دار وطنِ عزیز سے اپنا سرمایہ نکالنے میں کوئی دیر نہ کریں۔ اس عمل کے بعد جب معیشت برباد ہونے لگے اور نظام کی ساکھ دنیا بھر میں اچھی طرح تباہ ہوجائے تو کبڑی ہوچکی معیشت کا ہاتھ انتہائی دردمندی سے تھام کر اسی مالیاتی ادارے کو سونپ دیا جائے جسے دن رات برائی اور مغربی سامراج کا استعارہ گردانا گیا ہو۔ اور دریں اثناء اسی استعارے کے روشن چہرے کو مرکزی دولت خانے کا سربراہ مقرر کردیا جائے۔ یوں جب چھ آٹھ ماہ گزر جانے کے بعد سخت شرائط پر غاصب ادارے سے قرضہ حاصل ہوجائے تو کبڑی معیشت کو کاندھوں پر بٹھا کر تاریخی کامیابی کا ڈھول پیٹا جائے۔ تمام محصولات میں اضافہ کیا جائے۔ جب مہنگائی کو خوب جوش آجائے تو مرکزی شرح سود کو ساتویں آسمان پر پہنچا کرمہنگائی کو مزید جوش دلایا جائے۔
وزیرِاعظم کی سربراہی میں اس تجویز کردہ نسخے کے بارآور ہونے کے آثار یہ ہیں کہ ملک میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑجائیں گی، روزگار کا کال ہوگا، مہنگائی ناقابلِ برداشت ہوچلے گی، سفید پوشی کا بھرم جاتا رہے گا۔ تب اس بوجھ سے بالآخرعوام کا کچومر نکلنے کے باعث اشیاء کی طلب میں کمی پیدا ہوگی، قیمتیں بتدریج نیچے آئیں گی، جاری اکاؤنٹ کا خسارہ کم ہوجائے گا۔ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوگا، معیشت سکڑ کر آدھی رہ چکی ہوگی۔ مقتدر حلقوں کو ملک کی کشتی گرداب میں پھنسی بے سمت سی محسوس ہونے لگے گی۔ پچھلی حکومتوں پر ملبہ گرانے کا بیانیہ دھول چاٹنے لگے گا اور پھر ملک میں لنگر خانوں کے فیتے کٹتے دکھائی دیں گے۔
ملکی قرضوں کا بوجھ کیوں نہ بڑھتا؟ جب ملک کا سربراہ رائج معاشی نظام کی ساخت، ملکی معیشت کے حقائق اور سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں قرضہ جات کی مرکزی حیثیت کا ادراک ہی نہ رکھتا ہو تو شکوہ کیسا۔ فیصلہ ساز نہ صرف یہ کہ جدید معیشت کے اس لازمی جز کی اہمیت، افادیت اور استعمال سے لاعلم ہو بلکہ قرضہ جات کو اس کائنات کی آخری برائی کے طور پر پیش کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کے خلاف اشتہار بازی اور حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کےلیے ہر حد تک استعمال کرے تو قرضے کا لفظ گالی کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ جس پر کوئی سنجیدہ بامعنی بحث نہیں ہوسکتی۔
وزیرِاعظم قرضہ جات کے شرح نمو، شرح سود، مجموعی قومی پیداوار، قوت ادائیگی اور زر کی قدر سے تعلق ہی کو نہ جانتا بوجھتا ہو تو کاہے کا رونا۔ وہ اتنا بے خبر ہوکہ اپنے ملک کی سالانہ آمدن اور غیرترقیاتی اخراجات کے حجم کا حساب کتاب کرکے یہ اندازہ بھی نہ لگا پائے کہ ملک کی سالانہ آمدن کا بمشکل غیر ترقیاتی اخراجات کو پورا کرپانے کے باعث ترقیاتی اخراجات اور معاشی نمو کے حوالے سے قرض کی اہمیت اور افادیت کیونکر اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ وزیرِاعظم یہ بھی سمجھنا نہ چاہے کہ آج کی عالمی سرمایہ دارانہ معیشت بہترین مالی انتظام اور بندوبست کی متقاضی ہے۔ قرضہ اس انتظام کا اہم ترین رکن ہے جبکہ اس انتظام کو چلانے کا کام مالی و زری معاملات کے ماہر پیشہ ور ترین افراد کو سونپا جاتا ہے، جبکہ ہوائی گھوڑے کے شہسوار کو وزارتِ خزانہ جیسی اہم ترین وزارت پر تعینات کرنا تباہی کا رستہ طے کرتا ہے۔
