پاکستان میں حصول انصاف دوسرا اور آخری حصہ
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں انصاف کی فراہمی کے مسئلہ پر صرف سیاسی نعروں پر ہی اکتفا کر لیتی ہیں۔
مقامی عدالتوں میں عورتوں کو انصاف کے حصول کے لیے جن کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، وہ تکلیف دہ ہے وہ عورتیں جو خاص طور پر معاشی اورسماجی طور پرکمزور ہوتی ہے، انھیں سب سے زیادہ استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالیہ دنوں میں ایک واقعہ رونما ہوا جس میڈیا پر بھی کافی ڈسکس ہوا جس میں ایک خاتون کانسٹیبل کو ایک وکیل نے تھپڑمارا، سوشل میڈیا پر یہ بات آنے کے بعد وکیل کو حراست میں بھی لیا گیا، پھر اس خاتون کانسٹیبل پر وکلا برادری کی جانب سے اتنا دبائو ڈالا گیا کہ وہ نوکری چھوڑنے کا اعلان اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کربیٹھی، محکمہ پولیس نے یہ اعلان خاتون کو واپس لینے پر مجبورکیا تو ایک حکومتی ترجمان نے کہا کہ ''تھپڑ'' مارنے کی بھلا سزا کیا ہوسکتی ہے؟
میری ذاتی رائے میں تو تھپڑکا جواب تھپڑ ہی ہے کہ وہ لیڈی کانسٹیبل بھی اس شخص کو اتنی زورکا جوابی تھپڑ رسید کر دیتی۔ وہ کیوں انصاف کے لیے عدالتوں میں رل رہی ہے؟ حد تو یہ ہے کہ ملکی عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر التواء ہیں۔ مثلا صوبہ پنجاب میں ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد سول ججوں کے ساتھ اور ،20 ہزار سے بھی کم عدالتی اسٹاف کے ساتھ ایک ملین سے زائد مقدمات کو نمٹانا آسان کام نہیں۔ لیکن فہمیدہ و سنجیدہ حلقوں کی رائے یہ ہے کہ سیاسی معاملات پرمبنی مقدمات پر زیادہ توجہ مرکوزکی جاتی ہے، جس کی وجہ سے برسہا برس سے زیر التواء مقدمات کے فیصلوں میں مزید تاخیر ہو رہی ہے، ہمارے پورے عدالتی نظام کا انفرا اسٹرکچر برطانوی ہی ہے۔
برطانوی آئین '' غیر تحریری'' کہلاتا ہے۔ اس کے بارے میں پروفیسر اوگ اورزنگ اپنی رائے کا اظہارکچھ یوں کرتے ہیں کہ یہ روایات ان مفاہمتوں ، عادتوں یا طریقوں سے مل کر بنتی ہیں، جو محض سیاسی اخلاق کے اصول ہوتے ہوئے بھی بڑے سے بڑے عوامی اقدارکے زمرے کے تعلقات اور کارکردگی کو بڑی حد تک متاثرکرتے ہیں۔'' پروفیسر ڈائیسی نے مختلف مثالیں دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دستوری روایات قانون نہیں ہیں مگرجوکوئی انھیں توڑتا ہے وہ قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اسے قانون کی خلاف ورزی کی سزا ملتی ہے۔
لاول کے خیال میں دستوری روایات کی اس لیے پابندی کی جاتی ہے کیوں کہ وہ ضابطہ تعظیم ہے۔ جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ روایات پر عمل ہو۔ ورنہ خانہ جنگی اور انقلابی خطرہ پیدا ہوجائے گا۔ ہمیں اگر پاکستان میں جلد جلد انصاف فراہم کرنا ہے توہمیں اپنی اخلاقی ، سماجی اور ثقافتی روایات کیمطابق عدالتی نظام کی تشکیل نوکرنی ہوگی۔ چند تجاویزجو قابل عمل ہوسکتی ہیں ان کو ضابطہ تحریر میں لا رہی ہو۔ ہمیں ماتحت عدالتوں میں ججزکی تعداد بڑھانے کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہیے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوگوں کے مقدمات کو جلد از جلد نمٹانا اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔
انگریزوں نے یہ توکیا کہ صوبے کی سطح پر ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ کی سطح پر دیوانی مقدمات میں ڈسٹرکٹ جج اور فوجداری مقدمات میں سیشن جج، یعنی فوجداری مقدمات میں مجسٹریٹ اور دیوانی مقدمات میں سول جج لگا دیا۔ سات دہائیاں گزرگئیں، ہمیں آزاد ہوئے، ہم اسے مزید گراس روٹ پر نہیں لے جا سکے، اگر ہم یونین کونسل کی سطح تک عدالتی نظام کو لے جائیں تو بہتر ہے۔ اور یونین کونسل کی سطح پر چھوٹے مقدمات جن کا فیصلہ ایک یا دو سماعتوں میں ہوجانا چاہیے وہ ایک لوکل مسئلہ ہوتا ہے گواہ بھی وہیں ہوتے ہیں فریقین بھی وہیں ہوتے ہیں اور اسی یونین کونسل میں آپ کسی وکیل کو فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیں، وکیل کرنے کی اجازت نہ دیں تو سول ججز پر جو بہت زیادہ بوجھ ہوتا ہے کم ہو جائے گا اور بہت سارے وکیل جو وکالت کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ کورٹس میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ یونین کونسل کے مقدمات کا فیصلہ کریں گے۔
یہ وہ گراس روٹ لیول ہے جس پر برطانیہ کا جدید ترین نظام انصاف مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہے۔جدید ٹیکنالوجی اور عدالتی نظام کے حوالے سے بات کی جائے تو ویڈیو کو شہادت ماننے کا مسئلہ بہت حد تک حل ہوچکا ہے، ہمارے قانون شہادت میں اس میں سے کچھ باتیں قبول بھی کی ہوئی ہیں، مثلاً سائبرکرائم، الیکٹرانک کرائم کے حوالے سے،جہاں تک ڈی این اے کا معاملہ ہے وہ بھی ایک ماہر کی رائے ہوتی ہے، ورنہ ڈی این اے بذات خود تو کچھ نہیں کہہ سکتی، لیبارٹری کی رپورٹ سامنے رکھنے کے بعد، سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ فلاں کی ہے، جس طرح فنگر پرنٹس میں چیک کیا کرتے تھے کہ یہ فنگر فلاں کی ہیں یا نہیں ہیں۔ لیکن اس میں بھی انسان اسے سمجھنے میں غلطی کر سکتا ہے بعض اوقات نادانستہ ہوتی ہے اور بعض اوقات دانستہ ہوتی ہے اور غفلت بھی ہوسکتی ہے۔
امریکا میں سپریم کورٹ کے سات ججز ہوتے ہیں لیکن وہاں کی سپریم کورٹ کے سامنے کیسز بہت کم آتے ہیں، وہ صرف آئینی مقدمات ہوتے ہیں، ہمارے ہاں سپریم کورٹ اپیل کورٹ بھی ہے، کریمنل کیسز، سول کیسز اور بعض اوقات فیملی کیسز بھی اس کے پاس آجاتے ہیں، ان کیسز کا بہت بوجھ ہوتا ہے۔ دوسرا آئینی مقدمات پچھلے کچھ عرصہ سے بہت زیادہ آرہے ہیں، اس حوالے سے ایک تجویزکو سنجیدگی سے لینا چاہیے کہ آئینی عدالت کی حیثیت سے سپریم کورٹ کو الگ حیثیت دی جائے اور کورٹ آف اپیلٹ کے طور پر سپریم کورٹ بالکل ایک مختلف کردار ادا کرے۔
مقدمات کی تاخیر کا سب سے بڑا سبب پولیس بنتی ہے، ضابطہ فوجداری کے تحت پولیس ہی چالان پیش کرتی ہے، پولیس کے پاس یہ سہولت بھی ہوتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ لین دین کرکے کم زور سا چالان پیش کر دے، آگے کی ساری کہانی اس چالان پر منحصر ہے، چالان میں جو اسٹوری بیان کی گئی اسی کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہے، یوں وکیل صفائی کا کام آسان ہوجاتا ہے کیوںکہ ملزم کے بارے میں یہ مفروضہ ہوتا ہے کہ وہ جرم ثابت ہونے تک معصوم ہے، اگر چالان کم زور ہے تو جج کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسے بری کر دے، چاہے باعزت بری کرے چاہے شک کا فائدہ دے کر بری کردے۔ یہ سب پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث ہوتا ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں انصاف کی فراہمی کے مسئلہ پر صرف سیاسی نعروں پر ہی اکتفا کر لیتی ہیں جب کہ عملی طور پر ان کا کام نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور یہ ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔کیا ہم نظام پولیس میں اصلاح کرنے سے اس کام کا آغاز نہیں کرسکتے۔ ہم نے اکثر اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ برٹش دور میں برصغیر میں ہرکام میرٹ پر ہوتا تھا۔ عدل وانصاف تھا وہ غیر ہوکر اپنے حکمرانوں سے لاکھ درجے اچھے تھے۔ پاکستان بنا تو اس وقت اور اس کے بعد بھی کئی عشروں تک قانون کی حرمت قائم تھی۔
ہم اس اچھی روایت کی پیروی نہ کرسکے۔ وطن عزیز میں سیکڑوں نہیں ہزاروں قتل پولیس کی ایف آئی آر میں ''نامعلوم '' درج ہیں اور یہ نامعلوم ملزمان ہی ہیں جنھوں نے پورے سسٹم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے صحافیوں کو خود بتایا کہ ان کی بیوی ، ساس اور دیگر قریبی رشتے دار اسٹریٹ کرائمزکا شکار ہوچکے ہیں، جب اتنی بے بسی ہو تو یہ نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
ہمارے آئین ساز اداروں کو سنجیدگی سے حصول انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنے کے لیے قوانین میں ترمیم یا اضافہ کرنا ہوگا اورایک ایسا نظام بنانا ہوگا جس میں مظلوم کو سستا اور فوری انصاف میسر آسکے۔ فریاد کرنے والے مظلوم دو سے تین نسلوں تک حصول انصاف کے لیے عدالتوں میں رلتا نہ رہے ، کیونکہ موجودہ نظام عدل میں غریب ومظلوم کے لیے انصاف کی راہیں مسدود ہوچکی ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ برطانیہ نے دو عظیم جنگیں صرف اس لیے جیتیں کہ وہاں عدلیہ آزاد تھی۔
حالیہ دنوں میں ایک واقعہ رونما ہوا جس میڈیا پر بھی کافی ڈسکس ہوا جس میں ایک خاتون کانسٹیبل کو ایک وکیل نے تھپڑمارا، سوشل میڈیا پر یہ بات آنے کے بعد وکیل کو حراست میں بھی لیا گیا، پھر اس خاتون کانسٹیبل پر وکلا برادری کی جانب سے اتنا دبائو ڈالا گیا کہ وہ نوکری چھوڑنے کا اعلان اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کربیٹھی، محکمہ پولیس نے یہ اعلان خاتون کو واپس لینے پر مجبورکیا تو ایک حکومتی ترجمان نے کہا کہ ''تھپڑ'' مارنے کی بھلا سزا کیا ہوسکتی ہے؟
میری ذاتی رائے میں تو تھپڑکا جواب تھپڑ ہی ہے کہ وہ لیڈی کانسٹیبل بھی اس شخص کو اتنی زورکا جوابی تھپڑ رسید کر دیتی۔ وہ کیوں انصاف کے لیے عدالتوں میں رل رہی ہے؟ حد تو یہ ہے کہ ملکی عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر التواء ہیں۔ مثلا صوبہ پنجاب میں ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد سول ججوں کے ساتھ اور ،20 ہزار سے بھی کم عدالتی اسٹاف کے ساتھ ایک ملین سے زائد مقدمات کو نمٹانا آسان کام نہیں۔ لیکن فہمیدہ و سنجیدہ حلقوں کی رائے یہ ہے کہ سیاسی معاملات پرمبنی مقدمات پر زیادہ توجہ مرکوزکی جاتی ہے، جس کی وجہ سے برسہا برس سے زیر التواء مقدمات کے فیصلوں میں مزید تاخیر ہو رہی ہے، ہمارے پورے عدالتی نظام کا انفرا اسٹرکچر برطانوی ہی ہے۔
