زمینی حقائق کے مطابق
دنیا کے مہذب اور جمہوری و باشعور معاشروں میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی جمہوری حکومتوں کی ...
دنیا کے مہذب اور جمہوری و باشعور معاشروں میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی جمہوری حکومتوں کی پہلی ترجیح اپنے عوام کے مسائل حل کرنا اور مشکلات و مصائب کم کرنے کے لیے تعمیری اقدامات اٹھانا ہوتی ہے ایک پر اعتماد اور عادلانہ سماجی نظام کی تشکیل میں برسر اقتدار کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ارباب اقتدار پارلیمنٹ سے ایسے جامع قوانین ٹھوس اور دور رس نتائج کی حامل پالیسیاں منظور کرواتے ہیں جن کے نفاذ سے نہ صرف عوام الناس کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے منصوبے فروغ پاتے ہیں بلکہ داخلی سطح پر ملک کو پیش چیلنجوں سے عہدہ برأ ہونے کی راہیں بھی نکلتی ہیں۔
حکومتی اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہونے سے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے اور عوام میں اپنے رہنماؤں اور حکومتوں کا اعتبار بھی قائم رہتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اول تو جمہوریت کو استحکام ہی حاصل نہ ہو سکا تین عشروں تک تو فوجی جرنیلوں نے اپنے ''جوہر'' دکھائے اور جو وقت جمہوری نظام کو ملا بھی تو کسی منتخب جمہوری حکومت کو اطمینان کے ساتھ آئینی مدت تک کام کرنے کے مواقعے نہیں ملے ملک کے مخصوص ''سیاسی کلچر'' کے باعث محلاتی سازشوں کے ذریعے برسر اقتدار جمہوری حکمرانوں کی ٹانگیں کھینچی جاتی رہیں نتیجتاً روز اول سے پس پردہ سرگرم چیرہ دست عناصر نے اپنے ''چیلوں'' کو متحرک کر کے آئینی مدت کی تکمیل سے قبل ہی منتخب جمہوری حکومتوں کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، لیکن ان پانچ سالوں میں پی پی پی حکومت کو قدم بہ قدم مشکلات، آزمائشوں، پریشانیوں اور رکاوٹوں کے کتنے دریاؤں کا سامنا کرنا پڑا اب یہ سب تاریخ کا حصہ ہے تاہم جمہوری نظام کی اس تاریخی کامیابی میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی مفاہمتی پالیسی کے تحت جس سیاسی بصیرت، دور اندیشی، تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں، جمہوری استحکام کو آگے بڑھاتے ہوئے طریقہ کار کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کے نتیجے میں سامنے آنے والی منتخب سیاسی قیادت کو پر امن جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی سے ملک میں جمہوریت کو استحکام ملا لیکن 11 مئی کے الیکشن میں کامیاب ہو کر برسر اقتدار آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے بلند بانگ دعوؤں اور وعدوں کے باوجود عوام کی امیدوں پر پورا اترنے میں کامیاب نہ ہو سکی یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی سے لے کر معاشی بحران تک اور لوڈشیڈنگ سے لے کر عوامی توقعات تک ہر شعبے میں نواز حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔
ملک بھر میں بجلی و پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آسمان کو چھوتے ہوئے حالیہ خوفناک اضافے نے بھلے سے غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور پسماندگی سے تنگ آئے ہوئے کروڑوں غریبوں اور محدود آمدنی والے پسماندہ طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے ان کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے گھروں میں فاقوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ یہ عام اور معصوم سی حقیقت ہے کہ بجلی و تیل کی قیمتوں میں اضافے سے اشیا کے پیداواری اخراجات میں لازمی اضافہ ہو جاتا ہے جسے مالکان عام صارف پر منتقل کر کے اپنا نفع برقرار رکھتے ہیں جب کہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ صارف کی قوت خرید لامحالہ متاثر ہوتی ہے اور روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں بھی اس کی دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں نتیجتاً وہ نان شبینہ کو بھی محتاج ہو جاتا ہے۔
