فیصل آباد اغوا کے بعد قتل ہونیوالے دکاندارکی بیوہ 10 ماہ سے انصاف کی منتظر
ایس ایچ او کوتوالی ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کرنے سے انکاری تھا، احتجاج پر معطل ہوا تو بحال ہوگیا، انصاف دلایا جائے،بیوہ
تھانہ کوتوالی کے سابق ایس ایچ او اور انچارج سیکیورٹی برانچ سی پی او آفس انسپکٹر فرحان تنویر داؤدی کی لاپرواہی کی بھینٹ چڑھنے والے دکاندار کی بیوہ 10 ماہ گزرنے کے باوجود انصاف کی منتظر ہے جبکہ مقدمے میں ذمے دارانسپکٹر فرحان تنویر داؤدی سینئر افسران کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عارضی طور پر بحال ہوگئے ہیں اور اب ضلع کی ایک اہم سیٹ پر براجمان ہیں۔
مذکورہ انسپکٹر انچارج سیکیورٹی برانچ کی ذمے داری صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلی سمیت اہم شخصیات ، اہم جلوسوں، محافل کو سیکیورٹی دینے کی ذمے داری ہے لیکن افسر موصوف ایک شخص کی بازیابی میں سنجیدہ نہ رہے اور اب کیسے سنجیدگی دکھا سکتے ہیں جبکہ بیوہ سسک سسک کر انصاف کی راہ دیکھ رہی ہے۔ بااثر انسپکٹر سابق ایس ایس پی کی جانب سے لگائی جانیوالی انکوائری کے احکام کو بھی دبانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ واقعے کے مطابق جھنگ روڈ کے رہائشی 45 سالہ زاہد نے جھنگ روڈ پر سستے بازار میں گارمنٹس اشیاء کا سٹال لگا رکھا تھا اور اپنے 2 چھوٹے بیٹوں 6سالہ فیضان اور 8سالہ رجب علی کی کفالت کا واحد سہار ا تھا۔ زاہد سستے بازار کی مسجد میں امام مسجد کے بھی فرائض سر انجام دیتا تھا۔
گھریلو تنگدستی کے باعث زاہد نے 3مرلے کا مکان فروخت کرنے کے لیے سرور سے سود ا طے کیا تو پراپرٹی ڈیلرز ارشد،شجاعت اور حید ر اشرف نے مکان کی فروخت میں معاونت کی۔ مکان کی قیمت 30 لاکھ طے پائی اور خریداروں نے زاہد اور اس کی بیوی کو ضلع کچہر ی میں رقم حوالے کرنے اور بیانات دینے کیلئے بلوا لیا۔ خریداروں نے فروخت کنندہ زاہد کو 14 لاکھ دے دیے اور باقی رقم بینک سے لینے کے لیے تھانہ کوتوالی کے پاس لے گئے۔زاہد کی اہلیہ اپنے خاوند کے انتظار میں تھی لیکن زاہد شام تک واپس نہ آیا اور خریدار بھی غائب ہوگئے جس کے بعد زاہد کی بیوہ اور بھائی مقصود نے تھانہ کوتوالی میں زاہد کے اغواء ہونیکی درخواست 6 دسمبر کو جمع کروا دی۔ سابق ایس ایچ او فرحان تنویر داؤدی نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہ انھوں نے زاہد کے اغواء کا ڈرامہ رچایا ہے۔ پھر زاہد کی اہلیہ نے سٹی پولیس آفیسر کو درخواست دی لیکن بات نہ بنی جس کے بعد متاثرین نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت سے رجوع کیا تو تھانے سے واقعے کے حوالے سے رائے مانگی گئی۔
ایس ایچ او فرحان داؤدی نے لکھ دیا کہ یہ سارا ڈرامہ رچا رہے ہیں۔ زاہد کی اہلیہ نجمہ زاہد اپنے دیور کے ساتھ خاوند کو 2 ہفتوں تک تلاش کرتی رہی۔ اس دوران واقعے کے 19 روز بعد تھانہ ٹھیکری والا سے ایک نامعلوم لاش برآمد ہوئی ۔تو شناخت پر وہ لاش مغوی زاہد کی نکلی۔جس پر ورثاء اور اہل محلہ نے لاش جھنگ روڈ پر رکھ کر احتجاج شروع کردیا۔ سابق ایس ایس پی آپریشن صادق ڈوگر موقع پر پہنچے تو فرحان تنویر داؤدی کو مقدمے درج کرنے کا حکم دیا۔ ورثاء نے سابق انچارج تھانہ کوتوالی کو ملزمان کا بتایا لیکن اس کے باوجودقتل اور اغواء کی دفعات کے تحت نامعلوم افرادکے خلاف مقدمہ درج کردیا گیا۔ سابق ایس ایس پی کو بتایا گیا کہ اس تمام صورتحال میں یہی انسپکٹر ذمے دار ہے، انھوں نے ایس ایچ او کی جواب طلبی کرلی ۔
