گاندھی دربدر اپنے ہی دیس میں
گاندھی جی نے کبھی شدھی کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی جب کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔
کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ گاندھی جیسے مہان نیتا پر بھی مرنے کے بعد ایسا برا وقت آسکتا ہے کہ وہ اپنے ہی ملک میں اجنبی اور دربدر ہو جائیں گے۔ اس وقت بھارت میں ان کی وہ بے عزتی اور بے توقیری ہو رہی ہے کہ شایدکسی ان جیسے بابائے قوم کی کسی ملک میں نہیں ہوئی ہوگی۔
گاندھی کی مورتیاں بھارت کے اکثر شہروں میں آویزاں ہیں ، لوگ ان کا دل و جان سے احترام کرتے اور بعض لوگ ان پر ہار بھی ڈال کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے، لوگ انھیں محبت سے '' باپو'' کہتے یعنی انھیں اپنا باپ مانتے تھے مگر آج وہی لوگ گاندھی کی مورتیوں کی توڑ پھوڑ کر رہے ہیں اور ان کے مقابلے میں ان کے قاتل نتھورام گوڈسے کو اپنا ہیرو قرار دے رہے ہیں۔
یہ کایا پلٹ شاید اس لیے ہوئی کہ اب گاندھی کی اصلیت لوگوں کے سامنے آگئی ہے یا پھر یہ ہوا کہ ان کی تعلیمات کھوکھلی تھیں وہ اپنی قوم کے سامنے جو سادگی اور اہنسا کے پجاری ہونے کا پرچارکرتے تھے وہ دکھائوا تھا۔ تقسیم سے قبل ان کا پورے ہندوستان میں طوطی بول رہا تھا۔ ہندو ہی کیا مسلمان بھی ان کے گن گا رہے تھے، مسلمانوں کے کئی رہنما ان کے ہمنوا تھے ان میں مولانا ابوالکلام آزاد بھی شامل تھے وہ بھی انھیں اپنا رہنما اور مسلمانوں کا خیر خواہ تصور کرتے تھے اور اسی لیے گاندھی کے فارمولے کے تحت ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے۔
وہ قائد اعظم کو مسلمانوں کا رہنما تسلیم کرنے سے بھی گریزاں تھے۔ وہ مسلمانوں کو ان سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر مسلمانوں کوکیا ہوگیا تھا کہ وہ ایک جید عالم دین کی بات ماننے کے بجائے ایک مغربی طرز پر زندگی بسر کرنے والے شخص کے پیچھے چل پڑے تھے۔
مسلمانوں کے تسلیم کردہ اس رہنما کو انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کا مستقبل خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا تھا جب کہ مولانا ابوالکلام آزاد ہندو مسلم اتحاد کا درس دے رہے تھے اور ان کا نظریہ تھا کہ مسلمان انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے کے بعد بھی محفوظ اور خوشحال رہیں گے مگر قائد اعظم کو ان کی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی اس لیے کہ وہ کانگریس کے پس پشت تیسری ہندو دہشت گرد طاقت کو کانگریس پر حاوی ہوتا دیکھ رہے تھے مولانا نہ جانے کیوں اسے نظرانداز کر رہے تھے۔
یہ مسلمانوں کے خون کی پیاسی آر ایس ایس اور مہاسبھا تنظیمیں تھیں جو مسلمانوں سے ہندوؤں پر ہزار سالہ حکمرانی کرنے کا بدلہ لینے کے لیے انگریزوں کے ہندوستان سے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ وہ اس وقت بھی کئی جگہ فسادات کرا کے مسلمانوں کا خون بہا رہی تھیں اور اگر صرف یہیں تک بات ہوتی تو شاید مسلمان اتنے نہ گھبراتے مگر وہ تو مسلمانوں کے دین کے ہی خلاف تھے اور انھیں ہندو بنانے پر بضد تھے۔
