کوچۂ سخن
آنکھ پر خواب کا بوجھ تھا بے بہا، زندگانی اذیت کا انبار تھی
غزل
تری خموشی زبان دانی سے ماورا ہے
یہ بات الفاظ اور معانی سے ماورا ہے
ہماری تشنہ لبی کو کافی نہیں ہے دریا
ہم ایسے پیاسوں کی پیاس پانی سے ماورا ہے
یہ زندگی جس کو سب اداکار چاہتے ہیں
ہماراکردار اِس کہانی سے ماورا ہے
ہماری تشنہ دلی محبت سے کیا بجھے گی
ہماری خواہش تری جوانی سے ماورا ہے
مری دعا میں سوال بخشش کا ہے وگرنہ
جو مَر گیا ہے وہ مہربانی سے ماورا ہے
(علی شیران۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
آنکھ پر خواب کا بوجھ تھا بے بہا، زندگانی اذیت کا انبار تھی
کس کو معلوم تھا روح کس نوع کی بے کراں بے یقینی سے دوچار تھی
کون کرتا مناظر کی بخیہ گری، کون زخموں پہ مرہم کا دَم کاڑھتا
روکتا کون سینوں کی سسکاریاں، ہرصدا، ہر مناجات بے کار تھی
کیا ہوئی وہ ندی جس پہ سکھیوں کی باتیں تھیں اور گاگروں کی کھنک تھی بسی
کیسے اجڑے وہ پنگھٹ جہاں حسن تھا، زندگانی کی ہر شام بیدار تھی
سونی سونی ہوئی بستیوں کی فضا، وہ جو چڑیاں تھیں جا کر پرے بس گئیں
اجڑی اجڑی ہیں گاؤں کی پگڈنڈیاں، جن کے شانوں پہ سبزے کی بھرمار تھی
کھا گئی کھیت کھلیان خواہش گری، کچے رستے سڑک بوس ہوتے گئے
ہائے پیپل کی وہ نرم چھاؤں کٹی جس کے سائے میں صدیوں کی مہکار تھی
بجھ گئیں رونقیں اپنے چوپال کی، سادہ لوحوں کی باتیں ہوا ہو گئیں
اس ترقی کے آنے سے پہلے یہاں زندگی چہلیں کرتی ہوئی نار تھی
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ، راولپنڈی)
۔۔۔۔
غزل
عجیب شور میں ڈوبی وہ ایک وادی تھی
جہاں پہنچ کے سبھی نے صدا گنوا دی تھی
وہ میرے خواب پہ بھی آنکھ رکھنا چاہتا تھا
سو اپنی نیند مری آنکھ میں سلا دی تھی
ندی کا کہہ کے کسی نے مجھے بلایا تھا
اور اس کے بعد مجھے تشنگی تھما دی تھی
بچھڑ کے تجھ سے اسے میں نے بھی پکار لیا
کسی سے جس نے بچھڑ کر مجھے صدا دی تھی
شجر اداس، مکاں، راستے، چراغ اداس
کہ میرے شہر کی ہر چیز تیری عادی تھی
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
پتّھروں میں گلاب دیکھتا ہوں
اپنی مرضی کے خواب دیکھتا ہوں
آنکھ سے وہ دکھائی دیتا نہیں
دل سے میں بے حساب دیکھتا ہوں
یہ بھی ممکن ہے ڈوب جاؤں میں
اُس کی آنکھوں میں آب دیکھتا ہوں
دید کا اک سوال ہیں آنکھیں
اس کا چہرہ جواب دیکھتا ہوں
راہِ حق میں جو جان ہارتا ہے
میں اسے کام یاب دیکھتا ہوں
تُو نے دنیا کہا جِسے کیفی!
میں اُسے اک سراب دیکھتا ہوں
(محمود کیفی۔ سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
جو آج تجھ کو امیدوں کا درس دیتی ہے
وہ خود کشی کے بھی اک تجربے سے گزری ہے
چلو چلیں کہیں تجدیدِ دوستی کے لیے
کہ گھر پہ کام نہیں، دفتروں میں چھٹی ہے
ہمارے شہر میں کیسی عجب روایت ہے
یہاں یہ آنکھ فقط حادثوں پہ کھلتی ہے
وہاں وہ دور سے تکتا ہے میرے ٹیرس کو
مری نظر میں بھی وہ گھر، وہ بالکونی ہے
تُو جانتا ہی کہاں ہے کہ کس طرح ہجرت
بسے بسائے گھروں کو اجاڑ دیتی ہے
تُو اپنے ہاتھ سے جس کو لگا کے بچھڑا تھا
ہمارے صحن کی وہ بیل پھول لائی ہے
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
اس سے کرنی تھی آخری فریاد
اس کے جانے کے بعد کی فریاد
روشنی چِیختے نہیں تھکتی
تیرگی کر نہیں رہی فریاد
میں خدائے انا تھا لیکن دوست
میں نے بھی کر کے دیکھ لی فریاد
جانے والے نے جب کہا خوش رہ!
مجھ سے آکر بہت لڑی فریاد
زیست خیرات سے بھی بَدتر ہے
مل گئی خوش ہوئے! چِھنی فریاد!
لکھ رہا ہوں نئی غزل کل سے
لکھ رہا ہوں کوئی نئی فریاد
(شہزاد مہدی۔ سکردو، بلتستان)
۔۔۔
غزل
زندگی کا سہارا کارِ عشق
ڈوبتے کو کنارہ کارِ عشق
کربلا ہو یا آتشِ نمرود
امتحاں میں ہے سارا کارِ عشق
سوچتے ہیں نجانے کب ہو گا
کارآمد ہمارا، کارِ عشق
کر رہا ہے خطا دوبارہ دل
کر رہا ہے دوبارہ کارِ عشق
پھول کھلنا چمکنا تاروں کا
ہے یہ سارے کا سارا کارِ عشق
ہر محبت کی آنکھ سے بینش
کر رہا ہے نظارہ کارِ عشق
(بینش سلیم باقی۔ علی رضا آباد، لاہور)
۔۔۔
غزل
اندھیرا چار سو پھیلا ہے میرا منہ چڑاتا ہے
مرے کمرے میں چاروں اور شب بھر دندناتا ہے
وہ میرا دیکھنا اس کو مسلسل دیکھنا اس کو
اور اس کا دیکھ کر مڑنا ہمیشہ دل دکھاتا ہے
کبھی ناراض ہو جانا تو جلدی سے منا لینا
کہاں ایسی سہولت اب کہ بچپن یاد آتا ہے
ابھی تو عمر باقی ہے مگر ہم کو نجانے کیوں
کسی بدروح کا سایہ زمانے سے ڈراتا ہے
علی کچھ دیر تو لگتا ہے کوئی ہے جو اپنا ہے
مگر پھر بے وفا وہ شخص جی بھر کے رلاتا ہے
(ذمران علی۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
''محبت ایسی ہوتی ہے''
محبت ایسی ہوتی ہے۔۔۔
ہمیں شاداب رکھتی ہے
دلوں میں گر اتر جائے
تو بس بے تاب رکھتی ہے
یہ ہر ویران رستے میں دیئے روشن سے کرتی ہے
سنو، صحراؤں کی مٹی کو بھی سیراب کرتی ہے
یہی تنہائی میں دل کش دھنیں ہم کو سناتی ہے
یہ ڈھلتی شام میں شبنم کی صورت رقص کرتی ہے
یہ ہر انجان موسم میں بنا پوچھے، بنا دستک
حسیں سپنوں کی صورت گہری آنکھوں میں اترتی ہے
محبت ایسی ہوتی ہے
دلوں کو شاد رکھتی ہے
ہمیں آباد رکھتی ہے
مگر یہ بھی سنا ہو گا۔۔۔
کہیں تم نے پڑھا ہو گا!
محبت ہی تو ہوتی ہے۔۔۔
جو بگڑے تو کسی سے کچھ سنبھالا ہی نہیں جاتا
محبت ہی تو خوشیوں کا نگر تاراج کرتی ہے
محبت ایسی ہوتی ہے۔۔۔
(سدرہ ایاز۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
اپنے غم کو کیمرے سے ہی چھپا جاتا ہوں میں
اس لیے تصویر میں بھی خوش نظر آتا ہوں میں
ریل کی پٹڑی بچھی ہے خود کشی کا سین ہے
اس کہانی کو بدل کر اور کچھ لاتا ہوں میں
تم کنارے پر ذرا ٹھہرو، تمھارے واسطے
جھیل میں جاتا ہوں، جا کر چاند لے آتا ہوں میں
تیرے کوچے سے گزرتا ہوں فقیروں کی طرح
گیت کوئی درد میں ڈوبا ہوا گاتا ہوں میں
(نذیر حجازی۔ نوشکی)
۔۔۔
غزل
کسی کا یوں دیوانہ ہو گیا ہوں
کہ اپنے سے بیگانہ ہو گیا ہوں
میرے اندر نئے افکار، جذبے
بظاہر تو پرانا ہو گیا ہوں
بڑی تحقیق مجھ پر ہو رہی ہے
کوئی مخفی خرانہ ہو گیا ہوں
طریقت کا کوئی نکتہ ہوں یا میں
کلامِ عارفانہ ہو گیا ہوں
مجھے پڑھنے لگے اپنے پرائے
کوئی دل کش فسانہ ہو گیا ہوں
(محمد حسین عارف۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
کھلے ہوئے ہیں دھوپ میں کئی گلاب آج بھی
سُلگ رہے ہیں آنکھ میں پرانے خواب آج بھی
فلک کا چاند رکھ دیا کسی نے میرے ہاتھ پر
مجھے کسی نے کر دیا ہے لاجواب آج بھی
دل و نظر بچھا دیے ہیں میں نے تیری راہ میں
ترے لیے کُھلے ہیں میرے دل کے باب آج بھی
ترے قدم کو جس نے بھی چراغِ رہ بنا لیا
وہی ہوا قدم قدم پہ کام یاب آج بھی
مرے وطن کے خاکسار نیند سے اُٹھے نہیں
سروں پہ آگیا ہے کب کا آفتاب آج بھی
(خادم حسین خاکسار۔ راولپنڈی)
غزل
آپ کے سینے میں گر جو دل نہیں
زندگی پھر اتنی بھی مشکل نہیں
جس سے وابستہ ہے ہر غم اور خوشی
ہاں مجھے وہ شخص بھی حاصل نہیں
سب یہاں اس شہر میں مظلوم ہیں
کوئی بھی اس شہر میں قاتل نہیں
ڈگریاں ہر شخص کے ہی پاس ہیں
یعنی اب یاں کوئی بھی جاہل نہیں؟
(سالِم احسان۔ گوجرانوالہ)
غزل
جاں رہے یا نہ رہے محوِ تماشا ہونا
سیکھے موسیؑ سے کوئی طالبِ جلوہ ہونا
بس حدِ ظلم میں داخل نہ ہو اتنا ہے ضرور
پھر برا کچھ بھی نہیں طالبِ دنیا ہونا
اس کی تخلیق ہے بیکار نہیں ہوسکتی
ورنہ باہر ہے حدِ فہم سے اپنا ہونا
لوگ ظاہر پہ نظر رکھتے ہیں باطن پہ نہیں
کس نے دیکھا ہے مرے دل کا شکستہ ہونا
میں مسیحائی کا قائل ہوں تمہاری لیکن
ہے برا عشق کے بیمار کا اچھا ہونا
ہمسری کا تو ہے ہر ایک کو دعویٰ ممکن
اتنا آسان نہیں متقی ایسا ہونا
(متقی امروہوی)