عوام اور حکمران
نمایندہ جمہوریت اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ ایک لیڈر کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ عوام کی نفرت سے...
نمایندہ جمہوریت اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ ایک لیڈر کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ عوام کی نفرت سے بچے۔ مغرب میں زیادہ تر حکمران اس خیال کی عملی سطح پر پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں، جب کہ ہمارے ہاں نوعیت اس سے مختلف ہے اس کی بنیادی وجہ سیاسی تربیت کی کمی اور استحصالی نفسیات کا کردار ہے۔ اگرچہ دعویٰ تو یہی کیا جاتا ہے کہ ہم عوام کی خدمت پر مامور ہیں۔ مگر کسی بھی ریاست کے عوام کا اپنی حکومت سے تعلق آخر کس نوعیت کا ہے اس سوال کا جواب تلاش کرنا اہم ہے۔
حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت بہت پیچیدہ ہے جو ہر پل بدلتی رہتی ہے۔ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عوام اور حکمرانوں کا تعلق آقا اور غلام کا تعلق رہا ہے، جس کو بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ نئے نئے روپ میں ڈھال دیا جاتا ہے، مگر موجودہ دور میں اتنی تبدیلی ضرور آ چکی ہے کہ اب غلام یعنی عوام حکمرانوں کی حیثیت پر کسی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ عوام اپنے حکمرانوں کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ اپنی بہتری کی اُمید پر کرتے ہیں۔ ایک طبقہ نواز شریف کی کامیابی اس لیے ضروری سمجھتا تھا کہ پاکستانی معیشت کو فروغ ملے گا، یہ الگ بات کہ ان کی امیدوں کے چراغ سرمایہ دارانہ موسموں کی بے حس تیز ہوائوں کی زد میں ہے۔ دنیا کے مختلف حکمران بر سراقتدار آتے ہیں اور اقتدار سے محروم بھی ہو جاتے ہیں جو سیاسی حکمرانوں اور عوام کے تبدیل ہوتے تعلقات کی نوعیت کو نمایاں کرتا ہے۔
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ایک حکمران کو ایسا ایکٹر ہونا چاہیے کہ کبھی اس کی دھوکا بازی کا عوام کو علم نہ ہو سکے اور وہ کسی بھی طرح عوام کو یہی یقین دلاتا رہے کہ اس کا کیا جانے والا ہر فیصلہ عوام کی بہتری کے لیے ہے، جو عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوتا ہے حکمران رہ سکتا ہے۔ ایک حکمران کا تصور عوام کے اذہان میں دھوکے باز کے طور پر راسخ نہیں ہونا چاہیے، اس کے لیے اس کو عوام کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ اس کا فیصلہ ان کی بہتری کے لیے ہے اور کسی تبدیلی کی صورت میں عوام ہی کے نقصان کا اندیشہ ہے یعنی ایک حکمران عوام کو یہ احساس دلائے کہ اس کا فیصلہ تبدیل نہیں ہو سکتا اس لیے کہ اس میں عوام کی فلاح کا راز پوشیدہ ہے، جیسا کہ برطانوی وزیر اعظم عراق پر حملہ کرنے سے کچھ روز قبل امریکا میں اپنی ایک تقریر میں عوام کو یہ احساس دلا رہے تھے کہ حالات بین الاقوامی سطح پر ایسے ہو گئے ہیں کہ ہمیں اپنے عوام اور ریاست کے تحفظ کے لیے یہ جنگ لڑنا پڑے گی جو ہم لڑنا نہیں چاہتے۔
manipulation ہمیشہ سے سیاست میں ایک اہم ہتھیار رہا ہے، مگر جدید سیاسی دور میں اس کی ضرورت سیاستدانوں کے لیے اور زیادہ ناگزیر ہو چکی ہے کیونکہ ٹیکنلوجیکل میڈیا کے اس عہد میں حکمرانوں کے لیے تقریباََ یہ ناممکن ہو چکا ہے کہ وہ لوگوں پر دھمکیوں یا کھلی طاقت اور تشدد کے ذریعے حکومت کر سکیں۔ موجودہ حکمرانوں میں یہ خوبیاں، کہ دھوکا تو دیں مگر عوام کو خبر بھی نہ ہو، بدرجہ اتم موجود ہیں۔ طاقت اور تشدّد کا کھلا استعمال ایک لیڈر کو عوام میں غیر مقبول بنا دیتا ہے۔ سیاسی سائنسدان رڈل اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ آج کے سیاستدان کا کامیاب لیڈر بننے کے لیے ایک اچھا اداکار ہونا ضروری ہے، جیسا کہ ریگن، کلنٹن اور بلئیر عوام کے سامنے بھر پور اداکاری کرنے کی خصوصیات رکھتے تھے۔ مزید یہ کہ جدید سیاست میں سیاستدانوں میں یہ خوبی بھی ہونی چاہیے کہ وہ عام لوگوں کی طرح ہی عوام میں گھل مل جائیں، کیونکہ عوام کے دل جیتنے کے لیے ایک رہنما میں یہ خوبی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اسی طرح کی ایک مثال پاکستانی حکمرانوں میں پرویز مشرف کی صورت مل سکتی ہے اور زرداری میں بھی سیاسی اداکار ی کا جوہر موجود تھا مگر ان کی بد قسمتی یہ تھی کہ وہ سیاست میں آنے سے پہلے ہی ایک اچھے سیاستدان کے طور پر مقبول ہونے کی بجائے بدعنوانی کے الزامات کی زد میں آ چکے تھے۔ شہباز شریف بھی عوام کے قریب آنے کے لیے اکثر مشکل حالات میں ان کے ساتھ کھڑے دکھائی تو دیتے ہیں مگر وہ خود کو عوام سے ایک فاصلے پر رکھنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستانی سیاست میں عمران خان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی عوام میں مقبولیت کی ایک بنیادی اور اہم وجہ یہ ہے کہ وہ ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے لوگوں میں گھل مل کر سیاسی و سماجی معاملات پر گفتگو کرتے دکھائے دیتے ہیں اور عام لوگو ں ہی کی طرح گلی کوچوں سڑکوں اور چوراہوں پر چلتے پھرتے اور کبھی زمین پر لوگوں کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھے کھاتے پیتے دکھائی دیتے ہیں، مگر یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عمران خان اداکاری کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ عمران خان ایک کرکٹ اسٹار ہونے کی حیثیت سے عوامی محبت کا تجربہ رکھتے ہیں اور عوام کے جذبات کی قدر کرنا شاید جانتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ خود کو عوام کے قریب لانے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کرتے اسی وصف نے پی ٹی آئی کے رہنما کی حیثیت سے ان کی مقبولیت میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اسی قسم کی خوبیاں برطانوی شہزادی ڈیانا میں بھی تھیں جو شاہی رعونت کو ایک طرف رکھتے ہوئے عوام سے گھل مل جاتی تھی، مگر برطانوی سیاستدانوں کا عوام سے گھل مل جانا فطری اس لیے نہیں ہوتا کہ ان کو عوامی ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے حکومت میں آنے کے لیے اور یہ ان کی سیاسی تربیت کا حصہ ہے کہ خود کو عوام ہی کا حصہ ظاہر کریں، کیونکہ ان کا ہر قدم ہر طرح کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اٹھتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں ہر شعبے میں وہی افراد کام کرتے دکھائی دیتے ہیں جو اس کے ماہر ہوتے ہیں برطانوی پارلیمنٹ میں اکثریت یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ سیاستدانوں کی ہے، جن کی سیاسی تربیت کا آغاز اسکولوں ہی سے ہوتا ہے اور وہ سیاسی ماہرین کے خیالات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹونی بلئیر عوام میں مقبول ہونے کے لیے ان خیالات سے بھر پور استفادہ کرتے دکھائی دیتے تھے۔
اور ان کے بعد ڈیوڈ برائون بھی پبلک مارکیٹ سے سودا سلف خریدتے نظر آئے۔ ایک لیڈر کے یہ اعمال عوام کو اس لیے بھاتے ہیں کہ ان کو وہ ان کا حصہ معلوم ہوتا ہے، مگر اداکاری کا خول زیادہ دیرپا اس لیے ثابت نہیں ہوتا کہ عملی سیاست میں عوامی امنگوں کے مطابق پورا اترنا بعض اوقات ناممکن ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بلئیر زیادہ دیر حکومت میں نہیں رہ سکے کیونکہ انھوں نے اپنی جنگی پالیسیوں کی بناء پر عوامی محبت کھو دی۔ مغرب میں یہی وجہ ہے کہ بہت سے حکمران عوام میں مقبول ہونا چاہتے ہیں اور اس بات سے خوف کھاتے ہیں کہ لوگ ان سے نفرت کریں۔ اس کی وجہ مغربی عوام کا وہ سیاسی شعور ہے جس نے ان کو بتایا ہے کہ وہ ایک شہری کا درجہ رکھتے ہیں جن کے فرائض کے ساتھ ساتھ حقوق بھی ہیں جن کو پورا کرنا حکمرانوں کا فرض ہے اس کے برعکس پاکستان سمیت ترقی پزیر ممالک میں عوام اور حکمران کا تعلق آقا اور غلام کی حیثیت سے آگے اس لیے نہیں بڑھ سکا کہ عوام اپنی طاقت کا مکمل شعور نہیں رکھتے۔