42 سال کے بعد لاہور کا سفر پہلا حصہ

رات کے وقت گاڑی کی رفتاربڑھ جاتی تھی مگر پورا ڈبہ ایسے ہل رہا تھاجیسے ابھی ہم نیچے گرجائیں گے اورنیند سے بیدارہوجاتے۔

کچھ دن پہلے میں معمول کے مطابق منیر مہر اور اطہر سموں کے ساتھ شام کو ہوٹل پر چائے پی رہے تھے کہ اس دوران منیر نے مجھ سے پوچھا'' لاہور چلو گے'' میں چونک گیا اورکہا ''بھائی ! بیٹھے بیٹھے یہ کیا سوجھی ہے'' تو انھوں نے بتایا اسے کوئی ضروری کام ہے کچھ دنوں کے لیے جانا ہے۔

میرے دل میں بھی کئی سالوں سے آرزو تھی کہ لاہور جاؤں کیونکہ آخری بار 1977 کے مارچ کے مہینے وہاں سے کراچی آیا تھا اور پھرکبھی لاہور گیا ہی نہیں۔ اس لیے میں نے ایک دم ہاں کہہ دی اور اس نے دوسرے دن شام کے چار بجے والی پاک بزنس ٹرین کے لیے دو برتھ بک کروا دیے۔

ٹرین آکر پلیٹ فارم نمبر ایک پر رکی، ہم اس میں سوار ہوگئے اور جب اپنی سیٹ پر بیٹھے تو معلوم ہوا پنکھے نہیں چل رہے ہیں ، جس کی شکایت اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر سے کی تو اس نے کہا کہ ریل میں بجلی والا ہوتا ہے وہ آکر ٹھیک کرے گا،جب گاڑی چلی ، ٹکٹ چیکر اور بہت سارے ریلوے اہلکار آتے رہے ایک ایک کرکے سب کو بتایا مگر کسی نے بھی نہیں سنی اور لاہور تک ہم نے بغیر پنکھے کے سفر کیا۔ جب واش روم گئے تو وہاں پر پانی نہیں تھا جس کی وجہ سے کافی گندگی اور بدبو تھی۔ ہم نے منرل واٹر خرید کر اس کو استعمال کیا۔کھڑکیاں کھول کے رکھیں جس کی وجہ سے ہوا تو آرہی تھی مگر لاہور پہنچنے تک ہمارے کپڑوں اور چہرے پر مٹی کی ایک بڑی تہہ چڑھ گئی تھی۔

ٹرین پورے تین گھنٹے لیٹ تھی کیونکہ اس ٹرین سے 15 منٹ پہلے ایک گاڑی چلائی گئی تھی جس کی وجہ سے ہر چھوٹے اور بڑے ریلوے اسٹیشن کے باہر آؤٹر سگنل پرگاڑی کو روک دیا جاتا تھا۔ جب اس طرح گاڑی رکتی تھی تو گاؤں سے چھوٹے چھوٹے بچے بھیک مانگنے والے آتے تھے ، کافی اور لوگ ہاتھ میں موبائل کی ٹارچ جلا کر گھوم رہے تھے۔ جنگل میں گاڑی رکنے سے کئی اقسام کے کیڑے مکوڑے ڈبے کی لائٹ پر آجاتے تھے جس سے بیٹھنا مشکل ہوگیا تھا۔ بہرحال جب لائٹ آف کی توکافی فرق آگیا۔

چار بجے جب گاڑی کینٹ سے روانہ ہوئی تو ٹریک کے دونوں طرف کچرا ہی کچرا ، گندے نالے کا پانی، جھاڑیاں اور ٹوٹے پھوٹے اسٹیشن نظر آئے۔ اس کے علاوہ ٹریک کے برابرجوگھر بنے ہوئے تھے ان کے بچے گھوم پھر رہے تھے جنھیں کوئی ڈر یا خوف نہیں تھا۔ گاڑی کے ڈبے شروع سے آخر تک ایک دوسرے سے دروازے کی وجہ سے لوگ اور فقیر بھی آتے جاتے رہے۔ اس کے علاوہ سارے سفر کے دوران چائے اور کھانے والے گھومتے رہے۔ ریل کے اندر بار بار پولیس کے کچھ لوگ آ رہے تھے۔ جب گاڑی کوٹری پر پھر روہڑی پر آئی تو کچھ رونق دیکھنے میں آئی اور اچھا لگ رہا تھا۔ ہم لوگ کھانا کھا کر برتھ پر سو گئے اور جب صبح ہوئی تو خانیوال جنکشن پر گاڑی آگئی تھی جہاں پر پنجابی قسم کا پراٹھا اور چائے پی اور تروتازہ ہوگئے۔