برطانوی آئین '' غیر تحریری'' کہلاتا ہے۔ اس کے بارے میں پروفیسر اوگ اورزنگ اپنی رائے کا اظہارکچھ یوں کرتے ہیں کہ یہ روایات ان مفاہمتوں ، عادتوں یا طریقوں سے مل کر بنتی ہیں، جو محض سیاسی اخلاق کے اصول ہوتے ہوئے بھی بڑے سے بڑے عوامی اقدارکے زمرے کے تعلقات اور کارکردگی کو بڑی حد تک متاثرکرتے ہیں۔'' پروفیسر ڈائیسی نے مختلف مثالیں دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دستوری روایات قانون نہیں ہیں مگرجوکوئی انھیں توڑتا ہے وہ قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اسے قانون کی خلاف ورزی کی سزا ملتی ہے۔
لاول کے خیال میں دستوری روایات کی اس لیے پابندی کی جاتی ہے کیوں کہ وہ ضابطہ تعظیم ہے۔ جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ روایات پر عمل ہو۔ ورنہ خانہ جنگی اور انقلابی خطرہ پیدا ہوجائے گا۔ ہمیں اگر پاکستان میں جلد جلد انصاف فراہم کرنا ہے توہمیں اپنی اخلاقی ، سماجی اور ثقافتی روایات کیمطابق عدالتی نظام کی تشکیل نوکرنی ہوگی۔ چند تجاویزجو قابل عمل ہوسکتی ہیں ان کو ضابطہ تحریر میں لا رہی ہو۔ ہمیں ماتحت عدالتوں میں ججزکی تعداد بڑھانے کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہیے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوگوں کے مقدمات کو جلد از جلد نمٹانا اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔
انگریزوں نے یہ توکیا کہ صوبے کی سطح پر ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ کی سطح پر دیوانی مقدمات میں ڈسٹرکٹ جج اور فوجداری مقدمات میں سیشن جج، یعنی فوجداری مقدمات میں مجسٹریٹ اور دیوانی مقدمات میں سول جج لگا دیا۔ سات دہائیاں گزرگئیں، ہمیں آزاد ہوئے، ہم اسے مزید گراس روٹ پر نہیں لے جا سکے، اگر ہم یونین کونسل کی سطح تک عدالتی نظام کو لے جائیں تو بہتر ہے۔ اور یونین کونسل کی سطح پر چھوٹے مقدمات جن کا فیصلہ ایک یا دو سماعتوں میں ہوجانا چاہیے وہ ایک لوکل مسئلہ ہوتا ہے گواہ بھی وہیں ہوتے ہیں فریقین بھی وہیں ہوتے ہیں اور اسی یونین کونسل میں آپ کسی وکیل کو فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیں، وکیل کرنے کی اجازت نہ دیں تو سول ججز پر جو بہت زیادہ بوجھ ہوتا ہے کم ہو جائے گا اور بہت سارے وکیل جو وکالت کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ کورٹس میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ یونین کونسل کے مقدمات کا فیصلہ کریں گے۔
یہ وہ گراس روٹ لیول ہے جس پر برطانیہ کا جدید ترین نظام انصاف مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہے۔جدید ٹیکنالوجی اور عدالتی نظام کے حوالے سے بات کی جائے تو ویڈیو کو شہادت ماننے کا مسئلہ بہت حد تک حل ہوچکا ہے، ہمارے قانون شہادت میں اس میں سے کچھ باتیں قبول بھی کی ہوئی ہیں، مثلاً سائبرکرائم، الیکٹرانک کرائم کے حوالے سے،جہاں تک ڈی این اے کا معاملہ ہے وہ بھی ایک ماہر کی رائے ہوتی ہے، ورنہ ڈی این اے بذات خود تو کچھ نہیں کہہ سکتی، لیبارٹری کی رپورٹ سامنے رکھنے کے بعد، سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ فلاں کی ہے، جس طرح فنگر پرنٹس میں چیک کیا کرتے تھے کہ یہ فنگر فلاں کی ہیں یا نہیں ہیں۔ لیکن اس میں بھی انسان اسے سمجھنے میں غلطی کر سکتا ہے بعض اوقات نادانستہ ہوتی ہے اور بعض اوقات دانستہ ہوتی ہے اور غفلت بھی ہوسکتی ہے۔
