حلال اور حرام دھرنا
عمران خان نے اس اقدام کو عوام کے جمہوری حق پر کرپٹ حکومت کا ڈاکہ قرار دیا۔
KARACHI:
کراچی کو سندھ سے علیحدہ کر کے وفاقی دارالحکومت کا درجہ دے تو دیا گیا تھا مگر فوراً ہی غلطی کا احساس ہوگیا۔کیونکہ طلبا ہوں کہ سیاسی کارکن کہ مزدور کہ تقسیم کے نتیجے میں شہر میں آنے والے لٹے پٹے مہاجر۔جس کا جب موڈ ہوتا یا منہ اٹھتا وہ سیدھا گورنر جنرل ہاؤس عرف ایوانِ صدر ( موجودہ گورنر ہاؤس ) کے اطراف دھرنے یا جلوس کے لیے چل پڑتا اور پھر نعروں کی گونج آنسو گیس کی بو کے ساتھ حکمران کو بھی بے چین رکھتی۔
مگر کسی بھی سویلین حکومت میں تپڑ نہیں تھا کہ وہ اس روز روز کی عوامی چھیچھا لیدر سے نجات کے لیے وفاقی دارالحکومت کراچی سے کہیں اور منتقل کرنے کا سوچتی۔یہ کام بھی پہلے فوجی آمر ایوب خان کو ہی کرنا پڑا۔انھوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے اگلے ہی برس میجر جنرل یحییٰ خان کی سربراہی میں فیڈرل کیپیٹل کمیشن تشکیل دیا۔مقصد ایک نئے دارالحکومت کے لیے مناسب جگہ کی تلاش تھی جہاں حکمران کو تو عوام تک رسائی ہو مگر عوام کو اس تک رسائی مشکل ہو۔
ایک تجویز تھی کہ کراچی شہر سے باہر گڈاپ میں وفاقی دارالحکومت تعمیر کیا جائے۔ایک تجویز آئی کہ لاہور کو وفاقی دارالحکومت بنا دیا جائے۔ایبٹ آباد اور چاروں صوبوں کو جوڑنے والے ڈیرہ غازی خان کا نام بھی لیا گیا۔مگر ایوب خان نے حتمی طور پر جی ٹی روڈ سے متصل مارگلہ کے دامن میں نئے دارالحکومت کے قیام کی منظوری دی۔یہ جگہ چننے کے تین فائدے تھے۔ایک تو راولپنڈی قریب تھا ، ایوب خان کا گاؤں ریحانہ بھی قریب تھا اور یہ علاقہ عوام سے بھی دور اور کراچی جیسے شورشی علاقے سے تو بہت ہی دور تھا۔
بہت برس پہلے بنگلہ دیش کے پہلے وزیرِ خارجہ ڈاکٹر کمال حسین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بنگالی ایک ہزار میل دور ہونے کے باوجود کراچی سے ذہنی طور پر مانوس ہو گئے تھے۔لیکن جب دارالحکومت کراچی سے پنڈی منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تو بنگالی مشترکہ و متحدہ پاکستان کے تصور سے دور ہونے لگے۔
نئے دارالحکومت کی منصوبہ بندی کا کام یونانی ٹاؤن پلانر ڈاکٹر کانسٹنٹینوز اپاسٹولو ڈوکسیاڈس کو سونپا گیا۔انھوں نے چوبیس فروری انیس سو ساٹھ کو ایوب خان کو پہلی پریزنٹیشن دی۔ایک ایسا شہر جس میں اگلے پچیس برس کے دوران پچیس لاکھ آبادی کو بسانے کی گنجائش ہو۔نئے شہر کا نام اسلام آباد تجویز کیا گیا اور فیڈرل کیپیٹل کمیشن فیڈرل کیپیٹل اتھارٹی میں بدل گیا۔انیس سو چونسٹھ سے اسلام آباد کے لال کوارٹرز میں سرکاری ملازموں کو بسانے کا سلسسلہ شروع ہوا۔ایک خوبصورت ، الگ تھلگ سبز پہاڑی شہر جس کی پلاننگ میں بظاہر کسی نعرہ زن جلوس یا دھرنے کی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی۔
پر وہ جو کہتے ہیں کہ آدمی سوچتا کچھ ہے ہوتا کچھ ہے۔ اسلام آباد کی تعمیر ہونے تک دارالحکومت عارضی طور پر کراچی سے راولپنڈی تو منتقل ہوگیا مگر اسی پنڈی سے انیس سو اڑسٹھ میں طلبا تحریک شروع ہوئی اور سکون کے متلاشی ایوب خان کو انھی صاحب نے اقتدار سے چلتا کر دیا جنھیں دس برس پہلے ایوب خان نے نئے دارالحکومت کی تلاش کا کام سونپا تھا۔
