یہ فصل کہاں اُگتی ہے
اس کا وزن کتنا ہوتا ہے؟ میرا خیال ہے یہی کوئی آدھا کلو یا پھر اس سے تھوڑا زیادہ یا کم۔ گویا یہ ایک چھوٹی سی شے ہے۔۔۔۔
اس کا وزن کتنا ہوتا ہے؟ میرا خیال ہے یہی کوئی آدھا کلو یا پھر اس سے تھوڑا زیادہ یا کم۔ گویا یہ ایک چھوٹی سی شے ہے۔ اس کے باوجود لوہے کا یہ ٹکڑا اب ہماری زندگی کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کی نوک ہمارے کولہے پر ٹکا دی جاتی ہے تو ہم ٹکانے والے کو اس طرف والی جیب آسانی سے خالی کر لینے دیتے ہیں، پھر جلدی جلدی دوسری جیب سے موبائل نکال کے اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔
کوئی گیارہ سو برس پہلے چین نے گن پاؤڈر ایجاد کیا تھا اور اس کے پانچ سو برس کے بعد، چودھویں صدی میں دنیا کی پہلی ''گن'' تیار کی گئی۔ یہ جو ''گن پاؤڈر'' ایجاد ہوا تھا تو ابتداً اس کا استعمال اور بھی بہت کچھ تھا لیکن اسے خالصتاً انسانی جان لینے والے ہتھیار کا حصہ بننے میں پوری پانچ صدیاں لگیں۔ یہ فقط ٹیکنالوجی کا ارتقا نہیں تھا بلکہ انسانی قدروں کی زوال پذیری کی ابتدا بھی تھی۔ اس وقت سے اب تک کی کہانی بہت لمبی ہے۔ اس دوران اس نے انواع و اقسام کے بہت سے انڈے بچے دیے اور اس کا خاندان خوب پھولا پھلا۔ اب یہ ہماری ہر طرف ناچتا پھرتا ہے اور بہت دھوم مچاتا ہے۔ لیکن چند ہی برس پہلے یہ اس طرح جابجا کہاں دکھائی دیتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ایک چھوٹے شہر میں رہنے والے میرے ایک جاننے والے نے مجھ سے ایک فرمائش کی تھی۔ وہ ایک چھوٹے موٹے وی آئی پی تھے اور حکومت نے انھیں اجازت دی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی حفاظت کے لیے ایک عدد مشین گن رکھ سکتے ہیں، انھیں لائسنس دے دیا جائے گا لیکن پہلے یہ بتانا ہو گا کہ وہ مشین گن خریدیں گے کہاں سے۔ انھوں نے یہ کام میرے ذمے لگا دیا کہ میں اسلحہ ڈیلروں سے معلوم کروں کہ وہ سپلائی کر سکتے ہیں یا نہیں۔ میں نے کئی روز تک خود بھاگ دوڑ کی اور پتہ کیا۔ اِدھر اُدھر آدمی بھی دوڑائے مگر معلوم یہ ہوا کہ اسلحے کا کوئی بھی ڈیلر مشین گن مہیا کرنے سے معذور ہے۔ ہاں البتہ اگر حکومت سے امپورٹ لائسنس لے لیا جائے تو اس کے تحت خود سے گن کسی غیر ملک سے درآمد کی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی دو ایک نے کان میں راز کی بات بھی بتائی کہ ''بھائی! کس جھنجھٹ میں پڑے ہو، لائسنس والا اسلحہ بھی کوئی اسلحہ ہوتا ہے۔ یہ تو ہاتھی کے دانت ہیں دکھانے کے لیے۔ ذرا گڑبڑ ہو تو اسلحہ جمع کراؤ، تھانے میں پیشی بھگتو، سال کے سال تجدید کراؤ، کہیں آؤ جاؤ تو اولاد کو بھول جاؤ اسے سینے کے ساتھ لگا کے رکھو۔ وی آئی پی نہ رہو تو واپس اور حکومت بدل جائے تو واپس۔'' اس کے بعد اس نے بستہ ''ب'' کی دیگر بہت سی خصوصیات بھی بیان کر دیں۔
''پھر کیا کیا جائے؟'' میں نے دریافت کیا۔
ؔ''کلاشنکوف خریدو۔۔۔۔اب تو درے میں بھی بننے لگی ہے۔ میڈ ان پاکستان نہ لینا چاہو تو بیس بائیس ہزار میں روسی ساخت کی اصلی بھی مل سکتی ہے۔ مجاہدین بڑے تجارتی پیمانے پر روسی فوجوں سے چھین کے فروخت کر رہے ہیں۔''
''آپ کے پاس بھی ملتی ہے؟'' میں نے بھی اس کے کان میں سرگوشی کی۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یا تو مجھے یاد نہیں ہے اور یا پھر میں بتانا نہیں چاہتا۔
