10سال بعد ہوم سیریزکا انعقاد اصل جیت پاکستان کرکٹ کی ہی ہوئی
آسٹریلیا بھی ایک ٹی ٹوئنٹی کے لیے مستقبل میں آنے کا ذہن بنا رہا ہے۔
لاہورمیں تینوں میچز میں میلے کا سماں تھا، قذافی اسٹیڈیم شائقین سے کھچا کھچ بھرا رہا، شائقین کا جوش وخروش دیکھنے کے قابل تھا، میچز کی بیشتر ٹکٹیں پہلے ہی فروخت ہوگئی تھیں۔
پنجاب حکومت نے جگہ جگہ کھلاڑیوں کی دیوقامت تصاویر نصب کرائیں جس سے کرکٹ کا زبردست ماحول بنا رہا،اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی رونقیں بحال ہونے سے زیادہ خوشی کی بات کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی، شکر ہے اب تواتر سے مقابلوں کا انعقاد ہونے لگا۔
لاہور میں سری لنکا سے سیریز بہت اہمیت کی حامل تھی کیونکہ اسی شہر میں 10سال قبل وہ المناک واقعہ ہوا جس نے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم کرا دی تھی، پی سی بی کی سابقہ انتظامیہ جس کا میں خود ممبر بورڈ آف گورنر رہااس کے دور میں واپسی کا سفر شروع ہوا جسے احسان مانی نے بھی جاری رکھا، سری لنکا سے اس سیریزکاکامیاب انعقاد آئندہ برس بنگلہ دیشی ٹیم کی آمد کا راستہ کھولے گا، پھر پی ایس ایل کے لیے غیرملکی کرکٹرز بلانے میں بھی مدد ملے گی۔
آسٹریلیا بھی ایک ٹی ٹوئنٹی کے لیے مستقبل میں آنے کا ذہن بنا رہا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی حکام غیرمعمولی سکیورٹی فراہم کر رہے ہیں، آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں کو بھی دورے میں کوئی قباحت نہیں ہونا چاہیے، اب پی سی بی کا کام ہے کہ وہ انھیں کیسے قائل کرتا ہے۔
کراچی میں میچز کے سلسلے میں کوئی پبلسٹی نہیں کی گئی، ایسا محسوس ہی نہیں ہوا کہ شہر میں کرکٹ کا کوئی میلہ لگا تھا،اس لیے ون ڈے میچز میں شائقین نے زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ نہیں کیا۔
صرف تیسرے میچ میں رونقیں بحال نظر ہوتی نظر آئیں،البتہ لاہور میں معاملہ الگ تھا، ٹی ٹوئنٹی میچز میں شائقین ویسے ہی زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اس لیے اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، یہ درست ہے کہ سکیورٹی سے عوام کومشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ماضی میں جو ہوا اس کے بعد اب احتیاط ضروری ہے، بڑی مشکل سے اب غیرملکی ٹیموں کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو رہا ہے۔
ہمیں ایسی ہی سکیورٹی فراہم کرنا پڑے گی، ملکی میدانوں کو آباد رہنا بہت ضروری ہے، یو اے ای کے خالی اسٹیڈیمز میں کھیلنے کا کوئی فائدہ نہ تھا، پاکستان میں بچے، بڑے، بزرگ، خواتین سب میچز سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوئے، برسوں کی محرومی ختم ہوگئی، نوجوان کرکٹرزکو بھی اپنے میدانوں پر پرفارم کرنے کا موقع ملا،سب سے اہم بات بااحسن انداز میں میچز کا انعقاد ہے،گوکہ کرکٹرز ابھی آزادانہ گھوم پھر نہیں سکتے لیکن وہ وقت دور نہیں جب ایسا ہوگا، لاہور اور کراچی کے بعد پی ایس ایل کے ذریعے ملتان اور راولپنڈی میں بھی کرکٹ کی واپسی ہونے لگی۔
پشاورکا اسٹیڈیم بھی مستقبل کے لیے تیار ہو رہا ہے، اس سے شائقین کی یہ شکایت بھی دور ہو جائے گی کہ صرف لاہور اور کراچی میں ہی میچز ہوتے ہیں، سری لنکا کے10اہم کرکٹرز کے انکار سے دنیا پر اچھا پیغام نہیں گیا تھا مگر جو ٹیم آئی اسے بہترین سکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے، یہ کرکٹرز اپنے ملک واپس جا کرساتھیوں کو اس بابت بتائیں گے جس سے انھیں مستقبل میں پاکستان آنے کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔
موجودہ چیئرمین احسان مانی نے واضح پالیسی بنائی ہے کہ کسی کو دورہ کرنے پرکوئی رقم نہیں دی جائے گی، بس اس پر اب ہمیشہ عمل بھی کرنا ہوگا، بورڈ کو اسٹیڈیم میں شائقین کو مکمل سہولتیں بھی فراہم کرنی چاہئیں،کھانے پینے کی معیاری اشیا مناسب قیمت پر دیں، واش رومز کی تعداد بھی زیادہ ہونی چاہیے، شٹل بس زیادہ تعداد میں چلائیں تاکہ شائقین کو پیدل طویل مسافت طے نہ کرنا پڑے، مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کو بھی فعال کریں، ہر سیریز سے قبل ہائپ بنائیں، مکمل پی ایس ایل پاکستان میں کرانے کا فیصلہ کر کے پی سی بی نے بڑا چیلنج قبول کیا ہے۔
سیریز کے 3میچز کرانا اور 34میچز کا انعقاد بالکل مختلف چیزیں ہیں، اس میں شائقین کی دلچسپی برقرار رکھنے کیلیے بورڈ کو غیرمعمولی اقدامات کرنا ہوں گے، سب سے بڑی بات غیرملکی اسٹارز کی شرکت یقینی بنانا ہے، اس کیلیے ابھی سے کوشش شروع کر دینی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم کراچی میں ون ڈے سیریز جیت گئے اور لاہور میں ٹی ٹوئنٹی میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا،البتہ میری نظر میں اس سیریز کا نتیجہ زیادہ اہمیت کا حامل نہیں تھا بلکہ ملک میں کرکٹ کی واپسی اصل کامیابی ہے اور اس لحاظ سے جیت پاکستان کی ہی ہوئی۔
پروفیسر اعجاز فاروقی
(سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ)
پنجاب حکومت نے جگہ جگہ کھلاڑیوں کی دیوقامت تصاویر نصب کرائیں جس سے کرکٹ کا زبردست ماحول بنا رہا،اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی رونقیں بحال ہونے سے زیادہ خوشی کی بات کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی، شکر ہے اب تواتر سے مقابلوں کا انعقاد ہونے لگا۔
لاہور میں سری لنکا سے سیریز بہت اہمیت کی حامل تھی کیونکہ اسی شہر میں 10سال قبل وہ المناک واقعہ ہوا جس نے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم کرا دی تھی، پی سی بی کی سابقہ انتظامیہ جس کا میں خود ممبر بورڈ آف گورنر رہااس کے دور میں واپسی کا سفر شروع ہوا جسے احسان مانی نے بھی جاری رکھا، سری لنکا سے اس سیریزکاکامیاب انعقاد آئندہ برس بنگلہ دیشی ٹیم کی آمد کا راستہ کھولے گا، پھر پی ایس ایل کے لیے غیرملکی کرکٹرز بلانے میں بھی مدد ملے گی۔
آسٹریلیا بھی ایک ٹی ٹوئنٹی کے لیے مستقبل میں آنے کا ذہن بنا رہا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی حکام غیرمعمولی سکیورٹی فراہم کر رہے ہیں، آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں کو بھی دورے میں کوئی قباحت نہیں ہونا چاہیے، اب پی سی بی کا کام ہے کہ وہ انھیں کیسے قائل کرتا ہے۔
کراچی میں میچز کے سلسلے میں کوئی پبلسٹی نہیں کی گئی، ایسا محسوس ہی نہیں ہوا کہ شہر میں کرکٹ کا کوئی میلہ لگا تھا،اس لیے ون ڈے میچز میں شائقین نے زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ نہیں کیا۔
صرف تیسرے میچ میں رونقیں بحال نظر ہوتی نظر آئیں،البتہ لاہور میں معاملہ الگ تھا، ٹی ٹوئنٹی میچز میں شائقین ویسے ہی زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اس لیے اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، یہ درست ہے کہ سکیورٹی سے عوام کومشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ماضی میں جو ہوا اس کے بعد اب احتیاط ضروری ہے، بڑی مشکل سے اب غیرملکی ٹیموں کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو رہا ہے۔
ہمیں ایسی ہی سکیورٹی فراہم کرنا پڑے گی، ملکی میدانوں کو آباد رہنا بہت ضروری ہے، یو اے ای کے خالی اسٹیڈیمز میں کھیلنے کا کوئی فائدہ نہ تھا، پاکستان میں بچے، بڑے، بزرگ، خواتین سب میچز سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوئے، برسوں کی محرومی ختم ہوگئی، نوجوان کرکٹرزکو بھی اپنے میدانوں پر پرفارم کرنے کا موقع ملا،سب سے اہم بات بااحسن انداز میں میچز کا انعقاد ہے،گوکہ کرکٹرز ابھی آزادانہ گھوم پھر نہیں سکتے لیکن وہ وقت دور نہیں جب ایسا ہوگا، لاہور اور کراچی کے بعد پی ایس ایل کے ذریعے ملتان اور راولپنڈی میں بھی کرکٹ کی واپسی ہونے لگی۔
پشاورکا اسٹیڈیم بھی مستقبل کے لیے تیار ہو رہا ہے، اس سے شائقین کی یہ شکایت بھی دور ہو جائے گی کہ صرف لاہور اور کراچی میں ہی میچز ہوتے ہیں، سری لنکا کے10اہم کرکٹرز کے انکار سے دنیا پر اچھا پیغام نہیں گیا تھا مگر جو ٹیم آئی اسے بہترین سکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے، یہ کرکٹرز اپنے ملک واپس جا کرساتھیوں کو اس بابت بتائیں گے جس سے انھیں مستقبل میں پاکستان آنے کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔
موجودہ چیئرمین احسان مانی نے واضح پالیسی بنائی ہے کہ کسی کو دورہ کرنے پرکوئی رقم نہیں دی جائے گی، بس اس پر اب ہمیشہ عمل بھی کرنا ہوگا، بورڈ کو اسٹیڈیم میں شائقین کو مکمل سہولتیں بھی فراہم کرنی چاہئیں،کھانے پینے کی معیاری اشیا مناسب قیمت پر دیں، واش رومز کی تعداد بھی زیادہ ہونی چاہیے، شٹل بس زیادہ تعداد میں چلائیں تاکہ شائقین کو پیدل طویل مسافت طے نہ کرنا پڑے، مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کو بھی فعال کریں، ہر سیریز سے قبل ہائپ بنائیں، مکمل پی ایس ایل پاکستان میں کرانے کا فیصلہ کر کے پی سی بی نے بڑا چیلنج قبول کیا ہے۔
سیریز کے 3میچز کرانا اور 34میچز کا انعقاد بالکل مختلف چیزیں ہیں، اس میں شائقین کی دلچسپی برقرار رکھنے کیلیے بورڈ کو غیرمعمولی اقدامات کرنا ہوں گے، سب سے بڑی بات غیرملکی اسٹارز کی شرکت یقینی بنانا ہے، اس کیلیے ابھی سے کوشش شروع کر دینی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم کراچی میں ون ڈے سیریز جیت گئے اور لاہور میں ٹی ٹوئنٹی میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا،البتہ میری نظر میں اس سیریز کا نتیجہ زیادہ اہمیت کا حامل نہیں تھا بلکہ ملک میں کرکٹ کی واپسی اصل کامیابی ہے اور اس لحاظ سے جیت پاکستان کی ہی ہوئی۔
پروفیسر اعجاز فاروقی
(سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ)