فریضہ شادی ایک ذمے داری

ابھی کچھ روز پہلے کے اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر چھپی تھی، یہ خبر خیرپور سے تھی جہاں ایک محبت کرنے...


Shehla Aijaz October 08, 2013

ابھی کچھ روز پہلے کے اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر چھپی تھی، یہ خبر خیرپور سے تھی جہاں ایک محبت کرنے والے جوڑے نے اپنی پسند سے شادی کر لی لیکن ان کی برادری کے بااثر افراد نے حاجرہ اور ممتاز کے قتل کا فیصلہ کر دیا، یہ فیصلہ ان کی اپنی عدالت یعنی پنچایت نے انجام دیا، ان دونوں نے اپنی مدد کے لیے صحافیوں سے درخواست کی، کیوں کہ ان کی برادری کے کچھ حضرات ہتھیار اٹھائے انھیں تلاش کر رہے ہیں، جس سے ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انھیں قانونی تحفظ دے کر بچایا جائے۔ قانونی تحفظ فراہم کرنا ویسے تو قانونی اداروں کا کام ہے لیکن لوگوں کا ہمارے قانونی اداروں پر سے کچھ اس طرح سے اعتماد اٹھا کہ اب وہ نہتے صحافیوں پر زیادہ بھروسہ کرنے لگے ہیں۔

اس طرح کی خبر ہر دوسرے تیسرے دن ملک بھر کے اخبارات میں چھپتی رہتی ہے، نام ذرا مختلف ہوتا ہے، کبھی طاہرہ تو کبھی کنول، کبھی امجد تو کبھی ظفر، کبھی خیر پور تو کبھی سکھر، فیصل آباد یا اسلام آباد یہ ہم سب کے لیے نئی خبریں نہیں ہیں لیکن ہم اب ان خبروں کے عادی سے ہو چکے ہیں کیونکہ ہم اپنی روایات، اقدار، خاندانی تعصبات اور اونچ نیچ کے تاروں میں الجھے رہتے ہیں۔ شادی بیاہ ہمارے نزدیک کسی کی پوری زندگی کا اہم معاملہ نہیں بلکہ روز مرہ کی ایک ایسی بات بن چکا ہے جیسے کھلے میدانوں میں بکریاں چرانا ایک ساتھ اپنی متعین راہ پر اور جو ذرا بھی ادھر ادھر ہوئی تو اسے چرواہا ڈنڈوں سے اچھی طرح سبق سکھا دیتا ہے، کیونکہ چرواہے کو علم ہوتا ہے کہ یہ جانور اس کے لیے قیمتی ہے، اس سے وہ ہر حال میں فائدہ اٹھاتا ہے، لہٰذا اسے مارنا اور کنٹرول میں رکھنا کافی ہے لیکن انسانی جانیں ان بے زبان جانوروں سے بھی کہیں زیادہ سستی ہوتی ہیں جنھیں اپنی متعین راہ سے ادھر ادھر ہونے کی سزا اپنی جان کی صورت میں ادا کرنا پڑ جاتی ہے۔ آخر کب تک ہم اس طرح اپنے بچوں کے ساتھ کرتے رہیں گے، ترقی کے اس دور میں بھی دور جہالت کی طرح اپنے بچوں کی جانوں سے کھیلتے رہیں گے۔

حال ہی میں ایک کام کی غرض سے لاہور جانا ہوا، جہاں خیر سے محبتوں کا حال کراچی کے مقابلے میں خاصا بہتر ہے، خدا کا شکر ہے کہ لوگ بھی خیال کرتے ہیں کہ کراچی سے آئے ہیں بے چارے۔ درد کے مارے! اب ان کے اس بے چارے پن میں اور کیا چھپا ہوتا ہے، خیر جانے دیں۔ ہمارے شہر کے مسائل نے تو ہمیں دنیا بھر میں بے چارا بنا دیا ہے، بہرحال ایک بہت اچھے عزیز جن کا بائیس تئیس برس کا بیٹا بہت محبت والا خیر سے شادی شدہ ہو چکا ہے، اسے مبارکباد دی تو اس کے چہرے پر سوائے شرمندگی کے کچھ اور نہ دکھائی دیا، بیگم سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو کہنے لگا آپی چھوڑیں ! کیا کریں گی۔ اس کی بڑی بہن سے ہماری خاصی دوستی ہے، اتفاقاً اس کی بیگم سے ملاقات ہو گئی تو دل بے چین سا ہو گیا، اس لڑکے کی ابھی پڑھنے لکھنے کی عمر تھی خیر والدین نے بڑی بیٹی کے بیاہ کے بعد گھر سنسان ہونے کی وجہ سے اگر شادی کر بھی دی تو ایسا ہو ہی جاتا ہے لیکن حقیقتاً دونوں میاں بیوی میں اتنا واضح فرق دیکھ کر ذرا بھی خوشی نہ ہوئی، نہ عمر، شکل و صورت نہ تعلیم آخر کیا دیکھا۔

