این اے 256این اے258 مقناطیسی سیاہی استعمال نہ کیے جانے کی وجہ سے ووٹ تصدیق کے قابل نہیں تھے نادرا ذرائع

ناقابل تصدیق ووٹوں کے شناختی کارڈزنمبر نادرا کے ریکارڈاور انتخابی فہرستوں سے موازنہ کررہے ہیں، نادرا

ناقابل تصدیق ووٹوں کے شناختی کارڈزنمبر نادرا کے ریکارڈاور انتخابی فہرستوں سے موازنہ کررہے ہیں، نادرا. فوٹو: فائل

نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) کے ذمے دار ذرائع نے بتایاہے کہ کراچی کی 2قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 258اور این اے 256کے ووٹوں کی تصدیق کے مرحلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹرزکے انگوٹھوں پرمقناطیسی سیاہی استعمال نہ کیے جانے کے باعث بالترتیب دونوں حلقوں سے 23ہزار 432اور 57ہزار 642ووٹوں کی تصدیق نہیں کی جاسکی۔

تاہم نادرا ریکارڈ کے مطابق یہ تمام ووٹرز دونوں حلقوں سے تعلق رکھتے تھے۔11مئی کو عام انتخابات کے موقع پردھاندلی ودیگر شکایات کونمٹانے کیلیے انتخابی ٹریبونلز قائم کیے گئے ہیں تاہم الیکشن ٹریبونل کراچی نے تیزتر کارروائی کرتے ہوئے سب سے پہلے 4قومی وصوبائی اسمبلیوں این اے256، این اے 258، پی ایس 114اور پی ایس 128کا انتخابی ریکارڈنادراکو تصدیق کیلیے بھجوایاجس پر نادرا نے فوری کارروائی کرتے ہوئے این اے256اور این اے 258کی رپورٹ انتخابی ٹریبونل کراچی کے حوالے کردی ۔

جبکہ پی ایس 114کے انتخابی ریکارڈ کی تصدیق کامرحلہ تقریباًمکمل ہوچکا ہے، نادرا کے باخبر ذرائع نے بتایاکہ این اے256میں 6ہزار815 ووٹوں کی درستگی ثابت ہوئی،20ہزار 291ووٹ جعلی جبکہ 57ہزار 642ووٹوں کے ریکارڈمیں ووٹرز کے انگوٹھوں پرمقناطیسی سیاہی کااستعمال نہ ہونے کے باعث نادرا کاسسٹم تصدیق نہ کرسکاتاہم کاؤنٹرفائل پردرج ہونے والے شناختی کارڈ نمبرزکے مطابق تمام ووٹرز اسی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں، این اے 258میں صرف 2ہزار475ووٹوں کی درستگی ثابت ہوئی جبکہ 6ہزار 958 ووٹ جعلی اور 23ہزار 432ووٹ مقناطیسی سیاہی کااستعمال نہ ہوکے باعث غیرتصدیق شدہ ثابت ہوئے، ناقابل تصدیق ووٹوں کے شناختی کارڈزنمبر نادرا کے ریکارڈاور انتخابی فہرستوں سے موازنہ کررہے ہیں۔

جس کے مطابق ووٹرز کاتعلق اسی حلقے سے تھا، الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق عام انتخابات کے موقع پرانتخابی عملے کو2قسم کے انک پیڈفراہم کیے گئے تھے جن میں مقناطیسی سیاہی ووٹرزکے انگوٹھوں پرلگا کرکاؤنٹر فائل پرثبت کرنی تھی جبکہ دوسری انک پیڈعام نوعیت کی تھی جو اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسران نے بیلٹ پیپرپرمہر لگا کر اپنے دستخط کرنے تھے، الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ اس بات کا امکان ہے کہ عام انتخابات کے موقع پر انتخابی عملے نے دانستہ یا غیردانستہ ووٹرز کے انگوٹھوں پرمقناطیسی سیاہی لگانے کے بجائے عام نوعیت کی سیاہی لگا کر کاؤنٹر فائل پرنشانات ثبت کروائے جس کے باعث نادرا کاسسٹم اسے پراسس نہیں کرسکا۔


نادرا ذرائع کے مطابق عام انتخابات سے قبل نادرا نے الیکشن کمیشن کو خبردار کردیا تھاکہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کیلیے انتخابی عملے کو مقناطیسی سیاہی کافراہم کیا جانا ضروری ہے تاہم یہ بات تحقیق طلب ہے کہ انتخابی عملے کو مقناطیسی سیاہی فراہم بھی کی گئی تھی یانہیں کی گئی تھی،اس بات کا بھی امکان ہے کہ انتخابی عملہ غیرتربیت یافتہ تھااور مقناطیسی سیاہی کے بجائے عام نوعیت کی سیاہی ووٹرزکے انگوٹھوں پرلگائی گئی ہوجس سے دونوں حلقوں میں ووٹرزکی بڑی اکثریت کے انگوٹھوں کے نشانات نادراکے آٹومیٹیڈفنگر پرنٹ آئی ڈینٹی فگیشن سسٹم سے تصدیق نہ ہوسکے،ناقابل تصدیق ووٹوں کی اصل کہانی انتخابی ٹریبونل میں نادرا افسران، پریذائیڈنگ افسران اور امیدواروں سے جرح کے دوران کھلے گی کہ مقناطیسی سیاہی استعمال نہ کرنے کا ذمے دارکون ہے۔



دریں اثناسندھ اسمبلی میں قائدحزبِ اختلاف فیصل سبزواری نے کہاہے کہ میڈیاٹمپرنگ کے ذریعے کراچی اوراس کے شہری نمائندوںکونشانہ بنانے کاعمل فوری بندہوناچاہیے،آئین پاکستان ہرشہری کوووٹ کا حق دیتاہے اورہرپاکستانی کایہ اختیارہے کہ وہ حق رائے دہی کے ذریعے جس کوچاہیے منتخب کرائے،سازشی ہتھکنڈوں کے ذریعے شہریوں سے ووٹ کاحق چھین کر انھیں دیوارسے لگایاجارہاہے بلکہ یہ عمل ایم کیوایم کے خلاف ان سازشوں کاتسلسل ہے جواس کاووٹ بینک ختم کرنے کیلیے گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہیں لیکن اب یہ عمل بندہونا چاہیے،اگرایم کیوایم کے مینڈیٹ پرحملے کی کوشش کی گئی توہرقانونی طریقہ استعمال کریں گے۔

خورشید بیگم سیکریٹریٹ عزیزآبادمیں پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے فیصل سبزواری نے کہاکہ نادرانے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے256کے حوالے سے رپورٹ دی ہے جس میں نادرا نے واضح الفاظ میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ حلقہ این اے256میں تصدیق کیے گئے ووٹرزمیں سے 77 ہزاربیلٹ پیپرپرپائے گئے انگوٹھے کے نشان(تھمب اسٹمپ) ناقابل شناخت دی گئی ہے جس کی نادراکی جانب سے وضاحت بھی دی ہے کہ وہ تھمب اسٹمپ کیلیے مطلوبہ سیاہی(انک)اور ناقص بیلٹ پیپرکی وجہ ہیں،انگوٹھے کی تصدیق کاعمل ملک بھرمیں دہرایا جائے تواس کابھی یہی نتیجہ آئے گا،متحدہ قومی موومنٹ، پیپلزپارٹی اورعوامی نیشنل پارٹی نے ملک میں جمہوریت کے فروغ کیلیے قربانیاںدیں اور الیکشن مہم کے دوران انتہاشدت پسندطالبان دہشت گردوں کی کھلی دھمکیوں اورحملوں کاسامنا بھی کیا،یہ رپورٹ میڈیاپر آئی اوراس پرجوفضابنائی گئی ہے۔

اس پرہمیں شدید اختلافات ہیں اوراس قابل افسوس رپورٹنگ کیخلاف ایم کیوایم جلدہی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع بھی کرے گی،کسی بھی ایک مخصوص طبقے کے عوام اوران کے منتخب کردہ نمائندوں کودیوارسے لگایا جائے گاتویہ بہت افسوسناک ہے جس میں سوائے نفرتوں کے کچھ نہیں ملے گا،ایم کیوایم انتخابی اصلاحات کیلیے سادہ کاغذ پر بھی دستخط کرنے کوتیارہے لیکن کراچی اس کے عوامی نمائندوں اور عوام کے حق رائے دہی کے عمل کوجس طرح دیوار سے لگایا جارہاہے وہ سراسرغلط اور تعصب پرمبنی ہے۔انھوں نے میڈیا رپورٹرز، اینکرپرسن، تجزیہ نگار اورسیاسی جماعتوں سے سوال کیاکہ این اے256 اور این اے 258 میں فرق کیا ہے؟ سوائے اس بات کے کہ این اے256سے ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والے حق پرست امیدواراقبال محمدعلی کامیاب ہوئے جوکہ پہلی مرتبہ نہیں بلکہ تیسری مرتبہ اس حلقے سے کامیاب ہوئے ہیں تاہم میڈیاپرشورمچایا جارہا ہے کہ وہاں ڈالے جانیوالے ووٹ جعلی تھے،عام انتخابات میں بیلٹ پیپر،انگوٹھے کی سیاہی، پریزائیڈنگ افسران کی تعیناتی کوچیک کرناایم کیوایم کی ذمے داری نہیں بلکہ یہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے لیکن ساراکاسارانزلہ ایم کیو ایم پرڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
Load Next Story