حکومت کےغیر مقبول فیصلے وزراءجواز پیش کرنے سے قاصر
سپریم کورٹ نے حکومت کو بجلی کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ واپس لینےلینے پر مجبورکردیا۔
KARACHI:
حکومت کی طرف سے عوام پر بجلی گرانے کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے مداخلت کرتے ہوئے واپس لینے پر مجبور کردیا اور واضح کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ غریبوں کی جیب پر ڈاکے کے مترادف ہے جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
سو حکومت نے شرمندگی کا احساس پیدا کیے بغیر اپنا فیصلہ تو واپس لے لیا لیکن اپنی اس سبکی کو دور کرنے اور عوام کو اذیت میں مبتلا رکھنے کے لیے متبادل راستہ اختیار کرلیا اور اس کے بدلے میں درجنوں اشیاء پر دو فیصد اضافی سیلز ٹیکس عائد کردیا جن میں ٹیوب لائٹ، پنکھے ، الیکٹرک سامان ، استری ، اوون، واشنگ مشین ، اے سی ، فریج ، ٹیلی وژن ، آٹو سپئرپارٹس اور بسکٹ ،چاکلیٹ ،ٹافی اور مٹھائی وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ اس طرح حکومت نے ایک ہاتھ سے واپس لے کر دوسرے ہاتھ میں پھر ظلم کا پروانہ تھما دیا ہے اور یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی بنا پر کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف سے نجات پانے کے عزم صمیم کااظہار کرنے والی حکومت نے پہلے تین ماہ میں ہی اسی آئی ایم ایف سے 550 ارب روپے کے قرضے لے لیے ہیں اور مزید لینے کے لیے مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں ۔گویا اس حکومت نے عام آدمی کے منہ سے نوالہ چھیننے کے بعد اب بچوں کے منہ سے ٹافی، چاکلیٹ بھی چھیننا شروع کردیا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ موجودہ حکمران بڑوں اور بچوں میں کوئی امتیاز روا رکھتے ہیں ۔ سرکار کے ان تلخ اور نامقبول فیصلوں سے عوام الناس تو متاثر ہوئے ہی ہیں خود حکمران جماعت کے اہم عہدیدار بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔
وزراء اور ارکان اسمبلی کے لیے ان فیصلوں کا جواز تلاش کرنا مشکل دیتا ہے اور وہ عوام کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں ۔ حتیٰ کہ حکمرانوں کے انتہائی معتمد ساتھی اور رفیقان ِکار وفاقی وزراء اسحاق ڈار سے لے کر پرویز رشید ، خواجہ آصف ،خواجہ سعد رفیق اور پرویزملک تک پٹرولیم مصنوعات ،بجلی وگیس اور پانی کے نرخوں میں اضافے کے بعدعائد کیے جانے والے ٹیکسوں کی نئی شرح کی وجہ جواز بھی بیان کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اور جب ان سے اس حوالے سے سوال کیا جاتا ہے تووہ جھنجھلاہٹ کاشکار ہو جاتے ہیں اور اس کیفیت کے عالم میں وہ جو حکومتی مجبوری بیان کرتے ہیں عوام کی اس سے تسلی و تشفی نہیں ہو پاتی اور یوں عوام اور حکمران جماعت کے درمیان غیر محسوس طریقے سے ایک فاصلہ پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے ۔
پاکستان مسلم لیگ انتخابات کے بعد سے قدرے جمود کا شکار رہنے کے بعد ایک بار پھر متحرک ہوگئی ہے ۔ اس کے فعال رہنما سابق نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الہٰی نے وطن واپس آکر کوئی وقت ضائع کیے بغیر جماعت کو سیاست میں پھر سے توانا کرنے کے لیے ایکٹویٹی شروع کر دی ہے ۔ گزشتہ دنوں انہوں نے جماعت کا مشاورتی اجلاس طلب کیا جس میں ملک کی موجودہ صورت حال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کی گئی اور گاؤں اور وارڈ کی سطح پر پاکستان مسلم لیگ کی تنظیم سازی کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ۔
جماعت کے صدر سینیٹر چودھری شجاعت حسین، سینئر مرکزی رہنما چودھری پرویزالٰہی اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے ملک کی تازہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی مخالف جماعت کے خوب لتے لیے اور کہا کہ عام انتخابات اور انتخابی وعدوں کا پول کھل گیا ہے، مقبولیت کے سروے شائع کرانے والے اپنے 100 دن کا بھی سروے کرائیں، بجلی اور مہنگائی میزائل مار مار کر عوام کا برا حال کر دیا گیا ہے، اے پی سی کے باوجود دہشت گردی کے مسئلہ پر کچھ نہیں ہوا، عوام سے وعدے پورے کرنے کی بجائے یہ آئی ایم ایف کے وعدے پورے کر رہے ہیں۔
پارٹی کے مشاورتی اجلاس میں چودھری ظہیر الدین، محمد بشارت راجہ، طارق بشیر چیمہ، زین الٰہی، عامر سلطان چیمہ، سردار وقاص اختر مؤکل، حلیم عادل شیخ، میر عبد الکریم نوشیروانی، انتخاب خان چمکنی، ایس ایم ظفر، خالد رانجھا، رانا زاہد توصیف، ملک آصف اعوان، انجینئر شہزاد الٰہی، خدیجہ عمر فاروقی، مسز فرخ خان، حق نواز، نسیم بابر، شیخ سعید احمد، راجہ ناصر محمود، چودھری مقصود احمد، سینیٹر سید دلاور عباس، ریاض اصغر چودھری، شافع حسین، میاں عمران مسعود، نعمان لنگڑیال، عبد اللہ یوسف، ناصر محمود گل، باؤ محمد رضوان، عظیم نوری گھمن، میاں منیر، ڈاکٹر عظیم الدین زاہد، حافظ عمیر، عبد الرشید بوٹی، بلال مصطفٰی شیرازی، ذوالفقار پپن، عالمگیر ایڈووکیٹ، سیمل کامران، ماجدہ زیدی، کنول نسیم، میاں عبدالستار، خالد اصغر گھرال اور دیگر کارکن بڑی تعداد میں موجود تھے۔
اس موقع پر مقررین نے نوازشریف اور شہباز شریف کی حکومتوں پر زبردست تنقید کی اور کہاکہ بھوکے شیر ہر چیز کھا گئے ہیں، حکومت 5 سال نہیں چلے گی، کسی جماعت کا گراف ن لیگ جیسی تیزی سے نہیں گرا۔ جماعت کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے اپنے خطاب میں موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ سابق حکومت (جس میں خود ان کی جماعت بھی شریک تھی ) پر بھی طعن کے تیر برسائے اور کہاکہ پچھلی حکومت کچھ کرنا نہیں چاہتی تھی اور یہ کچھ کر نہیں سکتی، مہنگائی سے تنگ لوگ لالٹین جلانے پر مجبور ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ 100 دن میں کسی بھی معاملہ پر فیصلہ نہیں کر سکے۔
چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف سے نجات حاصل کی تھی لیکن آج آئی ایم ایف سے وعدے پورے کرنے کیلئے یہ ملک میں مہنگائی کا طوفان لے آئے ہیں، عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے تو کجا انہوں نے اب تک اس سمت میں کوئی پیش رفت بھی نہیں کی اور نہ ہی کوئی ہوم ورک سامنے آیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ( قائد اعظم ) نے اپنے اس اجلاس کے ذریعے اپنے کارکنوں اور پاکستانی عوام کو یہ باور کروادیا کہ ان کی جماعت میں ابھی کرنٹ موجود ہے اس لیے مایوس نہ ہوں اچھے دن بھی آئیں گے۔
قائد لیگ کے اس مشاورتی اجلاس کے بعد جس قسم کے اعلانا ت کیے گئے اور عزائم ظاہر کیے گئے ان کے پیش نظر پیپلزپارٹی پس منظر میں جاتی دکھائی دیتی ہے اور محسو س یہ ہوتا ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی حقیقی اپوزیشن کا کردار اب مسلم لیگ ق ہی انجام دے گی اور یہ بات پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں کے لیے چیلنج کا درج رکھتی ہے جو موجودہ حکومت کے مد مقابل خود کو سب سے بڑی جماعت قراردینے کی دعویدار ہیں ۔ آنے والے دن جہاں حکمران جماعت کے لیے عوامی سطح پر مشکل ہوں گے وہاں اپوزیشن جماعتوں کے لیے بھی اہمیت کے حامل ہوں گے کہ انہیں اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے بہر حال کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔
حکومت کی طرف سے عوام پر بجلی گرانے کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے مداخلت کرتے ہوئے واپس لینے پر مجبور کردیا اور واضح کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ غریبوں کی جیب پر ڈاکے کے مترادف ہے جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
سو حکومت نے شرمندگی کا احساس پیدا کیے بغیر اپنا فیصلہ تو واپس لے لیا لیکن اپنی اس سبکی کو دور کرنے اور عوام کو اذیت میں مبتلا رکھنے کے لیے متبادل راستہ اختیار کرلیا اور اس کے بدلے میں درجنوں اشیاء پر دو فیصد اضافی سیلز ٹیکس عائد کردیا جن میں ٹیوب لائٹ، پنکھے ، الیکٹرک سامان ، استری ، اوون، واشنگ مشین ، اے سی ، فریج ، ٹیلی وژن ، آٹو سپئرپارٹس اور بسکٹ ،چاکلیٹ ،ٹافی اور مٹھائی وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ اس طرح حکومت نے ایک ہاتھ سے واپس لے کر دوسرے ہاتھ میں پھر ظلم کا پروانہ تھما دیا ہے اور یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی بنا پر کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف سے نجات پانے کے عزم صمیم کااظہار کرنے والی حکومت نے پہلے تین ماہ میں ہی اسی آئی ایم ایف سے 550 ارب روپے کے قرضے لے لیے ہیں اور مزید لینے کے لیے مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں ۔گویا اس حکومت نے عام آدمی کے منہ سے نوالہ چھیننے کے بعد اب بچوں کے منہ سے ٹافی، چاکلیٹ بھی چھیننا شروع کردیا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ موجودہ حکمران بڑوں اور بچوں میں کوئی امتیاز روا رکھتے ہیں ۔ سرکار کے ان تلخ اور نامقبول فیصلوں سے عوام الناس تو متاثر ہوئے ہی ہیں خود حکمران جماعت کے اہم عہدیدار بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔
وزراء اور ارکان اسمبلی کے لیے ان فیصلوں کا جواز تلاش کرنا مشکل دیتا ہے اور وہ عوام کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں ۔ حتیٰ کہ حکمرانوں کے انتہائی معتمد ساتھی اور رفیقان ِکار وفاقی وزراء اسحاق ڈار سے لے کر پرویز رشید ، خواجہ آصف ،خواجہ سعد رفیق اور پرویزملک تک پٹرولیم مصنوعات ،بجلی وگیس اور پانی کے نرخوں میں اضافے کے بعدعائد کیے جانے والے ٹیکسوں کی نئی شرح کی وجہ جواز بھی بیان کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اور جب ان سے اس حوالے سے سوال کیا جاتا ہے تووہ جھنجھلاہٹ کاشکار ہو جاتے ہیں اور اس کیفیت کے عالم میں وہ جو حکومتی مجبوری بیان کرتے ہیں عوام کی اس سے تسلی و تشفی نہیں ہو پاتی اور یوں عوام اور حکمران جماعت کے درمیان غیر محسوس طریقے سے ایک فاصلہ پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے ۔
پاکستان مسلم لیگ انتخابات کے بعد سے قدرے جمود کا شکار رہنے کے بعد ایک بار پھر متحرک ہوگئی ہے ۔ اس کے فعال رہنما سابق نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الہٰی نے وطن واپس آکر کوئی وقت ضائع کیے بغیر جماعت کو سیاست میں پھر سے توانا کرنے کے لیے ایکٹویٹی شروع کر دی ہے ۔ گزشتہ دنوں انہوں نے جماعت کا مشاورتی اجلاس طلب کیا جس میں ملک کی موجودہ صورت حال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کی گئی اور گاؤں اور وارڈ کی سطح پر پاکستان مسلم لیگ کی تنظیم سازی کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ۔
جماعت کے صدر سینیٹر چودھری شجاعت حسین، سینئر مرکزی رہنما چودھری پرویزالٰہی اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے ملک کی تازہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی مخالف جماعت کے خوب لتے لیے اور کہا کہ عام انتخابات اور انتخابی وعدوں کا پول کھل گیا ہے، مقبولیت کے سروے شائع کرانے والے اپنے 100 دن کا بھی سروے کرائیں، بجلی اور مہنگائی میزائل مار مار کر عوام کا برا حال کر دیا گیا ہے، اے پی سی کے باوجود دہشت گردی کے مسئلہ پر کچھ نہیں ہوا، عوام سے وعدے پورے کرنے کی بجائے یہ آئی ایم ایف کے وعدے پورے کر رہے ہیں۔
پارٹی کے مشاورتی اجلاس میں چودھری ظہیر الدین، محمد بشارت راجہ، طارق بشیر چیمہ، زین الٰہی، عامر سلطان چیمہ، سردار وقاص اختر مؤکل، حلیم عادل شیخ، میر عبد الکریم نوشیروانی، انتخاب خان چمکنی، ایس ایم ظفر، خالد رانجھا، رانا زاہد توصیف، ملک آصف اعوان، انجینئر شہزاد الٰہی، خدیجہ عمر فاروقی، مسز فرخ خان، حق نواز، نسیم بابر، شیخ سعید احمد، راجہ ناصر محمود، چودھری مقصود احمد، سینیٹر سید دلاور عباس، ریاض اصغر چودھری، شافع حسین، میاں عمران مسعود، نعمان لنگڑیال، عبد اللہ یوسف، ناصر محمود گل، باؤ محمد رضوان، عظیم نوری گھمن، میاں منیر، ڈاکٹر عظیم الدین زاہد، حافظ عمیر، عبد الرشید بوٹی، بلال مصطفٰی شیرازی، ذوالفقار پپن، عالمگیر ایڈووکیٹ، سیمل کامران، ماجدہ زیدی، کنول نسیم، میاں عبدالستار، خالد اصغر گھرال اور دیگر کارکن بڑی تعداد میں موجود تھے۔
اس موقع پر مقررین نے نوازشریف اور شہباز شریف کی حکومتوں پر زبردست تنقید کی اور کہاکہ بھوکے شیر ہر چیز کھا گئے ہیں، حکومت 5 سال نہیں چلے گی، کسی جماعت کا گراف ن لیگ جیسی تیزی سے نہیں گرا۔ جماعت کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے اپنے خطاب میں موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ سابق حکومت (جس میں خود ان کی جماعت بھی شریک تھی ) پر بھی طعن کے تیر برسائے اور کہاکہ پچھلی حکومت کچھ کرنا نہیں چاہتی تھی اور یہ کچھ کر نہیں سکتی، مہنگائی سے تنگ لوگ لالٹین جلانے پر مجبور ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ 100 دن میں کسی بھی معاملہ پر فیصلہ نہیں کر سکے۔
چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف سے نجات حاصل کی تھی لیکن آج آئی ایم ایف سے وعدے پورے کرنے کیلئے یہ ملک میں مہنگائی کا طوفان لے آئے ہیں، عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے تو کجا انہوں نے اب تک اس سمت میں کوئی پیش رفت بھی نہیں کی اور نہ ہی کوئی ہوم ورک سامنے آیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ( قائد اعظم ) نے اپنے اس اجلاس کے ذریعے اپنے کارکنوں اور پاکستانی عوام کو یہ باور کروادیا کہ ان کی جماعت میں ابھی کرنٹ موجود ہے اس لیے مایوس نہ ہوں اچھے دن بھی آئیں گے۔
قائد لیگ کے اس مشاورتی اجلاس کے بعد جس قسم کے اعلانا ت کیے گئے اور عزائم ظاہر کیے گئے ان کے پیش نظر پیپلزپارٹی پس منظر میں جاتی دکھائی دیتی ہے اور محسو س یہ ہوتا ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی حقیقی اپوزیشن کا کردار اب مسلم لیگ ق ہی انجام دے گی اور یہ بات پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں کے لیے چیلنج کا درج رکھتی ہے جو موجودہ حکومت کے مد مقابل خود کو سب سے بڑی جماعت قراردینے کی دعویدار ہیں ۔ آنے والے دن جہاں حکمران جماعت کے لیے عوامی سطح پر مشکل ہوں گے وہاں اپوزیشن جماعتوں کے لیے بھی اہمیت کے حامل ہوں گے کہ انہیں اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے بہر حال کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