آگہی اور اہلیت کی ایسی قحط زدہ صورتحال میں ایک سال کے اندر ہی وزیرِاعظم کی ناک کے نیچے سے پاکستان کے قرضوں میں دس ہزار ارب روپے کا تاریخی اضافہ ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ پچھلی حکومت کے اضافہ کردہ تیرہ ہزار ارب روپے کے قرضوں کے بدلے ملک میں بجلی و توانائی کی مکمل دستیابی، دہشت گردی کا خاتمہ، سی پیک کے منصوبے، لاتعداد تعمیراتی کام، سہولیات اور معاشی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں جبکہ موجودہ حکومت کے اضافہ شدہ تاریخی قرضے 'کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے' کے مصداق محض حکومت کی مالی بدانتظامی، کم علمی، بے خبری اور نااہلی کا نتیجہ ہیں۔
عثمان بزدار کا انتخاب ہو، پاکستانی معیشت کےلیے اپنایا گیا لائحہ عمل یا ایک سال کے دوران بڑھ چکے تاریخ کے بلند ترین قرضے، عمران خان کی فیصلہ سازی، حکمتِ عملی، انا پرستی، بے ترتیب نظریات اور اہلیت نے حالات جس نہج پر پہنچا دیے ہیں، اس سے آگے عوام کی طرف سے مزید کسی عذر کا قبول کیا جانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ کارکردگی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے جس پر چلنے کا ہنر لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس نظر نہیں آتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
خالد احمد صاحب کا شعر ہے:
میری انا نے نہلایا ہے مجھ کو میرے خون میں
مجھ پر ہوا ہے اول و آخر وار میری تلوار کا
پنجاب کی انتظامی صورتحال تنزلی کا شکار ہوکر بدترین درجات پر کیوں فائز نہ ہوتی؟ جب حکمتِ عملی ہی ناقص ہو تو نتائج سے گلہ کیسا؟ محض ڈیڑھ سال قبل تک جو صوبہ پنجاب انتظامی امور کے حوالے سے پاکستان کے دیگر صوبوں کےلیے رول ماڈل کی سی حیثیت اختیار کرچکا تھا، آج وہی صوبہ انتظامی نااہلیوں کا شکار ہوکر کسی بھی دوسرے صوبے سے کچھ بہت پیچھے نہیں رہ گیا۔
عثمان بزدار نے وزیرِاعظم کے سوچے سمجھے فیصلے کے تحت شہباز شریف کی جگہ پاکستان کے اہم ترین صوبے کی کمان سنبھالی تھی۔ عثمان بزدار کا انتخاب ضمانت تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت شہباز شریف کے قائم کردہ شو شا والے مصنوعی انتظامی معیارات کو پچھاڑ کر پنجاب کے عوام کےلیے طرزِ حکمرانی اور حقیقی انتظام کے نئے اعلیٰ ترین معیار مقرر کرے گی۔ ستم ظریفی لیکن یہ ہے کہ 14 ماہ کی بدترین کارکرگی بے قابو ہوئے ڈینگی مچھر، چہار سو پھیلی گندگی، بڑھتے جرائم، پھلتی پھولتی بیماریوں، پولیس گردی، ناقص سیکیورٹی اور علاج کی دگرگوں سہولیات کی صورت میں عوام کا منہ چڑھانے کے باوجود بھی وزیرِاعظم پاکستان اپنے اس نونہال کو دنیا میں بے مثال ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ پنجاب کے عوام بزدار صاحب کو واقعتاً بے مثال ہی سجمھتے ہیں، لہٰذا مزید کچھ ثابت کرنا وقت کا ضیاع اور عوام سے زیادتی کے مترادف ہے۔
شہباز شریف جیسے کامیاب اور تجربہ کار منتظم کے بعد عثمان بزدار جیسے ناتجربہ کار اور غیر آزمودہ شخص کی تعیناتی کپتان کی صوبہ پنجاب کے حوالے سے فاش ترین غلطی ثابت ہورہی ہے، جس کےلیے وہ چاہتے ہوئے بھی پچھلی حکومتوں کو ذمے دار قرار نہیں دے سکتے۔
پاکستان کی معیشت کا بھٹہ کیوں نہ بیٹھتا؟ جب وزیرِاعظم معاشی امور سے نابلد ہو، ناتجربہ کار ہو، پیچیدہ مسائل کا حل ٹوٹکوں اور نسخوں میں ڈھونڈتا پھرے، مسیحائی کا دعویدار ہو اور ذاتی نظریات و مفروضات کو تمام مسائل کا آخری حل مانتا ہو، تو معیشت کا بگڑ جانا طے تھا۔ مالی بدعنوانی ختم کرنے کا ٹوٹکا سادہ سا تھا کہ اوپر والا نیک نیت، نیک سیرت اور ایماندار ہوجائے تو نیچے والے بدنیت، بدسیرت اور بے ایمان افراد سو دن کے اندر ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔
معیشت ٹھیک کرنے کا سہل نسخہ یہ تھا کہ حکومت سنبھالتے ہی معیشت کی لگام شہرِ خام خیال کے باسی کو تھما کر ابتدائی چند ماہ دنیا کے ہر میسر چوراہے پر کھڑے ہو کر ملک میں انجام دئیے گئے تمام اچھے برے کاموں پر پوری قوت سے تھوک دیا جائے۔ جو شعبے اور صنعتیں ملک کی شرح نمو بڑھانے کا سبب بنی تھیں ان کی ترقی کا پہیہ روکنے کا بھرپور بندوبست کرتے ہوئے شرح نمو گرانے کی سرتوڑ کوشش کی جائے۔ اسی دوران مسلسل روپے کی قدر گراتے ہوئے کامل یقیں سے تکرار کی جائے کہ بدقسمت روپے کی پولیو زدہ ٹانگوں کا پانچ سال تک اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑا رہنا مصنوعی عمل تھا۔
قرضہ جات سے شدید نفرت کا اظہار جاری رکھتے ہوئے صرف پچھلی دو بدعنوان ترین سیاسی حکومتوں کے سربراہان کو اس قماش کے قرض خور ثابت کیا جائے جو قرضے کی رقوم قومی خزانے سے نکلوانے اور لانچوں میں بھر کر غیر ممالک میں لے جاکر جائیدادیں خریدنے پر ملکہ رکھتے تھے۔ اس اظہار کے ساتھ پوری نیک نیتی سے کربناک تاثرات دیتے ہوئے ملک میں چہار سو پھیلی بدعنوانی، جعلی ترقی اور دیوالیہ ہونے کا راگ الاپنا جاری رکھا جائے، تاکہ غیرملکی سرمایہ دار وطنِ عزیز سے اپنا سرمایہ نکالنے میں کوئی دیر نہ کریں۔ اس عمل کے بعد جب معیشت برباد ہونے لگے اور نظام کی ساکھ دنیا بھر میں اچھی طرح تباہ ہوجائے تو کبڑی ہوچکی معیشت کا ہاتھ انتہائی دردمندی سے تھام کر اسی مالیاتی ادارے کو سونپ دیا جائے جسے دن رات برائی اور مغربی سامراج کا استعارہ گردانا گیا ہو۔ اور دریں اثناء اسی استعارے کے روشن چہرے کو مرکزی دولت خانے کا سربراہ مقرر کردیا جائے۔ یوں جب چھ آٹھ ماہ گزر جانے کے بعد سخت شرائط پر غاصب ادارے سے قرضہ حاصل ہوجائے تو کبڑی معیشت کو کاندھوں پر بٹھا کر تاریخی کامیابی کا ڈھول پیٹا جائے۔ تمام محصولات میں اضافہ کیا جائے۔ جب مہنگائی کو خوب جوش آجائے تو مرکزی شرح سود کو ساتویں آسمان پر پہنچا کرمہنگائی کو مزید جوش دلایا جائے۔
وزیرِاعظم کی سربراہی میں اس تجویز کردہ نسخے کے بارآور ہونے کے آثار یہ ہیں کہ ملک میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑجائیں گی، روزگار کا کال ہوگا، مہنگائی ناقابلِ برداشت ہوچلے گی، سفید پوشی کا بھرم جاتا رہے گا۔ تب اس بوجھ سے بالآخرعوام کا کچومر نکلنے کے باعث اشیاء کی طلب میں کمی پیدا ہوگی، قیمتیں بتدریج نیچے آئیں گی، جاری اکاؤنٹ کا خسارہ کم ہوجائے گا۔ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوگا، معیشت سکڑ کر آدھی رہ چکی ہوگی۔ مقتدر حلقوں کو ملک کی کشتی گرداب میں پھنسی بے سمت سی محسوس ہونے لگے گی۔ پچھلی حکومتوں پر ملبہ گرانے کا بیانیہ دھول چاٹنے لگے گا اور پھر ملک میں لنگر خانوں کے فیتے کٹتے دکھائی دیں گے۔
ملکی قرضوں کا بوجھ کیوں نہ بڑھتا؟ جب ملک کا سربراہ رائج معاشی نظام کی ساخت، ملکی معیشت کے حقائق اور سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں قرضہ جات کی مرکزی حیثیت کا ادراک ہی نہ رکھتا ہو تو شکوہ کیسا۔ فیصلہ ساز نہ صرف یہ کہ جدید معیشت کے اس لازمی جز کی اہمیت، افادیت اور استعمال سے لاعلم ہو بلکہ قرضہ جات کو اس کائنات کی آخری برائی کے طور پر پیش کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کے خلاف اشتہار بازی اور حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کےلیے ہر حد تک استعمال کرے تو قرضے کا لفظ گالی کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ جس پر کوئی سنجیدہ بامعنی بحث نہیں ہوسکتی۔
وزیرِاعظم قرضہ جات کے شرح نمو، شرح سود، مجموعی قومی پیداوار، قوت ادائیگی اور زر کی قدر سے تعلق ہی کو نہ جانتا بوجھتا ہو تو کاہے کا رونا۔ وہ اتنا بے خبر ہوکہ اپنے ملک کی سالانہ آمدن اور غیرترقیاتی اخراجات کے حجم کا حساب کتاب کرکے یہ اندازہ بھی نہ لگا پائے کہ ملک کی سالانہ آمدن کا بمشکل غیر ترقیاتی اخراجات کو پورا کرپانے کے باعث ترقیاتی اخراجات اور معاشی نمو کے حوالے سے قرض کی اہمیت اور افادیت کیونکر اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ وزیرِاعظم یہ بھی سمجھنا نہ چاہے کہ آج کی عالمی سرمایہ دارانہ معیشت بہترین مالی انتظام اور بندوبست کی متقاضی ہے۔ قرضہ اس انتظام کا اہم ترین رکن ہے جبکہ اس انتظام کو چلانے کا کام مالی و زری معاملات کے ماہر پیشہ ور ترین افراد کو سونپا جاتا ہے، جبکہ ہوائی گھوڑے کے شہسوار کو وزارتِ خزانہ جیسی اہم ترین وزارت پر تعینات کرنا تباہی کا رستہ طے کرتا ہے۔
آگہی اور اہلیت کی ایسی قحط زدہ صورتحال میں ایک سال کے اندر ہی وزیرِاعظم کی ناک کے نیچے سے پاکستان کے قرضوں میں دس ہزار ارب روپے کا تاریخی اضافہ ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ پچھلی حکومت کے اضافہ کردہ تیرہ ہزار ارب روپے کے قرضوں کے بدلے ملک میں بجلی و توانائی کی مکمل دستیابی، دہشت گردی کا خاتمہ، سی پیک کے منصوبے، لاتعداد تعمیراتی کام، سہولیات اور معاشی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں جبکہ موجودہ حکومت کے اضافہ شدہ تاریخی قرضے 'کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے' کے مصداق محض حکومت کی مالی بدانتظامی، کم علمی، بے خبری اور نااہلی کا نتیجہ ہیں۔
عثمان بزدار کا انتخاب ہو، پاکستانی معیشت کےلیے اپنایا گیا لائحہ عمل یا ایک سال کے دوران بڑھ چکے تاریخ کے بلند ترین قرضے، عمران خان کی فیصلہ سازی، حکمتِ عملی، انا پرستی، بے ترتیب نظریات اور اہلیت نے حالات جس نہج پر پہنچا دیے ہیں، اس سے آگے عوام کی طرف سے مزید کسی عذر کا قبول کیا جانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ کارکردگی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے جس پر چلنے کا ہنر لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس نظر نہیں آتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