نواز حکومت نے اپنی چار ماہ کی مختصر مدت میں چار مرتبہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گویا اوسطاً ہر ماہ ایک مرتبہ اضافہ کیا گیا حیرت کی بات یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں بھارت نے اس کمی کا فائدہ عوام کو پہنچاتے ہوئے تیل کی قیمتوں میں 3.66 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا جب کہ پاکستان میں 5.57 روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا گیا جو سراسر ظلم اور ناانصافی کے مترادف ہے نواز حکومت نے بجلی کے نرخ میں بھی ریکارڈ اضافہ کیا اور سبسڈی ختم کر دی ایک محتاط اندازے کے مطابق نچلے متوسط طبقے کے بجلی کے بلوں میں 140 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کے غریب عوام پر مہنگائی و گرانی کے تابڑ توڑ ڈرون حملوں پر عدالت عظمیٰ نے بھی نوٹس لے لیا ہے اور حکومت کو خبردار کیا ہے کہ عدالت عوام پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ مہنگائی کے اس سونامی کے باعث لوگ آج پی پی پی حکومت کو یاد کر رہے ہیں جس نے مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود صورت حال کو کنٹرول میں رکھا جب کہ نواز حکومت نے پی پی پی جیسی کسی مشکل کا سامنا نہیں کیا ایوان صدر سے ایوان عدل تک پارلیمان کے بھاری مینڈیٹ سے طالبان سے مفاہمت تک ان کے پاس سیاسی طاقت موجود ہے۔
اس کے باوجود اگر میاں صاحب کی حکومت Deliver نہ کرے تو عوام سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں۔بی بی سی نے اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ انتخابی کامیابی کے بعد عوام کو میاں صاحب سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ ان کی حکومت بہت جلد شدت پسندی، معاشی زبوں حالی، انرجی کے بحران اور کمزور خارجہ پالیسی جیسے مسائل پر قابو پا لے گی لیکن ہوا اس کے برعکس کیونکہ معیشت آج بھی مفلوج ہے، روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، مہنگائی کا گراف اوپر جا رہا ہے، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، بجلی کا بحران اپنی جگہ موجود بلکہ روز افزوں ہے اور شدت پسندی کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی طالبان سے مذاکرات کا مسئلہ ہنوز حل طلب ہے جب کہ بلوچ مزاحمت کار بھی مسلسل اپنا دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ بی بی سے نے خارجہ امور کے حوالے سے اپنے تبصرے میں مزید کہا کہ صرف بھارت کے ساتھ ہی تعلقات بہتر بنانے میں نواز حکومت کسی قدر سرگرم دکھائی دیتی ہے لیکن اس میں بھی بھارت کے مقابلے میں پاکستانی حکومت کی دلچسپی کو زیادہ دخل ہے جو بھارت کے ساتھ صنعتی و تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے کوشاں ہے حالانکہ سرحد پر کشیدگی برقرار اور کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
بی بی سی کا تبصرہ نواز حکومت کی چار ماہ کی جملہ کارکردگی کا عکاس ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بی بی سی کا تبصرہ برمحل اور حقائق پر مبنی ہے۔ جیسا کہ نیویارک میں چند ماہ کے مہمان بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کے لیے پاکستانی حکمران کی بیقراری ظاہر کرتی ہے کہ وہ اس ملاقات سے پاک بھارت تعلقات میں ''بریک تھرو'' کی توقع کر رہے تھے حیران کن طور پر ملاقات کے بعد بھی خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں جب کہ منموہن نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران پاکستان پر روایتی الزامات کا سلسلہ جاری رکھا اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بھی قرار دیا پھر نواز منموہن ملاقات سے محض چند ہفتے قبل بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے تو پاک فوج اور آئی ایس آئی پر الزامات لگاکر تو گویا انتہا کر دی ادھر سابق بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے ان اعترافات کہ انھوں نے خفیہ فوجی فنڈ سے ٹی ایس ڈی نامی انٹیلی جنس یونٹ قائم کیا تھا جس کا مقصد پاکستان میں وارداتیں کرنا تھا۔ گویا حجت تمام کر دی اس پس منظر میں پاک بھارت تعلقات میں کسی بریک تھرو کی توقع عبث ہے۔ لازم ہے کہ حکمراں زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کریں۔
