ہالینڈ اور جرمنی کے بعد فرانس کا بھی ترکی کو اسلحہ فروخت کرنے سے انکار

ترکی کے شامی علاقے میں فوجی کارروائی سے یورپی ممالک کو خطرات لاحق ہیں۔ ہالینڈ، جرمنی اور فرانس کا موقف


ویب ڈیسک October 13, 2019
ترکی کے شامی علاقے میں فوجی کارروائی سے یورپی ممالک کو خطرات لاحق ہیں۔ ہالینڈ، جرمنی فرانس (فوٹو : فائل)

شام میں علیحدگی پسند کردوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے پر ہالینڈ اور جرمنی کے بعد اب فرانس نے بھی ترکی کو اسلحے کی فروخت کو معطل کر دیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق شام کے سرحدی علاقوں میں مسلح کرد علیحدگی پسند جماعت کے خلاف ترک فوج کا آپریشن جاری ہے تاہم عالمی سطح پر اس کارروائی کے خلاف ردعمل بھی سامنا آرہا ہے۔ فوجی کارروائی کے آغاز پر ہی ہالینڈ اور جرمنی ترکی کو اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے معطل کردیئے تھے اور اب فرانس نے بھی اسلحے کی فروخت بند کردی۔

فرانسیسی وزارت دفاع اور خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ فرانس نے ترکی کو اسلحے کی خرید و فروخت سے متعلق کیے گئے تمام معاہدوں کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔

یہ خبر پڑھیں: تنقید جاری رہی تو 36 لاکھ شامی مہاجرین کو یورپ بھیج دیں گے

قبل ازیں ہالینڈ نے ترکی میں فوجی ساز وسامان کی برآمد کے لیے تمام درخواستوں کی معطلی کا اعلان کرتے ہوئے یورپی یونین کے دیگر ممبر ممالک سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد جرمنی نے بھی اسلحے کی فراہمی معطل کردی تھی۔

یہ خبر پڑھیں: شام میں ترک فوج کے حملے میں امریکی فوج بھی زد میں آگئی

ہالینڈ، جرمنی اور فرانس کی جانب سے ترکی کو شام میں کردوں کیخلاف فوجی آپریشن پر متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ شمالی شام میں ترک فوج کی کارروائی سے یورپی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے جس پر ترک صدر کا کہنا تھا کہ اگر فوجی کارروائی میں رکاوٹ ڈالی گئی تو وہ ہزاروں شامی پناہ گزینوں کو یورپی ممالک بھیج دیں گے۔

یہ خبر بھی پڑھیں: شام میں ترک فوج کی کارروائی میں خاتون سیاست دان سمیت 9 شہری ہلاک

دوسری جانب فرانسیسی صدر عمانویل میکروں نے شام میں ترک فوج کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفون پر بات چیت بھی کی تھی۔ ادھر امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منوشن کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے امریکی حکام کو فوجی کارروائی پر ترکی کیخلاف سخت ترین پابندیوں کا مسودہ تیار کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں