پشاور میں پولیو مرکز کے سامنے بم دھماکا

پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں بنیادی مرکز صحت کے سامنے بم دھماکے میں دو پولیس اہلکار شہید...

خیبر پختونخوا میں پولیو ٹیموں پر حملے نئی بات نہیں‘ اس سے قبل کئی ٹیموں پر حملے ہو چکے ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں بنیادی مرکز صحت کے سامنے بم دھماکے میں دو پولیس اہلکار شہید جب کہ پولیس کے 10 قومی رضاکار زخمی ہو گئے جن میں بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکا اس وقت ہوا جب مرکز صحت میں انسداد پولیو ٹیم کے ارکان جمع تھے۔ دھماکے کے باعث علاقے میں پولیو کی مہم معطل کر دی گئی، رضاکار وں نے خوف کے باعث کام سے انکار کر دیا ہے۔ عسکریت پسند تنظیم جند اللہ نے بڈھ بیر میں دھماکے کی ذمے داری قبول کر لی۔ ایک نجی ٹی وی کے حوالے سے اخبارات میں جند اللہ کے ترجمان حامد مروت کا بیان شایع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پولیو ورکرز اور ان کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار ان کے نشانے پر ہیں اور وہ مستقبل میں بھی انھیں نشانہ بناتے رہیں گے۔


خیبر پختونخوا میں پولیو ٹیموں پر حملے نئی بات نہیں' اس سے قبل کئی ٹیموں پر حملے ہو چکے ہیں۔ کراچی میں بھی پولیو ورکرز پر حملے ہوئے ہیں تاہم خیبرپختونخوا میں زیادہ تواتر سے پولیو ورکرز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دہشت گرد اپنے اہداف کو آزادانہ طور پر ہِٹ کر رہے ہیں اور انھیں اس سلسلے میں کسی قسم کی رکاوٹ درپیش نہیں ہے۔ پشاور صوبے کا دارالحکومت ہے لیکن یہ شہر قبائلی علاقوں کے ساتھ واقع ہے' یہاں قبائلی علاقوں سے لوگ آتے ہیں اور انھیں چیک کرنا پولیس کے بس کی بات نہیں ہے۔ عام قبائلیوں کے ساتھ دہشت گرد بھی شہر میں آتے ہیں لہٰذا انھیں شناخت کرنا ممکن نہیں ہے۔ پولیس انٹیلی جنس بھی زوال کا شکار ہے' انگریز کے زمانے میں بندوبستی علاقوں میں پولیس انٹیلی جنس کا معیار بہت بلند تھا' اس طرح فاٹا میں بھی انٹیلی جنس سسٹم بڑا فعال تھا۔ فاٹا میں کوئی شخص اگر غلط کام کرتا تو وہ ملکان مشران کی نظروں سے بچ نہیں سکتا تھا اور وہ اس وقت پولیٹیکل ایجنٹ کو اس کی اطلاع دینے کے پابند ہوتے تھے۔

اگر کوئی ملک یا مشر اپنے فرائض ادا نہیں کرتا تھا تو پولیٹیکل ایجنٹ اس سے باز پرس کرتا تھا' یوں ایک موثر انٹیلی جنس سسٹم ہونے کی وجہ سے بندوبستی اور قبائلی علاقوں میں امن تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد سسٹم زوال کا شکار ہوا اور اب مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ بدقسمتی سے حکومتی سطح پر دہشت گردی کو بھی عمومی نوعیت کا جرم سمجھا جا رہا ہے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں ہو رہی' وزیراعلیٰ ہر حادثے کے بعد تحقیقات کا حکم دے کر فارغ ہو جاتے ہیں یا مرنے والوں کے لواحقین کو کچھ رقم دینے کا اعلان کر دیتے ہیں' مرکز میں وزیر اعظم اور صدر بھی اسی روایت پر عمل کرتے ہیں اور مذمتی بیان جاری کر کے خاموش ہو جاتے ہیں' جب تک دہشت گردی کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھ کر پالیسی تشکیل نہیں دی جاتی' اس عفریت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
Load Next Story