اچھے لوگوں کی وجہ سے اب تک پاکستان میں ہوں

مسلمانوں کی منفی شبیہہ گمبھیر مسئلہ ہے، ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیمات پیش کرنی ہوں گی، محمد عظمت اتاکا


Iqbal Khursheed October 09, 2013
پوری دنیا میں اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگ ہوتے ہیں مگر پاکستان کے اچھے لوگ بہت اچھے ہیں، محمدعظمت اتاکا۔ فوٹو: فائل

1945 تباہ کاریوں کا سال تھا۔ ہیبت کے آسیب نے آسمان ڈھانپ لیا۔ محیر العقول واقعات کا تانتا بندھ گیا۔

غیریقینی غالب آگئی۔ مسولینی کی پھانسی کے 2 روز بعد ہٹلر نے خودکشی کر لی، 7 مئی کو جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے، اگست کے پہلے عشرے میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر قہر کا حملہ ہوا۔ دجالی بادل چھا گیا۔ 15 اگست کو جاپان نے ہتھیار ڈال دیے۔ اور اِس واقعے کے ٹھیک 3 روز بعد، وحشت میں گھری اس دنیا میں اُنھوں نے آنکھ کھولی!

یہ سی جے یوکی اتاکا کی کہانی ہے، جو اسلام قبول کرنے کے بعد محمد عظمت اتاکا ہوگئے۔ جب اُنھوں نے شعور کی آنکھ کھولی، جاپان کے زخم ابھی تازہ تھے، اُن کے مندمل ہونے میں وقت تھا۔ ان ہی زخموں نے ذہن سازی کی۔ امن کا اجلا پن اُن پر آشکار کیا۔ اس سانحۂ عظیم سے متعلق کہتے ہیں،''جاپان کو ایٹمی حملے کا واقعہ نہیں بھولنا چاہیے۔ دوبارہ کبھی ایسی صورت حال پیدا نہ ہونے دی جائے، جس کے ایسے نتائج آئیں۔ اور اِس ٹریجڈی کو ذہن میں رکھتے ہوئے امن کے فروغ کے لیے کام کیا جائے۔''

جنگ عظیم دوم کا قہر بھلاتے ہوئے توجہ گذشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں مقیم عظمت اتاکا کی جانب مرکوز کرتے ہیں، جنھوں نے جاپان اور پاکستان کے ثقافتی رشتے کے استحکام کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ جاپانی شاعری کی مقبول ترین صنف، ہائیکو کی اردو میں قبولیت اور مقبولیت میں یوں تو کئی اہل علم نے اپنا حصہ ڈالا، مگر اصل سہرا عظمت اتاکا کے سر ہے، جنھوں نے 83ء میں جاپان کلچرل سینٹر کے تحت ہائیکو مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا، جو ہنوز جاری ہے۔ ان ہی مشاعروں نے ہائیکو کو اردو داں طبقے میں متعارف کروایا۔ آنے والے برسوں میں کئی قدآور شعرا کے ہائیکو کے مجموعے شایع ہوئے، اِس صنف پر پی ایچ ڈی کے تھیسس لکھے گئے۔ ایک اور صنف، واکا کو کلاسیکی راگوں کے ساتھ پیش کیا۔ کیلینڈر ایگزی بیشنز اور اسٹیج پلے اِس کے علاوہ ہیں۔ اتاکا صاحب کی خدمات کے اعتراف میں اُنھیں 2012 میں پرائیڈ آف پرفارمینس سے نوازا گیا۔ چار تخلیق کار، محسن بھوپالی، شفیع عقیل، الطاف شیخ اور ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنی کُتب کا انتساب اُن کے نام کیا۔

اتاکا صاحب سے گفت گو کرتے ہوئے اُس شہر کا خاصا ذکر آتا ہے، جس سے 77ء میں اُن کا تعارف ہوا تھا۔ کراچی، جو پُرامن اور پُرسکون تھا۔ اِس شہر کے موجودہ حالات انھیں افسردہ کر دیتے ہیں۔ اس خطے میں بڑھتی دہشت گردی اور بین الاقوامی دنیا میں مسلمانوں کی منفی شبیہہ کو وہ ایک گمبھیر مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ اِس کا حل اِن الفاظ میں پیش کرتے ہیں،''ایک ہی طریقہ ہے۔ ہم اچھے رویوں کو،اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کریں، منفی شبیہہ خود ہی ختم ہوجائے گی۔''

حالاتِ زیست کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ اُن کی تاریخ پیدایش 18 اگست 1945 ہے، اور مقام پیدایش اوساکا۔ تین بھائیوں میں دوسرے ہیں وہ۔ اُن کے والد، کو تارو اتاکا کاروبار پیشہ آدمی تھے۔ والد سے متعلق یادیں زیادہ پختہ نہیں کہ ابھی شعور کی دہلیز عبور ہی کی تھی، اور وہ جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ اس سانحے کے بعد والدہ نے کاروبار سنبھالا، بچوں کی پرورش کی۔ بچپن میں خاصے شرمیلے ہوا کرتے تھے۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں،''اب بھی بہت شرمیلا ہوں!'' کھیلوں میں خاصے فعال رہے۔ بیس بال کھیلی، ٹیبل ٹینس کا تجربہ کیا، تیراکی کی، مگر ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد بستر سے لگ گئے۔ اس مرض نے دو بار حملہ کیا۔ پہلی بار اس وقت، جب وہ چوتھے درجے میں تھے، دوسری بار اس سمے، جب ساتویں کا مرحلہ طے کر رہے تھے۔ وہ شامیں یاد ہیں، جب ڈاکٹر انجیکشن کے ساتھ اُن سے ملنے چلا آتا۔ شمار قابل طلبا میں ہوا کرتا تھا، مگر بیماری کے بعد ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں خاصی دقت پیش آئی۔ خیر، ایلیمینٹری اور جونیر ہائی اسکول سے نمٹنے کے بعد، جو جاپانی قوانین کے مطابق ''لازمی'' ہے، 64ء میں سینیر ہائی اسکول کا مرحلہ طے کیا، جو ہمارے ہاں کے انٹر کے مساوی ہے۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی فعال رہے۔ کورس میں گایا کرتے تھے۔

68ء میں Ritsumeikan یونیورسٹی، کیوٹو کی فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ کیوٹو کے حسن کا خصوصی طور پر تذکرہ کرتے ہیں، جو اوساکا سے تین گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ یہ فاصلہ یومیہ طے کیا جاتا۔

عملی زندگی کا آغاز اوساکا پیٹرولیم ایسوسی ایشن سے کیا۔ ساتھ وائے ایم سی اے، اوساکا سے انگریزی سیکھنی شروع کی، اور وہیں وہ امکانات پیدا ہوئے، جو اُنھیں پاکستان لے آئے۔

قصّہ کچھ یوں ہے کہ وائے ایم سی اے میں ایک روز اُن کی ملاقات اردو کے ممتاز اسکالر، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی سے ہوئی، جو وہاں انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ اُن کی شخصیت نے اتاکا صاحب کو بہت متاثر کیا، اور وہ ان کے گھر جا کر انگریزی کی کلاسیں لینے لگے۔ 73ء میں کشفی صاحب پاکستان لوٹ گئے، تاہم لوٹنے سے قبل اپنے طالب علم کے دل میں پاکستان آنے کی خواہش چھوڑ گئے۔ اس خواہش نے چار برس بے کل رکھا۔ بہ قول اُن کے، اچھی ملازمت تھی، تمام سہولیات تھیں، مگر کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی، جس نے 77ء میں بالآخر پاکستان کے لیے رخت سفر باندھنے پر مجبور کر دیا۔ ارادہ تھا کہ ایک سال یہاں گزاریں گے، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

پاکستان کی زمین پر قدم رکھا، تو شدید گرمی نے استقبال کیا۔ کراچی ایئرپورٹ کے باہر جب ٹیکسی ڈرائیوروں نے گھیر لیا، تو خاصی پریشانی ہوئی۔ کشفی صاحب کے گھر قیام تھا۔ کراچی کو روشنیوں کا شہر ضرور کہا جاتا ہے، مگر اوساکا کے مقابلے میں یہاں روشنی کچھ کم تھی۔ البتہ ان عوامل نے مایوس نہیں کیا، بلکہ تجسس سے بھر دیا۔ ذایقوں کے فرق نے مسئلہ پیدا نہیں کیا کہ میٹھا اُنھیں پسند ہے، گوشت سے رغبت ہے، اور پاکستانی کھانوں میں ان دونوں کی کثرت ہے۔ کشفی صاحب کے وسیلے جن افراد سے ملاقات ہوئی، اُنھوں نے نوجوان اتاکا پر بہت مثبت تاثر چھوڑا۔ کہتے ہیں،''میرے لیے پاکستان آنے کا تجربہ بہت شان دار تھا۔ مجھے بہت اچھے لوگ ملے۔ سچی بات یہ ہے کہ ان ہی اچھے لوگوں کی وجہ سے میں اب تک پاکستان میں ہوں۔ پوری دنیا میں اچھے اور برے، دونوں قسم کے لوگ ہوتے ہیں، مگر یہاں کے اچھے لوگ، بہت اچھے ہیں۔''

فارغ بیٹھنے کے بجائے جامعہ کراچی کے شعبۂ سیاسیات میں داخلہ لے لیا، جہاں سے 79-80 میں ماسٹرز کیا۔ اردو زبان نہیں جانتے تھے، اس لیے ابتدا میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مشکل کا حل یوں نکالا کہ اساتذہ جن انگریزی کتابوں سے لیکچرز کی تیاری کیا کرتے، براہ راست وہ کتابیں پڑھنے لگے۔ اُسی زمانے میں جاپان کلچرل سینٹر، کراچی میں ملازمت کی پیش کش ہوئی، جسے بہ خوشی قبول کیا کہ ثقافت اُن کا من پسند موضوع تھا۔ جاپان قونصلیٹ کے اس ذیلی ادارے سے وہ 97ء تک وابستہ رہے۔ اگلے آٹھ برس قونصل جنرل کے مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 2005 میں ہمدرد یونیورسٹی سے بہ طور سیکریٹری، اسٹوڈنٹس/ایکسٹرنل افیئر منسلک ہوگئے۔ پانچ برس اس حیثیت میں مصروف رہے۔

اس ادارے سے وابستگی کا سبب حکیم محمد سعید مرحوم سے عقیدت تھی۔ وہاں رہتے ہوئے ہم نصابی سرگرمیوں کے انعقاد کے لیے جم کر کام کیا۔ لہری اور ڈاکٹر رُتھ فائو کے اعزاز میں یادگار تقریبات کا اہتمام کیا۔ 2010 تا 2013 محمد ہاشم میموریل ٹرسٹ میں سیکریٹری رہے۔ اِس وقت فرینڈز آف برنس سینٹر، سول اسپتال میں ریسیورس ڈیویلپمنٹ ایگزیکٹو کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ فرینڈز آف برنس سینٹر میں ذمے داریاں زیر بحث آئیں، تو کہنے لگے،''برنس کے مریضوں کا علاج بہت منہگا ہے۔ اس سینٹر میں مریضوں کا سو فی صد مفت علاج کیا جاتا ہے۔ یہ علاج عطیات سے ہوتا ہے۔ تو عطیات جمع کرنے اور انھیں استعمال کرنے کا ذمہ میرا ہے۔'' اِس پورے عرصے میں جاپانی زبان کے استاد کی حیثیت سے بھی مصروف رہے۔ یہ سلسلہ 90ء میں جاپان کلچرل سینٹر سے شروع ہوا تھا، اور ہنوز جاری ہے۔

جاپان کلچرل سینٹر سے وابستگی کے دوران پاکستانی اور جاپانی زبان و ثقافت کو قریب لانے کے لیے انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ سلسلے کا آغاز 81ء میں کیلینڈر ایگزی بیشنز سے ہوا۔ بہ قول ان کے،''جاپانی کیلینڈر دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اس زمانے میں ہر ملاقاتی مجھ سے پوچھا کرتا؛ کیا آپ کے پاس کیلینڈر ہے؟ مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستانی لوگ جاپانی کیلینڈر بہت پسند کرتے ہیں۔ تو میں نے جاپانی کمپنیوں کو خط لکھنے شروع کیے۔ ان کے جانب سے مثبت جواب آیا۔ یوں اس سلسلے کا آغاز ہوا۔ اور اسے بہت پسند کیا گیا۔'' اتاکا صاحب کی کوششوں سے کراچی کے بعد اسلام آباد، پشاور، لاہور اور کوئٹہ میں بھی اس طرز کی کام یاب نمایشیں ہوئیں۔

جاپان قونصلیٹ کی جانب سے ''چلڈرن فیسٹول'' کا آغاز بھی اُن ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، سندھ کا اِس عمل میں تعاون حاصل رہا۔ اِس فیسٹول میں سہولیات سے محروم غریب طلبا اور جاپان قونصیلٹ کے اسکولز میں زیر تعلیم بچے ایک چھت تلے ہم نصابی سرگرمیاں انجام دیتے۔ انھوں نے جاپان کی لوک داستانوں پر مشتمل، اردو میں تحریر کردہ اسٹیج ڈراموں کا بھی اہتمام کروایا۔

فقط جاپانی کلچر پاکستان میں پیش کرنے پر اکتفا نہیں کیا، جاپانیوں کو بھی پاکستان کے مضبوط ثقافتی پس منظر سے آگاہ کرنا ضروری جانا۔ سندھ کی صوفیانہ موسیقی انھیں بہت بھاتی ہے۔ سو جاپان فائونڈیشن کے تعاون سے اُنھوں نے 93ء میں دس فن کاروں پر مشتمل طائفہ جاپان بھیجا۔

ہائیکو کا مستقبل زیر بحث آیا، تو کہنے لگے کہ تین مصرعوں پر مشتمل اس صنف شاعری میں Syllable کی تعداد کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، پہلا مصرع پانچ، دوسرا سات اور تیسرا پانچ Syllable پر مشتمل ہوتا ہے، مگر جب ہائیکو مشاعروں کا آغاز کیا گیا، تو یہ شرط (5:7:5) عاید نہیں کی گئی، تاکہ یہ پھل پھول سکے۔ ''البتہ وقت کے ساتھ یہاں کے شعرا اس شرط کی پابندی کرنے لگے۔ آج اردو میں جو ہائیکو کہی جارہی ہے، وہ ہائیکو کی مکمل شکل ہے۔ ہاں، ہائیکو میں موسم کے تذکرے کی شرط بھی ہوتی ہے۔ موسم کا اشارہ ہوتا ہے۔ اردو میں یہ معاملہ یوں مشکل ہے کہ جاپان کے برعکس اس خطے میں چاروں موسم بھرپور شکل میں موجود نہیں۔ خصوصاً کراچی میں تو ایک سا موسم رہتا ہے (قہقہہ)۔ خیر، اب ہائیکو اردو میں کہی جارہی ہے، کتابیں لکھی جارہی ہیں، اس زاویے سے اس کا مستقبل ہے۔''

اردو ہائیکو کے محسنین کی بابت گفت گو کرتے ہوئے اُنھوں نے پی ٹی وی کے پروڈیوسر، اقبال حیدر کا خصوصی طور پر ذکر کیا، جنھوں نے ہائیکو میں Syllable کی پابندی کو ضروری جانا۔ ''انھوں نے بلوچستان میں تعیناتی کے زمانے میں وہاں ہائیکو مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان ہی کی وجہ سے بلوچستان کے شعرا نے ابتدا سے Syllable کی پابندی کی۔ اسی طرح محسن بھوپالی نے ہائیکو اور واکا، دونوں کے لیے کام کیا۔ مشاعروں کا آغاز کشفی صاحب کے آئیڈیے پر ہوا تھا، تو اُن کے بغیر یہ تذکرہ ادھورا ہے۔''

پاکستان میں وہ گذشتہ کئی برس سے ہیں۔ اردو بول لیتے ہیں، جامعہ سے اردو کا خصوصی کورس بھی کیا، مگر رسم الخط سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکے۔ خود ہائیکو کے مشاعرے منعقد کروائے، شعرا سے دوستی رہی، اور خود بھی شعر کہنے کا شوق ہے، مگر یہ سلسلہ تاحال شروع نہیں سکا، اور بہ قول ان کے، مستقبل میں بھی اس کا امکان نہیں۔ اِس پورے عرصے میں جاپان آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ ہاں، جاپان یاد آتا ہے، مگر بہ قول ان کے،''جب جاپان میں ہوتا ہوں، تو پاکستان یاد آنے لگتا ہے۔''

مثبت سوچ کے حامل عظمت اتاکا ماضی کے بجائے مستقبل پر نظریں مرکوز رکھتے ہیں۔ جاپان اُن کے نزدیک امکانات کی سرزمین ہے، مگر وہاں جگہ بنانے کے لیے ہنر اور مہارت شرط ہے۔ کہنا ہے،''وہاں کے تعلیمی ادارے بہت مستحکم ہیں۔ اسٹوڈنٹس کے لیے وہاں جانا فائدہ مند ہے۔ البتہ پاکستان اور دیگر ممالک سے وہاں ملازمت کی تلاش میں جانے والوں کے لیے اسپیشلائزیشن ضروری ہے۔''

84ء میں ابوالخیر کشفی صاحب کی بھانجی سے وہ رشتۂ ازدواج میں بندھ گئے تھے۔ خدا نے انھیں ایک بیٹے، دو بیٹیوں سے نوازا۔ ''اتاکا'' خاندانی نام ہے، جو بچوں نے بھی اپنایا۔ موسیقی سے گہرا شغف ہے۔ یہ شوق بچوں میں بھی منتقل ہوا۔ بیٹے بیٹیوں کی ستار، طبلے اور پیانو سے دوستی ہے۔ فاطمہ ثریا بجیا کے وہ عقیدت مند ہیں۔ بہ قول ان کے،''وہ میرے لیے ماں کی طرح ہیں!'' فٹ بال کے شایق اور انگلش کلب آرسنل کے مداح ہیں۔ فرانسیسی کھلاڑی ہنری آنری کو سراہتے ہیں۔ دفتر میں پینٹ شرٹ میں نظر آتے ہیں، مگر گھر میں شلوار قمیص پہنتے ہیں۔ جاپان میں ہوں، تو خزاں کا موسم بھاتا ہے۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، کل کی طرح آج بھی کراچی کی گرمی انھیں پریشان رکھتی ہے۔ پاکستانی گلوکاروں میں احمد رشدی پسند ہیں۔ جاپانی ڈرامے شوق سے دیکھتے ہیں، جن کے لیے وہ انٹرنیٹ کے ممنون ہیں۔

''سی جے یو کی اتاکا'' سے ''عظمت اتاکا'' تک۔۔۔

عظمت اتاکا کے بہ قول، پاکستان آنے کے بعد وہ جس شے سے متاثر ہوئے، وہ یہاں کے باسیوں کی ملن ساری اور اخلاق تھا۔ اُنھوں نے اِس کے اسباب پر غور شروع کیا، اور نتیجہ یہ نکالا کہ اِس رویے کا سبب ان کا مذہب ہے۔ اسلام میں دل چسپی نے مطالعے کی تحریک دی۔ قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔ دیگر کتب سے استفادہ کیا۔ ذہن سازی میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ 81ء میں اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے استاد اور محسن، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے ہاتھ پر اُنھوں نے اسلام قبول کیا۔

ایک ایک شاعر کا دروازہ کھٹکھٹایا!

ہائیکو مشاعروں کا انعقاد عظمت اتاکا کا اہم ترین کارنامہ ہے، جن کے طفیل آج ہائیکو پاکستانی، جاپانی ثقافتی رشتے کی علامت بن چکی ہے۔

یہ سلسلہ ابو الخیر کشفی کے آئیڈیے پر مشتمل تھا۔ آج کے برعکس اس وقت ہائیکو اردو میں اتنی مقبول نہیں تھی۔ کشفی اور اتاکا صاحب نے ایک ایک شاعر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اپنے خیالات پیش کیے، ہائیکو سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کی، انھیں اس تجربے کے لیے تیار کیا۔ پہلے مشاعرے میں بیس شعرا کو اکٹھا کرنے میں وہ کام یاب رہے۔ 85ء میں انھوں نے ہائیکو کمیٹی کی بنیاد رکھی، جس کی کاوشوں سے اردو ہائیکو میں مزید نکھار آیا۔ اور یوں دھیرے دھیرے یہ سلسلہ پھلنے پھولنے لگا۔

واکا راگ: فیوژن کا منفرد تجربہ

ہائیکو کے مانند، پانچ مصرعوں پر مشتمل ''واکا'' بھی جاپانی شاعری کی مقبول صنف ہے۔ واکا میں Syllable کی ترتیب 5:7:5:7:7 ہوتی ہے۔ درباروں میں پیش کی جانے والی اس صنف کے آغاز کی جڑیں ساتویں صدی عیسوی میں ملتی ہیں۔ اتاکا صاحب نے جاپان کلچرل سینٹر کے تحت، فاطمہ ثریا بجیا کے تعاون سے 87ء میں ''واکا راگ'' کے زیرعنوان ایک سلسلہ شروع کیا، جو فیوژن کا منفرد تجربہ تھا۔ واکا کے اردو تراجم کو برصغیر کے کلاسیکی راگوں میں گوندھ کر پیش کیا جاتا تھا۔ ترجمہ کرنے کی ذمے داری محسن بھوپالی نے نبھائی، ظفر علی خان اور جاوید اﷲ دتا نے دھنیں کمپوز کیں۔ یہ تجربہ کام یاب رہا۔ کافی عرصے تک جاری رہنے والے اِس سلسلے نے دونوں ثقافتوں کے رشتے کو استحکام بخشا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں