دہشت گردی کی حالیہ لہر ملکی تشخص بگاڑنے اور مذاکرات کو ناکام بنانے کی سازش ہے
اے پی سی کے فیصلوں پرعمل درآمدسے پہلے ہی ملک میں دھماکوں کےسلسلہ نےپوری قوم کوپریشان کرکے رکھ دیا ہے۔
پاکستان بدقسمتی سے دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کے جن بڑے مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ان میں دہشت گردی کا مسئلہ سر فہرست ہے ۔ چنانچہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم میاں نوازشریف نے دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں ایک متفقہ حکمت عملی وضع کرنے اور تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی غرض سے کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا ڈول ڈالا۔ اس کانفرنس میں ملک کی معروف سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ ان جماعتوں نے اتفاق رائے سے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے باہمی غور و خوض کے بعد مذاکرات کا آپشن آزمانے کا فیصلہ کیا اور ان مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں آپریشن کا آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن اے پی سی کے فیصلوں کی ابھی سیاہی بھی پوری طرح خشک نہیں ہو پائی تھی کہ ملک میں پے در پے دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جس نے پوری قوم کوپریشان کرکے رکھ دیا۔ دہشت گردوں کا نشانہ اس مرتبہ اقلیتوں کے عبادت خانوں کو بنایاگیا یعنی اب تک مساجد، امام بارگاہیں اور پبلک مقامات شدت پسندوں کا ہدف بنتے رہے تھے لیکن خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور میں انہوں نے چرچ کو نشانہ بنایا اور وہاں عبادت کے لیے آئے مسیحی خواتین اورمردوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی موت سے ہمکنار کردیے گئے۔ اس وحشیانہ اور بہیمانہ اقدام نے ملک کے ہر صاحب دل کو دکھی کردیا اور وہ لوگ جو مذاکرات پر زور دے رہے تھے انہوں نے اس دھماکے کو مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی سازش کا نام دیا ۔
روزنامہ ''ایکسپریس '' نے اس تمام صورت حال کا تجزیہ کرنے اور اس پر خوروخوض کرنے کی غرض سے فورم کا اہتمام کیا ۔ جس میں ملک کے مقتدر علماء، سیاسی وسماجی شخصیات اور مسیحی برادری کی نمائندہ شخصیات کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ شرکاء میں بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد ، بلوچ رہنما اورجمہوری وطن پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل عبدالروف خان ساسولی، پیپلزپارٹی پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل دیوان غلام محی الدین، کونسل فار انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے کوآرڈی نیٹر فادر فرانسس ندیم ، مسلم لیگ ن کے اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی شہزاد منشی اور فنکشنل لیگ پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات بلا ل ایوب گورایہ شامل تھے۔ مذکورہ ماہرین نے ''مذاکرات اور دہشت گردی کی نئی لہر'' کے موضوع پر کھل کر اظہارخیال کیا۔ جس کی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔
عبدالخبیر آزاد
سانحہ پشاور یقینا پاکستان کے امن کو خراب کرنے کی سازش ہے۔ ایسے وقت میں یہ واقعہ پیش آیا جب پاکستان کی قیادت ، وزیراعظم اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ملک کی نمائندگی کرنے کیلئے جا رہے تھے۔ اسلام امن پسند دین ہے اور دہشت گردی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا ۔ اسلام اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے اور اسے یقینی بناتا ہے۔ دہشت گرد نہ تو مساجد کو چھوڑتے ہیں نہ بازاروں کو ، نہ بوڑھوں کو نہ بچوں اور عورتوں کو چھوڑتے ہیں جبکہ اسلام تو ہمیں احترام آدمیت کا درس دیتا ہے۔ پیغمبر دوعالم ؐ نے تو مسجد نبوی کے دروازوں کو مسیحیوں کی عبادت کیلئے کھول دیا تھا اور وہاں آنے والوں کو خوش آمدید کہا تھا۔ میثاق مدینہ کو دیکھیں تو یہ ایک اہم معاہدہ تھا جس میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا۔ میثاق مدینہ کو سامنے رکھیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے برابر ہے۔ فرمان رسول ؐ ہے کہ بہترین مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے دوسرا مسلمان یا دوسرا انسان محفوظ رہے۔
ہم نے ہر پلیٹ فارم پر انٹر فیتھ پر کام کیا ہے میرے والد مولانا عبدالقادرآزاد نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ شانتی نگر کا واقعہ ہو یا بہاولپور، خانیوال، گوجرہ، سانگہ ہل یا جوزف کالونی جیسے واقعات ، ہم نے ہر جگہ ان کی مذمت کی اور کھل کر اظہار کیا کہ اس طرح کے واقعات نہیںہونے چاہئیں۔ جب بھی ایسے سانحات رونما ہوئے تو پوری قوم متحد نظر آئی ۔آپ نے دیکھا کہ سانحہ پشاور کے بعد بھی پوری قوم نے مسیحی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ساتھ دیا اور باورکرایا کہ ملک بنانے کیلئے ہمارے بزرگوں نے جو کردار ادا کیا تھا۔ آج اس ملک کو بچانے کیلئے ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ امن کو برباد کرنے والی تمام طاقتوں کو بتادینا چاہیے کہ ہم ان کی سازشیں کامیاب نہیںہونے دیں گے۔ ہم نے پوری دنیا کو یہ پیغام دینے کیلئے کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ ہیں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں مسیحیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ اس حوالے سے میڈیا نے اہم کردار ادا کیا اور گھر گھر تک یہ آواز پہنچائی۔
من حیث القوم ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ دوری کی بجائے قربت کا پیغام عام کریں، پوری دنیا قربت میں آگئی ہے تو ہمیں بھی قربت میں آناہوگا۔ اب نفرتیں نہیں ڈالی جاسکتیں اور دشمن نفرتیں ڈالنے میں کامیاب نہیںہوں گے۔ ہم دنیا میں کہیں بھی جائیں تو ہماری شناخت پاکستانی کے طور پر ہوتی ہے۔ پاکستان کو اتنا بدنام کر دیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ایئر پورٹس پر ہمیں روکا جاتا ہے اور توہین آمیز رویہ اپنا کر بلا وجہ تنگ کیاجاتا ہے۔ ہمیں اپنا وقار بلند کرنا ہوگا۔ طالبان نے بیان دیا ہے کہ سانحہ پشاور انہوں نے نہیں کیا تو پھر دیکھیں کہ یہ کن لوگوں نے کیا ہے؟ تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل ہوتے ہیں اس لئے مذاکرات کو نہ چھوڑا جائے،ا گر مذاکرات کامیاب ہوگئے تو تمام لوگ سامنے آجائیں اور دہشت گردوں کے چہرے بھی عیاں ہوجائیں گے۔ دہشت گردی کے ذمہ دار لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جو لوگ دہشت گردی میں پکڑے گئے اگرانہیں کیفر کردار تک پہنچادیا جائے اور قاضی عدالتیں لگا کر انہیں چوراہوں پر لٹکا یا جائے تو اس طرح کے واقعات رک جائیں گے۔
عبدالرؤف خان ساسولی
دہشت گردی کا موضوع بہت وسیع ہے اس پر کھل کر بات ہونی چاہیے، اس میں انسانی جنون کی کئی داستانیں ہیں۔ مذاکرات ہونے چاہیئں یا نہیں ہونے چاہیئں ، اس پر بات کریں تو ہم مذاکرات کے حق میں ہیں، مذاکرات اچھی بات ہے کیونکہ مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکلتا ہے۔ مگر مذاکرات کرنے سے پہلے یہ طے کرلینا چاہیے کہ جن سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں اس میں ریاست اپنی آئیڈیالوجی تبدیل کرے گی یا جن سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں وہ اپنی آئیڈیالوجی بدلیں گے۔ جن سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔ صرف اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کرتے تو اچھا ہے۔ اس وقت بہت سے گروپ ہیں جو کہ تمام کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ بات چیت کھلی ہونی چاہیے اور تمام گروپوں سے ہونی چاہیے، بات چیت صرف یہیں تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ قندھار اور کابل سے لے کر یہاں تک ہونی چاہیے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی مسائل کے پائیدار حل کیلئے کوشش نہیں کی بلکہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے کام لیا مگر آج کے حکمران اگر اپنی مدت اچھے طریقے سے گزاریں اور چیزوں کا مستقل حل تلاش کریں تو بہتر ہوگا۔
اگر تھوڑا سا ماضی میں جائیں تو روس کے ساتھ سرد جنگ میں امریکہ اورمغربی ممالک نے دنیا بھر سے لڑنے کیلئے لوگ اکٹھے کئے مگر جنگ ختم ہونے کے بعد ان کی واپسی کا انتظام نہیں کیا۔ اب انہیں اپنے ملک بھی قبول نہیں کر رہے ہیں اور وہ یہاں رہنے کیلئے جنگ کررہے ہیں۔ افغان جہاد کے وقت ہر ملک اپنے لوگوں کو جہاد کیلئے افغانستان بھیجتا رہا اور کسی ملک نے ان پر پابندی نہیں لگائی اور اب کوئی انہیں واپس لینے کو تیار نہیں ہے۔ اسلام سمیت کوئی بھی مذہت خود کشی کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی پرامن اقلیت پر حملے کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام تو وہ مذہب ہے جس میں پیغمبر ؐ نے غیرمسلموں کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی تھی۔ ہمارے ملک میں یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ انصاف کا دوہرا معیار انسان کو اس طرح کے کاموں میں دھکیلتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر انسان کیلئے انصاف کا یکساں معیارہونا چاہیے، کسی کو دوسرے پر برتری نہیں ہونی چاہیے ، تمام براعظموں اور ملکوںکو آپس میں برابری رکھنی چاہیئے اور مذہبی رویہ بھی ایک جیسا ہونا چاہیے۔ بدھ جن کا عقیدہ یہ ہے کہ کسی جاندار کا گوشت کھانا بھی جائز نہیں وہ بھی برما میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں یہ ظلم بھی نہیں ہونا چاہیے۔
چند روز پہلے فوج کا ایک میجر جنرل شہید کیا گیا ، جب ہمارے ملک کا وفد چین گیا تو اس کے انجینئر قتل کردیئے گئے، جب ترکی گیا تو میجر جنرل کو شہید کردیا گیا اور وزیراعظم اقوام متحدہ گئے تو مسیحیوں پر حملہ ہوگیا ۔ اس وقت ہمارا خطہ پوری دنیا کی نظروں کا مرکز ہے اس میں پاکستان سب سے اہم ہے کیونکہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے۔ تمام لوگوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں اور حق تلفیاں اپنی جگہ مگر کسی مزدور کو بس سے نکال کر ماردیا جائے یہ روایت بھی ناجائز ہے۔ قتل چاہے بلوچ کا ہو، پختون کا ہو، پنجابی، سندھی یا مہاجر کا ہو سب کا قتل برابر ہے۔ بلوچستان میں ہمیشہ میں نے یہی کہا ہے کہ گفت و شنید ہو۔ اختر مینگل جب وطن واپس آئے تو ان سے بات چیت کی گئی جو کہ اچھی بات ہے ۔اسی طرح یہ بات چیت جاری رہنی چاہیے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے حکمران جو باتیں کرتے ہیں اقتدار میں آنے کے بعد انہیں بھول جاتے ہیں۔ میاں صاحب کے دل میں اقتدار سے پہلے بلوچوں کا بڑا درد تھا مگر اقتدار میں آنے کے بعد بلوچستان میں صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے انہوں نے ابھی تک کوئی کام نہیں کیا۔ بلوچستان کے لوگوں کو ملازمتوں میں کوٹے کی بات تو کی جاتی ہے مگر فوجی اداروں کے علاوہ دیگر اداروں پی آئی اے، واپڈا، پی ایس اوسمیت دیگر قومی اداروں میں ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
پچھلے دورمیں زرداری صاحب کہتے تھے کہ بلوچستان کے ہر ایم پی اے کو 3ارب روپے دیئے گئے مگر وہ کہیں خرچ کئے ہوئے نظر نہیں آتے۔ اگر اس میں ایک ایک ارب بھی خرچ ہوا ہوتا تو بلوچستان کا نقشہ ہی مختلف ہوتا۔ حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ جو پیسے وہ عوامی نمائندوں کو دیں اس کا حساب بھی رکھیں مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ بلوچستان اس وقت عالمی سازش کا مرکز ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ وہاں بیرونی ہاتھ ملوث نہیں وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ہم نے اپنے گھر کو بہتر کرنا ہے اس وقت ملک مشکل صورتحال میں ہے ، ضروری ہے کہ ہر بارڈر پر نظر رکھی جائے اور تمام غیر ملکیوں کی رجسٹریشن ہواور تمام کو ورک پرمٹ دیا جائے۔
افغانستان کی لمبی چوڑی سرحد کے ساتھ بھارت نے بہت سے قونصل خانے بنارکھے ہیں ان سے پاکستان میں حالات خراب کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ اپنے ہمسائیوں سے تعلقات بہتر کرے اور ہندوستان بھی اپنے رویوں میں بہتری لائے۔ اگر پاکستان مستحکم ہے تو علاقہ مستحکم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس ذہین لیڈر شپ موجود نہیں ہے جبکہ یہاں ذہین لوگ موجود ہیں مگر ان کو اوپر نہیں آنے دیا جاتا۔کراچی میں نئے گروپس نے جنم لیا اور حکومت سرپرست رہی، پیپلزپارٹی کے دور میں ایک نیا گروپ بنایا گیا، وہاںکے عوام پانچ ، پانچ لوگوں کو بھتہ دینے پر مجبور ہیں، تاجروں نے اس طرف توجہ دلائی، ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی میں غیر جانبدار آپریشن کیا جائے اگر حکمران ایسا نہ کریں اور کراچی کے حالات بہتر نہ کرسکیں تو انہیں حکمرانی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
فادر فرانسس ندیم
پشاور میں چرچ پر ہونے والے حملے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ دہشت گردی کی جو ایک نئی لہر چلی ہے اس میں اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے دہشت گردوں کی طرف سے مدرسوں، مساجد، سکولوں اور پبلک مقامات کو نشانہ بنایا جاتا تھا مگر اب ایک چرچ پر بھی حملہ کردیا گیا جہاں پر لوگ امن کی دعا مانگ رہے تھے، یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں، یہ ایک سازش ہے کہ مسلمانوں اور اقلیتوں کو آپس میں لڑایا جائے۔ یہ بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش ہے جس میں دشمن کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کی اس نئی لہر کے ذریعے مسیح مسلم اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے مگر ہم دشمن کو اس کی سازش میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
ہم انٹر فیتھ ڈائیلاگ کے ذریعے مسیحیوں اور مسلمانوں میں پل کا کام کر رہے ہیں تاکہ اس طرح کے مسائل کو مل کر حل کیا جائے اور مفاہمت کا پیغام دیا جائے۔ جو کوئی بھی یہ سازش کر رہا ہے میں اس کی پرزور مذمت کرتا ہوں اور پاکستانی قوم جس نے ہمارے ساتھ افسوس کا اظہار کیا اور اس مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑی رہی اس پر شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ اس مشکل وقت میں پوری قوم ہمارے ساتھ کھڑی رہی اور پوری قوم نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا اور ہمارے دکھ درد میں شریک ہوئی۔ اس وقت پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی ترقی کررہی ہے اور تمام مذاہب کے درمیان روا داری پائی جاتی ہے جو کہ دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھاتی مگر دشمن کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ میں ان سے بھی تعزیت کرتا ہوں جو اس دہشت گردی کا شکار ہوئے اور اس حادثے میں زخمی بچوں اور عورتوں کی صحت یابی کیلئے دعا گو ہوں۔
اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں کے لئے دعا گو ہوں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں صبر دے اور پرامید ہوں کہ آئندہ وہ پاکستان میں امن کی زندگی گزاریں گے۔ ایک دن ضرور آئے گا جب پورے پاکستان میں امن ہوگا اور ہر پاکستانی امن کی زندگی گزارے گا۔ جن لوگوں نے پشاور دھماکے کے بعد ہمارا ساتھ دیا ان لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ مساجد اور گرجا گھروں میں اپنے اپنے طور پر امن کی اپیل کرتے رہیں اور امن کیلئے دعا بھی کریں۔ میں حکومت پاکستان سے بھی اپیل کروں گا کہ جس طرح مسجد میں جمعہ کی نماز کے وقت سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے اسی طرح چرچ کیلئے سیکیورٹی کا انتظام کیا جائے۔ میں انتہائی افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ جس وقت پشاور چرچ کا سانحہ پیش آیا تو اس وقت وہاں سکیورٹی کا معقول انتظام نہیں تھا، میں مطالبہ کرتا ہوں آئندہ چرچوں کو معقول سکیورٹی دی جائے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
دیوان غلام محی الدین
دہشت گردی پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ ہماری غفلت، سیاست دانوں اور فوجی جرنیلوں کی مہربانیوں سے پاکستان آج اس بھیانک جگہ پہنچا ہے۔ سابق آمر جنرل پرویزمشرف نے نائن الیون کے بعد جس طرح امریکہ کو کارروائیاں کرنے کی کھلی اجازت دیدی اس طرح کوئی جمہوری حکومت نہ دیتی۔ پتہ نہیں کونسی شرائط ہیں جو انہوں نے مانی ہیں۔ ڈرون حملے، اسلحہ کنٹینروں کی آمد اور یہ ساری بیماریاں باہرکے نہیں ہمارے اپنوں کی وجہ سے ہیں۔آج ہم سزائے موت کا قانون ختم کرنے جا رہے ہیں لیکن بھارت میں ایک خاتون کی عصمت دری پر چار آدمیوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ اگر پاکستان میں سزائے موت کا قانون بے رحمانہ ہے تو کیا بھارت میں یہ قانون بے رحمانہ نہیں۔ سزائے موت کا قانون ختم نہیں ہونا چاہیے، اب تو صدر زرداری نہیں ہیں اب حکومت کو مجرموں کو سزائے موت دینی چاہیے۔ موجودہ حکمران بتائیں کیا انہوں نے بھی ساری امریکی شرائط مانی ہیں اورکس وجہ سے مانی ہیں۔آج ہماری معیشت کا بیڑا غرق ہے ، تیس ہزار فوجی جوان شہید ہوچکے ہیں۔ طالبان کا کام دہشت گردی نہیں اور نہ ہی یہ کام کوئی مسلمان کرسکتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور دین کے اندر رہتے ہوئے اﷲ کے نبی کے دین کو ماننے والے ہیں۔
اگر قرآن کے مطابق عدل کو ہم نافذ کردیں تو اقلتیں بھی خوش ہوں گی۔دہشت گردی جتنی بھی ہو رہی ہے یہ بات پکی ہے کہ طالبان نہیں بلکہ غیر ملکی ایجنٹ کر رہے ہیں جو ہمارے اندر سے ہی ہیں۔ پورے پنجاب کی وزارتوں کو آج صرف ایک وزیراعلیٰ چلا رہا ہے اگر سارا کام اسی نے کرنا ہے تو باقی اداروں کا کام کون کرے گا۔اب آل پارٹیز کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ طالبان سے بات چیت کی جائے تو ثابت ہوگیا کہ باہر سے ہی پلان بنائے جاتے ہیں قتل وغارت کے کیونکہ کوئی مسلمان قتل وغارت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ حالیہ الیکشنوں پر بھی ہمیں شبہات ہیں یہ کہ فراڈ ہوئے ہیں۔ ڈالر دیکھ لیں آج کہاں پہنچ گیا۔ صبح وشام چھائے ڈاکووں اور سزائے موت کے منتظر مجرموں کو سزا دیں ۔ میں کہتا ہوں طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئیں اور سی آئی اے ، کے جی بی اور موساد جیسی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف طالبان کو ساتھ ملانا چاہیے۔ طالبان پر جتنے بھی الزامات لگ رہے ہیں ان میں سے ایک بھی اب تک نہیں پکڑا گیا کیونکہ یہ کام بھارت کا کیا دھرا ہے۔ سب سے پہلے بھارت کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ بھارت کوئی موقع پاکستانی کی رسوائی اور تباہی کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
بارشیں ہوئیں تو اس نے دریاوں میں پانی چھوڑ دیا ۔ ہمارا ایٹم بم کس لئے ہے وہ ہمارے تحفظ کیلئے بنایا گیا ہے یا ہم اس کا تحفظ کرتے رہیں۔ معذرت خواہانہ رویے کی بجائے کوریا کی طرح فوج کو ایٹم بم دے دینا چاہیے تاکہ یہ کسی کام تو آسکے۔ عوام کو صرف تین ماہ میں یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پیپلزپارٹی کا دور کیسا تھا اور آج کا دور کیسا ہے۔ تاجروں سمیت ہر بندہ آج پریشان ہے۔ کسی کو نہ کاروبار کرنے دیا جا رہا ہے اور نہ ہی فیکٹری چلانے دی جا رہی ہے۔ ایکسپورٹ تباہ ہوچکی ہے جبکہ یہاں ٹاسک فورس پر ٹاسک فورسیں بنائی جارہی ہیں۔ پنجاب حکومت روزانہ کے چھاپوں کا تدارک کرے ، گزشتہ روز میرا گیس کا میٹر بھی اتار کر اس لئے لے گئے کہ آپ نے اس پر جنریٹر چلایا ہوا ہے۔ طالبان کا نام بدنام کیا جا رہا ہے۔ عدلیہ ، قانون نافذکرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دیاجائے ۔دہشت گردی کی وارداتوں کی روک تھام اور امن کے قیام کیلیے ہر فرد کو اپنا کردارا دا کرنا ہوگا۔
ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے ہمارا ایک روپیہ اور اس کے 20 تومان ہیں لیکن وہ ڈٹا ہوا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر کسی کو مجرم بنادینے والا کام ختم ہونا چاہیے۔ نالیاں ٹھیک کرنا وزیراعلیٰ کا کام نہیں ہے بلکہ متعلقہ ادارے جو سوئے ہوئے ہیں انہیں جگا کر ٹھیک کروانے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے ہاں کوئی کام وزیراعلیٰ کے حکم کے بغیر نہیں ہوتا اور ادارے سوئے ہوئے ہیں جو کسی شہری یا افسر کی بات تک نہیں سنتے ۔ عدلیہ بھی صحیح فیصلے کرے گی تو مسائل کا تدارک ہوسکے گا ورنہ ہمارا حشر بھی بڑا برا ہوگا۔ پشاور چرچ والا واقعہ شائد وزیراعظم نوازشریف کے دورہء امریکہ کو سبوتاژ کرنے کیلئے کروایاگیا ہے۔ وزیراعظم کے فیصلے کی ہم مکمل سپورٹ کرتے ہیں ، اس وطن کے سارے دشمن اکٹھے ہیں اس لئے تمام سیاسی ، مذہبی جماعتوں کو بھی اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کیا جاسکے جو صرف حکومت سمیت کوئی ایک نہیں کرسکتا۔
شہزاد منشی
پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کی صفوں میں اتحاد ہے ۔دہشت گردی ایک معمہ بنی ہوئی ہے اس کے لیے ہم سب کو مل بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ مذاکرات ہونے چاہئیں ۔ لیکن بدقسمتی سے جب بھی کبھی کوئی بہتر کام ہونے لگتا ہے ملک دشمن عناصر کی طرف سے اس قسم کے واقعات وقوع پذیر ہوناشروع ہو جاتے ہیں ۔کبھی فوج کے افسران کو نشانہ بنایاجاتا ہے ، کبھی پولیس نشانے پر آجاتی ہے ۔ پشاور کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ ہمارا دین تشدد اور دہشت گردی کو روکنا سکھاتا ہے جو ایسا کرتا ہے اس کے لیے بھی ہدایت کی دعا کرنے کا حکم ہے ۔ وہ لوگ جو صراطِ مستقیم سے بھٹک چکے ہیں ان کے لیے بھی دعا کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہر انسان کو خدا نے ایک جیسا بنایا ہے اور ایک جیسا درجہ دیا ہے۔ دہشت گردوں کے مطالبات پورے نہیں ہوسکتے یا اگر حالات بگڑتے ہیں تو ان کو اچھی جانب لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ وہ طاقتیں جو پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے خلاف ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا۔ پشاور کا واقعہ ایسے وقت میں ہوا جب وزیر اعظم نوازشریف اقوام متحدہ جانے والے تھے۔ پاکستان کی سلامتی کو برباد کرنے والے عناصر جن کے دماغوں میں یہی بسا ہوا ہے کہ ہم انسانوں کومار کر اعلیٰ مقام اور درجہ حاصل کریں گے ،ان کی سوچیں اور ارادے انتہائی غلط ہیں ۔ یادرہے کہ محبت، بھائی چارہ اور رواداری سے ہی ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے خدا نے انسان کو محبت کے لیے پیدا کیا ہے۔
بلال ایوب گورایہ