رات کے وقت گاڑی کی رفتار بڑھ جاتی تھی مگر پورا ڈبہ ایسے ہل رہا تھا جیسے ابھی ہم نیچے گر جائیں گے اور نیند سے بیدار ہوجاتے۔ یہ عجیب بات تھی کہ سندھ کی حدوں سے گزرتے ہوئے درخت بہت ہی کم نظر آئے جب کہ پنجاب کی حدود میں ہر طرف درخت، کھیت اور ہریالی تھی۔

سندھ کی زمین میں سیم اور تھور اور ویرانی نظر آئی جب کہ پنجاب میں بہت کم ایسی جگہ تھی جو خالی ہو ورنہ ہر طرف کچھ نہ کچھ ہرا پن تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہاں پر ریلوے اسٹیشنوں پر مرمت کا کام جاری تھا اور انھیں بہت خوبصورت بنایا جا رہا تھا جب کہ سندھ کے اسٹیشنوں کا حال زبوں اور خستہ تھا۔ لاہور کی ریلوے حدود میں اتنے سارے خراب اور بے کار ریل کے ڈبے، گڈز ٹرین کی ویگنیں، لوہے کے پہیے اور پانی کی ٹنکیاں بکھری پڑی تھیں جنھیں اگر بیچا جائے تو اربوں روپے مل سکتے ہیں جس سے نیا سامان خریدا جاسکتا ہے۔


جب لاہور شہر میں آئے تو اس کا نقشہ بالکل بدلا ہوا تھا ٹانگے اور سائیکلوں کے بجائے موٹرسائیکلیں اور چنگچی نظر آئے۔ ریلوے اسٹیشن پر بھی چار پانچ ٹیکسیاں نظر آئیں ورنہ پورے لاہور میں ٹیکسیاں بے حد کم ہیں۔ باقی پرانے اسٹائل کی ویگنیں اب بھی چل رہی ہیں۔ اپنی منزل مصطفیٰ ٹاؤن جاتے ہوئے روڈ بڑے کشادہ، صاف، اچھے تھے، ان کے دونوں طرف ہرے بھرے پرانے اصلی نسل کے درخت بڑے خوبصورت لگ رہے تھے۔ دونوں سڑکوں کے درمیان ایک چھوٹی مگر لمبی نہر ساتھ ساتھ چل رہی تھی مگر کہیں بھی مجھے کچرا یا صرف نالوں کا پانی کھڑا ہوا نہیں ملا۔ ایک انڈرپاس پر لکھا ہوا تھا شاہ لطیف بھٹائی روڈ۔ اسی سڑک پر پنجاب یونیورسٹی کا نیا کیمپس کئی کلو میٹر پر پھیلا ہوا دونوں سڑکوں کے درمیان چل رہا تھا جسے نہر کے نیچے سے انڈرپاس بناکر دونوں حصوں کو ملایا گیا ہے۔

مصطفیٰ ٹاؤن میں ہمارے ایک دوست کا فلیٹ تھا جہاں ہم نے قیام کیا کیونکہ اس کی فیملی گاؤں گئی ہوئی تھی، کچھ آرام کرنے، نہانے کے بعد ہم داتا گنج بخش کے مزار کی طرف جانے کا ارادہ کیا، کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد مین روڈ سے ہمیں لال رنگ کی speedo بس ملی جس میں ہم سوار ہوگئے۔ اس بس کے لیے ایک کارڈ خریدنا پڑتا ہے جسے Validator سے ٹچ کریں گے تو آپ کے اکاؤنٹس سے 20 روپے کٹ جائیں گے اور جب آخری اسٹاپ پر اترنے سے پہلے وہی کارڈ دوبارہ ٹچ کریں گے تو آپ کے اکاؤنٹ میں 5 روپے واپس آجاتے ہیں۔

