بڑا آرٹسٹ اپنا کام رد کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے

فوٹوگرافی کو آرٹ سمجھتی ہوں، اسٹریٹ فوٹوگرافر معاشرے کا عکاس ہوتا ہے, ربانیہ شرجیل

مختلف ادوارمیں معاشرے کے رجحانات سمجھنے کے لیے تاریخ نویس بھی اسٹریٹ فوٹو گرافروں کے کام سے مدد لے سکتے ہیں، ربانیہ شرجیل۔ فوٹو: فائل

زمانہ کبھی ایک رنگ پر نہیں رہتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ بہت سی چیزیں قصہ پارینہ بن جاتی ہیں لیکن کچھ بہرحال ایسی ہوتی ہیں جن پرزمانے کا گرم سرد اثر انداز نہیں ہوتا اور وہ اپنی رو میں چلتی رہتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں دیواروں پر لکھنے کا عمل بھی کچھ ایسا ہی کام ہے،جس کو دوام حاصل رہا ہے۔اردو کے ممتازافسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے ساٹھ برس قبل اپنے ایک مضمون ''دیواروں پر لکھنا''میں تحریر کیا تھا کہ دیواروں پر لکھنا انسانی فطرت میں شامل ہے۔منٹو نے یہ بھی لکھاکہ شہرلاہور کی شاید ہی کوئی ایسی دیوار ہو، جس پرآپ کو اشتہار لکھا ہوا نظر نہ آئے۔ اس لکھے کو طویل عرصہ گزرنے کے باوجود صورت حال میں کچھ زیادہ نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔یہ تو رہی منٹو صاحب کی دیواروں پراشتہارات کے موضوع پرڈیڑھ بات۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ معروف مزاح نگارپطرس بخاری نے اپنے مشہور مضمون ''لاہور کا جغرافیہ'' میںبھی دیواروں پر لکھنے کے رجحان کے بارے میں ''قابل دیدمقامات''کے عنوان سے نہایت پرلطف ٹکڑا لکھا ہے۔

دیواروں پرمدت مدید سے لکھا بھی جاتا رہا اور اس کو ادیب موضوع بھی بناتے رہے لیکن دیواروں پر لکھے کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی تاریخ ہمارے ہاں زیادہ پرانی نہیں ، لیکن اب مقام شکر ہے کہ لوگ اس طر ف متوجہ ہورہے ہیں، ایسوں میں ایک اہم نام ربانیہ شرجیل کا ہے،جو دیواروں پر لکھے کو ہی محفوظ نہیں کررہیں بلکہ اس سے بڑھ کرہمارے کوچہ وبازار میں روزانہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ بھی ان کے پیش نظر ہے۔ان کے کام کی ابھی شروعات ہیں لیکن انکی اٹھان سے لگتا ہے کہ اگر اسی جذبے سے کام کرتی رہیں تو وہ ایک روز اپنی منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ ان کی تصویروں کے نمونے فوٹوگرافی کی مختلف نمائشوں کا حصہ بن کرداد حاصل کرچکے ہیں۔ ربانیہ شرجیل آرٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران فوٹوگرافی کی طرف راغب ہوئیں اور اب ان کا ارادہ اور عزم یہی ہے کہ اسی میں اپنا نام پیدا کریں۔ فوٹوگرافی کی مختلف اصناف میں سے انھوں نے اپنے لیے اسٹریٹ فوٹوگرافی کو منتخب کیا، جس میں آپ کیمرے کی آنکھ سے معاشرت کے مختلف پہلوئوں کو محفوظ کرسکتے ہیں، اس واسطے اس کام کی دستاویزی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔



ربانیہ شرجیل کے بقول، مختلف ادوارمیں معاشرے کے رجحانات سمجھنے کے لیے تاریخ نویس بھی اسٹریٹ فوٹو گرافروں کے کام سے مدد لے سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں ''یہ فوٹوگرافی اس اعتبار سے بھی تھوڑی مختلف نوعیت کی ہے کہ اس میں آپ اپنی مرضی سے روشنی کا انتظام نہیں کرسکتے،نہ ہی ایسے وقت کا انتظار کرسکتے ہیں، جب روشنی آپ کے کام سے مطابقت اختیار کرلے، دوسرے اس میں آپ لوگوں کو سیٹ نہیں کرسکتے ، یعنی یہ نہیں کہہ سکتے، ذرا تھوڑا سا ادھر ہوجائیں یا ادھر ہوجائیں،ادھر لائٹ ٹھیک نہیں پڑ رہی یا پس منظر ذرا بدل لیں۔آپ کو جیسا ہے اور جہاں ہے کی بنیاد پر تصویر اتارنا ہوتی ہے۔'' اس کام سے وابستہ ایسے ہی چیلنجوں نے مشکل پسند ربانیہ شرجیل کو اسٹریٹ فوٹوگرافر بننے پراکسایا ہے۔فوٹو گرافی میں جس نوع کا وہ کام کررہی ہیں، اس کے لیے وہ اسٹریٹ فوٹو گرافر کے بجائے ڈاکومنٹری فوٹوگرافر کے لفظ کا استعمال زیادہ مناسب خیال کرتی ہیں۔ان کے بقول'' اسٹریٹ فوٹو گرافر نے اس معمولی اور روزمرہ کی چیزکو بامعنی بنانا ہوتا ہے جس کو عام انسانی آنکھ نظرانداز کررہی ہوتی ہے۔''