پشاور میں ہونے والا واقعہ صرف مسیحی برادری کانقصان نہیں یہ پورے پاکستان اور ریاست کا نقصان ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے مفاہمت کی پالیسی چلائی جا رہی ہے اور یہ واقعہ مفاہمت کی اس پالیسی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔ سانحہء پشاور صرف مسیحی برادری پر ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے خلاف سازش ہے۔ گزشتہ بارہ پندرہ سال سے جس قسم کی دہشت گردی سے ہم گزر رہے ہیں اسی کا یہ ایک حصہ ہے جو مسلمانوں کے درباروں اور مساجد پر ہوتی آرہی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس حکومت کی اچھی کاوش ہے اس کے ذریعے مفاہمت کی پالیسی چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسی مفاہمت میں رکاوٹ پیدا کرنے کیلئے یہ سب کچھ کروایا جارہا ہے۔ ہم ایسے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کے جن بڑے مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ان میں دہشت گردی کا مسئلہ سر فہرست ہے ۔ چنانچہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم میاں نوازشریف نے دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں ایک متفقہ حکمت عملی وضع کرنے اور تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی غرض سے کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا ڈول ڈالا۔ اس کانفرنس میں ملک کی معروف سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ ان جماعتوں نے اتفاق رائے سے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے باہمی غور و خوض کے بعد مذاکرات کا آپشن آزمانے کا فیصلہ کیا اور ان مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں آپریشن کا آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن اے پی سی کے فیصلوں کی ابھی سیاہی بھی پوری طرح خشک نہیں ہو پائی تھی کہ ملک میں پے در پے دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جس نے پوری قوم کوپریشان کرکے رکھ دیا۔ دہشت گردوں کا نشانہ اس مرتبہ اقلیتوں کے عبادت خانوں کو بنایاگیا یعنی اب تک مساجد، امام بارگاہیں اور پبلک مقامات شدت پسندوں کا ہدف بنتے رہے تھے لیکن خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور میں انہوں نے چرچ کو نشانہ بنایا اور وہاں عبادت کے لیے آئے مسیحی خواتین اورمردوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی موت سے ہمکنار کردیے گئے۔ اس وحشیانہ اور بہیمانہ اقدام نے ملک کے ہر صاحب دل کو دکھی کردیا اور وہ لوگ جو مذاکرات پر زور دے رہے تھے انہوں نے اس دھماکے کو مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی سازش کا نام دیا ۔
روزنامہ ''ایکسپریس '' نے اس تمام صورت حال کا تجزیہ کرنے اور اس پر خوروخوض کرنے کی غرض سے فورم کا اہتمام کیا ۔ جس میں ملک کے مقتدر علماء، سیاسی وسماجی شخصیات اور مسیحی برادری کی نمائندہ شخصیات کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ شرکاء میں بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد ، بلوچ رہنما اورجمہوری وطن پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل عبدالروف خان ساسولی، پیپلزپارٹی پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل دیوان غلام محی الدین، کونسل فار انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے کوآرڈی نیٹر فادر فرانسس ندیم ، مسلم لیگ ن کے اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی شہزاد منشی اور فنکشنل لیگ پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات بلا ل ایوب گورایہ شامل تھے۔ مذکورہ ماہرین نے ''مذاکرات اور دہشت گردی کی نئی لہر'' کے موضوع پر کھل کر اظہارخیال کیا۔ جس کی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔
عبدالخبیر آزاد
سانحہ پشاور یقینا پاکستان کے امن کو خراب کرنے کی سازش ہے۔ ایسے وقت میں یہ واقعہ پیش آیا جب پاکستان کی قیادت ، وزیراعظم اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ملک کی نمائندگی کرنے کیلئے جا رہے تھے۔ اسلام امن پسند دین ہے اور دہشت گردی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا ۔ اسلام اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے اور اسے یقینی بناتا ہے۔ دہشت گرد نہ تو مساجد کو چھوڑتے ہیں نہ بازاروں کو ، نہ بوڑھوں کو نہ بچوں اور عورتوں کو چھوڑتے ہیں جبکہ اسلام تو ہمیں احترام آدمیت کا درس دیتا ہے۔ پیغمبر دوعالم ؐ نے تو مسجد نبوی کے دروازوں کو مسیحیوں کی عبادت کیلئے کھول دیا تھا اور وہاں آنے والوں کو خوش آمدید کہا تھا۔ میثاق مدینہ کو دیکھیں تو یہ ایک اہم معاہدہ تھا جس میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا۔ میثاق مدینہ کو سامنے رکھیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے برابر ہے۔ فرمان رسول ؐ ہے کہ بہترین مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے دوسرا مسلمان یا دوسرا انسان محفوظ رہے۔
ہم نے ہر پلیٹ فارم پر انٹر فیتھ پر کام کیا ہے میرے والد مولانا عبدالقادرآزاد نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ شانتی نگر کا واقعہ ہو یا بہاولپور، خانیوال، گوجرہ، سانگہ ہل یا جوزف کالونی جیسے واقعات ، ہم نے ہر جگہ ان کی مذمت کی اور کھل کر اظہار کیا کہ اس طرح کے واقعات نہیںہونے چاہئیں۔ جب بھی ایسے سانحات رونما ہوئے تو پوری قوم متحد نظر آئی ۔آپ نے دیکھا کہ سانحہ پشاور کے بعد بھی پوری قوم نے مسیحی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ساتھ دیا اور باورکرایا کہ ملک بنانے کیلئے ہمارے بزرگوں نے جو کردار ادا کیا تھا۔ آج اس ملک کو بچانے کیلئے ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ امن کو برباد کرنے والی تمام طاقتوں کو بتادینا چاہیے کہ ہم ان کی سازشیں کامیاب نہیںہونے دیں گے۔ ہم نے پوری دنیا کو یہ پیغام دینے کیلئے کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ ہیں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں مسیحیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ اس حوالے سے میڈیا نے اہم کردار ادا کیا اور گھر گھر تک یہ آواز پہنچائی۔