بھٹو کے زوال کے بعد اسلام آباد بطور ورکنگ کیپیٹل پوری طرح فعال ہو گیا مگر سکون بھی رخصت ہوگیا۔ چار جولائی انیس سو اسی کو اسلام آباد کے بارے میں یہ شاہی تصور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا کہ وہ رعایا کی دسترس سے باہر ہے۔ پہلی بار ایوانِ صدر کے بازو میں وفاقی سیکرٹیریٹ کے سامنے ہزاروں اہلِ تشیع نے مفتی جعفر حسین کی قیادت میں دھرنا دے دیا۔تیسرے ہی دن چھ جولائی کو مفتی صاحب کو ایوانِ صدر میں بات چیت کی دعوت دی گئی اور پھر اعلان ہوا کہ مطالبہ منظور کیا جاتا ہے۔اہلِ تشیع پر زکوٰۃ و عشر آرڈیننس لاگو نہیں ہوگا۔
اگلے نو برس تک اسلام آباد کا ریڈ زون حساس علاقے کے طور پر برقرار رہا کیونکہ سیاسی سرگرمیاں ہی حرام قرار پائی تھیں۔مگر ضیا الحق کی پہلی برسی کے موقع پر سترہ اگست انیس سو نواسی کو آئی جے آئی کے سربراہ نواز شریف کی قیادت میں ایک بہت بڑا جلوس پنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوا۔وزیرِ داخلہ اعتزاز احسن نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طاقت کے اس مظاہرے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی اور یہ گھڑی بخیریت گذر گئی۔جلوس کے بیشتر شرکا نے اسلام آباد پہلی بار دیکھا۔
اگست انیس سو نوے میں بینظیر حکومت برطرف کر دی گئی۔انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف وزیرِ اعظم بن گئے ۔چند ماہ بعد نواز شریف کو برطرف کر دیا گیا۔مگر عدالت نے انھیں بحال کر دیا۔سولہ جولائی انیس سو ترانوے کو بے نظیر بھٹو نے ایک اور لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔جنرل وحید کاکڑ فارمولے کے تحت نواز شریف اور غلام اسحاق خان کو چلتا کر دیا گیا۔انتخابات کے نتیجے میں بی بی دوبارہ وزیرِ اعظم بن گئیں۔اور اس کے بعد مارچ دو ہزار سات تک اسلام آباد نے کوئی قابلِ ذکر لانگ مارچ نہیں دیکھا۔
مگر اسلام آباد نے جس پہلی شورش کو جنم دیا وہ جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی کے بعد چلنے والی وکلا تحریک تھی جو بالاخر پرویز مشرف کا اقتدار لے گئی۔اس بیچ بی بی کی شہادت ہوئی۔زرداری صدر بنے۔نواز شریف نے افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے لاہور تا اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کیا مگر گوجرانوالہ پہنچتے پہنچتے ہی افتخار چوہدری کی بحالی کا پروانہ جاری ہو گیا۔اس کے بعد سے اسلام آباد کے ساتھ گویا یوں ہوا کہ
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے ( سبط علی صبا )
جبری لاپتہ لواحقین کے ورثا سے لے کر ناکافی تنخواہوں سے خوش کلرکوں تک سب کی رسائی ریڈ زون تک کھل گئی۔چودہ جنوری دو ہزار تیرہ کو پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے نہ صرف ڈی چوک میں دھرنے کی روایت ڈالی بلکہ ایجی ٹیشن میں کنٹینر کی اہمیت اجاگر کروائی۔اس کنٹینر سے علامہ نے پیپلز پارٹی کی حکومت کی برطرفی اور ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا فرمان جاری کیا۔مگر چار دن بعد چند وزیروں نے قادری صاحب کو سمجھا بجھا کر واپسی کے لیے یہ کہہ کر آمادہ کر لیا کہ آپ ہمیں جس کا پیغام پہنچانے آئے تھے وہ پوری طرح وصول پایا۔
غالباً یہ کنٹینر دھرنے کا پائلٹ پروجیکٹ تھا۔اگلے برس چودہ اگست کو تجربہ کار طاہر القادری کی ہمراہی میں عمران خان نے ایجی ٹیشن بذریعہ کنٹینر کی روایت کو عروج پر پہنچا دیا اور نواز شریف کی '' دھاندلی زدہ کرپٹ حکومت '' کو گھر بھیجنے کے لیے ایک سو چھبیس دن کا محاصرہ شروع ہو گیا۔وزیرِ اعظم ہاؤس کی ریلنگ پر مظاہرین نے کپڑِے سکھائے ، پارلیمنٹ ہاؤس کے ہرے بھرے میدان میں کھانے پکنے لگے ، نہلائی دھلائی شروع ہوئی۔ٹی وی اسٹیشن میں توڑ پھوڑ ہوئی ، پولیس کی پھینٹیاں لگیں اور پاکستانی سیاست میں یہ روایت رقم ہوئی کہ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔
اکتوبر دو ہزار سولہ میں عمران خان نے دھمکی دی کہ اگر نواز شریف کے پاناما کیس کی شنوائی نہ ہوئی تو وہ دو نومبر سے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کر دیں گے۔جب عدالت نے مقدمے کی سماعت پر رضامندی ظاہر کی تب خان صاحب نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ واپس لیا۔اس لاک ڈاؤن کو ناکام بنانے کے لیے وفاقی لیگی حکومت نے خیبر پختون خوا سے روانہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اٹک کے پل سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔عمران خان نے اس اقدام کو عوام کے جمہوری حق پر کرپٹ حکومت کا ڈاکہ قرار دیا۔
( آج مولانا فضل الرحمان بھی اسی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں تو ملک دشمنی کر رہے ہیں۔اور خیبر پختون خوا کے پی ٹی آئی وزیرِ اعلی محمود خان کہہ رہے ہیں کہ وہ مولانا کو اٹک پل کسی صورت پار نہیں کرنے دیں گے۔اور وفاقی وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ کہہ رہے ہیں کہ مولانا کا اسلام آباد میں داخلہ خودکشی ہوگا )۔
پی ٹی آئی کے دو ہزار چودہ کے دھرنے اور دو ہزار سولہ کے لاک ڈاؤن کی کوشش نے نومبر دو ہزار سترہ میں تحفظ ِ ناموسِ رسالت کے نام پر تحریکِ لبیک کے بیس روزہ فیض آباد دھرنے کے لیے حوصلہ دیا۔اس دھرنے کا مقصد کیا تھا ، یہ مقصد کس قدر حاصل ہوا ، کسے فائدہ اور نقصان ہوا۔یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے۔اس فیصلے کے ایک مصنف جسٹس قاضی فائز عیسی بھی تھے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ بھلے دارالحکومت کہیں بھی لے جائیں۔لوگوں کی قسمت نہیں بدلے گی تو دارالحکومت بدلنے سے بھی کچھ نہ ہوگا۔جب کوئی ایک اچھی یا بری غلط روایت پڑ جاتی ہے تو پھر یہ روایت آگے ہی بڑھتی ہے پیچھے صرف ملک ہٹتا ہے۔
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی
کیوں ڈھونڈھ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ ( اطہر نفیس )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