ورثاء نے انسپکٹر کے خلاف کارروائی کیلیے ستیانہ روڈ گیٹ چوک کو 6 گھنٹوں کیلیے بلاک رکھا جس پر پولیس نے پہلے تو ان پر لاٹھی چارج کیا پھر ایس ایچ او معطل کرکے انکوائری شروع کردی ۔سابق ایس ایس پی انویسٹی گیشن عبدالحمید کھوسو نے ڈی ایس پیز خالد بشیر ،خالد متین اور انسپکٹرز یاسر جٹ ،حافظ عرفان اور عامر مشتاق پر مشتمل انکوائری کمیٹی بنادی ۔ ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی نے پہلی انکوائری میں انسپکٹر فرحان کو ذمے دار تصور کرلیا لیکن کارروائی کی بجائے فائلیں دبا دیں۔ یہ فائلیں آج تک سرد خانے کی نظر ہیں۔ ورثاء نے عدالت سے رجوع کیا تو پولیس نے مجبوراً سرور،ارشد ، شجاعت اور حیدر شجاعت کو مقدمے میں نامزد کیا اور ایس ایچ او فرحان کے دباؤ پر انہیں چھوڑ دیا اور تحریر کردیا کہ اس واقعہ میں زاہد اغواء نہیں ہوا، اس کے رشتہ داروں نے قتل کیا ہے۔ ایس ایچ او نے خود بری الزمہ ہونے کیلیے یہ ہتھکنڈے استعمال کیے ۔
ورثاء اب انصاف کیلیے دربدر ہیں ۔ضلع کی اہم سیٹ پر تعیناتی سیکیورٹی انچارج سیٹ کے مزے لے رہا ہے جبکہ مقتول زاہد کی بیوہ نجمہ زاہد انصاف کیلیے حکمرانوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔ ایک عدالتی حکم کے تحت معطل کیا گیا انسپکٹر ضلع کی حساس سیٹ پر تعینات ہے ۔ سیکیورٹی برانچ کی ذمے دار ضلع بھر میں شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اور مشکوک افراد پر نظر رکھنا ہے ۔جو شخص ایک آدمی کو تحفظ نہ دے سکا اور اس کی بازیابی کیلیے اقدامات نہ کرسکا اور حساس نوعیت کے جلوسوں، محافل اور اعلیٰ شخصیات کو سیکیورٹی دینے کی ذمے داری احسن طریقے سے کیسے نبھا سکتاہے۔ مقتول کے ورثاء اقتدار کے ایوانوں سے یہی سوال کررہے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں۔ مذکورہ انسپکٹر کے خلاف فوری کارروائی عمل میںلائی جائے اور انھیں انصاف فراہم کیا جائے۔
مذکورہ انسپکٹر انچارج سیکیورٹی برانچ کی ذمے داری صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلی سمیت اہم شخصیات ، اہم جلوسوں، محافل کو سیکیورٹی دینے کی ذمے داری ہے لیکن افسر موصوف ایک شخص کی بازیابی میں سنجیدہ نہ رہے اور اب کیسے سنجیدگی دکھا سکتے ہیں جبکہ بیوہ سسک سسک کر انصاف کی راہ دیکھ رہی ہے۔ بااثر انسپکٹر سابق ایس ایس پی کی جانب سے لگائی جانیوالی انکوائری کے احکام کو بھی دبانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ واقعے کے مطابق جھنگ روڈ کے رہائشی 45 سالہ زاہد نے جھنگ روڈ پر سستے بازار میں گارمنٹس اشیاء کا سٹال لگا رکھا تھا اور اپنے 2 چھوٹے بیٹوں 6سالہ فیضان اور 8سالہ رجب علی کی کفالت کا واحد سہار ا تھا۔ زاہد سستے بازار کی مسجد میں امام مسجد کے بھی فرائض سر انجام دیتا تھا۔
