ایک اور آبنوسی حسینہ کا ظلم
ہماری تو قسمت ہی خراب ہے بدقسمتی کے دریا نے ہمیں ایسا لیا ہوا کہ جس بھی سہارے پر ہاتھ ڈالیے وہ اکڑ کرہاتھ میں آجاتاہے۔
ہماری تو قسمت ہی خراب ہے بدقسمتی کے دریا نے ہمیں ایسا لیا ہوا کہ جس بھی سہارے پر ہاتھ ڈالیے وہ اکڑ کر ہاتھ میں آ جاتا ہے، بڑی مشکل سے اپنے ٹوٹے پھوٹے دل کو سنبھالا تھا اس کم بخت ظالمۂ جہاں، سنگدلۂ دوران اور کافرہ زمان و مکان کنڈولیزا رائس نے جو گھاؤ دیا تھا اس پر ہم نے بڑی مشکل سے ڈھونڈ کر ایک پھاہا رکھا تھا لیکن وہ پھاہا بھی نمک آلودہ نکلا، اس سے تو بہتر تھا کہ بقول پیر و مرشد
فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمک داں پر
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کیوں کہ ہم اکثر اسی کالم کو اپنے نالہ دل کے اظہار کا ذریعہ بناتے تھے کہ ہم کچھ عرصے پہلے اس شب دیجور، کالی حسینہ، آبنوسی نازنینہ کنڈولیزا رائس کی ''زلف قینچی گیر'' کے اسیر ہو گئے تھے اور اس کے آبنوسی و ساگوانی خدوخال پر ہزار جان سے فدا ہو گئے تھے حالانکہ ہمارے پاس صرف ایک عدد جان تھی یہ باقی نو سو نو جانیں ہم نے افغانستان میں یہاں وہاں سے بٹوری تھیں کیوں کہ جانیں وہاں اتنی سستی ہیں کہ بائی ون گٹ ٹو فری کے بجائے بائی ون گٹ ہنڈرڈ کے بھاؤ میں بھی مل جاتی ہیں۔ اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ لوگ محض اس وجہ سے کسی کو گولی نہیں مارتے کیوں کہ گولی کی قیمت کئی جانوں سے زیادہ ہوتی ہے گویا گولی نہیں ہوئی محبوب کا جلوہ ہو گیا ایک ٹپے کے مطابق
تم اپنے جلوے کی قیمت بتا
اگر جان نذر کر دوں تو کتنا بقایادار رہ جاؤں گا
ہمیں معلوم تھا کہ اس آفت کی پرکالی ساری دنیا سے نرالی ترچھے نینوں والی تک ہماری رسائی بڑی مشکل ہے، کہاں وہ کہاں ہم۔ بڑے بڑے ملکوں کے بڑے بڑے صدور بھی اس کی نگاہ ناز کے اسیر تھے اوراس سے ہاتھ ملانے کے بعد کئی دنوں تک ہاتھ نہیں دھوتے تھے مطلب یہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی لیکن عشق تو اندھا ہوتا ہے اور پھر ''اندھیرے'' کا عشق تو باقاعدہ اندھیرا ہوتا ہے لیکن وہ عشق ہی کیا جس میں عقل کا اور ممکن ناممکن کو دخل ہو عشق اگر صادق ہو تو پہاڑوں میں بھی سوراخ کر دیتا ہے یہ الگ بات ہے اس سوراخ میں سے گزر کر ملک عدم بھی پہنچ جاتا ہے لیکن عشق کا نام ہی نارسائی ہے ویسے بھی پیر و مرشد نے کہا ہے کہ یہ وہ آگ ہے کہ لگاؤ تو پٹرول اور ماچس کے باوجود نہیں لگتی لیکن کبھی کبھی جب لگنا ہوتی ہے تو پھر بجھانے سے نہیں بجھتی، ایک اور سالک راہ عشق جگرؔ مراد آبادی نے کہا ہے کہ
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
چنانچہ ہم بھی اس امید پر قتالہ عالم، غزالہ دشت و بیابان جفا پیشہ دوران کے عشق میں پہلے گھٹنوں تک پھر سینے تک اور آخر میں ناک تک گرفتار ہوتے چلے گئے کہ شاید کبھی اس تک رسائی ہو ہی جائے کیوں کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ
د رب کرم چہ پہ چا اوشی
ھغہ کار اوشی چہ پہ خیال کے نہ رازینہ
یعنی جب خدا کا کرم ہوتا ہے تو وہ کام بھی ہو جاتے ہیں جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے، پیوستہ رہ شجر سے کیا پتہ اس اکیسویں صدی میں بھی عشق کی تاریخ کا نیا باب رقم ہو جائے کیا پتہ اس سیاہ پتھر میں بھی ہمارے جذبہ عشق کی جونک لگ ہی جائے
عشق چہ راشی سڑے ڑوند شی
جنئی د مصر تخت پریدی یا رپسے زینہ
یعنی عشق جب آتا ہے تو عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے اور لڑکی مصر کا تخت چھوڑ کر غلام کی غلام ہو جاتی ہے لیکن ہمارے عشق کا وہ انجام نہیں ہوا بلکہ اچانک وہ بت طناز، نگاہ ناز، نخرے باز نہ جانے کہاں چلی گئی نشاں بھی کوئی نہ چھوڑا ایسی غائب ہوئی کہ نام و نشان تک باقی نہیں رہا، بڑھاپے کا عشق ویسے بھی بڑا جان لیوا ہوتا ہے اور ہم ذرا زیادہ شدید عشق میں بھی مبتلا تھے اس لیے سر سے پاؤں تک ہل گئے اور پھر کسی بت کی طرح تڑخ تڑخ کر لوٹنے والے تھے کہ اچانک سہارے کی سبیل نکل آ ئی، خدا نے ہمارے زخموں کے لیے مرہم کا بندوبست کر دیا وہ بھی سیاہ مرہم ... چنانچہ ہم نے اس سیاہ مرہم کے پھاہے اپنے زخموں پر چپکانا شروع کر دیے اور اچھا خاصا افاقہ محسوس کیا ... اس شفا بخش مرہم کا نام ''اوپرا ونفرے'' تھا
عاشق کے لیے یکساں ہے کعبہ ہو کہ بت خانہ
وہ جلوت جانانہ یہ خلوت جانانہ
اس موقع پر شاید آپ یہ سوال اٹھائیں کہ آخر ہمیں سرخ سرخ بیروں کے بجائے کالے کالے جھڑ بیریاں کیوں پسند ہیں۔ یہ دنیا حسیناؤں سے بھری پڑی ہے انجلینا جولی ہے، نکول کڈمین ہے، میڈونا ہے لیڈی گاگا ہے کرینہ ہے اپنی میرا ہے ریما ہے اور ماشاء اللہ وینا ملک ہے لیکن ہم جب بھی پھسلتے ہیں کالی کیچڑ میں پھسلتے ہیں تو اس کا جواب ہمارے پیر و مرشد خواجہ حافظ سالہا سال پہلے دے چکے ہیں جب انھوں نے ایک ''خال ہندوش'' پر سمر قند و بخارا کو وار دیا تھا تو ہم پوری ''ہندوش'' پر اپنی جاں ناتواں بھی نچھاور نہیں کر سکتے ویسے بھی جو بات سیاہی میں ہے وہ سفیدی میں کہاں
نہ مال و ملک میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات ایسی حسینان روسیاہ میں ہے
اوپرا ونفرے کو متبادل کے طور پر اپنے ٹوٹے پھوٹے دل کا پھاہا دراصل ہم نے خود نہیں بنایا تھا بلکہ یہ فتنہ ہمارے ایک دوست کالم نگار کا جگایا ہوا ہے خود تو اب مرحوم ہو کر جنت کی حوروں پرکالم لکھ رہے ہوں گے لیکن ہمیں اس عذاب میں مبتلا کر گئے، یہ عشق دراصل پرانی کہانیوں کے ان شہزادوں جیسا تھا جو کسی حسینہ کا جوتا کپڑا اور کنگھی وغیرہ دیکھ کر نادیدہ عشق میں مبتلا ہو جاتے ہیں ہمارے یہ دوست کالم نگار امریکا گئے تھے جیسا کہ ہمارے اور بہت سارے کالم نگار وہاں کے دوستوں کے شدید اصرار پر امریکا جاتے رہتے ہیں اور پھر وہاں کی ہر ہر چیز پر دو چار کالم لکھ مارتے رہتے ہیں، ہمارے یہ دوست بھی امریکا اسی طرح گئے تھے کہ وہاں کے ان کے جو فین تھے انھوں نے عام قسم کے دعوت ناموں اور بلاؤں سے مایوس ہو کر دھمکی دی تھی کہ اگر آپ امریکا نہیں آئے تو ہم امریکا سے بھاگ کر ایفل ٹاورز، قطب مینار اور ماؤنٹ ایورسٹ سے کود کر اپنی جان دے دیں گے چنانچہ دوستوں کی جان بچانے کے لیے وہ امریکا گئے اور ہماری جان کے لیے موت کا سامان کر گئے، انھوں نے ''اوپرا ونفرے'' کے اتنے تذکرے کیے کہ بوڑھا شہزادہ اس پر دیکھے بغیر ہی مر مٹا اور اسے اپنے زخموں کا مداوا تصور کر لیا لیکن جب قسمت ہی پاکستانی سیاست کی طرح خراب ہو تو
بیکاریٔ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
اب اس ہماری متبادل معشوقہ کا بیاں آپ نے پڑھ ہی لیا ہو گا کہ وہ اسٹڈ مین تو کیا کسی سے بھی شادی نہیں کریں گی اور اس دنیا سے وہ غیر شادی شدہ خاتون کے طور پر جانا چاہتی ہے، دھچکہ تو ہے اور بڑا سخت بھی ... لیکن زور کا جھٹکا دھیرے سے اس لیے لگا کہ ہم بھی اتنی زیادہ خوش نصیبی کی توقع نہیں کر رہے تھے ہمارا عشق تو ایک نظرے خوش گزار کے زمرے میں ہوتا ہے کہ
زیر دیوار کھڑے ہیں ترا کیا لیتے ہیں
دیکھ لیتے ہیں تپش دل کی بجھا لیتے ہیں
لیکن بے چارے اسٹڈ مین کے تو سارے کھیت کھلیان پر بجلی گر گئی ہو گی، نہ جانے بے چارے کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی چونکہ وہ بھی بت کافر کے پرستاروں میں ہے اس لیے ہم عشق ہونے کی بناء پر اس کی دل جوئی کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اسے ڈھارس دینا چاہتے ہیں کہ محترمہ نے ''غیر شادی شدہ خاتون'' کہا ہے کنواری خاتون کے طور پر دنیا سے جانے کا نہیں کہا ہے۔