حکومتی اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہونے سے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے اور عوام میں اپنے رہنماؤں اور حکومتوں کا اعتبار بھی قائم رہتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اول تو جمہوریت کو استحکام ہی حاصل نہ ہو سکا تین عشروں تک تو فوجی جرنیلوں نے اپنے ''جوہر'' دکھائے اور جو وقت جمہوری نظام کو ملا بھی تو کسی منتخب جمہوری حکومت کو اطمینان کے ساتھ آئینی مدت تک کام کرنے کے مواقعے نہیں ملے ملک کے مخصوص ''سیاسی کلچر'' کے باعث محلاتی سازشوں کے ذریعے برسر اقتدار جمہوری حکمرانوں کی ٹانگیں کھینچی جاتی رہیں نتیجتاً روز اول سے پس پردہ سرگرم چیرہ دست عناصر نے اپنے ''چیلوں'' کو متحرک کر کے آئینی مدت کی تکمیل سے قبل ہی منتخب جمہوری حکومتوں کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، لیکن ان پانچ سالوں میں پی پی پی حکومت کو قدم بہ قدم مشکلات، آزمائشوں، پریشانیوں اور رکاوٹوں کے کتنے دریاؤں کا سامنا کرنا پڑا اب یہ سب تاریخ کا حصہ ہے تاہم جمہوری نظام کی اس تاریخی کامیابی میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی مفاہمتی پالیسی کے تحت جس سیاسی بصیرت، دور اندیشی، تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں، جمہوری استحکام کو آگے بڑھاتے ہوئے طریقہ کار کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کے نتیجے میں سامنے آنے والی منتخب سیاسی قیادت کو پر امن جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی سے ملک میں جمہوریت کو استحکام ملا لیکن 11 مئی کے الیکشن میں کامیاب ہو کر برسر اقتدار آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے بلند بانگ دعوؤں اور وعدوں کے باوجود عوام کی امیدوں پر پورا اترنے میں کامیاب نہ ہو سکی یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی سے لے کر معاشی بحران تک اور لوڈشیڈنگ سے لے کر عوامی توقعات تک ہر شعبے میں نواز حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔
ملک بھر میں بجلی و پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آسمان کو چھوتے ہوئے حالیہ خوفناک اضافے نے بھلے سے غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور پسماندگی سے تنگ آئے ہوئے کروڑوں غریبوں اور محدود آمدنی والے پسماندہ طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے ان کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے گھروں میں فاقوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ یہ عام اور معصوم سی حقیقت ہے کہ بجلی و تیل کی قیمتوں میں اضافے سے اشیا کے پیداواری اخراجات میں لازمی اضافہ ہو جاتا ہے جسے مالکان عام صارف پر منتقل کر کے اپنا نفع برقرار رکھتے ہیں جب کہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ صارف کی قوت خرید لامحالہ متاثر ہوتی ہے اور روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں بھی اس کی دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں نتیجتاً وہ نان شبینہ کو بھی محتاج ہو جاتا ہے۔
