صدرِ مملکت ٹرکش ریڈ کریسنٹ
پی آر سی ایس کے رضا کار ہی دراصل اس ادارے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں
پاکستان کے مہربان دوست اور ترک صدر ، جناب طیب اردوان، 23 اکتوبر کو پاکستان تشریف لا رہے ہیں ۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان سمیت پاکستان کے 22کروڑ عوام عظیم ترک صدر کی راہ میں ابھی سے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے ہُوئے ہیں ۔ترکی نے شام میں دہشتگردی کے خلاف حالیہ دنوں میں جو اقدامات کیے ہیں ، وزیر اعظم پاکستان نے دل کھول کر ان کی حمایت کی ہے ۔
عام سفارتی زبان میں تو پچھلے سات عشروں سے پاکستان اور ترکی کے درمیان گہرے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات چلے آ رہے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ ترکی اور ترک عوام سے ہماری محبتیں ، تعاون اور احترام تو تشکیلِ پاکستان سے پہلے سے چلا آ رہا ہے ۔ کسی ترک ادارے کا پاکستان سے محبت اور تعاون کا ایک دل افروز منظر راقم نے حال ہی میں دیکھا ہے ۔اس منظر میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور ہلالِ احمر پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی نے شریک ہو کر نئے رنگ بھر دیے ۔ لاریب یہ ایک یادگار اور دلکشا تقریب تھی۔
8 اکتوبر2019ء کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ان دونوں شاندار تقریبات میں راقم بھی مدعو تھا۔ پہلی تقریب ہلالِ احمر پاکستان ( پی آر سی ایس) کے اسلام آباد میں واقع صدر دفتر میں تھی ۔ ویسے تو اس تقریب کے منصرم پی آر سی ایس کے سیکریٹری جنرل ، خالد بن مجید، تھے لیکن تقریب کی مرکزی شخصیت ٹرکش ریڈ کریسنٹ سوسائٹی ( ٹی آر سی ایس) کی جان جناب حسین جان(Huseyin Can) تھے ۔
انھوں نے ایک مختصر خطاب میں ہلالِ احمر پاکستان اور ترک ہلالِ احمر کے درمیان باہمی تعاون اور پاکستان کے زلزلہ زدگان و دیگر قدرتی آفتوں کی دستگیری کی جو داستان سنائی ، سننے والے حیران بھی تھے اور خوش بھی ۔ ڈاکٹر سعید الٰہی صاحب سے اُن کی گفتگو تو پاک ترک دوستی کے کئی خفی ابواب کی کہانی سنا رہی تھی۔ حسین جان صاحب نے پی آر سی ایس کی خوبصورت لائبریری میں رکھی مہمانوں کی کتابوں میں پاکستان ، پاکستانی عوام اور ہلالِ احمر پاکستان کے بارے میں شاندار کلمات لکھے ۔
وہ جب یہ الفاظ لکھ رہے تھے ، مَیں اُن کے بالکل عقب میں کھڑا تھا ۔انھوں نے ایک ''بلڈ ڈونیشن وین'' کا بھی ذکر کیا ۔ یہ سرخ رنگ کی خوبصورت ، جدید اور بھاری وین وہیں پی آر سی ایس کے احاطے میں کھڑی تھی ۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ''شئے'' ہے ۔ یہ عقدہ مگر ایوانِ صدر جا کر کھلا جب بس کی مانند اس وین کے گُن کھلے ۔
شام تقریباً ساڑھے چار بجے ایوانِ صدر میں برپا ایک پُرشکوہ تقریب میں ٹی آر سی ایس کے سیکریٹری جنرل ، حسین جان ، نے یہ ''بلڈ دونیشن وین'' صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو پیش کی، یوں کہ اس کی چابیاں صدر صاحب کو بطورِ سمبل تھمائی گئیں ۔
اِسی تقریب میں ، جس میں پاکستان میں متعین ترک سفیر جناب مصطفیٰ یردکول بھی تشریف فرما تھے، ٹرکش ریڈ کریسنٹ نے 6عدد جدید فرسٹ ایڈ موٹر سائیکلیں بھی پی آر سی ایس کے حوالے کیں ۔ یہ فرسٹ ایڈ موٹر سائیکل زیادہ تر اسلام آباد ہی میں بروئے کار آ سکیں گے ۔ بتایا گیا کہ ''بلڈ ڈونیشن وین'' کو بنایا تو پاکستان ہی میں گیا ہے لیکن اس کے انجینئرز ترک ہیں ۔