من حیث القوم ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ دوری کی بجائے قربت کا پیغام عام کریں، پوری دنیا قربت میں آگئی ہے تو ہمیں بھی قربت میں آناہوگا۔ اب نفرتیں نہیں ڈالی جاسکتیں اور دشمن نفرتیں ڈالنے میں کامیاب نہیںہوں گے۔ ہم دنیا میں کہیں بھی جائیں تو ہماری شناخت پاکستانی کے طور پر ہوتی ہے۔ پاکستان کو اتنا بدنام کر دیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ایئر پورٹس پر ہمیں روکا جاتا ہے اور توہین آمیز رویہ اپنا کر بلا وجہ تنگ کیاجاتا ہے۔ ہمیں اپنا وقار بلند کرنا ہوگا۔ طالبان نے بیان دیا ہے کہ سانحہ پشاور انہوں نے نہیں کیا تو پھر دیکھیں کہ یہ کن لوگوں نے کیا ہے؟ تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل ہوتے ہیں اس لئے مذاکرات کو نہ چھوڑا جائے،ا گر مذاکرات کامیاب ہوگئے تو تمام لوگ سامنے آجائیں اور دہشت گردوں کے چہرے بھی عیاں ہوجائیں گے۔ دہشت گردی کے ذمہ دار لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جو لوگ دہشت گردی میں پکڑے گئے اگرانہیں کیفر کردار تک پہنچادیا جائے اور قاضی عدالتیں لگا کر انہیں چوراہوں پر لٹکا یا جائے تو اس طرح کے واقعات رک جائیں گے۔
عبدالرؤف خان ساسولی
دہشت گردی کا موضوع بہت وسیع ہے اس پر کھل کر بات ہونی چاہیے، اس میں انسانی جنون کی کئی داستانیں ہیں۔ مذاکرات ہونے چاہیئں یا نہیں ہونے چاہیئں ، اس پر بات کریں تو ہم مذاکرات کے حق میں ہیں، مذاکرات اچھی بات ہے کیونکہ مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکلتا ہے۔ مگر مذاکرات کرنے سے پہلے یہ طے کرلینا چاہیے کہ جن سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں اس میں ریاست اپنی آئیڈیالوجی تبدیل کرے گی یا جن سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں وہ اپنی آئیڈیالوجی بدلیں گے۔ جن سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔ صرف اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کرتے تو اچھا ہے۔ اس وقت بہت سے گروپ ہیں جو کہ تمام کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ بات چیت کھلی ہونی چاہیے اور تمام گروپوں سے ہونی چاہیے، بات چیت صرف یہیں تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ قندھار اور کابل سے لے کر یہاں تک ہونی چاہیے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی مسائل کے پائیدار حل کیلئے کوشش نہیں کی بلکہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے کام لیا مگر آج کے حکمران اگر اپنی مدت اچھے طریقے سے گزاریں اور چیزوں کا مستقل حل تلاش کریں تو بہتر ہوگا۔
اگر تھوڑا سا ماضی میں جائیں تو روس کے ساتھ سرد جنگ میں امریکہ اورمغربی ممالک نے دنیا بھر سے لڑنے کیلئے لوگ اکٹھے کئے مگر جنگ ختم ہونے کے بعد ان کی واپسی کا انتظام نہیں کیا۔ اب انہیں اپنے ملک بھی قبول نہیں کر رہے ہیں اور وہ یہاں رہنے کیلئے جنگ کررہے ہیں۔ افغان جہاد کے وقت ہر ملک اپنے لوگوں کو جہاد کیلئے افغانستان بھیجتا رہا اور کسی ملک نے ان پر پابندی نہیں لگائی اور اب کوئی انہیں واپس لینے کو تیار نہیں ہے۔ اسلام سمیت کوئی بھی مذہت خود کشی کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی پرامن اقلیت پر حملے کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام تو وہ مذہب ہے جس میں پیغمبر ؐ نے غیرمسلموں کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی تھی۔ ہمارے ملک میں یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ انصاف کا دوہرا معیار انسان کو اس طرح کے کاموں میں دھکیلتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر انسان کیلئے انصاف کا یکساں معیارہونا چاہیے، کسی کو دوسرے پر برتری نہیں ہونی چاہیے ، تمام براعظموں اور ملکوںکو آپس میں برابری رکھنی چاہیئے اور مذہبی رویہ بھی ایک جیسا ہونا چاہیے۔ بدھ جن کا عقیدہ یہ ہے کہ کسی جاندار کا گوشت کھانا بھی جائز نہیں وہ بھی برما میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں یہ ظلم بھی نہیں ہونا چاہیے۔
چند روز پہلے فوج کا ایک میجر جنرل شہید کیا گیا ، جب ہمارے ملک کا وفد چین گیا تو اس کے انجینئر قتل کردیئے گئے، جب ترکی گیا تو میجر جنرل کو شہید کردیا گیا اور وزیراعظم اقوام متحدہ گئے تو مسیحیوں پر حملہ ہوگیا ۔ اس وقت ہمارا خطہ پوری دنیا کی نظروں کا مرکز ہے اس میں پاکستان سب سے اہم ہے کیونکہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے۔ تمام لوگوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں اور حق تلفیاں اپنی جگہ مگر کسی مزدور کو بس سے نکال کر ماردیا جائے یہ روایت بھی ناجائز ہے۔ قتل چاہے بلوچ کا ہو، پختون کا ہو، پنجابی، سندھی یا مہاجر کا ہو سب کا قتل برابر ہے۔ بلوچستان میں ہمیشہ میں نے یہی کہا ہے کہ گفت و شنید ہو۔ اختر مینگل جب وطن واپس آئے تو ان سے بات چیت کی گئی جو کہ اچھی بات ہے ۔اسی طرح یہ بات چیت جاری رہنی چاہیے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے حکمران جو باتیں کرتے ہیں اقتدار میں آنے کے بعد انہیں بھول جاتے ہیں۔ میاں صاحب کے دل میں اقتدار سے پہلے بلوچوں کا بڑا درد تھا مگر اقتدار میں آنے کے بعد بلوچستان میں صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے انہوں نے ابھی تک کوئی کام نہیں کیا۔ بلوچستان کے لوگوں کو ملازمتوں میں کوٹے کی بات تو کی جاتی ہے مگر فوجی اداروں کے علاوہ دیگر اداروں پی آئی اے، واپڈا، پی ایس اوسمیت دیگر قومی اداروں میں ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
پچھلے دورمیں زرداری صاحب کہتے تھے کہ بلوچستان کے ہر ایم پی اے کو 3ارب روپے دیئے گئے مگر وہ کہیں خرچ کئے ہوئے نظر نہیں آتے۔ اگر اس میں ایک ایک ارب بھی خرچ ہوا ہوتا تو بلوچستان کا نقشہ ہی مختلف ہوتا۔ حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ جو پیسے وہ عوامی نمائندوں کو دیں اس کا حساب بھی رکھیں مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ بلوچستان اس وقت عالمی سازش کا مرکز ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ وہاں بیرونی ہاتھ ملوث نہیں وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ہم نے اپنے گھر کو بہتر کرنا ہے اس وقت ملک مشکل صورتحال میں ہے ، ضروری ہے کہ ہر بارڈر پر نظر رکھی جائے اور تمام غیر ملکیوں کی رجسٹریشن ہواور تمام کو ورک پرمٹ دیا جائے۔
افغانستان کی لمبی چوڑی سرحد کے ساتھ بھارت نے بہت سے قونصل خانے بنارکھے ہیں ان سے پاکستان میں حالات خراب کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ اپنے ہمسائیوں سے تعلقات بہتر کرے اور ہندوستان بھی اپنے رویوں میں بہتری لائے۔ اگر پاکستان مستحکم ہے تو علاقہ مستحکم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس ذہین لیڈر شپ موجود نہیں ہے جبکہ یہاں ذہین لوگ موجود ہیں مگر ان کو اوپر نہیں آنے دیا جاتا۔کراچی میں نئے گروپس نے جنم لیا اور حکومت سرپرست رہی، پیپلزپارٹی کے دور میں ایک نیا گروپ بنایا گیا، وہاںکے عوام پانچ ، پانچ لوگوں کو بھتہ دینے پر مجبور ہیں، تاجروں نے اس طرف توجہ دلائی، ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی میں غیر جانبدار آپریشن کیا جائے اگر حکمران ایسا نہ کریں اور کراچی کے حالات بہتر نہ کرسکیں تو انہیں حکمرانی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
فادر فرانسس ندیم
پشاور میں چرچ پر ہونے والے حملے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ دہشت گردی کی جو ایک نئی لہر چلی ہے اس میں اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے دہشت گردوں کی طرف سے مدرسوں، مساجد، سکولوں اور پبلک مقامات کو نشانہ بنایا جاتا تھا مگر اب ایک چرچ پر بھی حملہ کردیا گیا جہاں پر لوگ امن کی دعا مانگ رہے تھے، یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں، یہ ایک سازش ہے کہ مسلمانوں اور اقلیتوں کو آپس میں لڑایا جائے۔ یہ بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش ہے جس میں دشمن کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کی اس نئی لہر کے ذریعے مسیح مسلم اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے مگر ہم دشمن کو اس کی سازش میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
ہم انٹر فیتھ ڈائیلاگ کے ذریعے مسیحیوں اور مسلمانوں میں پل کا کام کر رہے ہیں تاکہ اس طرح کے مسائل کو مل کر حل کیا جائے اور مفاہمت کا پیغام دیا جائے۔ جو کوئی بھی یہ سازش کر رہا ہے میں اس کی پرزور مذمت کرتا ہوں اور پاکستانی قوم جس نے ہمارے ساتھ افسوس کا اظہار کیا اور اس مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑی رہی اس پر شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ اس مشکل وقت میں پوری قوم ہمارے ساتھ کھڑی رہی اور پوری قوم نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا اور ہمارے دکھ درد میں شریک ہوئی۔ اس وقت پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی ترقی کررہی ہے اور تمام مذاہب کے درمیان روا داری پائی جاتی ہے جو کہ دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھاتی مگر دشمن کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ میں ان سے بھی تعزیت کرتا ہوں جو اس دہشت گردی کا شکار ہوئے اور اس حادثے میں زخمی بچوں اور عورتوں کی صحت یابی کیلئے دعا گو ہوں۔
اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں کے لئے دعا گو ہوں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں صبر دے اور پرامید ہوں کہ آئندہ وہ پاکستان میں امن کی زندگی گزاریں گے۔ ایک دن ضرور آئے گا جب پورے پاکستان میں امن ہوگا اور ہر پاکستانی امن کی زندگی گزارے گا۔ جن لوگوں نے پشاور دھماکے کے بعد ہمارا ساتھ دیا ان لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ مساجد اور گرجا گھروں میں اپنے اپنے طور پر امن کی اپیل کرتے رہیں اور امن کیلئے دعا بھی کریں۔ میں حکومت پاکستان سے بھی اپیل کروں گا کہ جس طرح مسجد میں جمعہ کی نماز کے وقت سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے اسی طرح چرچ کیلئے سیکیورٹی کا انتظام کیا جائے۔ میں انتہائی افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ جس وقت پشاور چرچ کا سانحہ پیش آیا تو اس وقت وہاں سکیورٹی کا معقول انتظام نہیں تھا، میں مطالبہ کرتا ہوں آئندہ چرچوں کو معقول سکیورٹی دی جائے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
دیوان غلام محی الدین
دہشت گردی پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ ہماری غفلت، سیاست دانوں اور فوجی جرنیلوں کی مہربانیوں سے پاکستان آج اس بھیانک جگہ پہنچا ہے۔ سابق آمر جنرل پرویزمشرف نے نائن الیون کے بعد جس طرح امریکہ کو کارروائیاں کرنے کی کھلی اجازت دیدی اس طرح کوئی جمہوری حکومت نہ دیتی۔ پتہ نہیں کونسی شرائط ہیں جو انہوں نے مانی ہیں۔ ڈرون حملے، اسلحہ کنٹینروں کی آمد اور یہ ساری بیماریاں باہرکے نہیں ہمارے اپنوں کی وجہ سے ہیں۔آج ہم سزائے موت کا قانون ختم کرنے جا رہے ہیں لیکن بھارت میں ایک خاتون کی عصمت دری پر چار آدمیوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ اگر پاکستان میں سزائے موت کا قانون بے رحمانہ ہے تو کیا بھارت میں یہ قانون بے رحمانہ نہیں۔ سزائے موت کا قانون ختم نہیں ہونا چاہیے، اب تو صدر زرداری نہیں ہیں اب حکومت کو مجرموں کو سزائے موت دینی چاہیے۔ موجودہ حکمران بتائیں کیا انہوں نے بھی ساری امریکی شرائط مانی ہیں اورکس وجہ سے مانی ہیں۔آج ہماری معیشت کا بیڑا غرق ہے ، تیس ہزار فوجی جوان شہید ہوچکے ہیں۔ طالبان کا کام دہشت گردی نہیں اور نہ ہی یہ کام کوئی مسلمان کرسکتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور دین کے اندر رہتے ہوئے اﷲ کے نبی کے دین کو ماننے والے ہیں۔