اس طرح سے آپ ایک بس سے جب دوسری بس میں سوار ہوں گے تو آپ کے 15 روپے کٹ جائیں گے اور اترتے وقت آپ کارڈ ٹچ کریں تو آپ کو 5 روپے واپس ہوجاتے ہیں اور آخری تیسری اس کمپنی کی بس پر بیٹھیں گے تو آپ کے 10 روپے کٹ جائیں گے اور پھر اترتے وقت کارڈ کو ٹچ کریں تو آپ کے 5 روپے واپس ہوجائیں گے۔ اس طرح اس اے سی گاڑی میں سفر کرتے آپ کو پچاس فیصد کرایہ دینا پڑتا ہے۔ اس بس کی سیٹیں بہت صاف اور اچھی ہیں اور اس کے علاوہ پورے راستے اناؤنسمنٹ کے ذریعے آپ کو آنے والے اسٹاپ اور اس سے آگے آنے والے اسٹاپ کے بارے میں معلومات ملتی رہتی ہیں جب کہ اترتے وقت آپ کو دوبارہ کارڈ ٹچ کرنے کی یادداشت ملتی ہے تاکہ آپ کے ہر ٹرپ پر 5 روپے بچ جائیں۔

اب تو آپ اس بس میں 20 روپے کیش دے کر بھی سوار ہوسکتے ہیں مگر اس میں آپ کو 5 روپے واپس نہیں ملتے۔ اس بس کی کمپنی کا اصلی نام میٹرو بس ہے جو سڑک سے اوپر بنی ہوئی پل پر چلتی ہے جس کا ٹکٹ 30 روپے ہے۔ اس میں بھی یہ ساری سہولیات ملتی ہیں۔ میٹرو پر چڑھنے کے لیے روڈ کے دونوں اطراف سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں اور ایک طرف سے دوسری طرف جانے کے لیے سیڑھیوں اور Escalators بنے ہوئے ہیں اور نیچے Basement بنا ہوا ہے۔ اس میں بھی اے سی کی سہولت ہے لیکن میرے خیال میں بوڑھے اور معذور اور کمزور بزرگوں کو تھوڑا مسئلہ ہوتا ہوگا۔

ابھی ایک پروجیکٹ اورنج ٹرین کا ہے جو پورے لاہور میں چلے گی اور خاص طور پر دور دراز جگہوں پر بھی جائے گی۔ اس کے لیے بڑے مضبوط پل بنائے گئے ہیں اور اس کے اسٹیشن بھی بڑے خوبصورت ہیں۔ پتا نہیں کیوں ابھی تک عوام کی سہولت کے لیے اسے شروع نہیں کیا گیا ہے۔ اس پر بے حد پیسہ خرچ ہوا ہے اس لیے اس اسکیم کو جلد شروع کیا جائے ورنہ اربوں کھربوں روپے ڈوب جائیں گے۔ اچھا مجھے شہر کے کسی بھی خاص حصے میں ریڑھیاں نظر نہیں آئیں، اس کے علاوہ داتا دربار جیسے علاقے میں بھی فقیر کم نظر آئے اور جو دکھائی دیے وہ مستحق تھے ورنہ کراچی میں تو ہر جگہ ہر سیکنڈ کے بعد فقیر منڈلاتے رہتے ہیں۔

لاہور میں دودھ 80 روپے کلو تھا، چائے 30 روپے تھی اور ایسی چائے تھی کہ مزا آجاتا ورنہ کراچی کا دودھ اور چائے دونوں مہنگے اور کوئی ذائقہ نہیں۔ بسوں کے اسٹاپ اتنے اچھے اور صاف تھے جہاں پر لاہور ٹرانسپورٹ کی بسیں آکر کھڑی ہوتی ہیں۔ اچھا میٹرو، اسپیڈو اور ایل ٹی سی کی بسوں میں ایک بات مشترکہ یہ تھی کہ وہ بس اسٹاپ کے بغیر کہیں بھی نہیں کھڑی ہوتیں اور دوسری بات جیسے اسٹاپ آیا بس کھڑی ہوئی اس کا دروازہ کھلا، مسافر اترے اور چڑھے پھر دروازہ بند ہوا پھر کسی کے لیے بھی کہیں بھی نہیں کھلے گا۔ اس کے علاوہ پیدل چلنے والوں کے پلوں کو دیکھ کر دل بہت خوش ہوا کیونکہ وہ رنگوں سے بھرے، اوپر سے کوورڈ اور کوئی مٹی اور کچرا نہیں بالکل صاف ہیں۔

(جاری ہے )
Load Next Story