جس جگہ بھی خون کے عطیات اکٹھے کیے جائیں گے، بلڈ ڈونیشن وین وہاں موجود ہوگی ۔ اِسے طبّی طور پر اس شکل میں ڈھالا گیا ہے کہ خون کا عطیہ دینے والا کوئی بھی شخص نہایت آرام دہ طریقے سے یہ انسانی فریضہ ادا بھی کر سکے گا اور اُس کا خون کسی بھی ممکنہ آلودگی سے محفوظ بھی رہے گا ۔ یہ شائد پاکستان کو دیا جانے والا اپنی نوعیت کا پہلا مفید اور عظیم تحفہ ہے ۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی یہ مفید تحفہ دیے جانے پر ترک حکومت، ترک ہلالِ احمر اور ترک صدر طیب اردوان کا تہِ دل سے شکریہ ادا کیا ۔ عارف علوی نے اپنے خطاب میں پاکستان سے ترکی کی عظیم محبتوں کا ذکر کرتے ہُوئے کہا:''ترک عوام اور ترک صدر طیب اردوان صاحب ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے ہیں ۔
جناب اردوان نے یو این جنرل اسمبلی میں ( ستمبر کے آخری ہفتے) اپنے خطاب میں جس جرأت کے ساتھ کشمیر ایشو اُٹھایااور جس درد مندی سے مظلوم و مقہور و محصور کشمیریوں کا ذکر کیا ، ہم اس بارے اُن کے نہایت شکر گزار ہیں ۔ حق یہ ہے کہ اردوان صاحب نے انسانیت نوازی کا حق ادا کر دیا ۔ صدرِ ترکی نے جس احسن طریقے اور انسانیت سے محبت و اکرام کا ثبوت دیتے ہُوئے شام کے تین ملین اور دیگر ممالک کے نصف ملین مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی ہے ، اسے ایک غیر معمولی اقدام ہی کے عنوان سے یاد کیا جاتا رہے گا۔''
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی صاحب جس اسلوب میں برادر ترکی اور عظیم ترک صدر کا ذکر کر رہے تھے، اُنکے ہر لفظ پر ایوانِ صدر کا وہ عظیم الشان ہال گونج اُٹھتا تھا جہاں تقریباً پانچ صد معزز مہانانِ گرامی تشریف فرما تھا ۔ ڈاکٹر عارف علوی صاحب ہلالِ احمر پاکستان کے پیٹرن انچیف بھی ہیں ۔ مذکورہ تقریب سے ڈاکٹرسعیدالٰہی کی گفتگو خاصے کی چیز تھی۔
انھوں نے اپنے خطاب میں ذکر کیا کہ جب اکتوبر 2005ء میں زلزلے نے آزاد کشمیر اور پاکستان کے کئی علاقوں میں قیامتِ صغریٰ پیدا کر دی تھی ۔ اُن پُر آزمائش لمحات میں یہ ترکی تھا جو سب سے پہلے ہمارے زلزلہ زدگان کی امداد کو پہنچا تھا ۔ آزاد کشمیر میں ترکی کا تعمیر کردہ پُر شکوہ اسپتال آج بھی ترکی کی مہربانیوں اور محبتوں کی یاد دلاتا ہے۔
ترک سفیر جناب مصطفیٰ یردکول نے بھی اپنی گفتگو میں اس تعاون کا ذکر کیا ۔ ڈاکٹر سعید الٰہی نے تفصیل سے یہ بھی بتایا کہ حالیہ دنوں میں (24ستمبر2019ء) پھر آزاد کشمیر کے ایک حصے میں بھونچال نے تباہی مچائی ہے تو ہلالِ احمر پاکستان کے سبھی وابستگان اور رضا کار متاثرین کی اعانت و امداد کے لیے فوراً وہاں پہنچے تھے ۔
امداد کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ڈاکٹر سعید الٰہی نے سامعین کو بتایا:'' ہلالِ احمر پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ وطنِ عزیز میں خون کے عطیات اکٹھے کرنیوالا سب سے بڑا ادارہ بھی ہے اور بغیر کسی امتیاز کے ضرورتمندوںمیں خون فراہم بھی کرتا ہے ۔ '' انھوں نے یہ بھی خوش کن خبر سنائی کہ پی آر سی ایس کی لیبارٹری پاکستان کامعتمد ترین ادارہ ہے ۔
ایل او سی پر بھارتی گولہ باری سے شدید زخمی ہونے کشمیریوں کو فوری اور موقع پر طبّی امداد فراہم کرنیوالوں میں پی آر سی ایس کے رضا کاروں کو اوّلین مقام حاصل ہے ۔ باعث مسرت امر یہ بھی ہے کہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی صاحب پی آر سی ایس سے تعاون کرنے میں ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ مجھے ڈاکٹر سعید الٰہی نے خود بتایا کہ صدر علوی صاحب نے ہمیشہ پی آر سی ایس پر شفقت کی ہے ۔ سعید الٰہی صاحب بتاتے ہیں : پی آر سی ایس کے رضا کار ہی دراصل اس ادارے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔آنے والے چند برسوں میں ہلالِ احمر پاکستان سے وابستہ رضا کاروں کی تعداد 50لاکھ سے تجاوز کر جائے گی !!