’ بزمِ نقد ِ سخن کا ساقی فراقی‘
علمی و ادبی حلقوں میں اس کی شہرت ان کے قلمی نام ’’تحسین فراقی‘‘ سے ہونے لگی تھی۔
مال روڈ کلب چوک پر جہاں ارباب بست وکشاد کے عالی شان محلات ہیں وہاں ارباب علم ودانش کی ایک چھوٹی سی بستی بھی ہے۔ یہ محکمہ متروکہ وقف املاک کی ایک کہنہ سال عمارت ہے جس میں مجلس ترقی ادب، ادارہ ثقافت اسلامیہ، بزم اقبال، پنجابی ادبی بورڈ کے دفاتر ہیں۔
برسوں پہلے اس عمارت کے اندر پہلی بار اس وقت جانا ہوا، جب اس کے ایک گوشہ میں احمد ندیم قاسمی رونق افروز ہوا کرتے تھے۔ وہ ان دنوںمجلس ترقی ادب کے سربراہ تھے۔ ان کی جانشینی کا شرف شاعر خوش نوا شہزاد احمد کو حاصل ہوا، اوراب یہ بھاری ذمے داری جلیل القدر محقق ڈاکٹر تحسین فراقی کے کندھوں پر ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی ایک علمی و ادبی گھرانے کے چشم وچراغ ہیں۔ ان کے والد محمود اختر اسکول ٹیچر تھے۔ عربی اور فارسی سے طبیعت کوایک خاص مناسبت تھی۔ قیام پاکستان سے لگ بھگ پانچ سال پہلے وہ اپنے بھائی اور والد شیخ محمد حسین کے ہمراہ، جو طبیہ کالج دہلی کے سندیافتہ طبیب تھے، گورداس پور ( بھارت ) سے ہجرت کرکے ملتان آ گئے، اور کچھ عرصہ بعد ساہی وال کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔شیخ منظور اختر جن کی پہچان اب ان کے اصلی نام کے بجائے قلمی نام ''تحسین فراقی'' سے ہے، نے17 ستمبر 1950 کو اپنے ننھیال پتوکی میں آنکھ کھولی۔
بچوں کو عام طور پرگھریلو مالی مشکلات کا ادراک نہیں ہو پاتا کہ والدین بچوں تک ان کی تپش پہنچنے نہیں دیتے لیکن جب ایک مرتبہ شیخ محمود اختر کو کسی وجہ سے کئی ماہ تک تنخواہ نہ ملی تو اس تنگیِ حالات کی یہ کسک ان کے بیٹے کے دل ودماغ نے بھی محسوس کی۔ جب دکاندار کو مہینوں تک اس کا قرض چکایا نہ جا سکتا تو اگرچہ روز مرہ ضرورت کی اشیا دینے سے پھر بھی انکار نہ کرتا، مگر دبے دبے لفظوں اس طرح قرض کی یاد دہانی کراتا تو اس سمے بیٹا بھی باپ کے چہرے پر گہرے کرب کے آثار محسوس کر سکتا تھا ۔
اس قدر نامساعد حالات کے باوجود اس ہونہار طالب علم نے میٹرک کا امتحان درجہ اول میں پاس کر لیا اوراسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں پہنچ گیا۔ یہاں سے ایف اے کرنے کے بعد اسلامیہ کالج سول لائنز میں بھی داخلہ مل گیا لیکن لاہور میں تعلیمی اخراجات اب اس کی برداشت سے باہر ہو چکے تھے۔ واپس بصیر پور لوٹا، بطور پرائیویٹ امیدوار بی اے کا امتحان پاس کیا اور پھر سے لاہور پہنچ گیا۔بی ایڈ کیا اور میونسپل کمیٹی لیہ کے ایک اسکول سے بطور سینئرٹیچر کیرئر کا آغاز کر دیا ۔ایم اے اردو کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا اور پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں ٹاپ کیا اور ایم اے او کالج میں لیکچرر ہوگیا۔
علمی و ادبی حلقوں میں اس کی شہرت ان کے قلمی نام ''تحسین فراقی'' سے ہونے لگی تھی۔ وہ فیصل آباد کے قصبہ پیر محل کے مضافات میں ایک کالج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات تھے، جب پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ اردو میں بطور لیکچرار ان کا تقرر ہوا اور وہ اسسٹنٹ پروفیسری کو چھوڑ کر بطور لیکچرر لاہور آ گئے۔ 1985 میں ان کے مقالہ ''عبدالماجد دریاآبادی، احوال و آثار'' پر انکو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی۔ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج ہی سے وہ ایران گئے اور تین سال تک تہران یونیورسٹی کے دانشکدہ زبانہای خارجی کے شعبہ اردو میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ ستمبر 2010 میں اورینٹل کالج میں انھوں نے اپنے تدریسی کیرئر کا اختتام ''صدر شعبہ اردو'' کی حیثیت سے کیا، جو بجائے خود ایک اعزاز ہے۔
مارچ 2013 میں جب بطور ناظم مجلس ترقی ادب ان کا تقرر ہوا تو اسکو ہر سطح پر سراہا گیا۔ تصنیف وتالیف سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی کتابوں پر بھی ایک کتاب مرتب ہو چکی ہے۔یاد رہے کہ مئی 1950 میں حکومت مغربی پاکستان نے اردوزبان کی ترقی وترویج کے لیے ایک لاکھ روپے کی امداد سے محکمہ تعلیم کی نگرانی میں ''مجلس ترجمہ'' کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مشرق ومغرب کی بلندپایہ علمی تصانیف کو اردو میں منتقل کرنا تھا۔جولائی 1954 میں اس کو 'مجلس ترقی ادب' کا نام دیا گیا اور وزیرتعلیم کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ 1975 میں محکمہ اطلاعات پنجاب کی نگرانی میں دیدیا گیا، جب سے یہ ادارہ اسی محکمہ کی نگرانی میں برسرکار ہے۔
اردو کے کلاسیکی ادب کے علاوہ اب یہ اردو زبان وادب کے بارے میں تحقیقی اور تنقیدی مقالات کو بھی شائع کر رہا ہے۔ بعض کلاسیکی کتابوں کے متون پہلی بار مجلس کے ذریعہ ہی منظر عام پر آئے ہیں، جیسے عجائب القصص، کلیات مصحفی، کلیات میر سوز، کلیات جرات، کلیات قائم چاندپوری، کلیات شاہ نصیر، دیوان جہاں دار، تذکرہ طبقات الشعرا اور تذکرہ خوش معرکہ زیباِ۔ آغا حشر کاشمیری، امتیاز علی تاج اور رفیع پیر کے کلاسیکی ڈرامے زیورطبع سے آراستہ ہو چکے ہیں۔ مجلس ترقی ادب کو اب تک جو بھی سربراہ نصیب ہوئے ہیں ، بلاشبہ علمی مقام ومرتبہ کے لحاظ سے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، لیکن جو چیز ڈاکٹر تحسین فراقی کو اپنے پیشرووں سے منفرد اور ممتاز کرتی ہے، وہ ان کا محققانہ رنگ اور طباعت و اشاعت کا اعلیٰ درجہ کا ذوق ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی سے میری شناسائی کافی پرانی ہے۔ وہ ان دنوں اورینٹل کالج میں تدریسی ذمے داریاں ادا کر رہے تھے اور ادبی ایڈیشن میں عمران نقوی صاحب سے ملنے آ تے تھے ۔ وہ اتنی آہستگی سے اور ایسے جھجکتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتے کہ کسی کے کام میں ان کی آواز پا سے بھی خلل واقع نہ ہو۔ ایک روز عمران نقوی ہی کی زبانی معلوم ہوا کہ تہران یونیورسٹی میں بطور وزیٹنگ لیکچرر منتخب کر لیے گئے ہیں؛ لیکن ایران سے واپسی پر ان سے ملاقاتوں کا منقطع سلسلہ بحال نہ ہوا، اور یہ سلسلہ مجلس ترقی ادب میں ان کی تعیناتی کے بھی بہت عرصہ بعد بحال ہوا۔
برسوں بعد دیکھا تو یوں لگا کہ جیسے ایک دم سے بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ دونوں بیٹے یکے بعد دیگرے عین جوانی میں داغ مفارقت دے چکے ہیں۔لیکن وہ جوکہتے ہیں ''جو غم دیتا ہے، وہ صبر بھی دیتا ہے'' ، فراقی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے واقعی پہاڑوں جیسا حوصلہ بخشا ہے ۔کمال صبر واستقامت سے انھوں نے یہ صدمات سہے ا ور ان کے دفتری معمولات اور علمی مصروفیات کو دیکھ کر پہلی نظر میں کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا کہ اتنے بڑے صدمات جھیل چکے ہیں۔
چند روز پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہوا، معلوم ہوا کہ '' حیات سعدی'' تکمیل کے مراحل میں پہنچ چکی ہے۔ اس کے بعد ''اصول فارسی'' کی باری ہے۔ مولانا حالی سے ان کے علمی و ادبی مزاج کو ویسے بھی ایک گونا مناسبت ہے ۔میرے لیے مگر اہم خبر یہ تھی کہ مجلس ترجمہ، جس سے مجلس ترقی ادب نے ابتدائی طور پر ظہور کیا تھا، اس کا پھرسے احیا کیا جا رہا ہے، جس کے تحت کلاسیکی کے ساتھ ساتھ تازہ علمی ادبی اور تحقیقی کتابوں کے تراجم بھی شائع کیے جائیں گے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کو اللہ تعالیٰ ہمت دے اور عمرخضر عطا فرمائے، اگر وہ مجلس ترجمہ کے احیا میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کو یہ علمی اقدام واقعی بہت دور رس اہمیت کا حامل ہو گا، اور صرف مجلس ترقی ادب نہیں، پوری دنیا کا اردوداں طبقہ ان کا احسان مند ہو گا اور ان کی مدح میں انور مسعود کا ہمزباں بھی ہو گا کہ
اک ارادت ہے ہم کو دونوں سے
اک عراقی تھا، اک فراقی ہے
اول الذکر ایک صوفی تھا
نام جس کا جہاں میں باقی ہے
ثانی الذکر اس زمانے میں
بزم نقد سخن کا ساقی ہے
برسوں پہلے اس عمارت کے اندر پہلی بار اس وقت جانا ہوا، جب اس کے ایک گوشہ میں احمد ندیم قاسمی رونق افروز ہوا کرتے تھے۔ وہ ان دنوںمجلس ترقی ادب کے سربراہ تھے۔ ان کی جانشینی کا شرف شاعر خوش نوا شہزاد احمد کو حاصل ہوا، اوراب یہ بھاری ذمے داری جلیل القدر محقق ڈاکٹر تحسین فراقی کے کندھوں پر ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی ایک علمی و ادبی گھرانے کے چشم وچراغ ہیں۔ ان کے والد محمود اختر اسکول ٹیچر تھے۔ عربی اور فارسی سے طبیعت کوایک خاص مناسبت تھی۔ قیام پاکستان سے لگ بھگ پانچ سال پہلے وہ اپنے بھائی اور والد شیخ محمد حسین کے ہمراہ، جو طبیہ کالج دہلی کے سندیافتہ طبیب تھے، گورداس پور ( بھارت ) سے ہجرت کرکے ملتان آ گئے، اور کچھ عرصہ بعد ساہی وال کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔شیخ منظور اختر جن کی پہچان اب ان کے اصلی نام کے بجائے قلمی نام ''تحسین فراقی'' سے ہے، نے17 ستمبر 1950 کو اپنے ننھیال پتوکی میں آنکھ کھولی۔
بچوں کو عام طور پرگھریلو مالی مشکلات کا ادراک نہیں ہو پاتا کہ والدین بچوں تک ان کی تپش پہنچنے نہیں دیتے لیکن جب ایک مرتبہ شیخ محمود اختر کو کسی وجہ سے کئی ماہ تک تنخواہ نہ ملی تو اس تنگیِ حالات کی یہ کسک ان کے بیٹے کے دل ودماغ نے بھی محسوس کی۔ جب دکاندار کو مہینوں تک اس کا قرض چکایا نہ جا سکتا تو اگرچہ روز مرہ ضرورت کی اشیا دینے سے پھر بھی انکار نہ کرتا، مگر دبے دبے لفظوں اس طرح قرض کی یاد دہانی کراتا تو اس سمے بیٹا بھی باپ کے چہرے پر گہرے کرب کے آثار محسوس کر سکتا تھا ۔
