کراچی کا المیہ… آخری حصہ

میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل پرویز مشرف کے کرائے گئے پہلے ...


سید علمدار حیدر October 08, 2013

میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل پرویز مشرف کے کرائے گئے پہلے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے حصہ نہ لیا لیکن دوسرے بلدیاتی ناظمین کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور شہر کراچی کی قیادت ایک بار پھر ایم کیو ایم کے ہاتھوں میں آ گئی جب کہ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت میں بھی وہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ شامل رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کو کام کرنے کے مواقعے فراہم کیے کراچی کے ناظم مصطفیٰ کمال نے کراچی میں فلائی اوورز اور انڈرپاسز کا جال بچھا دیا، سگنل فری کوریڈور بنائیں جس کی وجہ ایم کیو ایم ملک بھر میں مقبول ہونا شروع ہو گئی اور ان کی شاخیں بلوچستان، اندرون سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں کھل گئیں۔ سندھ میں آنے والا سیلاب ہو یا زلزلہ ایم کیو ایم نے متاثرین زلزلہ اور سیلاب کے لیے نہایت منظم اور بہتر طریقے سے کارگزاری دکھائی جسے لوگوں نے سراہا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایم کیو ایم نے صوبے کی امن و امان کی صورت حال میں بہتری پیدا کی۔ یہ الگ بات ہے کہ 12 مئی کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے کراچی میں استقبال والے دن جو کچھ ہوا اس کا ذمے دار ایم کیو ایم کو ٹھہرایا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی کراچی آمد کے موقع پر کارساز پر دھماکا بھی ان کے دور میں ہوا اور وکلاء کو جلانے کی واردات بھی ان کے دور میں ہوئی۔ کراچی میں امن و امان کی صورت حال سیاسی حکومتوں کے قیام کے بعد کبھی بھی مثالی نہیں رہی اور یہ صورت حال 2008ء کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی آصف علی زرداری کی قیادت میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتی ہی چلی گئی۔ جب کہ صدر زرداری نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نائن زیرو کا دورہ کیا، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے خصوصی رابطے قائم کیے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں ہونے والے آپریشن پر معذرت بھی کی اور شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ لیکن زرداری صاحب کی ساری کاوشیں سندھ حکومت کے وزیر داخلہ ذوالفقار علی مرزا نے بیشمار افراد کو اسلحے کا لائسنس دے کر اور لیاری کے منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کر کے ملیا میٹ کر دیں۔ ایک طرف لیاری گینگ وار نے جنم لیا تو دوسری طرف ANP نے بھی اپنا مسلح ونگ متحرک کر دیا۔

بعض مبصرین کے مطابق یہ سب رد عمل کا نتیجہ تھا۔ پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور ANP سندھ حکومت میں شامل بھی رہیں اور ایک دوسرے پر الزام بھی لگاتی رہیں کہ شہر میں ہونے والی بھتہ خوری اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ میں پارٹیوں کے مسلح ونگز ملوث ہیں۔ یہاں یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ کراچی میں گزشتہ چھ سالوں سے تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے بڑی بڑی بینک ڈکیتیوں، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں، ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں اور کریکر حملوں میں ملوث زیادہ تر مجرموں کا تعلق TTP کے لوگوں سے بتایا جاتا ہے۔ اس بات کی نشاندہی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے پانچ سال قبل کی تھی لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے یہ کہہ کر یہ بات رد کر دی تھی کراچی میں کہیں طالبانائزیشن نہیں ہو رہی ہے جب کہ پولیس نے کئی بار لشکر جھنگوی TTP اور دیگر کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کو گرفتار کیا بہت سے خطرناک مجرم عدالتوں سے فرار ہو گئے یا کرا دیے گئے اور سندھ کی صوبائی حکومت ایسے حساس مسئلے پر غیر فعال رہی۔ اس کی وجہ ناقابل فہم ہے۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک گورنر سندھ عشرت العباد خان وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے سامنے میڈیا نے متعدد بار نشاندہی کی لیکن پاکستان کی معاشی شہ رگ کو کاٹنے والے ہاتھوں کو کبھی گرفت میں لینے کی کوششیں نہیں کی گئیں۔ گزشتہ دنوں نو منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کراچی میں دو روزہ ملاقاتیں اور کابینہ کا اجلاس منعقد کیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو ٹارگیٹڈ آپریشن کا سربراہ بنایا گیا جب کہ ڈی جی رینجرز کوآپریٹیو ونگ کا کپتان بنایا گیا اور رینجرز کو تفتیش اور چالان کے اختیارات سونپ دیے گئے۔ ٹارگیٹڈ آپریشن شروع ہو گیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ اور لیاری گینگ وار کے افراد گرفتار کیے گئے ہیں جب کہ اے این پی 11 مئی کے انتخابات میں شکست کھانے کے بعد سرگرم نہیں رہی ہے اس کا کوئی کارکن نہیں پکڑا گیا ہے متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ ان کے ایک سو سے زائد سیکٹر انچارج اور رہنما گرفتار کیے جا چکے ہیں جن میں سابق ایم پی اے بھی شامل ہیں جن پر دو پولیس اہلکاروں کا قتل ڈالا گیا ہے۔

رینجرز نے اب تک تحریک طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کی گرفتاری کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ سندھ حکومت نے لیاری گینگ وار کے اہم کارکنوں اور رہنماؤں کو بیرون ملک کیوں جانے دیا جن کے لیے سپریم کورٹ حکم دے چکی تھی۔ سندھ کے قوم پرستوں کا یہ کہنا ہے کہ مہاجروں میں احساس محرومی کیسا ہے وہ شہری علاقوں میں پکے مکانوں میں رہائش پذیر ہیں انھیں گیس بجلی پانی کی سہولتیں میسر ہیں۔

قوم پرست رہنماوں کو جن کا تعلق وڈیرہ شاہی سے ہے جو خود عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں شاید یہ اندازہ نہیں کہ شہروں میں آباد اردو بولنے والے عدم تحفظ کا شکار کیوں ہیں ہر خاندان کا بوڑھا جوان اور عورت نوکریاں کرتے ہیں پھر دو وقت کی روٹی ملتی ہے جب کہ سرکاری نوکریوں میں ان کی تعداد گھٹتی چلی جا رہی ہے کراچی کے امن کے لیے صرف فوجی یا نیم فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں معاشی استحکام کے لیے نئے کارخانوں اور اداروں کی بھی ضرورت ہے جن کے قیام کے دور دور تک آثار نہیں دکھائی دے رہے ہیں کراچی میں ہونے والے ماضی کے آپریشنوں کے بطن سے کراچی میں مزید انتشار پیدا ہوا تھا۔ موجودہ آپریشن کے ذمے داریوں کو سب سے پہلے جامع انٹیلی جنس رپورٹ حاصل کرنی ہو گی کیونکہ اب رینجرز پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے اندر بھی بیرونی اشاروں پر کام کرنے والوں کا عمل دخل ہے۔ سیاسی جماعتوں کے زیر اثر کام کرنے والی پولیس کے نامور اہلکاروں کو بھی چیک کرنا پڑے گا جو مالی ہوس میں مبتلا ہو کر بڑے بڑے مجرموں کو چھوڑ دیتے ہیں یا عدالت سے فرار کرا دیتے ہیں ۔

کراچی کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس شہر کو اپنے پرائے دونوں نے لوٹا ہے۔ اس شہر کو سدھارنے اور اس کا حق دینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ اہم ترین شاہراہوں پر سڑکوں پر گڑھے پڑے ہوئے ہیں، لوڈ شیڈنگ کا عذاب مسلسل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، سیوریج کا پانی حساس ترین علاقوں میں گندگی پھیلاتا رہتا ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کے علاقوں اور بستیوں میں سڑکوں کی روشنی اور صفائی کا نظام مکمل طور پر تباہ ہے۔ سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار ناقابل بیان ہے عام شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ منرل واٹر کے استعمال کو عام کرنے کے لیے واٹرسپلائی کے نظام کو خراب کر دیا گیا۔ کراچی کے کئی علاقوں میں گٹر کا پانی پینے کے پانی میں ملا دیا گیا۔ کراچی کے انتظامی معاملات میں مقامی لوگوں کی عدم شرکت نے مزید تباہی مچائی ہوئی ہے۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ کچی آبادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو بلا ٹیکس بجلی گیس استعمال کرتے ہیں اور بل ادا کرنے والے شہری پریشان ہوتے ہیں حکومت تاجروں، صنعتکاروں اور امیر لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے تو وہ غریبوں کا کیا تحفظ کرے گی۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بہترین قانون سازی ہو رہی ہے لیکن ان قوانین کا اطلاق کرنے والے ادارے مفلوج نظر آتے ہیں۔ یہ بات بالکل درست دکھائی دے رہی ہے کہ ملک دشمن عناصر نے پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے اور اس کے ایجنٹس مختلف لبادوں میں شہر کی بربادی کے سامان کرنے میں مصروف ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں