دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے
جرنیلی سڑک کے علاوہ شیرشاہ سوری اور قاسم سوری صاحب میں ایک اور قدرمشترک بھی ہے۔
جناب قاسم سوری کا ذکر چھڑتا ہے تو ہمارے ذہن میں شیرشاہ سوری کا نام گردش کرنے لگتا ہے۔
شیرشاہ سوری کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ اس نے جرنیلی سڑک تعمیر کرائی تھی۔ ہمارے قاسم سوری صاحب نے کوئی سڑک تو تعمیر نہیں کرائی لیکن وہ اپنے قائد عمران خان کی قیادت میں ''جرنیلی سڑک'' کے مسافر ضرور ہیں۔ یہ وہ سڑک نہیں جس کا ذکر اس گانے میں ہے ''میں نکلا، گَڈی لے کے، رستے میں سڑک پہ، اک موڑ آیا، میں وہیں دل چھوڑ آیا''۔۔۔اس سڑک پر کوئی موڑ نہیں آتا، اس پر چلتے ہوئے کتنے بھی یوٹرن لیے جائیں بندہ جہاں تھا وہیں رہتا ہے۔
اور پھر کوئی جب اس سڑک پر آنے کے لیے گڈی لے کے نکلتا ہے تو دل ٹھیک اسی جگہ رکھ دیتا ہے جہاں ابھی ابھی ضمیر نکال کر رکھا تھا۔ یہ وہ سڑک ہے جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا، ''سڑک پہ چلتے ہوئے آنکھیں بند رکھتا ہوں۔'' سڑک پر آنکھیں بند کرنے کی عیاشی اس لیے کرلی جاتی ہے کہ پتا ہوتا ہے ون وے ٹریفک ہے، بلکہ بعض اوقات تو مسافر خود گَڈی نہیں چلارہا ہوتا، نہ اُسے منزل اور راستے سے غرض ہوتی ہے، ڈرائیور اور سڑک جہاں لے جانا ہو لے جائیں۔
لیجیے، بات ہورہی تھی قاسم سوری کی اور ہم سڑک کا قصہ لے بیٹھے۔ جرنیلی سڑک کے علاوہ شیرشاہ سوری اور قاسم سوری صاحب میں ایک اور قدرمشترک بھی ہے۔ ہم اس موازنے پر شیرشاہ سوری سے sorry کرتے ہیں، لیکن اپنی ڈھٹائی کے باعث موازنے سے باز نہیں آئیں گے۔
تو یہ دوسری قدرمشترک ہے ''حکم شاہی۔'' شیرشاہ سوری بہ طور بادشاہ فرمان جاری کرتا تھا، ہمارے سوری صاحب نے بھی بہ حیثیت ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ایک شاہی فرمان جاری کیا تھا کہ اسمبلی میں کوئی لفظ ''سلیکٹڈ'' استعمال نہ کرے۔ اس حکم نامے کی وجہ اب سمجھ میں آئی ہے، جب بلوچستان ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے نوابزادہ لشکری رئیسانی کی درخواست پر فیصلہ سُناتے ہوئے قاسم سوری کو ان کی نشست سے محروم کردیا اور اس نشست پر دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا۔ جس درخواست پر یہ فیصلہ سُنایا گیا اس کے مطابق کوئٹہ کے اس حلقے این اے 265 میں 114,000پرچیاں ڈبوں میں ڈالی گئیں، جن میں سے 65,000 ووٹ جعلی۔۔۔ یا تمیز کی زبان میں کہیں تو غیرتصدیق شدہ نکلے۔ یوں سوری صاحب کی کام یابی کالعدم قرار پائی۔
ہم حیران بھی ہیں اور پریشان بھی۔۔۔حیران یہ سوچ کر کہ ایسے صاف شفاف، دُھلے دُھلائے، پاکیزہ، پَوِتر اور بے داغ انتخابات میں سو دوسو نہیں پورے پینسٹھ ہزار جعلی ووٹ بھگتا دیے گئے! اور پریشانی کا سبب یہ ہے کہ اگر تمام انتخابی عذرداریوں پر چھان پھٹک اور فیصلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تو کہیں کام یابیاں کالعدم ہونے کی قطار نہ لگ جائے۔ دراصل 2018 کے انتخابات اسی لیے صاف شفاف کہے جاتے ہیں کہ ان میں بڑی صفائی سے ہاتھ کی صفائی دکھائے جانے کے باوجود اتنی شفافیت تھی کہ صفائی صاف نظر آگئی اور اب بھی وقتاًفوقتاً اپنے جلوے دکھاتی رہتی ہے۔
قاسم سوری کی کام یابی کو ایک سال کی تگ ودو کے بعد کالعدم قرار دلوانے والے لشکری رئیسانی صاحب کے ہم قبیلہ اسلم رئیسانی کہہ چکے ہیں ''ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی'' ان کے اس سنہرے قول کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ کام یابی کام یابی ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔ بس کام یابی کے لیے دَم ہونا ضروری ہے، پھر اس کے کالعدم ہونے کا فیصلہ بھی راہی عدم ہوجاتا ہے۔
کام یابی کے لیے جس میں جتنا ہے دم والا دم کم ہو تو دَم کرالیا جاتا ہے، یہ دم وہ عامل کرتے ہیں جن سے ہر ایک کا دَم نکلتا ہے، جس پر دم کر دیا جائے وہ دم کرنے والوں کا ہم دم ہوجاتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جس طرح ایک مقولے کے مطابق ہر کام یاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، اسی طرح انتخابات میں کام یاب ہونے والے بہت سے امیدواروں کے پیچھے ایک بھاری ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ وہی ہاتھ ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا
ہاتھ دیا اُس نے مِرے ہات میں
میں تو ولی ہوگیا اک رات میں
یہ انتخابات کی رات ہوتی ہے۔ شاید ایسی ہی کسی رات کے بارے میں وسیم بریلوی نے کہا تھا
رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے
سیدھی سی بات ہے کہ اگر چراغ جلتے رہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ رات باقی ہے۔ بعض دفعہ چراغوں کی عمر بڑھانے کے لیے رات کی طوالت دراز کردی جاتی ہے۔ یہی تو ہُوا۔ انتخابات کی رات جلائے گئے چراغوں کو ہوا سے بچانے کے لیے کیا کیا اہتمام نہ کیا گیا، سب سے پہلے تو یہ یقین دہانی کرادی گئی تھی کہ ۔۔۔کرو نہ فکر ضرورت پڑی تو ہم دیں گے۔
لہو کا تیل چراغوں میں ڈالنے کے لیے۔ یہ وعدہ اس وقت گلے پڑ گیا جب پتا چلا کہ چراغوں کی لو سرشام ہی ''پھڑپھڑانے'' لگی ہے، بس پھر چراغوں کو خوب لہو پلایا گیا، مگر دوسروں کا۔ بھائی مصطفیٰ کمال اب تک اس خوں ریزی پر خون کے آنسو روتے ہیں اور کہتے ہیں ''دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے۔'' بہ ہرحال چراغ جل اُٹھے تو انھیں منتخب ایوانوں کی نشستوں اور عہدوں سے وزارتوں تک پھیلے طاقوں پر سجا دیا گیا، انھیں گُل ہونے سے بچانے کے لیے ہوا کے سامنے دیواریں کھڑی کردی گئیں، جھونکوں کو جھڑکیاں سُنا کر ان کا راستہ تبدیل کرادیا گیا، ٹی وی چینلوں کی کھڑکیوں کو پابند کردیا گیا کہ ہوا نہ آنے پائے۔
اب اتنی محنت سے جلائے اور بچائے جانے والے دِیوں میں سے کوئی بجھتا دکھائی دے تو یہ اندیشہ تو ہوگا نہ کہ باری باری سب کی باری آئے گی۔ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ ''جس دیے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا'' کیوں کہ الیکشن ٹریبونلز نے پھونکیں مارنا شروع کردیں تو ''چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں'' کا منظر ہوگا، پھر چراغ ساز کہہ اٹھیں گے
ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا
پھر گِلہ کیوں ہمیں ہَوا سے رہے
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چراغاں بچانے کی خاطر کسی ایک چراغ کو بھی بجھنے نہ دیا جائے ، اور پھر احمد فراز کا یہ شعر ایک تبدیلی کے ساتھ حقیقت بن جائے
اگرچہ زور ہَواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر ''ادارے'' نے لَو کو سنبھال رکھا ہے