برصغیر کے کئی علاقوں میں وہ شدھی تحریک چلا رہے تھے اور خوف وہراس پھیلاکر انھیں ہندو بننے پر مجبور کر رہے تھے۔ وہ اسلام کے خلاف تحریری کام بھی زور شور سے چلارہے تھے۔ پیغمبر اسلام کے خلاف کتابیں لکھی جا رہی تھیں جس کی پشت پناہی انگریز حکومت کر رہی تھی۔کانگریس بھی اس سلسلے میں خاموش تھی وہ اگر چاہتی تو یہ سلسلہ بند بھی ہوسکتا تھا مگر معاملہ کچھ ایسا تھا کہ وہ خود بھی اندرونی طور پر اس کے حق میں تھی یہ حقیقت ہے کہ کئی کانگریسی لیڈروں کے آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا سے گہرے رشتے قائم تھے مگر یہ سب کچھ صیغہ راز میں تھا۔
گاندھی جی نے کبھی شدھی کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی جب کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ قائد اعظم ضرور پہلے کانگریس میں شامل تھے مگر جب انھیں احساس ہوا کہ کانگریس اوپر سے ضرور ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتی ہے پر اندر سے اس کا منصوبہ انگریزوں کے جانے کے بعد پورے ہندوستان پر قابض ہوکر مسلمانوں کو ہندوؤں کا غلام بنانا ہے تو پھر انھوں نے کانگریس کو خیرباد کہہ کر مسلم لیگ کو منظم کرنا شروع کیا۔
گاندھی نے سردار پٹیل کو کانگریس میں شامل کرکے ثابت کر دیا تھا کہ وہ انتہا پسند ہندوؤں کے نظریات کو برا نہیں سمجھتے تھے اور اس طرح انھوں نے اپنے لبرل نظریات کی نفی کردی تھی ، تاہم ان سے اس سلسلے میں کوئی سوال نہیں کرسکتا تھا دراصل کانگریس پارٹی نے ان کی زندگی اور بہت سی متضاد باتوں کو چھپا کر رکھا تھا تاکہ مسلمان انھیں بدستور اپنا نجات دہندہ خیال کرتے رہیں اور ہندوستان تقسیم نہ ہوسکے۔
گاندھی نے قیام پاکستان کو ناکام بنانے کے لیے بہت کوشش کی کہ وہ اپنے اکھنڈ بھارت کے خواب کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ گاندھی نے اس سلسلے میں مسلمانوں کو لبھانے کے لیے کھل کر مسلم نوازی کا مظاہرہ کیا مگر یہ بات سردار پٹیل کو بالکل پسند نہیں تھی اس لیے کہ انتہا پسند ہندو تنظیموں کو بھی یہ بات پسند نہیں تھی۔ گوکہ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا گاندھی کو مسلمانوں کا ہمدرد خیال کر رہی تھیں مگر حقیقت اس کے برعکس تھی گاندھی بھی دراصل ان کے ہی راستے پر چل رہے تھے مگر وہ پیار محبت کا ناٹک رچا کر مسلمانوں کو بٹوارے سے روک رہے تھے جب کہ انتہا پسند تنظیمیں تشدد کے ذریعے تقسیم کا راستہ روکنا چاہتی تھیں۔
گاندھی اوپر سے ضرور لبرل تھے مگر اندر سے کٹر ہندو تھے انھوں نے کبھی پوجا کو نہیں چھوڑا کبھی گوشت نہیں کھایا ان کے ہندو دھرم گروؤں سے گہرے تعلقات تھے وہ ہندو تعلیمات پر دل وجان سے عمل کرتے تھے۔ جنوبی افریقہ میں اپنے قیام کے ابتدائی دور میں انھوں نے ایک مسلمان سیٹھ کے ہاں نوکری کر لی تھی۔ اس سیٹھ نے انھیں مسلمان بنانے کی بہت کوشش کی مگرگاندھی اپنے مذہب پر قائم رہے، البتہ اپنے سیٹھ کو خوش کرنے کے لیے خود کو ایک مسلمان کے طور پر پیش کرتے رہے۔
ہندوستان کی آزادی جب قریب تھی دلتوں نے ہندوؤں کے ان پر ظلم و ستم کی وجہ سے ڈاکٹر امبیدکر کی سربراہی میں ہندوستان کو ہندو مسلمان اور دلتوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کردیا تھا جس پرگاندھی بہت گھبرائے تھے مگر انھوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دلتوں جیسی شکل و صورت اور لنگوٹی باندھ کر ان کے گھروں میں بسیرا کرکے اور ان کے ساتھ کھانا کھا کر ان سے نفرت کے تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ڈاکٹر امبیدکر ان کی اس ڈرامہ بازی سے ذرا متاثر نہیں ہوئے تھے اور وہ لاکھوں دلتوں کے ساتھ ہندو دھرم چھوڑ کر بودھ بن گئے تھے۔
گاندھی نے دلتوں کو یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی تھی کہ آیندہ ان سے برابری کا برتاؤ کیا جائے گا اور انھیں اپنا بھائی سمجھا جائے گا۔ چونکہ وہ سب گاندھی کا ڈرامہ تھا چنانچہ آج بھی بھارت میں دلتوں کا برا حال ہے اور وہ اس عذاب سے بچنے کے لیے جوق در جوق اسلام قبول کر رہے ہیں۔ گاندھی نے اپنی ڈرامہ بازی سے دلتوں اور سکھوں کو ضرور رام کرلیا تھا مگر وہ مسلمانوں کو رام کرنے میں بالکل ناکام رہے اس لیے کہ مسلمان ان کی مکاری کو سمجھ چکے تھے۔
جب پاکستان بن گیا تو بھی گاندھی کو یقین نہیں تھا کہ وہ آگے چل سکے گا چنانچہ وہ اپنی ڈرامہ بازی سے باز نہ آئے اور پاکستان کو اس کے حصے کے جو 55 کروڑ روپے بھارت سے ملنے تھے انھیں پاکستانی حکومت کو دینے پر اصرار کرنے لگے اپنی حکومت کے انکار پر گاندھی مرن برت پر بیٹھ گئے اور پاکستان کی رقم دینے پر بھارتی حکومت کو مجبور کردیا۔ گاندھی کا یہ ڈرامہ ان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوا اور ایک جنونی مہاسبھائی ناتھو رام گوڈسے نے مشتعل ہوکر انھیں قتل کر ڈالا۔
گاندھی کی اپنے ملک میں ہی بے توقیری نہیں ہو رہی ہے اب دوسرے ممالک جو پہلے انھیں عظیم رہنما خیال کرتے تھے وہ بھی اب انھیں نسل پرست لیڈر کا نام دینے لگے ہیں، حال ہی میں گھانا کی ایک یونیورسٹی میں ان کی لگی ہوئی مورتی کو وہاں کے طالب علموں نے توڑ پھوڑ کر یونیورسٹی کے احاطے کے باہر پھینک دیا ہے۔
گاندھی کی زندگی کے تضاد کے بارے میں اب تک کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ایک مشہور تاریخ داں جیڈ ایڈم نے اپنی کتاب Gandhi Naked Amition میں گاندھی کی تضادات سے بھری زندگی کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ گاندھی خود کو ایک برہم چاری کے طور پر پیش کرتے تھے مگر نوجوان لڑکیوں کے جھرمٹ میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ مردانگی کو کنٹرول کرنے کے بہانے اپنے آشرم میں شرمناک حرکتیں کرتے تھے جس کا گواہ آرتی پرشو رام نامی نوجوان تھا جب اس سے وہاں کی حرکتیں برداشت نہ ہوئیں تو اس نے ان سے شکایت کی جس پر اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔
باپ کی غلط حرکتوں کی وجہ سے ان کے بڑے بیٹے نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور وہ مسلمان ہوگیا تھا۔ ان کے مطابق انگریز ہندوستان کو 1947 سے پہلے آزادی دینا چاہتے تھے مگر گاندھی نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ بھگت سنگھ کی پھانسی کو وہ رکوا سکتے تھے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کے مطابق گاندھی انگریزی فوج میں سارجنٹ میجر کے عہدے پر فائز تھے مگر اس بات کو خفیہ رکھا گیا تھا، دوسری جنگ عظیم میں فتح کے بعد گاندھی کو ان کی خفیہ خدمات پر گولڈ میڈل سے نوازا گیا تھا۔
گاندھی کی مورتیاں بھارت کے اکثر شہروں میں آویزاں ہیں ، لوگ ان کا دل و جان سے احترام کرتے اور بعض لوگ ان پر ہار بھی ڈال کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے، لوگ انھیں محبت سے '' باپو'' کہتے یعنی انھیں اپنا باپ مانتے تھے مگر آج وہی لوگ گاندھی کی مورتیوں کی توڑ پھوڑ کر رہے ہیں اور ان کے مقابلے میں ان کے قاتل نتھورام گوڈسے کو اپنا ہیرو قرار دے رہے ہیں۔
یہ کایا پلٹ شاید اس لیے ہوئی کہ اب گاندھی کی اصلیت لوگوں کے سامنے آگئی ہے یا پھر یہ ہوا کہ ان کی تعلیمات کھوکھلی تھیں وہ اپنی قوم کے سامنے جو سادگی اور اہنسا کے پجاری ہونے کا پرچارکرتے تھے وہ دکھائوا تھا۔ تقسیم سے قبل ان کا پورے ہندوستان میں طوطی بول رہا تھا۔ ہندو ہی کیا مسلمان بھی ان کے گن گا رہے تھے، مسلمانوں کے کئی رہنما ان کے ہمنوا تھے ان میں مولانا ابوالکلام آزاد بھی شامل تھے وہ بھی انھیں اپنا رہنما اور مسلمانوں کا خیر خواہ تصور کرتے تھے اور اسی لیے گاندھی کے فارمولے کے تحت ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے۔
وہ قائد اعظم کو مسلمانوں کا رہنما تسلیم کرنے سے بھی گریزاں تھے۔ وہ مسلمانوں کو ان سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر مسلمانوں کوکیا ہوگیا تھا کہ وہ ایک جید عالم دین کی بات ماننے کے بجائے ایک مغربی طرز پر زندگی بسر کرنے والے شخص کے پیچھے چل پڑے تھے۔
مسلمانوں کے تسلیم کردہ اس رہنما کو انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کا مستقبل خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا تھا جب کہ مولانا ابوالکلام آزاد ہندو مسلم اتحاد کا درس دے رہے تھے اور ان کا نظریہ تھا کہ مسلمان انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے کے بعد بھی محفوظ اور خوشحال رہیں گے مگر قائد اعظم کو ان کی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی اس لیے کہ وہ کانگریس کے پس پشت تیسری ہندو دہشت گرد طاقت کو کانگریس پر حاوی ہوتا دیکھ رہے تھے مولانا نہ جانے کیوں اسے نظرانداز کر رہے تھے۔
یہ مسلمانوں کے خون کی پیاسی آر ایس ایس اور مہاسبھا تنظیمیں تھیں جو مسلمانوں سے ہندوؤں پر ہزار سالہ حکمرانی کرنے کا بدلہ لینے کے لیے انگریزوں کے ہندوستان سے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ وہ اس وقت بھی کئی جگہ فسادات کرا کے مسلمانوں کا خون بہا رہی تھیں اور اگر صرف یہیں تک بات ہوتی تو شاید مسلمان اتنے نہ گھبراتے مگر وہ تو مسلمانوں کے دین کے ہی خلاف تھے اور انھیں ہندو بنانے پر بضد تھے۔
برصغیر کے کئی علاقوں میں وہ شدھی تحریک چلا رہے تھے اور خوف وہراس پھیلاکر انھیں ہندو بننے پر مجبور کر رہے تھے۔ وہ اسلام کے خلاف تحریری کام بھی زور شور سے چلارہے تھے۔ پیغمبر اسلام کے خلاف کتابیں لکھی جا رہی تھیں جس کی پشت پناہی انگریز حکومت کر رہی تھی۔کانگریس بھی اس سلسلے میں خاموش تھی وہ اگر چاہتی تو یہ سلسلہ بند بھی ہوسکتا تھا مگر معاملہ کچھ ایسا تھا کہ وہ خود بھی اندرونی طور پر اس کے حق میں تھی یہ حقیقت ہے کہ کئی کانگریسی لیڈروں کے آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا سے گہرے رشتے قائم تھے مگر یہ سب کچھ صیغہ راز میں تھا۔
گاندھی جی نے کبھی شدھی کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی جب کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ قائد اعظم ضرور پہلے کانگریس میں شامل تھے مگر جب انھیں احساس ہوا کہ کانگریس اوپر سے ضرور ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتی ہے پر اندر سے اس کا منصوبہ انگریزوں کے جانے کے بعد پورے ہندوستان پر قابض ہوکر مسلمانوں کو ہندوؤں کا غلام بنانا ہے تو پھر انھوں نے کانگریس کو خیرباد کہہ کر مسلم لیگ کو منظم کرنا شروع کیا۔
گاندھی نے سردار پٹیل کو کانگریس میں شامل کرکے ثابت کر دیا تھا کہ وہ انتہا پسند ہندوؤں کے نظریات کو برا نہیں سمجھتے تھے اور اس طرح انھوں نے اپنے لبرل نظریات کی نفی کردی تھی ، تاہم ان سے اس سلسلے میں کوئی سوال نہیں کرسکتا تھا دراصل کانگریس پارٹی نے ان کی زندگی اور بہت سی متضاد باتوں کو چھپا کر رکھا تھا تاکہ مسلمان انھیں بدستور اپنا نجات دہندہ خیال کرتے رہیں اور ہندوستان تقسیم نہ ہوسکے۔
گاندھی نے قیام پاکستان کو ناکام بنانے کے لیے بہت کوشش کی کہ وہ اپنے اکھنڈ بھارت کے خواب کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ گاندھی نے اس سلسلے میں مسلمانوں کو لبھانے کے لیے کھل کر مسلم نوازی کا مظاہرہ کیا مگر یہ بات سردار پٹیل کو بالکل پسند نہیں تھی اس لیے کہ انتہا پسند ہندو تنظیموں کو بھی یہ بات پسند نہیں تھی۔ گوکہ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا گاندھی کو مسلمانوں کا ہمدرد خیال کر رہی تھیں مگر حقیقت اس کے برعکس تھی گاندھی بھی دراصل ان کے ہی راستے پر چل رہے تھے مگر وہ پیار محبت کا ناٹک رچا کر مسلمانوں کو بٹوارے سے روک رہے تھے جب کہ انتہا پسند تنظیمیں تشدد کے ذریعے تقسیم کا راستہ روکنا چاہتی تھیں۔
گاندھی اوپر سے ضرور لبرل تھے مگر اندر سے کٹر ہندو تھے انھوں نے کبھی پوجا کو نہیں چھوڑا کبھی گوشت نہیں کھایا ان کے ہندو دھرم گروؤں سے گہرے تعلقات تھے وہ ہندو تعلیمات پر دل وجان سے عمل کرتے تھے۔ جنوبی افریقہ میں اپنے قیام کے ابتدائی دور میں انھوں نے ایک مسلمان سیٹھ کے ہاں نوکری کر لی تھی۔ اس سیٹھ نے انھیں مسلمان بنانے کی بہت کوشش کی مگرگاندھی اپنے مذہب پر قائم رہے، البتہ اپنے سیٹھ کو خوش کرنے کے لیے خود کو ایک مسلمان کے طور پر پیش کرتے رہے۔
ہندوستان کی آزادی جب قریب تھی دلتوں نے ہندوؤں کے ان پر ظلم و ستم کی وجہ سے ڈاکٹر امبیدکر کی سربراہی میں ہندوستان کو ہندو مسلمان اور دلتوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کردیا تھا جس پرگاندھی بہت گھبرائے تھے مگر انھوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دلتوں جیسی شکل و صورت اور لنگوٹی باندھ کر ان کے گھروں میں بسیرا کرکے اور ان کے ساتھ کھانا کھا کر ان سے نفرت کے تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ڈاکٹر امبیدکر ان کی اس ڈرامہ بازی سے ذرا متاثر نہیں ہوئے تھے اور وہ لاکھوں دلتوں کے ساتھ ہندو دھرم چھوڑ کر بودھ بن گئے تھے۔
گاندھی نے دلتوں کو یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی تھی کہ آیندہ ان سے برابری کا برتاؤ کیا جائے گا اور انھیں اپنا بھائی سمجھا جائے گا۔ چونکہ وہ سب گاندھی کا ڈرامہ تھا چنانچہ آج بھی بھارت میں دلتوں کا برا حال ہے اور وہ اس عذاب سے بچنے کے لیے جوق در جوق اسلام قبول کر رہے ہیں۔ گاندھی نے اپنی ڈرامہ بازی سے دلتوں اور سکھوں کو ضرور رام کرلیا تھا مگر وہ مسلمانوں کو رام کرنے میں بالکل ناکام رہے اس لیے کہ مسلمان ان کی مکاری کو سمجھ چکے تھے۔
جب پاکستان بن گیا تو بھی گاندھی کو یقین نہیں تھا کہ وہ آگے چل سکے گا چنانچہ وہ اپنی ڈرامہ بازی سے باز نہ آئے اور پاکستان کو اس کے حصے کے جو 55 کروڑ روپے بھارت سے ملنے تھے انھیں پاکستانی حکومت کو دینے پر اصرار کرنے لگے اپنی حکومت کے انکار پر گاندھی مرن برت پر بیٹھ گئے اور پاکستان کی رقم دینے پر بھارتی حکومت کو مجبور کردیا۔ گاندھی کا یہ ڈرامہ ان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوا اور ایک جنونی مہاسبھائی ناتھو رام گوڈسے نے مشتعل ہوکر انھیں قتل کر ڈالا۔
گاندھی کی اپنے ملک میں ہی بے توقیری نہیں ہو رہی ہے اب دوسرے ممالک جو پہلے انھیں عظیم رہنما خیال کرتے تھے وہ بھی اب انھیں نسل پرست لیڈر کا نام دینے لگے ہیں، حال ہی میں گھانا کی ایک یونیورسٹی میں ان کی لگی ہوئی مورتی کو وہاں کے طالب علموں نے توڑ پھوڑ کر یونیورسٹی کے احاطے کے باہر پھینک دیا ہے۔
گاندھی کی زندگی کے تضاد کے بارے میں اب تک کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ایک مشہور تاریخ داں جیڈ ایڈم نے اپنی کتاب Gandhi Naked Amition میں گاندھی کی تضادات سے بھری زندگی کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ گاندھی خود کو ایک برہم چاری کے طور پر پیش کرتے تھے مگر نوجوان لڑکیوں کے جھرمٹ میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ مردانگی کو کنٹرول کرنے کے بہانے اپنے آشرم میں شرمناک حرکتیں کرتے تھے جس کا گواہ آرتی پرشو رام نامی نوجوان تھا جب اس سے وہاں کی حرکتیں برداشت نہ ہوئیں تو اس نے ان سے شکایت کی جس پر اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔
باپ کی غلط حرکتوں کی وجہ سے ان کے بڑے بیٹے نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور وہ مسلمان ہوگیا تھا۔ ان کے مطابق انگریز ہندوستان کو 1947 سے پہلے آزادی دینا چاہتے تھے مگر گاندھی نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ بھگت سنگھ کی پھانسی کو وہ رکوا سکتے تھے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کے مطابق گاندھی انگریزی فوج میں سارجنٹ میجر کے عہدے پر فائز تھے مگر اس بات کو خفیہ رکھا گیا تھا، دوسری جنگ عظیم میں فتح کے بعد گاندھی کو ان کی خفیہ خدمات پر گولڈ میڈل سے نوازا گیا تھا۔