میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
ابھی یوٹیوب کی بندش پر حکمرانوں کی جہل آمادگی کا ماتم کر ہی رہے تھے کہ سندھ حکومت نے اسکائیپ۔۔۔
ابھی یوٹیوب کی بندش پر حکمرانوں کی جہل آمادگی کا ماتم کر ہی رہے تھے کہ سندھ حکومت نے اسکائیپ،ٹینگواور وائبر کی بندش کے لیے وفاقی حکومت سے رجوع کرلیا۔امکان یہی ہے کہ وفاق سندھ حکومت کے اس مطالبے کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ان سائٹس پر پابندی عائد کرکے کم ازکم سندھ کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کا پورا بندوبست کردے گا۔لگتا ہے کہ وفاقی حکومت خود بھی ان امور کی پرواہ نہیں کر رہی، جو جدید سائنس وٹیکنالوجی کی ایجادات سے استفادہ کرنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سندھ میں تعینات رینجرز کی اعلیٰ قیادت بھی اس بندش کے حق میں ہے۔گویا یوٹیوب کے کھلنے کی توقع تواب دورکی بات،تعلیمی ادارے ویڈیوکانفرنسنگ اور بوڑھے پاکستانی والدین بیرون ملک مقیم اپنے بچوں کواسکرین پر دیکھتے ہوئے گفتگو کرنے کے حق سے بھی محروم کردیے جائیں گے۔
اس سلسلے میںایک استدلال یہ پیش کیا جارہا ہے کہ ان سائٹس کو جرائم پیشہ افراد باہمی روابط کے لیے استعمال کررہے ہیں اور پولیس سمیت خفیہ ایجنسیاں ان کے باہمی روابط کو مانیٹرکرنے میں ناکام ہیں۔سابق وزیر داخلہ رحمان ملک بھی اہم تہواروں کے موقعے پر موبائل فون سروس بند کرنے کا فارمولہ استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح تہواروں پر دہشت گردی سے بچنے کی سبیل ہوجاتی ہے۔جرائم سے نبردآزما ہونے کا یہ آسان ترین نسخہ رہا ہے۔ اب سندھ کی موجودہ حکومت ان کے اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے دو قدم آگے بڑھ کر مختلف انٹرنیٹ سائٹس کو بند کرنے کی خواہشمند ہے تاکہ جرائم پیشہ افراد کے باہمی روابط کو توڑکر ان پر قابو پایا جاسکے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس طرح جرائم پیشہ افراد کا رابطہ منقطع کیا جاسکتا ہے؟دوسرے اس قسم کی حکمت عملی کے نقصان کا جرائم پیشہ افراد سے زیادہ عام شہریوں کو پہنچنے کا احتمال رہتا ہے۔اس کے علاوہ اس قسم کے بندوبست عارضی ہونے کی وجہ سے نہ صرف جرائم کے مکمل سد باب کے بجائے جرائم پیشہ افراد کو نئے سرے سے منظم ہونے کا موقع فراہم کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں بلکہ ایسے اقدامات دراصل حکومت اور حکمرانوں کی جانب سے اپنی ناکامی اور نااہلی کا کھلا اعتراف ہوتے ہیں ۔حقیقت بھی یہ ہے کہ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے روایتی طرز عمل کی وجہ سے انتہائی فرسودگی کا شکار ہیں اور ان میں جرائم پیشہ افراد کے مقابلہ میں اہلیت کی کمی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ جرائم پر قابو پانے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے۔مگر اس مقصد کے لیے جدید سائنسی ایجادات اور سہولیات پر مختلف حیلوں بہانوں سے پابندی دراصل معلومات تک عوام کی آزادانہ رسائی کے بنیادی حق سے انھیں محروم کرنا ہے۔ ان سائنسی ایجادات کو جرائم پیشہ افراد تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ہمارے سامنے دنیا کے کئی ممالک کی مثالیں ہیں، جو بدترین دہشت گردی اور جرائم کا کا شکار ہوئے،مگر انھوں نے اپنے عوام کو سائنسی ایجادات کی سہولیات سے محروم کرنے کے بجائے اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں کی اہلیت اور فعالیت کو بڑھانے پر توجہ دی،تاکہ جرائم پر مستقل بنیادوں پر قابو پایا جاسکے ۔یہی سبب ہے کہ 9/11 کے بعدامریکا اور7/7 کے بعد برطانیہ نے مجرموں تک پہنچنے کے لیے نہ کوئی انٹرنیٹ سائٹ بند کی نہ دیگر سہولیات کومعطل کیا بلکہ چیک اینڈ بیلنس اور کائنٹر ٹیررازم کا ایک ایسا نظام وضع کیا گیا جس میں جرائم کے ہر منبع تک پہنچنا ممکن ہو سکا۔
