شام میں ترک فوج کے حملے میں امریکی فوج بھی زد میں آگئی

ہدف امریکی چوکی نہیں، کرد جنگجوؤں کی کمین گاہ تھی جہاں سے ہمارے پولیس اسٹیشن پر میزائل داغے گئے تھے، ترک وزیر خارجہ


ویب ڈیسک October 12, 2019
امریکی فوجی تل ابیض میں پٹرولنگ کر رہے ہیں جہاں ترک فوج اور کردوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ فوٹو : اے ایف پی

شام ميں علیحدگی پسند کردوں کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے ترک افواج کی پيش قدمی جاری ہے تاہم اس دوران غلطی سے ایک امریکی فوج کی چوکی بھی زد میں آگئی۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق شام ميں کردوں کے خلاف ترک فوجی کی کارروائی کے تیسرے روز بھی گھمسان کی جھڑپ جارہی رہی جس کے دوران غلطی سے امریکی فوج کی ایک چوکی غلطی سے زد میں آگئی تاہم کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔

شام میں تعینات امریکی فوج کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ترک فوج کی گولہ باری کی زد میں امریکی فوج کی ایک چوکی بھی آگئی تاہم گولہ باری کے نتیجے میں امریکی فوج کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ پینٹاگون کے مطابق اس واقعے پر ترک فوج کو متنبہ بھی کیا گیا ہے۔

یہ خبر پڑھیں: شام میں ترک فوج کی کارروائی میں درجنوں کرد جنگجو ہلاک

دوسری جانب ترک افواج نے امریکی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ شام میں کارروائی کے دوران امريکی چوکی ان کا ہدف نہيں تھا بلکہ گولہ باری امریکی چوکی کے قریب کرد جنگجوؤں کے ايک عسکری ہدف پر کی گئی تھی جہاں سے گزشتہ روز کرد جنگجوؤں نے ترک پولیس اسٹیشن پر میزائل داغے تھے۔

یہ خبر پڑھیں: شام میں ترک آپریشن پر تنقید جاری رہی تو 36 لاکھ شامی مہاجرین کو یورپ بھیج دیں گے،اردوان

ترکی کے وزیر خارجہ نے معاملے کی سنگینی کا ادارک کرتے ہوئے پینٹاگون سے رابطہ کیا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان روابط مزید مستحکم بنانے پر زورد دیا تھا تاکہ اس قسم کے واقعات مزید رونما نہ ہوسکیں اور اعتماد کی فضا قائم رہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں: شام میں ترکی کے فوجی آپریشن پر رضامند نہیں، امریکی وزیر خارجہ

واضح رہے کہ ترک صدر نے شام میں کردوں کے زیر تسلط علاقے میں فوجی آپریشن سے قبل امریکی صدر سے ٹیلی فونک گفتگو میں شام اور ترک سرحد سے امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ کیا تھا جس پر امریکا نے ترک فوج کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے سابق اتحادی کردوں کی ناراضگی کے باوجود اپنی فوجیں واپس بلالی تھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں