سری لنکن ٹیم کی پاکستان آمد خوش آئند

قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی کارکردگی کئی سوالیہ نشان چھوڑ گئی

قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی کارکردگی کئی سوالیہ نشان چھوڑ گئی۔ فوٹو: فائل

سری لنکا کی محدود اوورز کے مقابلوں کے لیے پاکستان آمد سے ملکی سونے میدان تو آباد ہوئے لیکن اس کے انعقاد سے گرین شرٹس کی آنیوالے چیلنجز کیلیے تیاریوں کا پردہ بھی چاک ہوگیا۔

قومی ٹیم کی اگلی منزل اب آسٹریلیا ہوگی، جہاں پر اسے نومبر میں پہلے 3 ٹوئنٹی20 میچز کی سیریز میں کینگروز سے مسابقت کا سامنا رہے گا جبکہ اسی ماہ کے اواخر میں دونوں ممالک کے درمیان ٹیسٹ پر مشتمل دو میچز کی سیریز بھی شیڈول ہے، آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ شروع ہوجانے کے بعد سے 2019 سے 2022 تک ہونے والے طویل فارمیٹ کے یہ تمام مقابلوں اسی سیریز کا حصہ ہوں گے، اس کے نتائج کی بنیاد پر ٹیموں کی نئی رینکنگ میں ترتیب پاتی جائے گی۔


پاکستان کے لیے آنے والا دورئہ آسٹریلیا اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے، مکی آرتھر کو رخصت کرنے کے بعد پی سی بی نے جس طرح مصباح الحق کو بطور '' آل راؤنڈر '' میدان میں اتارا ہے، اس کے ابتدائی نتائج دیکھ کر شاید فیصلہ سازوں کو بھی تشویش لاحق ہوگی، سری لنکا سے مقابلوں میں تمامتر تنقید کے باوجود انھوں نے چلے ہوئے کارتوسوں پر انحصار کرکے ٹوئنٹی 20 سیریز گنوادی، عمر اکمل اور احمد شہزاد اپنے دور میں اچھے پلیئر رہے لیکن اب وقت آگے بڑھ رہا ہے لیکن ہماری کرکٹ کا یہ المیہ ہے کہ ہم پروفیشنل انداز میں سوچنے کی بجائے جس پلیئر کو کھلانا مقصود ہوتا ہے اس کے لیے راستے بھی بنالیتے ہیں اور اب تو فیصلے کا اختیار صرف مصباح کے ہاتھوں میں ہے تو یہ معاملہ اور بھی آسان ہوگیا ہے۔


مصباح نے ان دونوں کے علاوہ دیگر کئی بھولے بسرے پلیئرز کودوبارہ گرین شرٹ زیب تن کرنے کا موقع فراہم کیا ، تاہم سری لنکا سے ہوم گراؤنڈ پر منعقدہ ٹوئنٹی 20 سیریز میں کلین سوئپ کی خفت کے بعد انھوں نے روایتی طور پر ذمے داری قبول کرکے ناقدین کو چپ کرانے کی ناکام سی کوشش کی لیکن دورئہ آسٹریلیا کی صورت ابھی ان کی اصل آزمائش سامنے ہے۔ مصباح الحق پاکستانی ٹیم کے کوچ کی حیثیت سے اپنی پہلی ون ڈے سیریز جیتنے میں تو کامیاب رہے لیکن ٹی20 سیریز ان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ رہی جس میں سری لنکا نے ٹی 20 کی عالمی نمبر ایک پاکستان کو سیریز میں3-0 سے کلین سوئپ کردیا۔

سیریز میں ناکامی کے بعد مصباح نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جس طرح سری لنکا نے ہمیں ایک شعبے میں شکست دی وہ یقینا ہمارے لیے مثال ہے، انھوں تقریباً تمام ہی مقابلے یکطرفہ مقابلے کے بعد جیتے جس کے بعد ہمارے لیے بہت سے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں، ہم نے خراب کرکٹ کھیلی اور یہ یقیناً میری ذمے داری ہے لیکن میں ابھی تک سوچ رہا ہوں کہ آخر ہوا کیا ہے کیونکہ یہی کھلاڑی ایک عرصے سے کھیل رہے ہیں اور ٹیم کو عالمی نمبر ایک بنایا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ سابق کوچ مکی آرتھر کے بعد ڈریسنگ روم میں حکمت عملی کی تبدیلی کی وجہ سے ہوا تو ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر نے جواب دیا کہ گزشتہ 10دن میں ہم نے کچھ ایسا نہیں کیا جس سے کچھ تبدیل ہوا ہو، آپ مجھ پر ذمہ داری ڈالنا چاہیں تو ڈال سکتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنے مختصر وقت میں بحیثیت کوچ میری تربیت سے کتنا فرق پڑ سکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہماری حکمت عملی بہت سادہ تھی کہ پاور پلے کا فائدہ اٹھایا جائے اور پھر آخری 5اوورز میں تیزی سے رنز اسکور کیے جائیں، یہی کھلاڑی ٹیم کو عالمی نمبر ایک رینکنگ پر لے کر گئے لیکن اس سیریز میں کھلاڑی بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں اچھا کھیل پیش نہ کر سکے۔ٹیم کی یکدم خراب کارکردگی اور ایک بظاہر کمزور ٹیم کے خلاف شکست کی وجوہات معلوم نہ کی جا سکیں لیکن جب مصباح سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے بھی اس بات کو مذاق میں اڑا دیا اور کچھ یوں جواب دیا، ان کا کہنا تھا کہ ''شاید میں نے ہی کچھ کیا ہو؟

یہ ممکن ہے کہ میں نے اپنے دائیں ہاتھ کے بلے بازوںکو بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے کا کہا ہو یا بائیں ہاتھ سے باؤلنگ کرنے والے کو دائیں ہاتھ یا دائیں ہاتھ بولنگ کرنے والے کو بائیں ہاتھ سے بولنگ کرنے کی ترغیب دی ہو؟

مصباح نے تیسرے ٹی20 میں حارث سہیل اور بابر اعظم کی سست بیٹنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا غلط ہو گا کہ بابراورحارث نے اپنے لیے بیٹنگ کی، انھوں نے شاٹس لگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے جس کے نتیجے میں ڈاٹ گیندیں بڑھتی گئیں اور ساتھ ساتھ دباؤ بھی بڑھتا گیا، قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد اس حوالے سے کوچ کا دفاع کرتے نظر آئے اور انھوں نے بھی مصباح کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔


سرفراز نے کہا کہ سب کچھ وہی تھا لیکن میدان میں ہماری کارکردگی اصل فرق ثابت ہوئی، ہم اچھا کھیل پیش نہ کر سکے اور صحیح وقت پر اچھا کھیل پیش نہ کر سکے، ہمیں انہیں 150 رنز سے زائد اسکور کرنے نہیں دینے چاہیے تھے لیکن ہم ایسا نہ کر سکے، قومی ٹیم کے کپتان نے کہا کہ ہر کسی پر اچھے برے دن آتے ہیں لیکن ہمیں اپنی غلطیوں سے جلد از جلد سبق سیکھنا ہو گا۔

مصباح خود بھی ماضی قریب میں بطور کپتان بھی آسٹریلیا میں کامیابی پانے میں ناکام رہے ہیں لیکن اب بطور ہیڈ کوچ اورچیف سلیکٹر انھیں اس دورے کے لیے ٹیم منتخب کرتے وقت انتہائی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، پاکستان ٹیم دورئہ آسٹریلیا میں سیریز کا پہلا ٹوئنٹی 20 میچ 3 نومبر کو سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے گی، محدود فارمیٹ کا دوسرا معرکہ 5 نومبر کو دارالحکومت کینبرا میں منعقد ہوگا، سیریز کا تیسرا اور اختتامی مقابلہ پرتھ میں 8 تاریخ کو شیڈول کیا گیا ہے۔اس کے بعد دونوں ملکوں میں طویل فارمیٹ کے دو میچز طے ہیں، پہلے ٹیسٹ کی میزبانی برسبین کریگا، یہاں مقابلہ 21 نومبر سے شروع ہوگا جبکہ دوسرا ٹیسٹ 29 نومبر سے ایڈیلیڈ میں کھیلا جائیگا۔

انٹرنیشنل کرکٹ فاسٹ ہوچکی ہے، جہاں ہر ٹیم کو آنے والے چیلنجز کے لیے ہمہ وقت تیاریاں جاری رکھنا ہوتی ہیں، شنید ہے کہ سرفراز احمد کو ٹیسٹ کپتانی سے الگ کیے جانے کے لیے بورڈ چیئرمین احسان مانی رضامند کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ کسی دوسرے کرکٹر کو طویل فارمیٹ میں ٹیم کی باگ ڈور سونپی جائے، مصباح الحق نے یقینی طور پر جو تجربات کرنے تھے وہ انھوں نے سری لنکا سے ہوم سیریز میں کرلیے ہوں گے ، دورئہ آسٹریلیا کے لیے انھیں ٹیم کا چناؤ کرتے ہوئے اپنے تجربے کو بروئے کار لانا ہوگا اور فیصلے خالصتاً میرٹ پر کرنا ہوں گے۔

ہمارے بہت سے سابق کرکٹرز کا یہ بھی استدلال رہا ہے کہ ہماری ٹیم کو ذہنی مضبوطی حاصل کرنے کی شدید ضرورت ہے، عابد علی نے حالیہ دنوں میں بھی عمدہ پرفارمنس پیش کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ تواتر سے بین الاقوامی سطح پر مواقع پانے کا اہل ہے، اسی طرح امام الحق کو بھی موقع ملنے پر ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا آسٹریلیا جیسے اہم دورے پر ہم کسی ایک پلیئر پر انحصار نہیں کرسکتے۔

ٹیسٹ میں یقینی طور پر اسد شفیق بھی اہم ثابت ہوسکتے ہیں، جو اس سے قبل دورے میں بھی آسٹریلوی بولرز کو دن میں تارے دکھاچکے ہیں، سرفراز کو بھی وکٹ کیپنگ کے ساتھ اپنی بیٹنگ پر بھرپور توجہ دینا ہوگی، ٹیسٹ میں اگر قیادت کی ذمے داری کا بوجھ ان پر سے کم کردیا جائے تو انھیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بیٹنگ میں نکھار لانا چاہیے، کیونکہ وہ صلاحیت میں کسی سے کم نہیں، انڈر19 کے دور سے لیکر اب تک وہ ٹیم میں ایک فائٹر کے روپ میں موجود ہیں اور کسی بھی صورتحال میں آسانی سے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

دوسری جانب سری لنکن ٹیم نے وطن واپس پہنچتے ہی آنکھیں پھیر لیں، انھوں نے ٹیسٹ سیریز کے لیے پاکستان آمد کو بھی دشوارقرار دے دیا، سکیورٹی انتظامات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والے سری لنکن ٹیم کی پاکستان میں بڑی پذیرائی ہوئی، ون ڈے سیریز 0-2سے ہارنے کے بعد ٹی ٹوئنٹی میں کلین سوئپ کرنے والی مہمان ٹیم کا قدم قدم پر پی سی بی حکام اور عوام نے شکریہ ادا کیا، ٹور مکمل ہونے پر میزبان کرکٹرز نے مہمانوں کو گلے لگاکررخصت کیا تاہم وطن واپس پہنچتے ہی آئی لینڈرز کا لب و لہجہ ہی تبدیل ہوگیا۔

سری لنکن کرکٹ بورڈ کے صدر شامی سلوا نے مقامی میڈیا سے گفتگو میںکہاکہ ٹیم اپنے ٹور کے دوران ہوٹل میں مقید رہی،آزادانہ گھومنے پھرنے کا کوئی موقع نہیں تھا، پاکستان میں میچزکے دوران کھلاڑی اپنے بیوی بچوں کے بغیر رہے، میں خود بھی 3،4 روز تک کرکٹرزکے ساتھ رہا اوراکتاہٹ کا شکار ہوگیا، ان حالات کے باوجود پلیئرز ایک ٹیم کے طور پر کھیلے اوراچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیسٹ میچز کھیلنے سے قبل کھلاڑیوں اور معاون اسٹاف سے بات کرنا ہوگی، یہ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے اہم میچ اور ہم چاہتے ہیں کہ ٹیم اچھی کارکردگی پیش کرے،سخت سیکیورٹی کے ماحول میں فیملیز کے بغیر رہنے والے کھلاڑیوں کی پرفارمنس متاثر ہوسکتی ہے،ٹیسٹ سیریز کے لیے جانے سے قبل ازسر نو جائزہ لیں گے۔

سری لنکا کے چیئرمین آف سلیکٹرز اشانتھا ڈی میل نے کہا کہ ہوٹل سے میدان تک آنے جانے میں بہت وقت صرف ہوتا رہا،پہلے سیکیورٹی مراحل مکمل کیے جاتے، روڈز کلیئر ہوتے، بس کے اندر بھی چلنے پھرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، یہ قطعی آسان نہیں ہے،ابھی تو چند روز کے لیے گئے اور میچ بھی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی تھے، ٹیسٹ میچ پریکٹس سیشنز کے بغیر نہیں کھیلا جا سکتا، 5روز تک آنا جانا ہوگا، ٹیم کا قیام بھی 15دن کے لیے ہونا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے مشکل وقت میں ہماری مدد کی،ہم سیکیورٹی کی وجہ سے پیش آنے والے مسائل کو برداشت کرنے کے لیے تیار تھے لیکن دیکھنا ہے کہ ایسا کس حد تک کرسکتے ہیں، انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے عمل میں کردار ادا کرنا ہمارا فرض تھا۔ اس سے دیگر ملکوں کو بھی حوصلہ ملے گا، ہوسکتا ہے کہ اگلے سال آسٹریلیا یا انگلینڈ کی ٹیمیں بھی آجائیں۔ ایس ایل سی کے سیکریٹری موہن ڈی سلوا نے کہاکہ سیکیورٹی انتظامات چیک کرنے کیلیے میں خود پاکستان گیا تھا، سینئرز کی جانب سے انکار کے بعد کھلاڑیوں کو قائل کرنا آسان نہیں تھا، خوشی ہے کہ جنھیں موقع ملاانھوں نے اپنی افادیت ثابت کردی۔
Load Next Story