اس قدر نامساعد حالات کے باوجود اس ہونہار طالب علم نے میٹرک کا امتحان درجہ اول میں پاس کر لیا اوراسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں پہنچ گیا۔ یہاں سے ایف اے کرنے کے بعد اسلامیہ کالج سول لائنز میں بھی داخلہ مل گیا لیکن لاہور میں تعلیمی اخراجات اب اس کی برداشت سے باہر ہو چکے تھے۔ واپس بصیر پور لوٹا، بطور پرائیویٹ امیدوار بی اے کا امتحان پاس کیا اور پھر سے لاہور پہنچ گیا۔بی ایڈ کیا اور میونسپل کمیٹی لیہ کے ایک اسکول سے بطور سینئرٹیچر کیرئر کا آغاز کر دیا ۔ایم اے اردو کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا اور پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں ٹاپ کیا اور ایم اے او کالج میں لیکچرر ہوگیا۔
علمی و ادبی حلقوں میں اس کی شہرت ان کے قلمی نام ''تحسین فراقی'' سے ہونے لگی تھی۔ وہ فیصل آباد کے قصبہ پیر محل کے مضافات میں ایک کالج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات تھے، جب پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ اردو میں بطور لیکچرار ان کا تقرر ہوا اور وہ اسسٹنٹ پروفیسری کو چھوڑ کر بطور لیکچرر لاہور آ گئے۔ 1985 میں ان کے مقالہ ''عبدالماجد دریاآبادی، احوال و آثار'' پر انکو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی۔ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج ہی سے وہ ایران گئے اور تین سال تک تہران یونیورسٹی کے دانشکدہ زبانہای خارجی کے شعبہ اردو میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ ستمبر 2010 میں اورینٹل کالج میں انھوں نے اپنے تدریسی کیرئر کا اختتام ''صدر شعبہ اردو'' کی حیثیت سے کیا، جو بجائے خود ایک اعزاز ہے۔
مارچ 2013 میں جب بطور ناظم مجلس ترقی ادب ان کا تقرر ہوا تو اسکو ہر سطح پر سراہا گیا۔ تصنیف وتالیف سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی کتابوں پر بھی ایک کتاب مرتب ہو چکی ہے۔یاد رہے کہ مئی 1950 میں حکومت مغربی پاکستان نے اردوزبان کی ترقی وترویج کے لیے ایک لاکھ روپے کی امداد سے محکمہ تعلیم کی نگرانی میں ''مجلس ترجمہ'' کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مشرق ومغرب کی بلندپایہ علمی تصانیف کو اردو میں منتقل کرنا تھا۔جولائی 1954 میں اس کو 'مجلس ترقی ادب' کا نام دیا گیا اور وزیرتعلیم کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ 1975 میں محکمہ اطلاعات پنجاب کی نگرانی میں دیدیا گیا، جب سے یہ ادارہ اسی محکمہ کی نگرانی میں برسرکار ہے۔
اردو کے کلاسیکی ادب کے علاوہ اب یہ اردو زبان وادب کے بارے میں تحقیقی اور تنقیدی مقالات کو بھی شائع کر رہا ہے۔ بعض کلاسیکی کتابوں کے متون پہلی بار مجلس کے ذریعہ ہی منظر عام پر آئے ہیں، جیسے عجائب القصص، کلیات مصحفی، کلیات میر سوز، کلیات جرات، کلیات قائم چاندپوری، کلیات شاہ نصیر، دیوان جہاں دار، تذکرہ طبقات الشعرا اور تذکرہ خوش معرکہ زیباِ۔ آغا حشر کاشمیری، امتیاز علی تاج اور رفیع پیر کے کلاسیکی ڈرامے زیورطبع سے آراستہ ہو چکے ہیں۔ مجلس ترقی ادب کو اب تک جو بھی سربراہ نصیب ہوئے ہیں ، بلاشبہ علمی مقام ومرتبہ کے لحاظ سے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، لیکن جو چیز ڈاکٹر تحسین فراقی کو اپنے پیشرووں سے منفرد اور ممتاز کرتی ہے، وہ ان کا محققانہ رنگ اور طباعت و اشاعت کا اعلیٰ درجہ کا ذوق ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی سے میری شناسائی کافی پرانی ہے۔ وہ ان دنوں اورینٹل کالج میں تدریسی ذمے داریاں ادا کر رہے تھے اور ادبی ایڈیشن میں عمران نقوی صاحب سے ملنے آ تے تھے ۔ وہ اتنی آہستگی سے اور ایسے جھجکتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتے کہ کسی کے کام میں ان کی آواز پا سے بھی خلل واقع نہ ہو۔ ایک روز عمران نقوی ہی کی زبانی معلوم ہوا کہ تہران یونیورسٹی میں بطور وزیٹنگ لیکچرر منتخب کر لیے گئے ہیں؛ لیکن ایران سے واپسی پر ان سے ملاقاتوں کا منقطع سلسلہ بحال نہ ہوا، اور یہ سلسلہ مجلس ترقی ادب میں ان کی تعیناتی کے بھی بہت عرصہ بعد بحال ہوا۔
برسوں بعد دیکھا تو یوں لگا کہ جیسے ایک دم سے بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ دونوں بیٹے یکے بعد دیگرے عین جوانی میں داغ مفارقت دے چکے ہیں۔لیکن وہ جوکہتے ہیں ''جو غم دیتا ہے، وہ صبر بھی دیتا ہے'' ، فراقی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے واقعی پہاڑوں جیسا حوصلہ بخشا ہے ۔کمال صبر واستقامت سے انھوں نے یہ صدمات سہے ا ور ان کے دفتری معمولات اور علمی مصروفیات کو دیکھ کر پہلی نظر میں کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا کہ اتنے بڑے صدمات جھیل چکے ہیں۔
چند روز پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہوا، معلوم ہوا کہ '' حیات سعدی'' تکمیل کے مراحل میں پہنچ چکی ہے۔ اس کے بعد ''اصول فارسی'' کی باری ہے۔ مولانا حالی سے ان کے علمی و ادبی مزاج کو ویسے بھی ایک گونا مناسبت ہے ۔میرے لیے مگر اہم خبر یہ تھی کہ مجلس ترجمہ، جس سے مجلس ترقی ادب نے ابتدائی طور پر ظہور کیا تھا، اس کا پھرسے احیا کیا جا رہا ہے، جس کے تحت کلاسیکی کے ساتھ ساتھ تازہ علمی ادبی اور تحقیقی کتابوں کے تراجم بھی شائع کیے جائیں گے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کو اللہ تعالیٰ ہمت دے اور عمرخضر عطا فرمائے، اگر وہ مجلس ترجمہ کے احیا میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کو یہ علمی اقدام واقعی بہت دور رس اہمیت کا حامل ہو گا، اور صرف مجلس ترقی ادب نہیں، پوری دنیا کا اردوداں طبقہ ان کا احسان مند ہو گا اور ان کی مدح میں انور مسعود کا ہمزباں بھی ہو گا کہ
اک ارادت ہے ہم کو دونوں سے
اک عراقی تھا، اک فراقی ہے
اول الذکر ایک صوفی تھا
نام جس کا جہاں میں باقی ہے
ثانی الذکر اس زمانے میں
بزم نقد سخن کا ساقی ہے