مولانا کا مارچ کیوں اور کس لیے
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کس کے اشارے پرمولانامحض اپنے کارکنان اور مدارس کے طلبہ کے ہمراہ مارچ سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے ''آزادی مارچ '' کے اعلان نے جہاں ملک میں 2014کے عمران خان کے مارچ اور دھرنوں کی یاد تازہ کردی ہے ، وہیں پر کئی سوالات ، انومان اور اندیشوں کو بھی جنم دیا ہے ۔
سب سے پہلے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اتنا بڑا مارچ کرنے جا رہے ہیں کہ بقول اُن کے ''اُس میں 15لاکھ لوگ شامل ہوں گے ''، تو اُس مارچ کا ایجنڈہ اور حکمت عملی ابھی تک واضح کیوں نہیں ؟ انھوں نے اپنے یک نکاتی ، سہ نکاتی یا پھر کثیرنکاتی پروگرام کی کیوں عوام میں پیشگی طور پر تشہیر نہیں کی ؟ تاکہ عوام اس پروگرام کی بناء پر آزادی مارچ میں شمولیت کرنے ،یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکتے ۔
دوسری بات اُن کے رابطے زیادہ تر سیاسی جماعتوں سے بند کمروں میں ہونے سے کیا وہ ڈرائنگ روم سیاست کو پھر سے تقویت دینا چاہتے ہیں ؟ اب جب عمران خان کے حکومتی دور میں مہنگائی کا طوفان عوام کو نڈھال کیے ہوئے ہے اور عوام کی چیخوں کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام بڑی جماعتیں خصوصاً پی پی پی ، ن لیگ ، اے این پی ، جماعت اسلامی وغیرہ بھی حکومت کی سخت مخالف ہیں تو ایسے میں کیوں وہ جماعتیں اس مارچ یا دھرنے میں مولانا کی ہم رکاب نہیں ہیں اور وہ تنہا اسلام آباد کی جانب لشکر کشی کرنے کے لیے کیونکر تیار ہوگئے ہیں ؟
دیکھا جائے تو اس کے دو پہلو ہیں ایک تو ان جماعتوں میں سے دونوں بڑی جماعتوں پر حکومت کی جانب سے کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں، تو مولانا کو شاید یہ بھی شبہ ہوگا کہ اس طرح ان کی تحریک کو کرپٹ لوگوں کو بچانے کا کھیل کہا جاسکتا ہے اور خصوصاً ن لیگ جو اس وقت اسٹبلشمنٹ سے براہ راست ٹکراؤ میں ہے شاید مولانا ایسا خطرہ مول لینے کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ جس سے مبینہ طور پر خفیہ طے ہونے والی امکانی settlementمیں دشواری پیش آئے ۔ اس لیے بھی مولانا جان بوجھ کر مذاکرات کو طویل کرکے دوہرا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
ایک طرف وہ اسٹبلشمنٹ کو الارمنگ سگنل دینا چاہتے ہیں کہ اُن کی طرف توجہ نہ دینے پروہ آخری حد تک جاسکتے ہیں تو دوسری طرف وہ پنجاب میں ن لیگ سے بڑی تعداد میں وابستہ عوام کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن جو بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت جے یو آئی ایف اور مولانا پر کوئی بڑے کیسز یا حکومتی عتاب بھی نہیں ، تو کیوں وہ تن تنہا ''آزادی مارچ '' جیسا آخری قدم اُٹھانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں ؟ تجزیہ کار اس پر دو رائے کا اظہار کرتے ہیں ۔
