کراچی میں رینجرز کا آپریشن
کراچی کا امن و چین، دہشت گردی اور قتل و غارت کی نذر ہو چکا ہے۔ بچے، بوڑھے...
کراچی کا امن و چین، دہشت گردی اور قتل و غارت کی نذر ہو چکا ہے۔ بچے، بوڑھے، عورت مرد غرض ہر شخص امن و امان کی دہائی دے رہا ہے۔ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر کی حالت زار دیکھ کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ تمام سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کی جائے، اس غرض سے انھوں نے اے پی سی بلائی، جہاں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر رینجرز کی زیر قیادت آپریشن کی حمایت کی اور اس کے لیے ماہر قانون کی زیر نگرانی جلد سے جلد قانون سازی کی یقین دہانی کرائی گئی۔
اس فیصلے کے بعد کراچی میں رینجرز کا آپریشن شروع کیا گیا جس میں کسی مخصوص علاقے کو ہدف نہیں بنایا گیا، پورے شہر میں جہاں مشکوک سرگرمیوں کی اطلاعات ملیں وہیں بلا امتیاز کارروائی کی گئی۔ کٹی پہاڑی، سہراب گوٹھ، منگھو پیر، لائنز ایریا، فیڈرل بی ایریا، یوسف پلازہ اور لیاقت آباد غرض جہاں جرائم پیشہ افراد کی اطلاعات ملیں وہاں بلا تعصب کارروائی کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ خصوصاً کاروباری حضرات رینجرز کو دعائیں دے رہے ہیں۔ لیکن مجبوری یہ ہے کہ رینجرز کی نفری کم ہے اور شہر کی آبادی کہیں زیادہ ہے اس لیے پورے کراچی میں بیک وقت آپریشن شروع نہیں کیا جا سکتا۔ ڈیڑھ کروڑ قانونی و غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے شہر میں جرائم پر قابو پانا اتنا آسان نہیں جتنا دور سے بیٹھ کر تبصرہ نگاری کرنا۔
جرائم پیشہ افراد پناہ کے لیے سیاسی چھتری کا سہارا لیتے ہیں یا عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو ڈھال بنا لیتے ہیں، ان حالات میں کیسے آپریشن کریں اور اسے کامیاب بنائیں، یہ ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ آپریشن کی کامیابی اس وقت ممکن ہے جب سول سوسائٹی اس میں مدد کرے اور محلے میں ہونے والی مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع دیں۔ رینجرز ان افراد کا نام اپنے قوانین کے تحت صیغۂ راز میں رکھتی ہے اور انھیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہے، کیونکہ یہ آپریشن شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا جا رہا ہے جنہوں نے عملی طور پر شہر کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ لوگ راتوں کو گھروں سے نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کب مسلح افراد آ جائیں اور انھیں نقدی اور موبائل فون حتیٰ کہ گاڑی سے بھی محروم کر کے پیدل گھر جانے کے لیے سنسان علاقوں میں چھوڑ جائیں۔
کراچی کو ایک عرصے سے ٹارگٹ کلرز، گینگ وار کارندوں اور بھتہ خوروں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی کاروباری مرکز بھتہ خوروں سے محفوظ رہا ہو، اب تو چھوٹے چھوٹے دکانداروں کو بھی بھتے کی پرچیاں ملتی ہیں، اغوا برائے تاوان کو صنعت کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں کاروباری حضرات نے دوسرے شہروں حتیٰ کہ دوسرے ملکوں میں اپنا سرمایہ منتقل کر دیا ہے، ملائیشیا، دبئی، سنگاپور، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ اور اسی طرح کے کئی ممالک ہیں جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی تاجروں نے اپنا کاروبار منتقل کر دیا ہے جس سے ہمارے ملک کی معیشت انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ کسی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری ملکی خوشحالی کی ضمانت ہے لیکن ملک کے معاشی مرکز کراچی سے سرمائے کی منتقلی ملکی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کاروباری حضرات پرامن اور ذہنی سکون کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، اگر انھیں مختلف گروپوں کی جانب سے بھتے کی پرچیاں ملنے لگیں اور وہ اپنی کمائی سے زیادہ بھتہ دینے لگیں تو یقیناً اپنا سرمایہ دوسرے شہروں اور ملکوں میں منتقل کر دینگے، جب کہ چھوٹے تاجر ہڑتالوں اور جلوسوں کا سہارا لیں گے، کیونکہ اس شہر میں آئے دن کسی نہ کسی کاروباری شخص کو اغوا کر لیا جاتا ہے یا اسے بھتے کی پرچی مل جاتی ہے اور نہ دینے پر اسے قتل کر دیا جاتا ہے جس پر کاروباری حضرات دکانیں بند کر کے جلوس نکالتے ہیں یا سڑکوں پر ٹائر جلاتے ہیں جو تاجروں کا شیوہ نہیں ہے، لیکن پانی جب سر سے گزر جائے تو زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنا ہی پڑتا ہے۔ آئے دن ہڑتال کی اپیل اور شہر کا بند ہونا اس کے علاوہ ہے جس سے حقیقتاً تاجروں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور اب ان سب کی نظریں رینجرز پر لگی ہوئی ہیں جو سیاست بے بالاتر ہوکر بلا امتیاز و تعصب کام کرتی ہے اس میں کسی کو بھی ہدف نہیں بنایا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ رینجرز کے آپریشن سے اب تک کسی کو شکایت نہیں ہوئی جیسا کہ پولیس کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ رینجرز کی بھرتی کا طریقہ کار فوجی طرز کا ہے یہاں صرف اور صرف میرٹ کو مدنظر رکھا جاتا ہے، سیاسی بھرتیوں یا رشوت سے بھرتی کا رینجرز میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ حال ہی میں پولیس کا ایک ایس ایچ او مختلف وارداتوں میں ملوث ہونے پر نہ صرف گرفتار ہوا بلکہ نوکری سے بھی بر طرف کر دیا گیا اگر شہر کی پولیس اس طرح کی وارداتوں میں ملوث ہو گی تو شہر میں امن کیسے قائم ہو گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس میں سیاسی بھرتیوں سے اجتناب برتا جائے اور صرف میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کی جائے اور تھانے بکنے کی روایت کو ختم کیا جائے، ورنہ شہر میں امن کا سوچنا بھی عبث ہے۔
حال ہی میں فشریز میں ایک کارندہ لوٹ مار کرتے ہوئے رینجرز کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا جب کہ اس کے دو ساتھیوں کو شدید زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا، مرنے والے شخص کے بارے میں فشریز میں کام کرنے والے خصوصاً فیکٹری مالکان بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھیں بھتے کی پرچی دینے والوں میں یہ شخص بھی شامل تھا۔ فشریز میں کاروبار تباہ ہو گیا ہے، وہاں جرائم پیشہ افراد کو ملازمتیں دے دی گئیں جو فشریز میں مال و زر کی ترسیل پر نظر رکھتے ہیں اور بیشتر تاجروں کو اغوا کرا چکے ہیں، اور یہاں سے آنے والے بھتے کو گینگ وار والوں تک پہنچایا جاتا ہے، اس بات کی بھی شکایت ملی ہے کہ لانچوں کے ذریعے یہاں اسلحہ آتا ہے جو مختلف پارٹیز اور گینگ وار والوں تک منتقل ہو جاتا ہے۔ یقیناً اس کا تدارک سیاسی قوتوں کے پاس ہے لیکن رینجرز فشریز میں جب بھی آپریشن کرے گی وہ بلا امتیاز ہو گا اور اس کے نتیجے میں ملک کی چوتھی بڑی صنعت کو بھتہ خوروں سے نجات ملے گی۔
کراچی میں جہاں کئی اور علاقے بھتہ خوروں سے متاثر ہیں وہیں سب سے زیادہ اولڈ سٹی ایریا، کھارادر، لیمارکیٹ کے ساتھ فشریز کا علاقہ ان بھتہ خوروں سے سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں کاروباری حضرات کو اغوا کے ساتھ بھتہ کی پرچیاں دے دی جاتی ہیں۔ رینجرز کا آپریشن بلا امتیاز و تعصب پورے کراچی میں جاری ہے، اس کی کامیابی کا یہ ثبوت ہے کہ بڑی تعداد میں جرائم پیشہ، بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر شہر سے بھاگ رہے ہیں اور لاہور، مری، حب اور ملک کے دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں جرائم پیشہ افراد پکڑے گئے ہیں۔ جب تک آپریشن جاری ہے شہر میں امن رہے گا لیکن یہ اس کا مستقل حل نہیں ہے کیونکہ آپریشن بند ہوتے ہی اس بات کے امکانات رہیں گے کہ جرائم پیشہ عناصر دوبارہ وارد ہو جائیں گے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر کا مستقل حل تلاش کیا جائے۔
اس طرح کی صورتحال ماضی میں نیو یارک، بمبئی اور دیگر بڑے شہروں میں پیش آئی تھی جسے وہاں کی سول انتظامیہ نے بڑے سیاسی فیصلے کر کے مستقل امن قائم کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے آبادی پر کنٹرول کیا، کچی آبادی نہیں بننے دی، کیونکہ 90 فیصد سے زیادہ جرائم پیشہ افراد کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ شہر کے قریبی علاقوں کو ترقی دی، چھوٹے گریڈ پر مقامی لوگوں کو نوکریاں دیں اور اس میں اس بات کو مدنظر رکھا کہ شہریوں نے اس شہر سے ہی پرائمری، سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہو، کراچی میں مستقل امن کے لیے نیویارک جیسے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ رینجرز کا جب تک آپریشن جاری ہے یہاں اس وقت تک ہی امن کی ضمانت دی جا سکتی ہے لیکن یہ شہر کے امن کا مستقل حل نہیں ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔
اس فیصلے کے بعد کراچی میں رینجرز کا آپریشن شروع کیا گیا جس میں کسی مخصوص علاقے کو ہدف نہیں بنایا گیا، پورے شہر میں جہاں مشکوک سرگرمیوں کی اطلاعات ملیں وہیں بلا امتیاز کارروائی کی گئی۔ کٹی پہاڑی، سہراب گوٹھ، منگھو پیر، لائنز ایریا، فیڈرل بی ایریا، یوسف پلازہ اور لیاقت آباد غرض جہاں جرائم پیشہ افراد کی اطلاعات ملیں وہاں بلا تعصب کارروائی کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ خصوصاً کاروباری حضرات رینجرز کو دعائیں دے رہے ہیں۔ لیکن مجبوری یہ ہے کہ رینجرز کی نفری کم ہے اور شہر کی آبادی کہیں زیادہ ہے اس لیے پورے کراچی میں بیک وقت آپریشن شروع نہیں کیا جا سکتا۔ ڈیڑھ کروڑ قانونی و غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے شہر میں جرائم پر قابو پانا اتنا آسان نہیں جتنا دور سے بیٹھ کر تبصرہ نگاری کرنا۔
جرائم پیشہ افراد پناہ کے لیے سیاسی چھتری کا سہارا لیتے ہیں یا عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو ڈھال بنا لیتے ہیں، ان حالات میں کیسے آپریشن کریں اور اسے کامیاب بنائیں، یہ ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ آپریشن کی کامیابی اس وقت ممکن ہے جب سول سوسائٹی اس میں مدد کرے اور محلے میں ہونے والی مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع دیں۔ رینجرز ان افراد کا نام اپنے قوانین کے تحت صیغۂ راز میں رکھتی ہے اور انھیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہے، کیونکہ یہ آپریشن شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا جا رہا ہے جنہوں نے عملی طور پر شہر کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ لوگ راتوں کو گھروں سے نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کب مسلح افراد آ جائیں اور انھیں نقدی اور موبائل فون حتیٰ کہ گاڑی سے بھی محروم کر کے پیدل گھر جانے کے لیے سنسان علاقوں میں چھوڑ جائیں۔
کراچی کو ایک عرصے سے ٹارگٹ کلرز، گینگ وار کارندوں اور بھتہ خوروں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی کاروباری مرکز بھتہ خوروں سے محفوظ رہا ہو، اب تو چھوٹے چھوٹے دکانداروں کو بھی بھتے کی پرچیاں ملتی ہیں، اغوا برائے تاوان کو صنعت کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں کاروباری حضرات نے دوسرے شہروں حتیٰ کہ دوسرے ملکوں میں اپنا سرمایہ منتقل کر دیا ہے، ملائیشیا، دبئی، سنگاپور، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ اور اسی طرح کے کئی ممالک ہیں جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی تاجروں نے اپنا کاروبار منتقل کر دیا ہے جس سے ہمارے ملک کی معیشت انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ کسی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری ملکی خوشحالی کی ضمانت ہے لیکن ملک کے معاشی مرکز کراچی سے سرمائے کی منتقلی ملکی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کاروباری حضرات پرامن اور ذہنی سکون کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، اگر انھیں مختلف گروپوں کی جانب سے بھتے کی پرچیاں ملنے لگیں اور وہ اپنی کمائی سے زیادہ بھتہ دینے لگیں تو یقیناً اپنا سرمایہ دوسرے شہروں اور ملکوں میں منتقل کر دینگے، جب کہ چھوٹے تاجر ہڑتالوں اور جلوسوں کا سہارا لیں گے، کیونکہ اس شہر میں آئے دن کسی نہ کسی کاروباری شخص کو اغوا کر لیا جاتا ہے یا اسے بھتے کی پرچی مل جاتی ہے اور نہ دینے پر اسے قتل کر دیا جاتا ہے جس پر کاروباری حضرات دکانیں بند کر کے جلوس نکالتے ہیں یا سڑکوں پر ٹائر جلاتے ہیں جو تاجروں کا شیوہ نہیں ہے، لیکن پانی جب سر سے گزر جائے تو زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنا ہی پڑتا ہے۔ آئے دن ہڑتال کی اپیل اور شہر کا بند ہونا اس کے علاوہ ہے جس سے حقیقتاً تاجروں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور اب ان سب کی نظریں رینجرز پر لگی ہوئی ہیں جو سیاست بے بالاتر ہوکر بلا امتیاز و تعصب کام کرتی ہے اس میں کسی کو بھی ہدف نہیں بنایا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ رینجرز کے آپریشن سے اب تک کسی کو شکایت نہیں ہوئی جیسا کہ پولیس کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ رینجرز کی بھرتی کا طریقہ کار فوجی طرز کا ہے یہاں صرف اور صرف میرٹ کو مدنظر رکھا جاتا ہے، سیاسی بھرتیوں یا رشوت سے بھرتی کا رینجرز میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ حال ہی میں پولیس کا ایک ایس ایچ او مختلف وارداتوں میں ملوث ہونے پر نہ صرف گرفتار ہوا بلکہ نوکری سے بھی بر طرف کر دیا گیا اگر شہر کی پولیس اس طرح کی وارداتوں میں ملوث ہو گی تو شہر میں امن کیسے قائم ہو گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس میں سیاسی بھرتیوں سے اجتناب برتا جائے اور صرف میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کی جائے اور تھانے بکنے کی روایت کو ختم کیا جائے، ورنہ شہر میں امن کا سوچنا بھی عبث ہے۔
حال ہی میں فشریز میں ایک کارندہ لوٹ مار کرتے ہوئے رینجرز کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا جب کہ اس کے دو ساتھیوں کو شدید زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا، مرنے والے شخص کے بارے میں فشریز میں کام کرنے والے خصوصاً فیکٹری مالکان بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھیں بھتے کی پرچی دینے والوں میں یہ شخص بھی شامل تھا۔ فشریز میں کاروبار تباہ ہو گیا ہے، وہاں جرائم پیشہ افراد کو ملازمتیں دے دی گئیں جو فشریز میں مال و زر کی ترسیل پر نظر رکھتے ہیں اور بیشتر تاجروں کو اغوا کرا چکے ہیں، اور یہاں سے آنے والے بھتے کو گینگ وار والوں تک پہنچایا جاتا ہے، اس بات کی بھی شکایت ملی ہے کہ لانچوں کے ذریعے یہاں اسلحہ آتا ہے جو مختلف پارٹیز اور گینگ وار والوں تک منتقل ہو جاتا ہے۔ یقیناً اس کا تدارک سیاسی قوتوں کے پاس ہے لیکن رینجرز فشریز میں جب بھی آپریشن کرے گی وہ بلا امتیاز ہو گا اور اس کے نتیجے میں ملک کی چوتھی بڑی صنعت کو بھتہ خوروں سے نجات ملے گی۔
کراچی میں جہاں کئی اور علاقے بھتہ خوروں سے متاثر ہیں وہیں سب سے زیادہ اولڈ سٹی ایریا، کھارادر، لیمارکیٹ کے ساتھ فشریز کا علاقہ ان بھتہ خوروں سے سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں کاروباری حضرات کو اغوا کے ساتھ بھتہ کی پرچیاں دے دی جاتی ہیں۔ رینجرز کا آپریشن بلا امتیاز و تعصب پورے کراچی میں جاری ہے، اس کی کامیابی کا یہ ثبوت ہے کہ بڑی تعداد میں جرائم پیشہ، بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر شہر سے بھاگ رہے ہیں اور لاہور، مری، حب اور ملک کے دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں جرائم پیشہ افراد پکڑے گئے ہیں۔ جب تک آپریشن جاری ہے شہر میں امن رہے گا لیکن یہ اس کا مستقل حل نہیں ہے کیونکہ آپریشن بند ہوتے ہی اس بات کے امکانات رہیں گے کہ جرائم پیشہ عناصر دوبارہ وارد ہو جائیں گے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر کا مستقل حل تلاش کیا جائے۔
اس طرح کی صورتحال ماضی میں نیو یارک، بمبئی اور دیگر بڑے شہروں میں پیش آئی تھی جسے وہاں کی سول انتظامیہ نے بڑے سیاسی فیصلے کر کے مستقل امن قائم کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے آبادی پر کنٹرول کیا، کچی آبادی نہیں بننے دی، کیونکہ 90 فیصد سے زیادہ جرائم پیشہ افراد کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ شہر کے قریبی علاقوں کو ترقی دی، چھوٹے گریڈ پر مقامی لوگوں کو نوکریاں دیں اور اس میں اس بات کو مدنظر رکھا کہ شہریوں نے اس شہر سے ہی پرائمری، سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہو، کراچی میں مستقل امن کے لیے نیویارک جیسے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ رینجرز کا جب تک آپریشن جاری ہے یہاں اس وقت تک ہی امن کی ضمانت دی جا سکتی ہے لیکن یہ شہر کے امن کا مستقل حل نہیں ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