کراچی کو سندھ سے علیحدہ کر کے وفاقی دارالحکومت کا درجہ دے تو دیا گیا تھا مگر فوراً ہی غلطی کا احساس ہوگیا۔کیونکہ طلبا ہوں کہ سیاسی کارکن کہ مزدور کہ تقسیم کے نتیجے میں شہر میں آنے والے لٹے پٹے مہاجر۔جس کا جب موڈ ہوتا یا منہ اٹھتا وہ سیدھا گورنر جنرل ہاؤس عرف ایوانِ صدر ( موجودہ گورنر ہاؤس ) کے اطراف دھرنے یا جلوس کے لیے چل پڑتا اور پھر نعروں کی گونج آنسو گیس کی بو کے ساتھ حکمران کو بھی بے چین رکھتی۔
مگر کسی بھی سویلین حکومت میں تپڑ نہیں تھا کہ وہ اس روز روز کی عوامی چھیچھا لیدر سے نجات کے لیے وفاقی دارالحکومت کراچی سے کہیں اور منتقل کرنے کا سوچتی۔یہ کام بھی پہلے فوجی آمر ایوب خان کو ہی کرنا پڑا۔انھوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے اگلے ہی برس میجر جنرل یحییٰ خان کی سربراہی میں فیڈرل کیپیٹل کمیشن تشکیل دیا۔مقصد ایک نئے دارالحکومت کے لیے مناسب جگہ کی تلاش تھی جہاں حکمران کو تو عوام تک رسائی ہو مگر عوام کو اس تک رسائی مشکل ہو۔
ایک تجویز تھی کہ کراچی شہر سے باہر گڈاپ میں وفاقی دارالحکومت تعمیر کیا جائے۔ایک تجویز آئی کہ لاہور کو وفاقی دارالحکومت بنا دیا جائے۔ایبٹ آباد اور چاروں صوبوں کو جوڑنے والے ڈیرہ غازی خان کا نام بھی لیا گیا۔مگر ایوب خان نے حتمی طور پر جی ٹی روڈ سے متصل مارگلہ کے دامن میں نئے دارالحکومت کے قیام کی منظوری دی۔یہ جگہ چننے کے تین فائدے تھے۔ایک تو راولپنڈی قریب تھا ، ایوب خان کا گاؤں ریحانہ بھی قریب تھا اور یہ علاقہ عوام سے بھی دور اور کراچی جیسے شورشی علاقے سے تو بہت ہی دور تھا۔
بہت برس پہلے بنگلہ دیش کے پہلے وزیرِ خارجہ ڈاکٹر کمال حسین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بنگالی ایک ہزار میل دور ہونے کے باوجود کراچی سے ذہنی طور پر مانوس ہو گئے تھے۔لیکن جب دارالحکومت کراچی سے پنڈی منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تو بنگالی مشترکہ و متحدہ پاکستان کے تصور سے دور ہونے لگے۔
نئے دارالحکومت کی منصوبہ بندی کا کام یونانی ٹاؤن پلانر ڈاکٹر کانسٹنٹینوز اپاسٹولو ڈوکسیاڈس کو سونپا گیا۔انھوں نے چوبیس فروری انیس سو ساٹھ کو ایوب خان کو پہلی پریزنٹیشن دی۔ایک ایسا شہر جس میں اگلے پچیس برس کے دوران پچیس لاکھ آبادی کو بسانے کی گنجائش ہو۔نئے شہر کا نام اسلام آباد تجویز کیا گیا اور فیڈرل کیپیٹل کمیشن فیڈرل کیپیٹل اتھارٹی میں بدل گیا۔انیس سو چونسٹھ سے اسلام آباد کے لال کوارٹرز میں سرکاری ملازموں کو بسانے کا سلسسلہ شروع ہوا۔ایک خوبصورت ، الگ تھلگ سبز پہاڑی شہر جس کی پلاننگ میں بظاہر کسی نعرہ زن جلوس یا دھرنے کی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی۔
پر وہ جو کہتے ہیں کہ آدمی سوچتا کچھ ہے ہوتا کچھ ہے۔ اسلام آباد کی تعمیر ہونے تک دارالحکومت عارضی طور پر کراچی سے راولپنڈی تو منتقل ہوگیا مگر اسی پنڈی سے انیس سو اڑسٹھ میں طلبا تحریک شروع ہوئی اور سکون کے متلاشی ایوب خان کو انھی صاحب نے اقتدار سے چلتا کر دیا جنھیں دس برس پہلے ایوب خان نے نئے دارالحکومت کی تلاش کا کام سونپا تھا۔
بھٹو کے زوال کے بعد اسلام آباد بطور ورکنگ کیپیٹل پوری طرح فعال ہو گیا مگر سکون بھی رخصت ہوگیا۔ چار جولائی انیس سو اسی کو اسلام آباد کے بارے میں یہ شاہی تصور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا کہ وہ رعایا کی دسترس سے باہر ہے۔ پہلی بار ایوانِ صدر کے بازو میں وفاقی سیکرٹیریٹ کے سامنے ہزاروں اہلِ تشیع نے مفتی جعفر حسین کی قیادت میں دھرنا دے دیا۔تیسرے ہی دن چھ جولائی کو مفتی صاحب کو ایوانِ صدر میں بات چیت کی دعوت دی گئی اور پھر اعلان ہوا کہ مطالبہ منظور کیا جاتا ہے۔اہلِ تشیع پر زکوٰۃ و عشر آرڈیننس لاگو نہیں ہوگا۔
اگلے نو برس تک اسلام آباد کا ریڈ زون حساس علاقے کے طور پر برقرار رہا کیونکہ سیاسی سرگرمیاں ہی حرام قرار پائی تھیں۔مگر ضیا الحق کی پہلی برسی کے موقع پر سترہ اگست انیس سو نواسی کو آئی جے آئی کے سربراہ نواز شریف کی قیادت میں ایک بہت بڑا جلوس پنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوا۔وزیرِ داخلہ اعتزاز احسن نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طاقت کے اس مظاہرے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی اور یہ گھڑی بخیریت گذر گئی۔جلوس کے بیشتر شرکا نے اسلام آباد پہلی بار دیکھا۔
اگست انیس سو نوے میں بینظیر حکومت برطرف کر دی گئی۔انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف وزیرِ اعظم بن گئے ۔چند ماہ بعد نواز شریف کو برطرف کر دیا گیا۔مگر عدالت نے انھیں بحال کر دیا۔سولہ جولائی انیس سو ترانوے کو بے نظیر بھٹو نے ایک اور لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔جنرل وحید کاکڑ فارمولے کے تحت نواز شریف اور غلام اسحاق خان کو چلتا کر دیا گیا۔انتخابات کے نتیجے میں بی بی دوبارہ وزیرِ اعظم بن گئیں۔اور اس کے بعد مارچ دو ہزار سات تک اسلام آباد نے کوئی قابلِ ذکر لانگ مارچ نہیں دیکھا۔
مگر اسلام آباد نے جس پہلی شورش کو جنم دیا وہ جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی کے بعد چلنے والی وکلا تحریک تھی جو بالاخر پرویز مشرف کا اقتدار لے گئی۔اس بیچ بی بی کی شہادت ہوئی۔زرداری صدر بنے۔نواز شریف نے افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے لاہور تا اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کیا مگر گوجرانوالہ پہنچتے پہنچتے ہی افتخار چوہدری کی بحالی کا پروانہ جاری ہو گیا۔اس کے بعد سے اسلام آباد کے ساتھ گویا یوں ہوا کہ
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے ( سبط علی صبا )
جبری لاپتہ لواحقین کے ورثا سے لے کر ناکافی تنخواہوں سے خوش کلرکوں تک سب کی رسائی ریڈ زون تک کھل گئی۔چودہ جنوری دو ہزار تیرہ کو پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے نہ صرف ڈی چوک میں دھرنے کی روایت ڈالی بلکہ ایجی ٹیشن میں کنٹینر کی اہمیت اجاگر کروائی۔اس کنٹینر سے علامہ نے پیپلز پارٹی کی حکومت کی برطرفی اور ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا فرمان جاری کیا۔مگر چار دن بعد چند وزیروں نے قادری صاحب کو سمجھا بجھا کر واپسی کے لیے یہ کہہ کر آمادہ کر لیا کہ آپ ہمیں جس کا پیغام پہنچانے آئے تھے وہ پوری طرح وصول پایا۔
غالباً یہ کنٹینر دھرنے کا پائلٹ پروجیکٹ تھا۔اگلے برس چودہ اگست کو تجربہ کار طاہر القادری کی ہمراہی میں عمران خان نے ایجی ٹیشن بذریعہ کنٹینر کی روایت کو عروج پر پہنچا دیا اور نواز شریف کی '' دھاندلی زدہ کرپٹ حکومت '' کو گھر بھیجنے کے لیے ایک سو چھبیس دن کا محاصرہ شروع ہو گیا۔وزیرِ اعظم ہاؤس کی ریلنگ پر مظاہرین نے کپڑِے سکھائے ، پارلیمنٹ ہاؤس کے ہرے بھرے میدان میں کھانے پکنے لگے ، نہلائی دھلائی شروع ہوئی۔ٹی وی اسٹیشن میں توڑ پھوڑ ہوئی ، پولیس کی پھینٹیاں لگیں اور پاکستانی سیاست میں یہ روایت رقم ہوئی کہ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔
اکتوبر دو ہزار سولہ میں عمران خان نے دھمکی دی کہ اگر نواز شریف کے پاناما کیس کی شنوائی نہ ہوئی تو وہ دو نومبر سے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کر دیں گے۔جب عدالت نے مقدمے کی سماعت پر رضامندی ظاہر کی تب خان صاحب نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ واپس لیا۔اس لاک ڈاؤن کو ناکام بنانے کے لیے وفاقی لیگی حکومت نے خیبر پختون خوا سے روانہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اٹک کے پل سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔عمران خان نے اس اقدام کو عوام کے جمہوری حق پر کرپٹ حکومت کا ڈاکہ قرار دیا۔
( آج مولانا فضل الرحمان بھی اسی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں تو ملک دشمنی کر رہے ہیں۔اور خیبر پختون خوا کے پی ٹی آئی وزیرِ اعلی محمود خان کہہ رہے ہیں کہ وہ مولانا کو اٹک پل کسی صورت پار نہیں کرنے دیں گے۔اور وفاقی وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ کہہ رہے ہیں کہ مولانا کا اسلام آباد میں داخلہ خودکشی ہوگا )۔
پی ٹی آئی کے دو ہزار چودہ کے دھرنے اور دو ہزار سولہ کے لاک ڈاؤن کی کوشش نے نومبر دو ہزار سترہ میں تحفظ ِ ناموسِ رسالت کے نام پر تحریکِ لبیک کے بیس روزہ فیض آباد دھرنے کے لیے حوصلہ دیا۔اس دھرنے کا مقصد کیا تھا ، یہ مقصد کس قدر حاصل ہوا ، کسے فائدہ اور نقصان ہوا۔یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے۔اس فیصلے کے ایک مصنف جسٹس قاضی فائز عیسی بھی تھے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ بھلے دارالحکومت کہیں بھی لے جائیں۔لوگوں کی قسمت نہیں بدلے گی تو دارالحکومت بدلنے سے بھی کچھ نہ ہوگا۔جب کوئی ایک اچھی یا بری غلط روایت پڑ جاتی ہے تو پھر یہ روایت آگے ہی بڑھتی ہے پیچھے صرف ملک ہٹتا ہے۔
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی
کیوں ڈھونڈھ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ ( اطہر نفیس )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)