یہ سوال مجھ سے اس کی اپنی ممانی کر رہی تھیں اور جب وہ شام کو لوٹا اور میں نے اسے بتایا کہ ہم آپ کی بیگم صاحبہ سے مل ہی لیے ہیں تو اس کے تاثرات اور بھی حیران کن تھے کہنے لگا آپی! آپ کو الٹی نہیں ہوئی۔ یہ ایک معصوم نوجوان کے دلی جذبات تھے جو اس نے مجھ سے شیئر کیے۔ ایک لمبی زندگی اسے اسی خاتون کے ساتھ گزارنی ہے جو اس کی اپنی سگی چچی کی چھوٹی بہن بھی ہے، یہ رشتے داریاں، وعدے، عہد، زبان، آخر ہم کب تک اپنی اولاد کو ان الفاظ کے مذبح خانوں میں ذبح کرتے رہیں گے۔ وہ معصوم سا پیارا سا لڑکا جو اپنی زبان سے کم اور اپنی خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں سے زیادہ بولتا ہے، کیا اس کے والد نے اس کی آنکھوں میں کوئی شکوہ کوئی شکایت نہ پڑھی تھی؟ اس کے خواب نہیں ٹٹولے تھے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ بہو دراصل ان کے والد کی پسند ہے۔ کتنی عجیب بات ہے، پسند والد کی اور زندگی بیٹے نے گزارنی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ملک میں ارینجڈ میرجز کا رواج ہے جو یقیناً بہترین ہے لیکن اگر اس ارینجمنٹ میں بچوں کو بھی شامل کر لیں تو کیا اچھا نہیں رہے گا؟

ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے اگر اپنی مرضی کے بغیر یعنی ہماری مرضی کے مطابق زندگی گزاریں گے تو ان کی زندگی میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، سب سکون ہی سے گزارے گا لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین خاص کر والدہ کی اپنی پسند کے مطابق اپنی بھانجی، بھتیجی کو بیاہ کے گھر لے آتی ہے اور جو لڑکی شادی سے پہلے خالہ جی یا پھوپھو جی کہہ کہہ کر آگے پیچھے پھرتی تھی گھر بیاہ کر لانے کے بعد خالہ جی یا پھوپھو جی کو ایک کونے میں بٹھا دیا گیا اور وہ اپنے بیٹے کی صورت کو بھی ترس گئی، بعد میں بیٹے کو جورو کا غلام جیسے خطابات کا تاج بھی پہنا دیا جاتا ہے، لیکن اگر اس اہم فریضے کو رشتے داریاں، بوجھ بانٹنا، وٹہ سٹہ اور عہد و وفا کے خانوں سے الگ کر کے زندگی کا سب سے اہم عمل سمجھ لیا جائے تو جیسے والدین اور بچوں کی رضا کے ساتھ مل کر طے کیا جائے تو بہتر رہے گا۔

والدین کے لیے محبت کی شادی جیسا بڑا پتھر اولاد کی طرف سے سمجھا جانا ہی اس معاشرے کی سب سے بڑی روایت ہے محبت کرنا گناہ تو نہیں ویسے تو ایک اچھا ڈائیلاگ ہے لیکن اگر حقیقت کی آنکھوں سے دیکھا جائے تو اتنا کڑوا بھی نہیں اور اگر دوسری جانب تمام خصوصیات واضح نظر آ رہی ہوں تو اسے پی لینا اتنا بھی بدذائقہ نہیں ہوتا لیکن اسی وہم کو ہمیشہ کے لیے دل کے ساتھ باندھ لینا کہ بیٹا اپنی پسند کی بیوی لایا ہے زیادتی ہوتی ہے، بے چاری آنے والی زیادتی کی اس چکی میں ساری زندگی پستی رہتی ہے۔ ہمارے مذہب میں زبردستی کی شادی کو ہرگز بھی جائز نہیں قرار دیا گیا ہے، یہاں تک کہ نکاح میں بھی لڑکے کے نام کو واضح طور پر اس کے والد کے نام کے ساتھ پکار کر ''کیا تمہیں قبول ہے'' کہا جاتا ہے تا کہ لڑکی کی جانب سے کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش ہی نہ رہے اور اس کے ایجاب و قبول کے بعد ہی مبارکبادی کا شور بلند ہوتا ہے لیکن جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جا رہا ہے ہم پیچھے کی جانب لوٹ رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ ہمارے ایک اچھے بھلے پڑھے لکھے جاننے والے نے اپنے اکلوتے صاحبزادے کی شادی خاصی ماڈرن قسم کی لڑکی سے کر دی۔ صاحبزادہ ویسے خود بھی دیکھنے میں مغربی رنگ میں ڈوبے دکھائی دیتے تھے لیکن حقیقتاً خاصے مشرقی تھے اور اسی طرح کی لڑکیاں پسند کرتے تھے، لڑکے کو ساڑھی پسند نہ تھی لیکن جو دلہن والدین نے دلوائی وہ محترمہ ٹائٹ اسکرٹ تک پہنتی تھی۔ ظاہر ہے کہ امریکا آنا جانا تھا بہرحال لڑکی فرنگی انداز کی اور لڑکا مشرقی انداز کا، دونوں کی ذہنیت میں بہت فرق تھا لڑکا ناخوش اور لڑکی اتھرے بیل کی مانند۔ بعد میں والدہ کو اپنے بیٹے سے کی گئی زیادتی کا بہت احساس ہوا لیکن آکاس بیل میں انھوں نے اسے الجھا دیا تھا۔ والدین کی زندگی تو گزر ہی جاتی ہیں لیکن وہ اپنے مقام کو مزید بلند کرنے کی خاطر جس طرح اپنی اولاد کی بھینٹ چڑھاتے ہیں، کاش اس سے پہلے وہ ٹھنڈے دل سے ذرا سوچ لیا کریں کہ جوڑے بنانے والا اوپر بیٹھا ہے جو دلوں کی سرگوشیاں بھی سن لیتا ہے تو پھر اس اہم فریضہ زندگی میں نہ موم کی طرح پگھل جائیں اور نہ پتھر کی طرح سخت ہو جائیں کہ اولاد خدا کی نعمت ہے ناشکری نہ کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