یا تو وہ تھرڈ ایمپائر کے اشارے پر یہ قدم اس لیے اُٹھارہے ہیں کہ اس طرح ملک میں افراتفری پھیلے اور وہ ملکی پارلیمانی نظام کو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت لپیٹ سکیں یا صدارتی نظام کی نئی صورت میں ڈھال سکیں ، جس کے لیے موجودہ حکومت پارلیمنٹ میں 2/3کی اکثریت نہ رکھنے کی وجہ سے منظور کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
بہرحال یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ نوابزادہ نصراللہ کے بعد مولانا فضل الرحمن نے خود کو ایسے رہنما کے طور پر پیش کیا ہے کہ جو پارلیمنٹ میں اپنی کم طاقت کے باوجود ملک کی بڑی جماعتیں اُن کے پیچھے کھڑی یا ان کے پاس جاتی نظر آتی ہیں اور مولانا ان کے مابین ثالث و فیصلہ کن کردار کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ نوابزادہ نصراللہ کی طرح اپنی سربراہی میں تمام جماعتوں کو مطمئن رکھ کر کوئی تحریک چلانے اور اُسے کامیاب کرانے کے اہل ہوتے ہیں یا پھر باقی جماعتیں اُنہیں چھت پر چڑھا کر نیچے سے سیڑھی کھینچ لیتی ہیں ۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ مولانا کے سیاسی کردار کی موت کے برابر ہوگا۔
تیس سال سے مسلسل حکومتی و سیاسی اتحادوں میں رہنے والا مولانا بھی خیر کچی گولیاں تو نہیں کھیلیں گے اور نہ ہی وہ بچہ ہیں جسے ن لیگ اور پی پی پی لولی پوپ دیکر انگلی سے پکڑ کر کہیں بھی چھوڑ آئیں ۔ اس لیے لگتا یہ ہے کہ مولانا تھرڈ ایمپائر کی سپورٹ پر یہ اننگ کھیلنے کو اس لالچ پر راضی لگتے ہیں کہ جس طرح عمران خان کا دھرنوں اور Aggressive رویے سے Imageبناکر اُسے اقتدار تک رسائی دی گئی ، اِسی طرح مولانا کی بھی Image Buildingکی جارہی ہے ،اور آیندہ انتخابات میں اُسے اکثریت دینے کا آسرہ دیا گیا ہے، جوکہ ملکی معاشی صورتحال اور خطے و عالمی سطح پر نئی صف بندیوں کو دیکھتے ہوئے ممکن نظر نہیں آتی ، لیکن یہ بھی ایک امر حقیقت ہے کہ یہ پاکستان ہے یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ یہاں فیصلے میدان میں کھیلے جانے والے کھلاڑی کی قابلیت سے زیادہ کھیل کا انتظام کرنے اور کھیل و جوکی پر پیسے لگانے والے کی خواہش اور فائدے کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔
دیکھا جائے تو عمران خان کے 2014کے دھرنوں میں کوئی code of conductواضع نہ ہونے کی وجہ سے کئی غیر اخلاقی و غیر سیاسی سرگرمیاں بھی نظر آئیں ،جب کہ مولانا نے مارچ سے قبل ہی 32نکاتی ہدایات نامہ تیار کیا ہے جس کے اطلاق سے مارچ مکمل طور پر منظم و اخلاقی حمایت حاصل کرنے کا حامل ہوسکتا ہے لیکن مارچ یا دھرنے محض code of conductپر کامیاب نہیں ہوتے بلکہ کسی بھی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے مضبوط و عوامی ایجنڈہ اور اُس کی تشہیر و عملی طرز پر منحصر ہوتا ہے ، اور اس معاملے میں 2014کے عمران کے مقابلے میں مولانا کا ایجنڈہ غیر واضح اور عوامی شمولیت و تشہیر سے عاری نظر آتا ہے۔
اس لیے اگر مولانا اس مارچ کو اپنی کامیابی بنانا چاہتے ہیں تو اُنہیں ان بنیادی عوامل پر توجہ دینی ہوگی اور اُس کے لیے اُن کے پاس وقت بھی موجود ہے کیونکہ وہ تاریخ میں تیسری بار توسیع کرچکے ہیں اور اُن کے پاس اب بھی کم از کم دو ہفتے کا وقت ہے ۔ حالانکہ وفاقی ہائی کورٹ میں دھرنے کے خلاف داخل شدہ مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے تاثرات اور فیصلہ مولانا کے حق میں آنا بھی مولانا کی ایک چھوٹی کامیابی ہے لیکن مکمل اور خاطر خواہ کامیابی کے لیے مولانا کو مارچ میں عوام کی بھرپور شرکت درکار ہوگی ۔
عوام کی رائے کو اپنے حق میں کرنے کے لیے مہنگائی ایک اکسیر جُز ثابت ہوسکتی ہے۔ 100دن کے اندر بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک لانا، بیرونی ممالک میں موجود پاکستانی پیسہ واپس لانا ، ایک کروڑ گھر ، 50لاکھ ملازمتیں ، پیٹرول ، بجلی و گیس سمیت اشیائے خوردو نوش سستی کرنا اور کرپشن کا خاتمہ کرنے جیسے وعدوں کو ڈیڑھ سال کے قریب عرصہ ہونے پر بھی وعدوں کوپورا نہ کرنا ، اُلٹا مہنگائی کا طوفان برپا کرنا اور تجارت و سرمایہ کاری کو ہینڈ بریک لگادینے پر بھی عوام کو صبر کی تلقین کرنے سے ملک میں اضطراب کی کیفیت ہے ۔ اور پھر 70روپے پٹرول کو انھوں نے سستا کرنے کا مطالبہ کرنے کے باوجود حکومت میں آکر 113روپے تک پہنچادیا اور بجلی کو 10روپے سے 19بلکہ 21روپے تک پہنچادیا ہے ۔
اسی طرح گیس ، ادویات اور اشیائے خور و نوش سمیت تمام اشیاء کے نرخ آسمان کو چھورہے ہیں ۔ تجارتی پالیسی پر ملک کے تاجر بھی آگ بگولہ ہیں ۔ جس پر انھوں نے گذشتہ دنوں اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا جس پر وفاقی حکومت کے لاٹھی چارج اور شیلنگ نے انھیں مزید بھڑکا دیا ہے ۔ اس لیے دھاندلی ، کشمیر ایشو ، غیر جانبدار و شفاف احتساب، تجارتی پالیسی کے ساتھ ساتھ مہنگائی پر محیط 5نکاتی ایجنڈہ مولانا کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے ۔
دیکھا جائے تو مولانا کی طرف سے ان ایشوز پر بیانات بھی سامنے آتے رہے ہیں لیکن ان کو واضح طور پر مارچ کا ایجنڈہ یا مطالبہ بناکر بجا طور پر اُن کی تشہیر نہ کرنے سے عوام میں مارچ کے بنیادی اسباب واضح نہیں ہوسکے ہیں اور اس لیے مارچ کو عوام میں واضح پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 2014میں عمران خان کو اسٹبلشمنٹ کی مکمل اور عوام کی بھی بڑی حد تک حمایت حاصل ہونے کے باوجود مڈٹرم انتخابات والا خواب پورا نہیں ہوسکا تھا ، تو اب محض اشاروں کنایوں والی حمایت پر مولانا صاحب کے اس مطالبے کے پورا ہونے کی تو کوئی اُمید ہی نہیں ہے تو پھر مولانا صاحب کو ایسی کیا ضرورت ہے کہ بلا کوئی بڑا مطالبہ ہونے یا پورا ہونے کے وہ اپنی اور کارکنان کی توانائیاں بھی ضایع کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور پہلے سے عدم استحکام کی بھینٹ چڑھے ملک کوبھی مزید غیر مستحکم کرنے پربضد ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا کا یہ مارچ یا دھرنا سوائے انارکی پھیلانے کے کوئی واضح و مثبت نتائج نہیں دے سکے گا۔ جب کہ یہ حکومت کی دانش کا بھی امتحان ہوگا کہ وہ مارچ کو پہلے سے طے شدہ اجازتی شرائط پر اجازت دیتی ہے یا نہیں ،اوراگر دیتی ہے تو مارچ کے اسلام آباد پہنچنے پر اُسے خیر اسلوبی سے گذرنے دیتی ہے یا پھر رکاوٹیں ڈال کر عوام میں مولانا کے لیے ہمدردیاں پیدا کرتی ہے۔