اگر قرآن کے مطابق عدل کو ہم نافذ کردیں تو اقلتیں بھی خوش ہوں گی۔دہشت گردی جتنی بھی ہو رہی ہے یہ بات پکی ہے کہ طالبان نہیں بلکہ غیر ملکی ایجنٹ کر رہے ہیں جو ہمارے اندر سے ہی ہیں۔ پورے پنجاب کی وزارتوں کو آج صرف ایک وزیراعلیٰ چلا رہا ہے اگر سارا کام اسی نے کرنا ہے تو باقی اداروں کا کام کون کرے گا۔اب آل پارٹیز کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ طالبان سے بات چیت کی جائے تو ثابت ہوگیا کہ باہر سے ہی پلان بنائے جاتے ہیں قتل وغارت کے کیونکہ کوئی مسلمان قتل وغارت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ حالیہ الیکشنوں پر بھی ہمیں شبہات ہیں یہ کہ فراڈ ہوئے ہیں۔ ڈالر دیکھ لیں آج کہاں پہنچ گیا۔ صبح وشام چھائے ڈاکووں اور سزائے موت کے منتظر مجرموں کو سزا دیں ۔ میں کہتا ہوں طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئیں اور سی آئی اے ، کے جی بی اور موساد جیسی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف طالبان کو ساتھ ملانا چاہیے۔ طالبان پر جتنے بھی الزامات لگ رہے ہیں ان میں سے ایک بھی اب تک نہیں پکڑا گیا کیونکہ یہ کام بھارت کا کیا دھرا ہے۔ سب سے پہلے بھارت کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ بھارت کوئی موقع پاکستانی کی رسوائی اور تباہی کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
بارشیں ہوئیں تو اس نے دریاوں میں پانی چھوڑ دیا ۔ ہمارا ایٹم بم کس لئے ہے وہ ہمارے تحفظ کیلئے بنایا گیا ہے یا ہم اس کا تحفظ کرتے رہیں۔ معذرت خواہانہ رویے کی بجائے کوریا کی طرح فوج کو ایٹم بم دے دینا چاہیے تاکہ یہ کسی کام تو آسکے۔ عوام کو صرف تین ماہ میں یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پیپلزپارٹی کا دور کیسا تھا اور آج کا دور کیسا ہے۔ تاجروں سمیت ہر بندہ آج پریشان ہے۔ کسی کو نہ کاروبار کرنے دیا جا رہا ہے اور نہ ہی فیکٹری چلانے دی جا رہی ہے۔ ایکسپورٹ تباہ ہوچکی ہے جبکہ یہاں ٹاسک فورس پر ٹاسک فورسیں بنائی جارہی ہیں۔ پنجاب حکومت روزانہ کے چھاپوں کا تدارک کرے ، گزشتہ روز میرا گیس کا میٹر بھی اتار کر اس لئے لے گئے کہ آپ نے اس پر جنریٹر چلایا ہوا ہے۔ طالبان کا نام بدنام کیا جا رہا ہے۔ عدلیہ ، قانون نافذکرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دیاجائے ۔دہشت گردی کی وارداتوں کی روک تھام اور امن کے قیام کیلیے ہر فرد کو اپنا کردارا دا کرنا ہوگا۔
ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے ہمارا ایک روپیہ اور اس کے 20 تومان ہیں لیکن وہ ڈٹا ہوا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر کسی کو مجرم بنادینے والا کام ختم ہونا چاہیے۔ نالیاں ٹھیک کرنا وزیراعلیٰ کا کام نہیں ہے بلکہ متعلقہ ادارے جو سوئے ہوئے ہیں انہیں جگا کر ٹھیک کروانے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے ہاں کوئی کام وزیراعلیٰ کے حکم کے بغیر نہیں ہوتا اور ادارے سوئے ہوئے ہیں جو کسی شہری یا افسر کی بات تک نہیں سنتے ۔ عدلیہ بھی صحیح فیصلے کرے گی تو مسائل کا تدارک ہوسکے گا ورنہ ہمارا حشر بھی بڑا برا ہوگا۔ پشاور چرچ والا واقعہ شائد وزیراعظم نوازشریف کے دورہء امریکہ کو سبوتاژ کرنے کیلئے کروایاگیا ہے۔ وزیراعظم کے فیصلے کی ہم مکمل سپورٹ کرتے ہیں ، اس وطن کے سارے دشمن اکٹھے ہیں اس لئے تمام سیاسی ، مذہبی جماعتوں کو بھی اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کیا جاسکے جو صرف حکومت سمیت کوئی ایک نہیں کرسکتا۔
شہزاد منشی
پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کی صفوں میں اتحاد ہے ۔دہشت گردی ایک معمہ بنی ہوئی ہے اس کے لیے ہم سب کو مل بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ مذاکرات ہونے چاہئیں ۔ لیکن بدقسمتی سے جب بھی کبھی کوئی بہتر کام ہونے لگتا ہے ملک دشمن عناصر کی طرف سے اس قسم کے واقعات وقوع پذیر ہوناشروع ہو جاتے ہیں ۔کبھی فوج کے افسران کو نشانہ بنایاجاتا ہے ، کبھی پولیس نشانے پر آجاتی ہے ۔ پشاور کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ ہمارا دین تشدد اور دہشت گردی کو روکنا سکھاتا ہے جو ایسا کرتا ہے اس کے لیے بھی ہدایت کی دعا کرنے کا حکم ہے ۔ وہ لوگ جو صراطِ مستقیم سے بھٹک چکے ہیں ان کے لیے بھی دعا کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہر انسان کو خدا نے ایک جیسا بنایا ہے اور ایک جیسا درجہ دیا ہے۔ دہشت گردوں کے مطالبات پورے نہیں ہوسکتے یا اگر حالات بگڑتے ہیں تو ان کو اچھی جانب لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ وہ طاقتیں جو پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے خلاف ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا۔ پشاور کا واقعہ ایسے وقت میں ہوا جب وزیر اعظم نوازشریف اقوام متحدہ جانے والے تھے۔ پاکستان کی سلامتی کو برباد کرنے والے عناصر جن کے دماغوں میں یہی بسا ہوا ہے کہ ہم انسانوں کومار کر اعلیٰ مقام اور درجہ حاصل کریں گے ،ان کی سوچیں اور ارادے انتہائی غلط ہیں ۔ یادرہے کہ محبت، بھائی چارہ اور رواداری سے ہی ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے خدا نے انسان کو محبت کے لیے پیدا کیا ہے۔
بلال ایوب گورایہ
پشاور میں ہونے والا واقعہ صرف مسیحی برادری کانقصان نہیں یہ پورے پاکستان اور ریاست کا نقصان ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے مفاہمت کی پالیسی چلائی جا رہی ہے اور یہ واقعہ مفاہمت کی اس پالیسی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔ سانحہء پشاور صرف مسیحی برادری پر ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے خلاف سازش ہے۔ گزشتہ بارہ پندرہ سال سے جس قسم کی دہشت گردی سے ہم گزر رہے ہیں اسی کا یہ ایک حصہ ہے جو مسلمانوں کے درباروں اور مساجد پر ہوتی آرہی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس حکومت کی اچھی کاوش ہے اس کے ذریعے مفاہمت کی پالیسی چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسی مفاہمت میں رکاوٹ پیدا کرنے کیلئے یہ سب کچھ کروایا جارہا ہے۔ ہم ایسے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