اخبارات کا حسن

اخبارات کی افادیت وقت کے ساتھ کم ہوئی ہے لیکن ختم کسی بھی صورت نہیں ہوسکتی


شاہد کاظمی October 11, 2019
اخبارات کی سرخیاں ان کا حسن ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بلاگ کا محرک ایک سرخی بنی جو کچھ یوں تھی ''پہلا لنگر پروگرام شروع''۔ لیکن صحافتی رگ نے اس سرخی کو تنقید و توصیف کے معیارات سے ذرا ہٹ کر دیکھا اور پڑھا۔ کسی بھی اخبار میں خبر یقینی طور پر بنیادی محرک ہوتی ہے مزید معاملات کا۔ خبر سے ہی لوگوں کو تنخواہ ملتی ہے اور خبر سے ہی اخبار کا پیٹ بھرتا ہے۔ لیکن خبر سے جڑے ہوئے کچھ دیگر معاملات بھی ہوتے ہیں، جن کو نظر انداز کرکے خبر کی افادیت عوام تک پہنچانے کا خواب صرف خواب ہی رہ جاتا ہے۔ اور بعض اہم خبریں ان جزئیات کے نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے اپنی اہمیت ثابت نہیں کرپاتیں اور کبھی غیر اہم خبریں بھی جزئیات مکمل ہونے کی وجہ سے عوام کی پذیرائی پاجاتی ہیں۔

خبر کی سرخی نکالنا بھی ایک ایسا ہی فن ہے جو خبر کا حسن بننے کے ساتھ اخبار کی تقسیم و فروخت میں بسا اوقات اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ آپ ایک عام سے موضوع پر عام سی خبر ہو، اس کی سرخی دل کو لگتی، آنکھوں کو کلک کرنے والی ہو، تو فوراً اس خبر کو پڑھتے بھی ہیں، اور اس خبر کی چھوٹی سے جھوٹی تفصیل میں بھی جاتے ہیں کہ شائد کچھ نیا پڑھنے کو مل جائے۔ اور کبھی بہت ہی اہم مسئلہ دل و دماغ کے ساتھ نظر کے دائرے میں بھی نہیں آتا کہ اس خبر کی سرخی انتہائی غیر پیشہ ورانہ انداز سے بنائی گئی ہوتی ہے۔

یونیورسٹی کے دنوں میں ہمیں ایک ٹاسک دیا گیا کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ کے ایک جگہ کے دورے کے دوران کی تفصیلات کو بطور خبر ہم نے لکھنا ہے۔ اور اس ٹاسک میں پروفیسر کی جانب سے سب سے زیادہ سراہا اس طالبعلم کو گیا جس نے نہایت اچھوتی سرخی خبر کی بنائی تھی۔ اس سرخی اور جس جگہ کا دورہ کیا گیا تھا بظاہر کوئی تعلق ہی نہیں تھا، لیکن جس شخصیت نے دورہ کیا تھا اس کے بیان کسی اور موضوع پر بھی دینے کو ملکی سطح پر یقینی طور پر اہمیت ملتی۔ طالبعلم نے موضوع، دورے کے مقام، دورے کے مقصد سے یکسر ہٹ کر سرخی وہ لگائی جو اس رہنما نے ملکی سطح کے معاملے میں بیان دیا۔ اور ایسا ہونا حقیقی معنوں میں صحافت کو جدت پسندی کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر تھالی کے بینگن کی طرح ہم صحافت کے قدیم اصولوں کو ہی صرف اپنائے رکھیں تو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ہمیں صحافت کے معیار کو برقرار رکھنے کےلیے قدیم اور جدیدیت کے درمیان ایک رابطہ کار کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ہمارا تعلیمی نظام بطور مجموعی عمومی طور پر تو مسائل کا شکار ہے ہی لیکن آپ بالخصوص اگر جائزہ صرف صحافت کا لیں تو صحافت کی درسی کتب میں صحافت کے جو اصول و ضوابط سکھائے اور پڑھائے جارہے ہیں، وہ عملی سطح سے مکمل مفقود ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں اخبارات کا حسن بھی ماند پڑتا نظر آرہا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے لیکن پرنٹ میڈیا کی افادیت سے بھلا کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ نصاب تعلیم اگر ہمیں اخبار کی سرخی، ذیلی سرخی، اداریہ، کیپشن، ٹیگ لائن، وغیرہ لگانا بھی نہیں سکھا پارہا تو ہمیں بہرحال آج نہیں تو کل یہ سوچنا ہوگا کہ ہم صحافی بنا رہے ہیں یا لکیر کے فقیر۔ درسی کتب میں ان تمام موضوعات کی تعریف موجود ہے، ان کے لوازمات کے حوالے سے پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق بہرحال رہنمائی موجود نہیں۔ ٹیکسٹ بک صحافت جو ہمارے ہاں پڑھائی جارہی ہے وہ دنیا کے کسی اور خطے کے حالات پر صادق تو آتی ہے لیکن پاکستان میں اس کا عملی صحافت سے دور دور تک کا واسطہ نہیں۔

اخبارات کی افادیت وقت کے ساتھ کم ہوئی ہے لیکن ختم کسی بھی صورت نہیں ہوسکتی۔ اخبارات کی سرخیاں ان کا حسن ہیں۔ خبروں کی تفصیل کو صحافتی زبان دینا اخبار کا حسن ہے۔ تصویروں کو کیپشن دینا اخبارات کا حسن ہے۔ ذیلی سرخیاں، خبر کی تفصیل لکھنا، اس کی اہمیت کے پیش نظر اشاعت کی جگہ کا تعین کرنا، سنسنی پھیلائے بنا مدعا ایسے بیان کردینا کہ قاری نظر نہ ہٹا سکے اور خبر کو پڑھنے پر مجبور ہوجائے، یہ تمام معاملات اخبارات کا حسن ہیں۔ لیکن ہم دن بدن اس حسن سے اخبارات کو محروم کرتے جارہے ہیں۔ اور ہمارے پاس کاغذ پر چھپے ہوئے سیاہ و رنگین الفاظ تو آرہے ہیں لیکن حسین انداز میں اخبار نہیں آرہا۔ کمرشلزم ایسے بے ڈھنگے انداز سے حاوی ہوتا جارہا ہے کہ اخبار کم اور مارکیٹنگ پیپر زیادہ لگتا ہے۔

ہمیں ایسا نصاب ترتیب دینا ہوگا جو صحافی بنائے، نہ کہ مزید بے روزگار نوجوان درسگاہوں سے نکالے۔ ہمیں خبر کی ابتدا سے انتہا تک جزئیات کو خوبصورت بنانا ہوگا اور صحافت کیا ہے اس حقیقت کو جاننا ہوگا۔ ورنہ چوک میں ریڑھی پر فروٹ بیچتے شخص اور خودساختہ صحافی میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