دھرنوں اور مارچ کی بنیاد پر قائم ہونے والی سرکار سے آج مولانا کا صرف مارچ (دھرنے کی ابھی تک تردیدیں آرہی ہیں ) ہضم نہیں ہورہا اور اُسے روکنے یا ناکام کرنے کے لیے حکومت تمام سیاسی و غیر سیاسی ، قانونی و غیر قانونی انتظامی اقدامات کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے ۔ مقامی انتظامیہ پر پریشر سے عدالتوں کی رکاوٹوں تک ، کارکنان کی گرفتاری کی تیاری سے شاہراہیں بند کرنے تک تمام آپشنز استعمال کرنے کی پلاننگ ہورہی ہے ۔ البتہ مولانا کے خلاف حکومت کے پاس ایک بھاری پتہ موجودہ وزیر داخلہ ہیں جو خود ماضی میں اسٹبلشمنٹ کے ایک اہم رکن رہے ہیں، ان کی موجودگی مولانا کے لیے ضرور دشواریوں کا باعث بنے گی ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کس کے اشارے پر مولانامحض اپنے کارکنان اور مدارس کے طلبہ کے ہمراہ مارچ سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ،یہاں تک کہ وہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کو بھی اس مارچ میں فعال کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔یہ اُن کی حکمت عملی ہے کہ صرف اپنی جماعت کی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے یا ایم ایم اے کی دیگر جماعتیں بھی پی پی پی اور ن لیگ کی طرح اس مارچ سے کترا رہی ہیں ؟
ن لیگ اور پی پی پی کے لیے تو تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اس موقعے سے فائدہ اُٹھاکر اسٹبلشمنٹ سے معاملات طے کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے وہ مولانا کو ریس کے میدان میں ''جوکی '' کی طرح استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ اب یہ مولانا کی دانست پر منحصر ہے کہ وہ اس گمبھیر اور پیچیدہ صورتحال میں میدان مارنے والا چیمپئن بنتے ہیں یا پھر خودکو ریس میں اکیلے دوڑنے والا احمق گھوڑا ثابت کرتے ہیں ۔۔!!!
حالانکہ ن لیگ نے شرکت کا اشارہ دیا ہے لیکن واضح اعلان نہیں کیا ہے ، جب کہ پی پی پی نے اخلاقی حمایت تو کی ہے لیکن مارچ میں شامل نہ ہونے کا واضح اعلان کیا ہے ۔ کیا ہی بھلا ہو کہ سدھرے ہوئے ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی دو جماعتی نظام ہو اور ملکی سیاسی افراد و گروہوں کو اُن میں سے کسی ایک میں شامل ہوکر مقابلے میں آنا پڑے ۔ تو نہ صرف ملکی انتخابات بلکہ جماعتی انتخابات میں بھی تقابلی ماحول پروان چڑھے اور یہاں جمہوریت کے استحکام کے کوئی آثار پیدا ہوں، ورنہ تو یہاں آزاد اور چھوٹے چھوٹے گروہوں کی بھرمار سے غیر جمہوری قوتیں سستا سودا کرکے اُنہیں ہمیشہ جمہوری نظام کے خلاف استعمال کرتی رہیں گی ، کیونکہ یہاں ہر جماعت اور گروہ وفاقی اقتدار سنبھالنے کا خواہش مند ہے پھر چاہے اُس کے مطلوبہ نشستیں ہوں یا نہ ہوں۔
دوسری جانب تجزیہ کار ملک کی حقیقی اختیاری قوتوں کوخبردار کرتے نظر آرہی ہیں کہ عمران خان کے ناکام تجربے کے بعد پھر سے اسی طرز پر مولانا کے ذریعے تجربے سے اجتناب کیا جائے ، کیونکہ ملک کی ترقی حقیقی سیاسی ، جمہوری و عوامی نظام سے وابستہ ہے نہ کی ایسے لیباریٹری تجربوں سے وجود میں آنیوالی غیر جمہوری حکومتوں کی تبدیلی سے ۔۔۔!!!