گھریلو تنگدستی کے باعث زاہد نے 3مرلے کا مکان فروخت کرنے کے لیے سرور سے سود ا طے کیا تو پراپرٹی ڈیلرز ارشد،شجاعت اور حید ر اشرف نے مکان کی فروخت میں معاونت کی۔ مکان کی قیمت 30 لاکھ طے پائی اور خریداروں نے زاہد اور اس کی بیوی کو ضلع کچہر ی میں رقم حوالے کرنے اور بیانات دینے کیلئے بلوا لیا۔ خریداروں نے فروخت کنندہ زاہد کو 14 لاکھ دے دیے اور باقی رقم بینک سے لینے کے لیے تھانہ کوتوالی کے پاس لے گئے۔زاہد کی اہلیہ اپنے خاوند کے انتظار میں تھی لیکن زاہد شام تک واپس نہ آیا اور خریدار بھی غائب ہوگئے جس کے بعد زاہد کی بیوہ اور بھائی مقصود نے تھانہ کوتوالی میں زاہد کے اغواء ہونیکی درخواست 6 دسمبر کو جمع کروا دی۔ سابق ایس ایچ او فرحان تنویر داؤدی نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہ انھوں نے زاہد کے اغواء کا ڈرامہ رچایا ہے۔ پھر زاہد کی اہلیہ نے سٹی پولیس آفیسر کو درخواست دی لیکن بات نہ بنی جس کے بعد متاثرین نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت سے رجوع کیا تو تھانے سے واقعے کے حوالے سے رائے مانگی گئی۔
ایس ایچ او فرحان داؤدی نے لکھ دیا کہ یہ سارا ڈرامہ رچا رہے ہیں۔ زاہد کی اہلیہ نجمہ زاہد اپنے دیور کے ساتھ خاوند کو 2 ہفتوں تک تلاش کرتی رہی۔ اس دوران واقعے کے 19 روز بعد تھانہ ٹھیکری والا سے ایک نامعلوم لاش برآمد ہوئی ۔تو شناخت پر وہ لاش مغوی زاہد کی نکلی۔جس پر ورثاء اور اہل محلہ نے لاش جھنگ روڈ پر رکھ کر احتجاج شروع کردیا۔ سابق ایس ایس پی آپریشن صادق ڈوگر موقع پر پہنچے تو فرحان تنویر داؤدی کو مقدمے درج کرنے کا حکم دیا۔ ورثاء نے سابق انچارج تھانہ کوتوالی کو ملزمان کا بتایا لیکن اس کے باوجودقتل اور اغواء کی دفعات کے تحت نامعلوم افرادکے خلاف مقدمہ درج کردیا گیا۔ سابق ایس ایس پی کو بتایا گیا کہ اس تمام صورتحال میں یہی انسپکٹر ذمے دار ہے، انھوں نے ایس ایچ او کی جواب طلبی کرلی ۔
ورثاء نے انسپکٹر کے خلاف کارروائی کیلیے ستیانہ روڈ گیٹ چوک کو 6 گھنٹوں کیلیے بلاک رکھا جس پر پولیس نے پہلے تو ان پر لاٹھی چارج کیا پھر ایس ایچ او معطل کرکے انکوائری شروع کردی ۔سابق ایس ایس پی انویسٹی گیشن عبدالحمید کھوسو نے ڈی ایس پیز خالد بشیر ،خالد متین اور انسپکٹرز یاسر جٹ ،حافظ عرفان اور عامر مشتاق پر مشتمل انکوائری کمیٹی بنادی ۔ ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی نے پہلی انکوائری میں انسپکٹر فرحان کو ذمے دار تصور کرلیا لیکن کارروائی کی بجائے فائلیں دبا دیں۔ یہ فائلیں آج تک سرد خانے کی نظر ہیں۔ ورثاء نے عدالت سے رجوع کیا تو پولیس نے مجبوراً سرور،ارشد ، شجاعت اور حیدر شجاعت کو مقدمے میں نامزد کیا اور ایس ایچ او فرحان کے دباؤ پر انہیں چھوڑ دیا اور تحریر کردیا کہ اس واقعہ میں زاہد اغواء نہیں ہوا، اس کے رشتہ داروں نے قتل کیا ہے۔ ایس ایچ او نے خود بری الزمہ ہونے کیلیے یہ ہتھکنڈے استعمال کیے ۔
ورثاء اب انصاف کیلیے دربدر ہیں ۔ضلع کی اہم سیٹ پر تعیناتی سیکیورٹی انچارج سیٹ کے مزے لے رہا ہے جبکہ مقتول زاہد کی بیوہ نجمہ زاہد انصاف کیلیے حکمرانوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔ ایک عدالتی حکم کے تحت معطل کیا گیا انسپکٹر ضلع کی حساس سیٹ پر تعینات ہے ۔ سیکیورٹی برانچ کی ذمے دار ضلع بھر میں شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اور مشکوک افراد پر نظر رکھنا ہے ۔جو شخص ایک آدمی کو تحفظ نہ دے سکا اور اس کی بازیابی کیلیے اقدامات نہ کرسکا اور حساس نوعیت کے جلوسوں، محافل اور اعلیٰ شخصیات کو سیکیورٹی دینے کی ذمے داری احسن طریقے سے کیسے نبھا سکتاہے۔ مقتول کے ورثاء اقتدار کے ایوانوں سے یہی سوال کررہے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں۔ مذکورہ انسپکٹر کے خلاف فوری کارروائی عمل میںلائی جائے اور انھیں انصاف فراہم کیا جائے۔