امریکا میں سپریم کورٹ کے سات ججز ہوتے ہیں لیکن وہاں کی سپریم کورٹ کے سامنے کیسز بہت کم آتے ہیں، وہ صرف آئینی مقدمات ہوتے ہیں، ہمارے ہاں سپریم کورٹ اپیل کورٹ بھی ہے، کریمنل کیسز، سول کیسز اور بعض اوقات فیملی کیسز بھی اس کے پاس آجاتے ہیں، ان کیسز کا بہت بوجھ ہوتا ہے۔ دوسرا آئینی مقدمات پچھلے کچھ عرصہ سے بہت زیادہ آرہے ہیں، اس حوالے سے ایک تجویزکو سنجیدگی سے لینا چاہیے کہ آئینی عدالت کی حیثیت سے سپریم کورٹ کو الگ حیثیت دی جائے اور کورٹ آف اپیلٹ کے طور پر سپریم کورٹ بالکل ایک مختلف کردار ادا کرے۔
مقدمات کی تاخیر کا سب سے بڑا سبب پولیس بنتی ہے، ضابطہ فوجداری کے تحت پولیس ہی چالان پیش کرتی ہے، پولیس کے پاس یہ سہولت بھی ہوتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ لین دین کرکے کم زور سا چالان پیش کر دے، آگے کی ساری کہانی اس چالان پر منحصر ہے، چالان میں جو اسٹوری بیان کی گئی اسی کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہے، یوں وکیل صفائی کا کام آسان ہوجاتا ہے کیوںکہ ملزم کے بارے میں یہ مفروضہ ہوتا ہے کہ وہ جرم ثابت ہونے تک معصوم ہے، اگر چالان کم زور ہے تو جج کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسے بری کر دے، چاہے باعزت بری کرے چاہے شک کا فائدہ دے کر بری کردے۔ یہ سب پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث ہوتا ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں انصاف کی فراہمی کے مسئلہ پر صرف سیاسی نعروں پر ہی اکتفا کر لیتی ہیں جب کہ عملی طور پر ان کا کام نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور یہ ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔کیا ہم نظام پولیس میں اصلاح کرنے سے اس کام کا آغاز نہیں کرسکتے۔ ہم نے اکثر اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ برٹش دور میں برصغیر میں ہرکام میرٹ پر ہوتا تھا۔ عدل وانصاف تھا وہ غیر ہوکر اپنے حکمرانوں سے لاکھ درجے اچھے تھے۔ پاکستان بنا تو اس وقت اور اس کے بعد بھی کئی عشروں تک قانون کی حرمت قائم تھی۔
ہم اس اچھی روایت کی پیروی نہ کرسکے۔ وطن عزیز میں سیکڑوں نہیں ہزاروں قتل پولیس کی ایف آئی آر میں ''نامعلوم '' درج ہیں اور یہ نامعلوم ملزمان ہی ہیں جنھوں نے پورے سسٹم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے صحافیوں کو خود بتایا کہ ان کی بیوی ، ساس اور دیگر قریبی رشتے دار اسٹریٹ کرائمزکا شکار ہوچکے ہیں، جب اتنی بے بسی ہو تو یہ نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
ہمارے آئین ساز اداروں کو سنجیدگی سے حصول انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنے کے لیے قوانین میں ترمیم یا اضافہ کرنا ہوگا اورایک ایسا نظام بنانا ہوگا جس میں مظلوم کو سستا اور فوری انصاف میسر آسکے۔ فریاد کرنے والے مظلوم دو سے تین نسلوں تک حصول انصاف کے لیے عدالتوں میں رلتا نہ رہے ، کیونکہ موجودہ نظام عدل میں غریب ومظلوم کے لیے انصاف کی راہیں مسدود ہوچکی ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ برطانیہ نے دو عظیم جنگیں صرف اس لیے جیتیں کہ وہاں عدلیہ آزاد تھی۔