یہ صفحہ اشاعت کے لیے جارہا تھا کہ خبر ملی چراغ بجھنے سے بچا لیا گیا ہے۔n
شیرشاہ سوری کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ اس نے جرنیلی سڑک تعمیر کرائی تھی۔ ہمارے قاسم سوری صاحب نے کوئی سڑک تو تعمیر نہیں کرائی لیکن وہ اپنے قائد عمران خان کی قیادت میں ''جرنیلی سڑک'' کے مسافر ضرور ہیں۔ یہ وہ سڑک نہیں جس کا ذکر اس گانے میں ہے ''میں نکلا، گَڈی لے کے، رستے میں سڑک پہ، اک موڑ آیا، میں وہیں دل چھوڑ آیا''۔۔۔اس سڑک پر کوئی موڑ نہیں آتا، اس پر چلتے ہوئے کتنے بھی یوٹرن لیے جائیں بندہ جہاں تھا وہیں رہتا ہے۔
اور پھر کوئی جب اس سڑک پر آنے کے لیے گڈی لے کے نکلتا ہے تو دل ٹھیک اسی جگہ رکھ دیتا ہے جہاں ابھی ابھی ضمیر نکال کر رکھا تھا۔ یہ وہ سڑک ہے جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا، ''سڑک پہ چلتے ہوئے آنکھیں بند رکھتا ہوں۔'' سڑک پر آنکھیں بند کرنے کی عیاشی اس لیے کرلی جاتی ہے کہ پتا ہوتا ہے ون وے ٹریفک ہے، بلکہ بعض اوقات تو مسافر خود گَڈی نہیں چلارہا ہوتا، نہ اُسے منزل اور راستے سے غرض ہوتی ہے، ڈرائیور اور سڑک جہاں لے جانا ہو لے جائیں۔
لیجیے، بات ہورہی تھی قاسم سوری کی اور ہم سڑک کا قصہ لے بیٹھے۔ جرنیلی سڑک کے علاوہ شیرشاہ سوری اور قاسم سوری صاحب میں ایک اور قدرمشترک بھی ہے۔ ہم اس موازنے پر شیرشاہ سوری سے sorry کرتے ہیں، لیکن اپنی ڈھٹائی کے باعث موازنے سے باز نہیں آئیں گے۔
تو یہ دوسری قدرمشترک ہے ''حکم شاہی۔'' شیرشاہ سوری بہ طور بادشاہ فرمان جاری کرتا تھا، ہمارے سوری صاحب نے بھی بہ حیثیت ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ایک شاہی فرمان جاری کیا تھا کہ اسمبلی میں کوئی لفظ ''سلیکٹڈ'' استعمال نہ کرے۔ اس حکم نامے کی وجہ اب سمجھ میں آئی ہے، جب بلوچستان ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے نوابزادہ لشکری رئیسانی کی درخواست پر فیصلہ سُناتے ہوئے قاسم سوری کو ان کی نشست سے محروم کردیا اور اس نشست پر دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا۔ جس درخواست پر یہ فیصلہ سُنایا گیا اس کے مطابق کوئٹہ کے اس حلقے این اے 265 میں 114,000پرچیاں ڈبوں میں ڈالی گئیں، جن میں سے 65,000 ووٹ جعلی۔۔۔ یا تمیز کی زبان میں کہیں تو غیرتصدیق شدہ نکلے۔ یوں سوری صاحب کی کام یابی کالعدم قرار پائی۔
ہم حیران بھی ہیں اور پریشان بھی۔۔۔حیران یہ سوچ کر کہ ایسے صاف شفاف، دُھلے دُھلائے، پاکیزہ، پَوِتر اور بے داغ انتخابات میں سو دوسو نہیں پورے پینسٹھ ہزار جعلی ووٹ بھگتا دیے گئے! اور پریشانی کا سبب یہ ہے کہ اگر تمام انتخابی عذرداریوں پر چھان پھٹک اور فیصلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تو کہیں کام یابیاں کالعدم ہونے کی قطار نہ لگ جائے۔ دراصل 2018 کے انتخابات اسی لیے صاف شفاف کہے جاتے ہیں کہ ان میں بڑی صفائی سے ہاتھ کی صفائی دکھائے جانے کے باوجود اتنی شفافیت تھی کہ صفائی صاف نظر آگئی اور اب بھی وقتاًفوقتاً اپنے جلوے دکھاتی رہتی ہے۔
قاسم سوری کی کام یابی کو ایک سال کی تگ ودو کے بعد کالعدم قرار دلوانے والے لشکری رئیسانی صاحب کے ہم قبیلہ اسلم رئیسانی کہہ چکے ہیں ''ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی'' ان کے اس سنہرے قول کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ کام یابی کام یابی ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔ بس کام یابی کے لیے دَم ہونا ضروری ہے، پھر اس کے کالعدم ہونے کا فیصلہ بھی راہی عدم ہوجاتا ہے۔
کام یابی کے لیے جس میں جتنا ہے دم والا دم کم ہو تو دَم کرالیا جاتا ہے، یہ دم وہ عامل کرتے ہیں جن سے ہر ایک کا دَم نکلتا ہے، جس پر دم کر دیا جائے وہ دم کرنے والوں کا ہم دم ہوجاتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جس طرح ایک مقولے کے مطابق ہر کام یاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، اسی طرح انتخابات میں کام یاب ہونے والے بہت سے امیدواروں کے پیچھے ایک بھاری ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ وہی ہاتھ ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا
ہاتھ دیا اُس نے مِرے ہات میں
میں تو ولی ہوگیا اک رات میں
یہ انتخابات کی رات ہوتی ہے۔ شاید ایسی ہی کسی رات کے بارے میں وسیم بریلوی نے کہا تھا
رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے
سیدھی سی بات ہے کہ اگر چراغ جلتے رہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ رات باقی ہے۔ بعض دفعہ چراغوں کی عمر بڑھانے کے لیے رات کی طوالت دراز کردی جاتی ہے۔ یہی تو ہُوا۔ انتخابات کی رات جلائے گئے چراغوں کو ہوا سے بچانے کے لیے کیا کیا اہتمام نہ کیا گیا، سب سے پہلے تو یہ یقین دہانی کرادی گئی تھی کہ ۔۔۔کرو نہ فکر ضرورت پڑی تو ہم دیں گے۔
لہو کا تیل چراغوں میں ڈالنے کے لیے۔ یہ وعدہ اس وقت گلے پڑ گیا جب پتا چلا کہ چراغوں کی لو سرشام ہی ''پھڑپھڑانے'' لگی ہے، بس پھر چراغوں کو خوب لہو پلایا گیا، مگر دوسروں کا۔ بھائی مصطفیٰ کمال اب تک اس خوں ریزی پر خون کے آنسو روتے ہیں اور کہتے ہیں ''دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے۔'' بہ ہرحال چراغ جل اُٹھے تو انھیں منتخب ایوانوں کی نشستوں اور عہدوں سے وزارتوں تک پھیلے طاقوں پر سجا دیا گیا، انھیں گُل ہونے سے بچانے کے لیے ہوا کے سامنے دیواریں کھڑی کردی گئیں، جھونکوں کو جھڑکیاں سُنا کر ان کا راستہ تبدیل کرادیا گیا، ٹی وی چینلوں کی کھڑکیوں کو پابند کردیا گیا کہ ہوا نہ آنے پائے۔
اب اتنی محنت سے جلائے اور بچائے جانے والے دِیوں میں سے کوئی بجھتا دکھائی دے تو یہ اندیشہ تو ہوگا نہ کہ باری باری سب کی باری آئے گی۔ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ ''جس دیے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا'' کیوں کہ الیکشن ٹریبونلز نے پھونکیں مارنا شروع کردیں تو ''چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں'' کا منظر ہوگا، پھر چراغ ساز کہہ اٹھیں گے
ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا
پھر گِلہ کیوں ہمیں ہَوا سے رہے
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چراغاں بچانے کی خاطر کسی ایک چراغ کو بھی بجھنے نہ دیا جائے ، اور پھر احمد فراز کا یہ شعر ایک تبدیلی کے ساتھ حقیقت بن جائے
اگرچہ زور ہَواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر ''ادارے'' نے لَو کو سنبھال رکھا ہے
یہ صفحہ اشاعت کے لیے جارہا تھا کہ خبر ملی چراغ بجھنے سے بچا لیا گیا ہے۔n