ربانیہ شرجیل فوٹوگرافی کے کام کو آرٹ قرار دیتی ہیں۔ہم نے ان سے فوٹوگرافی کو آرٹ نہ تسلیم کرنے والے ''منکرین'' کے اعتراضات کا ذکر کیا تو وہ بتانے لگیں ''معترضین کہتے ہیںکہ یہ آرٹ اس لیے نہیں کہ آپ ایک تصویر کی سوکاپیاں بھی نکال سکتے ہیں، دوسرے یہ کہاجاتا ہے کہ فوٹوگرافی کا کام بہت زیادہ ڈیجیٹل ہوگیا ہے، اس لیے وہ آرٹ کا درجہ نہیں پا سکتا۔یہ اعتراضات اپنی جگہ لیکن اعلیٰ درجے کی فوٹو گرافی کے لیے جس قدرتقاضے نبھانے پڑتے ہیں، وہ اس کام کو آرٹ کا درجہ دلانے کے لیے کافی ہیں۔ اس میں بھی آپ کو باقاعدہ تربیت لینا پڑتی ہے۔ آنکھ اور دماغ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔دنیا بھر میں بہت سے ایسے فوٹوگرافرز ہیں، جن کا کام میرے اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ فوٹوگرافی آرٹ ہے۔''




ہم نے ان سے پوچھا ''جدید ٹیکنالوجی کے آنے سے فوٹوگرافی کو جہاں بہت زیادہ فائدے پہنچے ہیں، وہاں یہ نقصان بھی تو ہوا کہ فوٹوگرافرپہلے جب تصویر بناتا تو بڑی جان مارتاتھا لیکن اب وہ اس قدر ذمہ دارنہیں رہا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ پرنٹنگ لیب میں جاکراسے بنا سنوار لے گا۔اس سے بھی تو معیار میں فرق آیا ہوگا؟ان کا جواب تھا: ''تصویرکو بہتر بنانے میں حرج نہیں۔اس میں معمولی تبدیلی کی جا سکتی ہے لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اصل تصویر کے بجائے ایک نئی تصویربن جائے۔پہلے بھی فوٹوگرافرڈارک روم میں بیٹھ کر تصویر پر کام تو کرتے تھے۔'' عام اور بڑے فوٹوگرافروں کے کام میں بنیادی فرق کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا'' عام فوٹوگرافروہ ہوتے ہیں جو فارمولا کام کرتے ہیں، وہ ایک سانچہ بنالیتے ہیں اور پھر لکیرکے فقیر بن جاتے ہیں۔ رسک نہیں لیتے۔اس کے برعکس بڑے فوٹوگرافرز تجربات سے نہیں گھبراتے۔ جدید رجحانات پران کی نظرہوتی ہے، سب سے بڑھ کروہ اپنے کام پرنظرثانی کرتے رہتے ہیں،اور اسے رد کرنے کی جرات بھی رکھتے ہیں۔اس لیے کامیاب فوٹوگرافر بننے کے لیے ایسے ہی لوگوں کی پیروی کرنی چاہیے۔''

فوٹوگرافی میں وہ تجربات کرنے کی پرزور حامی ہیں لیکن ساتھ میں اس کام سے وابستہ جو مبادیات ہیں، ان میں مہارت کو وہ لازمی خیال کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ اگر انھیں نظرانداز کرنے سے کام کے بہتر نتائج سامنے نہیں آتے۔ان مبادیات کے بارے میں جاننا چاہا تو بتایا ''مثلاًفوٹوگرافرزڈرائنگ سیکھنے پر دھیان نہیں دیتے، جبکہ یہ فوٹوگرافی کے سلسلے میں بہت ضروری ہے۔ڈرائینگ ہی آپ کو تصویر دیکھنے کی تربیت دیتی ہے۔اسی سے پتا چلتا ہے تصویرکو کس انداز میں دیکھنا ہے۔فوٹوگرافی کی جواناٹومی ہے، اس کی خبرہونی چاہیے۔تصویرکے Visual Impact کااندازہ ہونا چاہیے۔تصویرکو اوپرنیچے، دائیں بائیں کرنے سے تو Impactبہتر نہیں ہوتا۔'' ربانیہ شرجیل فوٹوگرافی کے ضمن میں تھیوری کی اہمیت کو مانتی ہیں۔ آرٹ کی تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری خیال کرتی ہیں لیکن ان باتوں سے بڑھ کروہ اس فن کے لیے وہ جن باتوں کو زیادہ ضروری خیال کرتی ہیں، ان کا مختصراً ذکر وہ یوں کرتی ہیں ''فوٹوگرافر کاذہنی افق وسیع ہونا چاہیے۔اس کو خبرہوکہ دنیا میں اس وقت کون سے نئے رجحانات چل رہے ہیں۔ تخلیق کاروں سے مکالمہ ہوناچاہیے۔ جس معاشرے میں اسے کام کرنا ہے، اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی جستجو اور کھوج ہونی چاہیے۔''