نواز حکومت نے اپنی چار ماہ کی مختصر مدت میں چار مرتبہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گویا اوسطاً ہر ماہ ایک مرتبہ اضافہ کیا گیا حیرت کی بات یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں بھارت نے اس کمی کا فائدہ عوام کو پہنچاتے ہوئے تیل کی قیمتوں میں 3.66 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا جب کہ پاکستان میں 5.57 روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا گیا جو سراسر ظلم اور ناانصافی کے مترادف ہے نواز حکومت نے بجلی کے نرخ میں بھی ریکارڈ اضافہ کیا اور سبسڈی ختم کر دی ایک محتاط اندازے کے مطابق نچلے متوسط طبقے کے بجلی کے بلوں میں 140 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کے غریب عوام پر مہنگائی و گرانی کے تابڑ توڑ ڈرون حملوں پر عدالت عظمیٰ نے بھی نوٹس لے لیا ہے اور حکومت کو خبردار کیا ہے کہ عدالت عوام پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ مہنگائی کے اس سونامی کے باعث لوگ آج پی پی پی حکومت کو یاد کر رہے ہیں جس نے مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود صورت حال کو کنٹرول میں رکھا جب کہ نواز حکومت نے پی پی پی جیسی کسی مشکل کا سامنا نہیں کیا ایوان صدر سے ایوان عدل تک پارلیمان کے بھاری مینڈیٹ سے طالبان سے مفاہمت تک ان کے پاس سیاسی طاقت موجود ہے۔
اس کے باوجود اگر میاں صاحب کی حکومت Deliver نہ کرے تو عوام سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں۔بی بی سی نے اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ انتخابی کامیابی کے بعد عوام کو میاں صاحب سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ ان کی حکومت بہت جلد شدت پسندی، معاشی زبوں حالی، انرجی کے بحران اور کمزور خارجہ پالیسی جیسے مسائل پر قابو پا لے گی لیکن ہوا اس کے برعکس کیونکہ معیشت آج بھی مفلوج ہے، روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، مہنگائی کا گراف اوپر جا رہا ہے، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، بجلی کا بحران اپنی جگہ موجود بلکہ روز افزوں ہے اور شدت پسندی کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی طالبان سے مذاکرات کا مسئلہ ہنوز حل طلب ہے جب کہ بلوچ مزاحمت کار بھی مسلسل اپنا دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ بی بی سے نے خارجہ امور کے حوالے سے اپنے تبصرے میں مزید کہا کہ صرف بھارت کے ساتھ ہی تعلقات بہتر بنانے میں نواز حکومت کسی قدر سرگرم دکھائی دیتی ہے لیکن اس میں بھی بھارت کے مقابلے میں پاکستانی حکومت کی دلچسپی کو زیادہ دخل ہے جو بھارت کے ساتھ صنعتی و تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے کوشاں ہے حالانکہ سرحد پر کشیدگی برقرار اور کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
بی بی سی کا تبصرہ نواز حکومت کی چار ماہ کی جملہ کارکردگی کا عکاس ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بی بی سی کا تبصرہ برمحل اور حقائق پر مبنی ہے۔ جیسا کہ نیویارک میں چند ماہ کے مہمان بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کے لیے پاکستانی حکمران کی بیقراری ظاہر کرتی ہے کہ وہ اس ملاقات سے پاک بھارت تعلقات میں ''بریک تھرو'' کی توقع کر رہے تھے حیران کن طور پر ملاقات کے بعد بھی خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں جب کہ منموہن نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران پاکستان پر روایتی الزامات کا سلسلہ جاری رکھا اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بھی قرار دیا پھر نواز منموہن ملاقات سے محض چند ہفتے قبل بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے تو پاک فوج اور آئی ایس آئی پر الزامات لگاکر تو گویا انتہا کر دی ادھر سابق بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے ان اعترافات کہ انھوں نے خفیہ فوجی فنڈ سے ٹی ایس ڈی نامی انٹیلی جنس یونٹ قائم کیا تھا جس کا مقصد پاکستان میں وارداتیں کرنا تھا۔ گویا حجت تمام کر دی اس پس منظر میں پاک بھارت تعلقات میں کسی بریک تھرو کی توقع عبث ہے۔ لازم ہے کہ حکمراں زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کریں۔