وہاں پولیس سمیت قومی سلامتی کے مختلف اداروں کے اہلکاروں کی جدید خطوط پر تربیت کی گئی،تاکہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے طریقہ واردات کو سمجھتے ہوئے ان کے خلاف موثر کارروائی ممکن ہوسکے اور ان کے باہمی روابط کے سلسلے کو توڑا جاسکے۔ امریکا اور برطانیہ کو جانے دیجیے کہ یہ انتہائی ترقی یافتہ ممالک ہیں،بلکہ بھارت کی مثال کو لیجیے، جو ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ اس نے بھی ممبئی حملے کے بعد انٹرنیٹ کی مختلف سائٹس پر پابندی عائد کرنے کے بجائے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی اہلیت اور صلاحیت میں اضافہ پر توجہ دی اور انھیں مزیدفعال بنانے کی کوشش کی،تاکہ آیندہ اس قسم کے واقعات سے بچا جاسکے۔ ان تمام ممالک میں پولیس سمیت دیگر سیکیورٹی ایجنسیاں انٹرنیٹ کے ذریعے روابط کو مانیٹر کرنے کی اہلیت رکھتی ہیںاور سائبر جرائم اور سائبرٹیکنالوجی کے ذریعے جرائم کا قلع قمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔
مگر پاکستان کا معاملہ دگر ہے۔ یہاں صرف غیر نمایندہ حکومتیں ہی نہیں بلکہ عوام کی نمایندگی کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی فکری فرسودگی اور رجعت پسند خیالات اور تصورات میں جکڑی ہوئی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ دنیا کے تبدیل ہوتے حقائق کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتیں اکیسویں صدی میں 19 صدی کے نوآبادیاتی نظام کے حق میں دلائل دیتی نظر آتی ہیںاور اسے جاری رکھنے کے لیے بے چین رہتی ہیں۔کیونکہ ان کا مفاد اسی فرسودہ نظام کے تسلسل میںمضمر ہے، جس میں اقتدار و اختیار کی مضبوط مرکزیت قائم ہو اور عوام ہر قسم کی جدید سہولیات سے محروم رہتے ہوئے ان کی تابعداری پر مجبور رہیں۔ سیاسی جماعتوں اوراسٹبلشمنٹ کی فرسودگی پر مبنی اسی روش کی وجہ سے شہری انتظامی ڈھانچہ ہنوز فرسودگی کا شکار ہے اور اس میں کسی قسم کی بہتری کے آثار پیدا نہیں ہو پا رہے۔
اب جہاں تک یوٹیوب کا تعلق ہے، تو اس پر صرف ان چند ممالک میں پابندی ہے، جہاں شخصی آمریت قائم ہے یا جہل آمادگی اپنے عروج پر۔اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ سائٹ بند نہیں ہے۔ اب اگر سندھ حکومت کے غلط مشورے پر عمل کرتے ہوئے وفاقی حکومت مزید تین سائٹس کی بندش کے احکامات صادر کردیتی ہے، تو اس کا واضح مقصد یہ ہوگا کہ ہمارے منتخب نمایندے بھی غیر نمایندہ حکمرانوںکی طرح اس ملک کو جہل کے مہیب اندھیروں میں دھکیلنے کے خواہش مند ہیں۔جو حکومت اتنے برس گذرجانے کے باوجود موبائل فون سم (Sim)کی تصدیق کرانے اور غیر قانونی سمیںبند کرانے میں ناکام ہے، اس سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ عوام کو پریشانیوں میں مبتلا کیے بغیر انھیں تحفظ فراہم کرنے کا کوئی بہتراور صائب طریقہ دریافت کرسکتی ہے۔
اس سے قبل بھی ان صفحات پر لکھا جاچکا ہے کہ پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے، ان کا صائب حل نہ نکل پانے کا بنیادی سبب حکومت ،ریاستی منصوبہ سازوں اورسیاسی جماعتیں کی فرسودہ سوچ اور سیاسی عزم وبصیرت کی کمی ہے۔حکومت دہشت گردی، اغواء برائے تاوان ،ٹارگٹ کلنگ اوراسٹریٹ کرائمزسمیت مختلف جرائم پر قابو پانے کے لیے جو طریقہ اختیار کررہی ہے، وہ انتہائی فرسودہ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ا ن اقدامات سے جرائم کی شرح میںکچھ عرصہ کے لیے کمی آجائے اور حکمرانوں کو سینہ پھلاکر اپنی کامیابی کا دعویٰ کرنے کا موقع مل جائے۔ مگریہ طے ہے کہ اس قسم کے بندوبست ہمیشہ زیادہ عارضی ثابت ہوتے ہیںاور جرائم پیشہ افراد ایک نئے اندازمیں منظم ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔لہٰذا پائیدار،دیرپا اور مستقل بنیادوں پر بدامنی اورجرائم کے خاتمہ کے لیے بعض دور رس اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اول،اقتدار واختیار کی حقیقی معنی میں عدم مرکزیت، جس میں نچلی سطح کی حکومت کو سیاسی،انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت حاصل ہو۔ دوئم، بڑے شہروں کے لیے پولیس کمشنریٹ کا قیام اور پولیس کے نظام مکمل Devolution۔ سوئم، پولیس کو Politiciseہونے سے بچانے کے لیے ایک بااختیار پولیس سروسز کمیشن کا قیام،جو اعلیٰ عہدیدار سے کانسٹیبل تک کی بھرتی اور تقرری کا مجازہو۔چہارم، پولیس سمیت شہری انتظامی محکموں کے اہلکاروں کی مسلسل اندرون خانہ تربیت کا بندوبست۔
ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ حکومت اتنا سب کچھ جانتے ہوئے بھی فرسودہ اقدامات پرکیوں اصرار کررہی ہے۔حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حکومت کے حالیہ اقدامات کے نتیجے میںکراچی میں امن وامان کی صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ قتل اسی انداز میں ہورہے ہیں۔ لوٹ مار کا بازار اسی طرح جاری ہے ، بلکہ اب تو اسکول،کالج اور یونیورسٹیوں کی وین اور بسیں تک لٹنے لگی ہیں۔طلبا وطالبات سے ان کی جیب خرچ کی رقم تک چھین لی جارہی ہے۔ایسے میں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بعض ٹیلے ویژن اینکرمحض حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔اسی طرح بعض مذہبی جماعتیں TTPکے ساتھ مذاکرات کے لیے بے چین ہیں۔ حالانکہ نہ تو TTP نے حملے ختم کیے ہیں اور نہ ہی حکومت کے ساتھ مذاکرات پرسنجیدگی سے آمادگی کا اظہار کیاہے۔ بلکہ وہ آج بھی ملالہ یوسف زئی پر دوبارہ حملہ کرنے کے اپنے اعلان کا اعادہ کررہے ہیں۔ایسی صورتحال میںنفسیاتی دبائو کے شکار پورے ملک کے شہریوں کو انٹرنیٹ سہولیات سے محروم کردینا دراصل انھیں نئی نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کردینے کے مترادف ہے۔مگر یہ بات حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آسکتی کیونکہ ان میں ایسے نازک معاملات کو سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔
اس سلسلے میںایک استدلال یہ پیش کیا جارہا ہے کہ ان سائٹس کو جرائم پیشہ افراد باہمی روابط کے لیے استعمال کررہے ہیں اور پولیس سمیت خفیہ ایجنسیاں ان کے باہمی روابط کو مانیٹرکرنے میں ناکام ہیں۔سابق وزیر داخلہ رحمان ملک بھی اہم تہواروں کے موقعے پر موبائل فون سروس بند کرنے کا فارمولہ استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح تہواروں پر دہشت گردی سے بچنے کی سبیل ہوجاتی ہے۔جرائم سے نبردآزما ہونے کا یہ آسان ترین نسخہ رہا ہے۔ اب سندھ کی موجودہ حکومت ان کے اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے دو قدم آگے بڑھ کر مختلف انٹرنیٹ سائٹس کو بند کرنے کی خواہشمند ہے تاکہ جرائم پیشہ افراد کے باہمی روابط کو توڑکر ان پر قابو پایا جاسکے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس طرح جرائم پیشہ افراد کا رابطہ منقطع کیا جاسکتا ہے؟دوسرے اس قسم کی حکمت عملی کے نقصان کا جرائم پیشہ افراد سے زیادہ عام شہریوں کو پہنچنے کا احتمال رہتا ہے۔اس کے علاوہ اس قسم کے بندوبست عارضی ہونے کی وجہ سے نہ صرف جرائم کے مکمل سد باب کے بجائے جرائم پیشہ افراد کو نئے سرے سے منظم ہونے کا موقع فراہم کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں بلکہ ایسے اقدامات دراصل حکومت اور حکمرانوں کی جانب سے اپنی ناکامی اور نااہلی کا کھلا اعتراف ہوتے ہیں ۔حقیقت بھی یہ ہے کہ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے روایتی طرز عمل کی وجہ سے انتہائی فرسودگی کا شکار ہیں اور ان میں جرائم پیشہ افراد کے مقابلہ میں اہلیت کی کمی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ جرائم پر قابو پانے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے۔مگر اس مقصد کے لیے جدید سائنسی ایجادات اور سہولیات پر مختلف حیلوں بہانوں سے پابندی دراصل معلومات تک عوام کی آزادانہ رسائی کے بنیادی حق سے انھیں محروم کرنا ہے۔ ان سائنسی ایجادات کو جرائم پیشہ افراد تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ہمارے سامنے دنیا کے کئی ممالک کی مثالیں ہیں، جو بدترین دہشت گردی اور جرائم کا کا شکار ہوئے،مگر انھوں نے اپنے عوام کو سائنسی ایجادات کی سہولیات سے محروم کرنے کے بجائے اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں کی اہلیت اور فعالیت کو بڑھانے پر توجہ دی،تاکہ جرائم پر مستقل بنیادوں پر قابو پایا جاسکے ۔یہی سبب ہے کہ 9/11 کے بعدامریکا اور7/7 کے بعد برطانیہ نے مجرموں تک پہنچنے کے لیے نہ کوئی انٹرنیٹ سائٹ بند کی نہ دیگر سہولیات کومعطل کیا بلکہ چیک اینڈ بیلنس اور کائنٹر ٹیررازم کا ایک ایسا نظام وضع کیا گیا جس میں جرائم کے ہر منبع تک پہنچنا ممکن ہو سکا۔
وہاں پولیس سمیت قومی سلامتی کے مختلف اداروں کے اہلکاروں کی جدید خطوط پر تربیت کی گئی،تاکہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے طریقہ واردات کو سمجھتے ہوئے ان کے خلاف موثر کارروائی ممکن ہوسکے اور ان کے باہمی روابط کے سلسلے کو توڑا جاسکے۔ امریکا اور برطانیہ کو جانے دیجیے کہ یہ انتہائی ترقی یافتہ ممالک ہیں،بلکہ بھارت کی مثال کو لیجیے، جو ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ اس نے بھی ممبئی حملے کے بعد انٹرنیٹ کی مختلف سائٹس پر پابندی عائد کرنے کے بجائے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی اہلیت اور صلاحیت میں اضافہ پر توجہ دی اور انھیں مزیدفعال بنانے کی کوشش کی،تاکہ آیندہ اس قسم کے واقعات سے بچا جاسکے۔ ان تمام ممالک میں پولیس سمیت دیگر سیکیورٹی ایجنسیاں انٹرنیٹ کے ذریعے روابط کو مانیٹر کرنے کی اہلیت رکھتی ہیںاور سائبر جرائم اور سائبرٹیکنالوجی کے ذریعے جرائم کا قلع قمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔
مگر پاکستان کا معاملہ دگر ہے۔ یہاں صرف غیر نمایندہ حکومتیں ہی نہیں بلکہ عوام کی نمایندگی کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی فکری فرسودگی اور رجعت پسند خیالات اور تصورات میں جکڑی ہوئی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ دنیا کے تبدیل ہوتے حقائق کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتیں اکیسویں صدی میں 19 صدی کے نوآبادیاتی نظام کے حق میں دلائل دیتی نظر آتی ہیںاور اسے جاری رکھنے کے لیے بے چین رہتی ہیں۔کیونکہ ان کا مفاد اسی فرسودہ نظام کے تسلسل میںمضمر ہے، جس میں اقتدار و اختیار کی مضبوط مرکزیت قائم ہو اور عوام ہر قسم کی جدید سہولیات سے محروم رہتے ہوئے ان کی تابعداری پر مجبور رہیں۔ سیاسی جماعتوں اوراسٹبلشمنٹ کی فرسودگی پر مبنی اسی روش کی وجہ سے شہری انتظامی ڈھانچہ ہنوز فرسودگی کا شکار ہے اور اس میں کسی قسم کی بہتری کے آثار پیدا نہیں ہو پا رہے۔
اب جہاں تک یوٹیوب کا تعلق ہے، تو اس پر صرف ان چند ممالک میں پابندی ہے، جہاں شخصی آمریت قائم ہے یا جہل آمادگی اپنے عروج پر۔اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ سائٹ بند نہیں ہے۔ اب اگر سندھ حکومت کے غلط مشورے پر عمل کرتے ہوئے وفاقی حکومت مزید تین سائٹس کی بندش کے احکامات صادر کردیتی ہے، تو اس کا واضح مقصد یہ ہوگا کہ ہمارے منتخب نمایندے بھی غیر نمایندہ حکمرانوںکی طرح اس ملک کو جہل کے مہیب اندھیروں میں دھکیلنے کے خواہش مند ہیں۔جو حکومت اتنے برس گذرجانے کے باوجود موبائل فون سم (Sim)کی تصدیق کرانے اور غیر قانونی سمیںبند کرانے میں ناکام ہے، اس سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ عوام کو پریشانیوں میں مبتلا کیے بغیر انھیں تحفظ فراہم کرنے کا کوئی بہتراور صائب طریقہ دریافت کرسکتی ہے۔
اس سے قبل بھی ان صفحات پر لکھا جاچکا ہے کہ پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے، ان کا صائب حل نہ نکل پانے کا بنیادی سبب حکومت ،ریاستی منصوبہ سازوں اورسیاسی جماعتیں کی فرسودہ سوچ اور سیاسی عزم وبصیرت کی کمی ہے۔حکومت دہشت گردی، اغواء برائے تاوان ،ٹارگٹ کلنگ اوراسٹریٹ کرائمزسمیت مختلف جرائم پر قابو پانے کے لیے جو طریقہ اختیار کررہی ہے، وہ انتہائی فرسودہ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ا ن اقدامات سے جرائم کی شرح میںکچھ عرصہ کے لیے کمی آجائے اور حکمرانوں کو سینہ پھلاکر اپنی کامیابی کا دعویٰ کرنے کا موقع مل جائے۔ مگریہ طے ہے کہ اس قسم کے بندوبست ہمیشہ زیادہ عارضی ثابت ہوتے ہیںاور جرائم پیشہ افراد ایک نئے اندازمیں منظم ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔لہٰذا پائیدار،دیرپا اور مستقل بنیادوں پر بدامنی اورجرائم کے خاتمہ کے لیے بعض دور رس اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اول،اقتدار واختیار کی حقیقی معنی میں عدم مرکزیت، جس میں نچلی سطح کی حکومت کو سیاسی،انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت حاصل ہو۔ دوئم، بڑے شہروں کے لیے پولیس کمشنریٹ کا قیام اور پولیس کے نظام مکمل Devolution۔ سوئم، پولیس کو Politiciseہونے سے بچانے کے لیے ایک بااختیار پولیس سروسز کمیشن کا قیام،جو اعلیٰ عہدیدار سے کانسٹیبل تک کی بھرتی اور تقرری کا مجازہو۔چہارم، پولیس سمیت شہری انتظامی محکموں کے اہلکاروں کی مسلسل اندرون خانہ تربیت کا بندوبست۔
ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ حکومت اتنا سب کچھ جانتے ہوئے بھی فرسودہ اقدامات پرکیوں اصرار کررہی ہے۔حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حکومت کے حالیہ اقدامات کے نتیجے میںکراچی میں امن وامان کی صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ قتل اسی انداز میں ہورہے ہیں۔ لوٹ مار کا بازار اسی طرح جاری ہے ، بلکہ اب تو اسکول،کالج اور یونیورسٹیوں کی وین اور بسیں تک لٹنے لگی ہیں۔طلبا وطالبات سے ان کی جیب خرچ کی رقم تک چھین لی جارہی ہے۔ایسے میں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بعض ٹیلے ویژن اینکرمحض حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔اسی طرح بعض مذہبی جماعتیں TTPکے ساتھ مذاکرات کے لیے بے چین ہیں۔ حالانکہ نہ تو TTP نے حملے ختم کیے ہیں اور نہ ہی حکومت کے ساتھ مذاکرات پرسنجیدگی سے آمادگی کا اظہار کیاہے۔ بلکہ وہ آج بھی ملالہ یوسف زئی پر دوبارہ حملہ کرنے کے اپنے اعلان کا اعادہ کررہے ہیں۔ایسی صورتحال میںنفسیاتی دبائو کے شکار پورے ملک کے شہریوں کو انٹرنیٹ سہولیات سے محروم کردینا دراصل انھیں نئی نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کردینے کے مترادف ہے۔مگر یہ بات حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آسکتی کیونکہ ان میں ایسے نازک معاملات کو سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