پاکستان میں عارف علی کو وہ اپنا پسندیدہ فوٹوگرافر قرار دیتی ہیں،جنھوں نے اسٹریٹ فوٹوگرافی میں بہت زبردست کام کیا۔ عالمی سطح کے جس فوٹوگرافر کو وہ اپنا آئیڈیل قرار دیتی ہیں وہ ہنری کارٹیر ہیں، جن کی فوٹو گرافی میں ''فیصلہ کن لمحہ'' (Decisive Moment)کے نظریے سے خود کو متفق پاتی ہیں۔اس تصور کی وضاحت پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ فیصلہ کن لمحے سے مراد ہے کہ تصویربناتے وقت بڑے فوٹوگرافر کو اندر سے آوازآتی ہے کہ کون سا لمحہ کلک کرنے کے لیے سب سے موزوںہے۔جیسے بعض اوقات تصویر دیکھ کر کہا جاتا ہے کہ اگر تصویر اتارنے میں چند سیکنڈ کا انتظار کرلیا جاتاتوتصویر اور بھی زیادہ بامعنی ہو جاتی۔ ٹائمنگ ان کے خیال میں فوٹوگرافی میں بڑی بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

اسٹریٹ فوٹوگرافی میں بہت سی نزاکتیں ہیں، جن کا قدم قدم پر خیال رکھنا پڑتا ہے،خاص طور سے ہماری جیسی عدم برداشت کی حامل سوسائٹی میں اور اگر یہ کام کوئی خاتون انجام دے رہی ہو تو مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں، اس لیے یہ کام مہارت کے ساتھ جرات کا بھی متقاضی ہے۔ ربانیہ شرجیل بتاتی ہیں کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات آپ کسی شخص کی تصویربنانا چاہیں تو وہ راضی نہ ہو یا ناگواری ظاہر کرے تو وہ تصویر اتارنے کے ارادے سے باز آ جاتی ہیں، کیوں کہ ان کے نزدیک صرف تصویربنانا کام نہیں ہوتا، بلکہ اس شخص کے چہرے کے تاثرات اور اس کے جذبات بھی اہم ہوتے ہیں۔وہ اپنے کام کے سلسلے میں ہڑپہ، ٹیکسلا، قلعہ روہتاس، جہلم، چولستان اور قلعہ دراوڑ کا دورہ کر چکی ہیں۔ راولپنڈی میں انھوں نے نوٹ کیا کہ دیواروں پر سیاستدانوں کے بارے میں نازیبا کلمات لکھنے کا رجحان زیادہ ہے۔ ان کے خیال میں فوٹو گرافرز تو معاشرے کے ہمددر ہوتے ہیں، اور معاشرے سے اوجھل پہلوئوں کو سامنے لاتے ہیں، اس لیے وہ ان پر خود غرضی کے الزام کو مسترد کرتی ہیں، اور کہتی ہیں کہ خود غرض آدمی تو ہر پیشے میں ہوسکتے ہیں، اس لیے یہاں بھی ہوں گے لیکن اصل میں تو فوٹوگرافر معاشرے کی بھلائی اور بہتری کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔



وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جہاں پرفنون لطیفہ سے متعلق سرگرمیوں کا خوب چرچا رہتا ہے۔ ان کی والدہ رخشندہ اطوارخود بھی آرٹسٹ ہیں۔انگریزی کے معروف پاکستانی شاعرتوفیق رفعت بھی ان کے رشتے دار تھے۔ ممتاز شاعرسرمد صہبائی اورمعروف اداکارہ شہنازشیخ سے بھی عزیزداری ہے، آرٹ کے حوالے سے اس سازگار ماحول کے زیراثر انھوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ آرٹ کے شعبے میں جانا ہے، اس لیے اسی سے متعلق تعلیم انھوں نے حاصل کی،کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں آرٹ کی تعلیم کے دوران وہ فوٹوگرافی کی طرف متوجہ ہوئیں۔ فوٹو گرافی کی مختلف اصناف ہیں، ان میں سے انھوں نے اپنے لیے ڈاکومنٹری فوٹوگرافی کی صنف کو چنا ہے،جو اپنے طور پر منفرد بھی ہے اور چیلنجنگ بھی۔ بڑا آرٹسٹ ان کے نزدیک وہ ہوتا ہے جو اپنے کام کو رد کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ ان کے خیال میں اپنے کام میں نام بنانے کے لیے بہت زیادہ ریاضت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور سچا آرٹسٹ وہی ہے جس کے لیے وہ کام جس سے وہ منسلک ہو طرز زندگی کا درجہ اختیار کر لے۔ وہ ان دنوں ''دیوار کہانی'' کے عنوان سے مقالے پر کام کر رہی ہیں۔
Load Next Story