وہ جو اتفاقیہ آئے اور چھا گئے
کامیاب انسان وہی ہے جو اپنے اندر مخفی صلاحیتوں کو پہچان لے
بنا کسی تمہید کے عرض کرتا چلوں کہ آج کی نشست میں ہم ان سپر اسٹارز فلمی ہیروزکا ذکر خیر کریں گے جن کو نہ تو فلم انڈسٹری میں آنے کا شوق تھا اور نہ ہی ان ہیروز نے فلم انڈسٹری میں داخل ہونے کی کبھی جستجو کی۔
سب سے اولین ہم ذکرکریں گے ماضی کے خوبرو ہیرو حبیب صاحب کا۔ دراز قامت، وجیہ و اعلیٰ تعلیم یافتہ جن کا حقیقی نام تھا حبیب الرحمن۔ یہ صاحب کسی فلم کی عکس بندی دیکھنے میں مصروف تھے ، عام لوگوں کی طرح جیسے کہ دیگر لوگ دیکھ رہے تھے۔
یہ ضرور ہوا کہ اس وقت نامور ترین ہدایت کار لقمان کی ان پر نظر پڑ گئی انھوں نے حبیب کو اپنے پاس بلایا اور گفتگو کا آغاز ہی اس جملے سے کیا کہ فلموں میں اداکاری کروگے؟ مگر مجھے تو فلموں میں اداکاری کا ذرہ برابر بھی شوق نہیں۔ حبیب کا جواب تھا۔ البتہ ہدایت کار لقمان نے حبیب کو یقین دلایا کہ وہ ایک کامیاب اداکار ثابت ہوسکتے ہیں۔
یوں حبیب فلموں میں کام کرنے کے لیے رضامند ہوگئے اور ہدایت کار لقمان نے انھیں فلم '' لخت جگر '' میں میڈم نور جہاں کے چھوٹے بھائی کے کردار میں کاسٹ کرلیا۔ البتہ اس فلم میں حبیب ایک حادثے میں انتقال کر جاتے ہیں جب کہ ان کی بے وقت موت کا صدمہ میڈم نور جہاں و ان کے فلمی باپ ایم اسماعیل کو جھیلنا پڑتا ہے جب کہ فلم ''لخت جگر'' میں میڈم نور جہاں کے مد مقابل ہیرو تھے خوبرو سنتوش کمار۔ بعد ازاں حبیب ایک کامیاب ترین ہیرو قرار پائے۔
جنھوں نے اردو، پنجابی فلموں میں خوب نام کمایا۔ ان کی یادگار فلمیں ہیں لخت جگر، اولاد، اسٹریٹ 77، آدمی، ایاز، دیو داس ، وقت ، خریدار ، بیٹی ، میرا نام راجہ ، دل کے ٹکڑے، ہارگیا انسان وغیرہ ۔ پنجابی فلموں میں رنگوجٹ ، وریام ، ات خدا دا ویر ، یار مستانے، میرا ویر ، مکھڑا چن ورگا، میلہ دو دن دا ، اُچی حویلی، بھائی چارہ ، چن مکھنا ، شیر خان ، وارنٹ ہتھکڑی ، حشر نشر و دیگر ۔ انھوں نے ایک ٹی وی ڈرامہ راہیں میں وکیل کا کردار بھی کیا۔
حبیب نے سیکڑوں فلموں میں کام کیا۔ اب بات کرتے ہیں خوبرو ترین چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کی۔ ان کے والد نثار مراد فلم آرٹس کے نام سے فلموں کے پیشکار تھے اسی ادارے کے تحت انھوں نے دو فلمیں جب سے دیکھا ہے تمہیں اور انسان بدلتا ہے پیش کیں۔ ایک روز ایس ایم یوسف نے جوکہ نامور ترین ہدایت کار تھے وحید مراد کو دیکھا اور نثار مراد صاحب سے درخواست کی کہ وہ اپنی فلم اولاد میں وحید مراد کو ایک نوجوان کے کردار میں کاسٹ کرنا چاہتے ہیں۔
نثار مراد صاحب کا جواب تھا کہ اول تو میرے بیٹے کو فلموں میں اداکاری کرنے کا شوق نہیں۔ دوم یہ ابھی زیر تعلیم ہے البتہ تمام تر باتوں کے باوجود ایس ایم یوسف نے نثار مراد اور وحید مراد کو رضا مند کرلیا کہ وحید مراد ان کی فلم میں کام کریں گے۔ یوں وحید مراد نے فلم اولاد میں حبیب و نیئر سلطانہ کے بیٹے کا کردار ادا کیا۔
بعدازاں وحید مراد نے ڈاکٹر ، ہیرا ، پتھر ، ارمان ، کنیز، دیور بھابی، انجمن ، ناگ منی ، دیدار، پھول میرے گلشن کا ، شمع، جب جب پھول کھلے، پرکھ پرستش، سہیلی، نذرانہ، انسانیت، اشارہ، اس فلم کی ہدایات بھی وحید مراد نے دیں اور اپنی آواز میں واحد نغمہ بھی اسی فلم میں گایا۔ دیگر فلموں میں عورت راج ، شبانہ ، نشانی ، جیو اور جینے دو ، وقت ، آپ کا خادم ، کرن اور کلی ، خدا اور محبت ، آواز، دولت اور دنیا ، صورت اورسیرت ، زبیدہ ، راستے کا پتھر، ثریا بھوپالی، عزت، حقیقت، سمندر، تم سلامت رہو وغیرہ سمیت 120 اردو فلموں میں اداکاری کی اور تمام فلموں میں ہیرو کے طور پر کام کیا۔
وحید مراد کی پنجابی فلموں کی تعداد سات تھی جن میں مستانہ ماہی، عشق میرا ناں، سیوں نی میرا ماہی، سجن کملا، جوگی، انوکھا راج اور ووہٹی جی شامل ہیں۔ وحید مراد نے اپنے وقت کی تمام ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا البتہ 23 نومبر 1983 کو وحید مراد کی اچانک وفات ہوگئی جب کہ ان کی ذاتی فلمیں ہیرو اور زلزلہ ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوئیں۔ مرزا نذیر بیگ المعروف ندیم کا کون نہیں جانتا۔
یہ صاحب گلوکاری کا شوق رکھتے تھے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود یہ فلموں میں گلوکاری نہ کر پائے اورکراچی سے ڈھاکہ تشریف لے گئے اور وہاں سے ڈھاکہ ٹی وی سے اپنی گائیکی کا آغاز کیا اسی دوران ان پر فرزانہ بیگم کی نظر پڑی جن کے والد احتشام فلم چکوری بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
چنانچہ فرزانہ بیگم کے اصرار پر انھیں فلم چکوری میں گلوکاری و فلم میں ولن کا کردار دیا گیا بعدازاں احتشام صاحب کا فلم چکوری کے ہیرو عظیم سے تنازعہ ہوگیا جس کے باعث عظیم کو چکوری کی کاسٹ سے علیحدہ کر دیا گیا اور ندیم صاحب کو فلم چکوری میں ہیروکاسٹ کرلیا گیا چکوری کامیاب ترین فلم ثابت ہوئی یوں ندیم کا فلمی سفر شروع ہوا جوکہ ہنوز جاری ہے۔ فلم چکوری 1967 میں ریلیز ہوئی یوں ان کا فلمی سفر 52 برس سے جاری ہے۔ ندیم نے چکوری کے بعد چھوٹے صاحب ، اناڑی وغیرہ ڈھاکہ میں کیں بعد ازاں یہ لاہور آگئے۔
جہاں انھوں نے بہن بھائی، سنگدل ، دامن اور چنگاری ، پھول میرے گلشن کا ، انتظار، شمع ، جب جب پھول کھلے، بھول ، انمول محبت ، آئینہ ، بندش، محل میرے سپنوں کا، ہم دونوں، تلاش ، خوبصورت، دہلیز، اناڑی، سیاں اناڑی، لازوال، ناراض، پہچان، کوشش، بازار حسن، شرافت، آہٹ، سنگدل، نئی نادان، درد، فرض اور مامتا، امبر، زندگی، قاتل کی تلاش، مٹی کے پتلے، ذاتی فلم تھی زینت ودیگر لاتعداد اردو کے ساتھ پنجابی فلموں میں بھی اداکاری کے ندیم نے جوہر دکھائے۔
مکھڑا، عبداللہ دی گریٹ، خدا گواہ وغیرہ ان کی پنجابی فلمیں ہیں۔ انھوں نے دو انڈین فلموں میں بھی اداکاری کی وہ جو کہتے ہیں ہر کامیاب مرد کے پس پردہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ندیم کے پس پردہ فرزانہ کا ہاتھ ہے جن سے ندیم نے شادی کی۔ ندیم کا فنی سفر جاری ہے جس کا ثبوت ان کی ریلیز شدہ دو فلمیں ہیں سپر اسٹار اور پرے ہٹ لو۔ ہدایت کار اور اداکار کیفی اتفاقیہ اداکاری کے شعبے سے وابستہ ہوئے ان کی ہدایات میں دو فلمیں منہ زور اور چن مکھناں ریلیز ہوچکی تھیں۔ ان کے بڑے بھائی گلوکار و اداکار عنایت حسین بھٹی اپنے آفس میں بیٹھے تھے کہ فلمی مصنف حزیں قادری آئے۔
جنھوں نے بھٹی صاحب سے سوال کیا کہ اب کیا پروگرام بنا رہے ہیں؟ بھٹی صاحب نے جواب دیا کہ ایک فلم سجن پیارا بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں۔ ارادہ ہے اپنے ساتھ حبیب کو کاسٹ کروں۔ حزیں قادری نے بھٹی صاحب کے برابر بیٹھے کیفی کی جانب اشارہ کیا کہ ہیرو آپ کے گھر میں موجود ہے۔ بھٹی صاحب نے جواب دیا کہ اسے فلموں میں اداکاری کا شوق نہیں ہے۔
حزیں قادری نے اصرار کیا ایک چانس اسے دو پھر دیکھو۔ یوں کفایت حسین بھٹی نے کیفی کے نام سے فلمی دنیا میں قدم رکھا وہ بنیادی طور پر فلمی ہدایت کار تھے چنانچہ اپنی ہر فلم میں ہیرو ہوتے انھوں نے ساٹھ سے زائد فلموں میں ہدایت کاری و اداکاری کی جوکہ اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے کیفی کی خاص خاص فلمیں یہ ہیں۔
سجن پیارا، دنگل، طاقت، اعلان، ارادہ، تخت یا تختہ، الٹی میٹم، چیلنج، جگا گجر، مولا جٹ، بڈھا گجر، سنتری بادشاہ، سچا سودا وغیرہ۔ کیفی نے چار اردو فلموں میں بھی اداکاری کی جن میں دو فلموں بکھرے موتی اور روٹی کپڑا اور انسان شامل ہیں بکھرے موتی نے اچھا بزنس کیا البتہ روٹی کپڑا اور انسان سنسر کی نذر ہوگئی فلم کا موضوع عوامی تھا وہ دور ضیا آمریت کا تھا۔ بہرکیف ہم نے چار سپر اسٹارزکا ذکر کیا جن میں ماسوائے ندیم صاحب کے دیگر تین دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
کالم کے آخر میں صرف اتنا عرض کریں کہ کامیاب انسان وہی ہے جو اپنے اندر مخفی صلاحیتوں کو پہچان لے اور ان کے مطابق عملی زندگی کا آغاز کرے۔ بصورت دیگر ہم اپنی ناکامیوں کو مقدرکا نام دیتے ہیں۔