وزیراعظم نوازشریف کی دورہ امریکا کےدوران اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں

عوامی شکایت کوبھانپتے ہوئے خاتون اول بیگم کلثوم نواز شریف بھی وزیراعظم نواز شریف حمایت میں بول پڑیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے کے دورہ امریکا کے دوران خارجہ جان کیری اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کے علاوہ ایکسپریس سے بھی خصوصی گفتگو کی۔ فوٹو: فائل

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کے تیسری بار وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے ابتدائی چند یوم کے بعد ہی عوام اور میڈیا کی جانب سے یہ شکایت عام ہو گئی کہ وزیراعظم پاکستان ہر وقت متفکر رہتے ہیں اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ نام کی چیز نظر نہیں آتی۔

اس بڑھتی ہوئی عوامی شکایت کوبھانپتے ہوئے خاتون اوّل بیگم کلثوم نواز شریف بھی بول پڑیں، انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف ملکی مسائل کا انبار دیکھ کر پریشان ہیں اور میں بھی وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھی ملکی مسائل کے حل کے لیے دعائیں کرتی رہتی ہوں۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے چار ماہ مکمل ہونے کے بعد پوری قوم پر صورتحال واضح ہوتی جا رہی ہے کہ مسائل بھی ان گنت ہیں اور حکمران بھی بدستور الجھے ہوئے ہیں۔ الجھاؤ کا یہ سلسلہ محض اسلام آباد حکومت تک محدود نہیں۔ پشاور سے شروع ہونے والا بدامنی، دہشت گردی، لاقانونیت، افراتفری اور حکومتی بدحواسی کا یہ سلسلہ اسلام آباد سے ہوتا ہوا کوئٹہ اور کراچی تک پھیلا ہوا ہے۔ صحت، تعلیم، پینے کا صاف پانی اور نکاسی آب جس میں بنیادی ضرورتوں سے غافل حکومتوں کے مسائل کی جڑ لاقانونیت اور بدامنی ہے اور اس کی وجہ دہشت گردی کے علاوہ کچھ نہیں۔

وزیراعظم نواز شریف کے دورۂ امریکا کے دوران ان کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات کی بات کی جائے یا بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات و مذاکرات کا تذکرہ، نکتہ آغاز و اختتام گفتگو دہشت گردی رہا اور اس کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں حکومت پاکستان کا کردار ہی تھا۔ خوش آئند بات یہ رہی کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو درپیش چیلنجز اور مسائل کے بھنور سے اگر کوئی نکال سکتا ہے تو وہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف ہیں۔

ادھر بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو بھارتی حیلوں بہانوں کے باوجود مذاکرات کی میز پر لانا بھی وزیراعظم نواز شریف کی بڑی کامیابی ہے حالانکہ بھارت کی اندرونی انتخابی سیاست کے بوجھ تلے دبے من موہن سنگھ نیو یارک میں پاکستان کے وزیراعظم سے اپنی ملاقات کو رسمی کارروائی سے زیادہ کا درجہ نہ دینا چاہتے تھے مگر وزیراعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم کی کامیاب سفارت کاری کے باعث انہیں نہ صرف مذاکرات کی میز پر آ کے بیٹھنا پڑا بلکہ پوائنٹ ٹو پوائنٹ دو طرفہ معاملات پر بات بھی کرنا پڑی۔


اب لائن آف کنٹرول کے حوالے سے سیز فائر معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کو بیٹھنا ہو گا اور آئندہ کے لیے طریقہ کار طے کرنا ہو گا۔ دونوں ممالک کے ذمہ داران کے پاس معاملات طے کرنے کے لیے وقت اس حوالے سے بہت کم ہے کہ نومبر کے وسط میں سری لنکا میں ہونے والے کامن ویلتھ ممالک کے سربراہان کے اجلاس کے موقع پر ایک بار پھر من موہن سنگھ اور نواز شریف کی ملاقات یقینی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف خارجی معاملات میں دورۂ چین و ترکی میں بھی امیدوں، وعدوں اور دو طرفہ تعاون کے سمجھوتوں کے لاتعداد بیج بو آئے مگر جب تک ان کی اپنی حکومتی مشینری اور یہاں امن عامہ کی صورتحال بہتر نہ ہو گی ترقی و خوشحالی کے خوابوں کی تعبیر ممکن نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف با رہا حکومتی مشینری کے زنگ آلود ہونے کی شکایت کر چکے ہیں مگر اب عوام یہ عذر بھی زیادہ دیر تک سننے کے لیے تیار نہیں کہ انھیں عنان اقتدار سنبھالے چار ماہ ہو گئے، حالات جیسے بھی ہوں انہیں درست سمت پہ ڈالتے ہوئے مثبت نتائج برآمد کرنے کے امتحان سے اب وزیراعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم کو ہی گزرنا ہے۔

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئی تعیناتی اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مزید توسیع میں عدم دلچسپی کے اظہار کے بعد حکومت ایک بار پھر گومگو کا شکار اور سوچ بچار و مشاورت کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ تمام تر اندرونی و بیرونی دباؤ و مجبوریوں کے باوجود حتمی فیصلہ تو وزیراعظم نواز شریف کو ہی کرنا ہے۔ البتہ اس میں تاخیر سے قیاس آرائیوں اور افواہ سازی کی فیکٹریوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اپنی ریٹائرمنٹ سے پچاس روز قبل از خود یہ اعلان کیوں کرنا پڑا کہ وہ مزید توسیع لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ اس ساری افراتفری کا تعلق وزیراعظم نواز شریف کے 23 اکتوبر کے دورۂ واشنگٹن سے ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے 2014 ء میں خوش اسلوبی سے انخلاء کے دوران پاکستان کی ممکنہ معاونت تو محض ایک عذر ہے۔

درحقیقت امریکہ خطے میں بھارت چین، ایران اور روس جیسی طاقتوں کے اثر و رسوخ اور معاملات سے لاتعلق رہ کر عالمی سیاست میں اپنا تسلط قائم رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور ایسی صورت میں ایٹمی طاقت کے حامل متحرک اور فعال پاکستان سے سیاسی و سفارتی تعلقات رکھنا امریکہ کی مجبوری ہے اور اس بات کا احساس ہمارے وزارت خارجہ کے ذمہ داران اور حکمرانوں کو بھی ہے اسی لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68 ویں سیشن کے دوران اپنے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے واشگاف الفاظ میں اقوام عالم کے سامنے امریکہ سے یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان پر ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔

وہ جب یہ مطالبہ کر رہے تھے تو ان کے پراعتماد لہجے کے پیچھے گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس اور اس میں شامل سیاسی پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے دیا گیا بھرپور مینڈیٹ تھا۔ پاکستان کو بدامنی دہشت گردی، لاقانونیت، بے روزگاری اور بنیادی انسانی ضرورتوں سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی پوری قوم کو یوں ہی یک زبان اور یک جان ہو کر آگے بڑھنا ہو گا ، ورنہ ان مسائل کا حل ایک وزیراعظم، ایک کابینہ اور ایک حکومت کے بس کی بات نہیں۔
Load Next Story