اسلحے سے متعلق یہ سب باتیں مجھے اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ ان دنوں تواتر سے سندھ حکومت کی طرف سے اخبارات میں ایک مزاحیہ اشتہار شایع کیا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ خود اس مزاح میں سنجیدہ ہوں لیکن جب اس اپیل یا تنبیہ کا نتیجہ سامنے آئے گا تو ہنس ہنس کے سب کے پیٹ میں بل پڑ جائیں گے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 12 اکتوبر غیر قانونی اسلحہ جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے۔ اس وقت تک متعلقہ ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر کے دفاتر یا پولیس اسٹیشن میں جمع کرا دیں۔ رضاکارانہ طور پر اسلحہ جمع کرانے والوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی ورنہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے یا تمام جائیداد ضبط کر لی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔
یہ اپیل کتنی ثمر بار ہو گی، اس کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ہاں البتہ اگر اس کا مقصد اتمام حجت ہے اور اس کے بعد انتہائی سنجیدگی سے شہر کو غیر قانونی اسلحے سے پاک کرنے کا عمل شروع ہو جائے گا تو پھر لوگ یقینا اس ایکشن کے بزرگ کپتان کے ہاتھ چوم لیں گے۔
دراصل ہمارے ہاں لائسنس والا اسلحہ رکھنے کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ ذاتی حفاظت کے لیے کوئی شریف آدمی اسلحہ رکھنا چاہتا ہے تو لائسنس کا حصول نانگا پربت سر کرنے جتنی مشقت طلب کرتا ہے۔ لیکن جب کوئی سیاسی طور پر تقسیم کرنے لگے تو پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتا۔ درجنوں اور سیکڑوں کے حساب سے بانٹتا جاتا ہے۔ یوں اس اسلحے کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ گویا لاقانونیت کے فروغ میں حکومت کا حصہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ قانون اور قدر کو صحیح طور پر نافذ کرنے والے معاشروں میں اسلحہ رکھنے کی باسہولت اجازت عموماً خرابی کا باعث نہیں بنتی۔ امریکا میں ریاستوں کے قوانین الگ الگ ہیں۔ وہاں کئی جگہ ایسا بھی ہوا کہ کسی دل والے نے اپنے لیے طیارہ شکن توپ کا لائسنس حاصل کرنے کی درخواست دے دی اور کسی نے ٹینک کے لیے۔ ہمارے ہاں بغیر لائسنس کا اسلحہ، وی سی آر، ٹی وی اور ریڈیو رکھنا ہمیشہ سے آسان رہا ہے اور لائسنس کے ساتھ مشکل۔ وی سی آر ختم ہو گیا، ٹی وی کا لائسنس بجلی کے بلوں میں کھپ گیا اور ریڈیو کا لائسنس نواز شریف کی پچھلی حکومت نے ختم کر دیا ورنہ ان کا بہانہ بنا کے سرکاری کارندے ہمہ وقت جیب کے پاس چٹکیاں لیتے رہتے تھے۔
شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کے سلسلے میں ہمیشہ سے دو متضاد آراء کا ٹکراؤ جاری ہے۔ کوئی 23 ہزار برس سے ایک مسئلے کی وجہ سے دنیا پریشان ہے اور اس کا حل نہیں ڈھونڈ سکی۔ وہ یہ کہ دنیا میں انڈہ پہلے آیا تھا یا مرغی۔ ناجائز اسلحے کی موجودگی کے بارے میں بھی کچھ ایسی ہی بات کہی جاتی ہے۔ ایک فریق کی پختہ رائے ہے کہ شہر کے اندر ہی اسلحے کی فصل اگتی ہے، اس کے ہرے بھرے کھیت ہیں اور ان میں خوب پھل آتا ہے۔ اس فصل کو اجاڑ دیا جائے تو مسئلہ حل ہو گا۔ دوسرا فریق یقین سے خم ٹھونک کے کہتا ہے کہ کھیت کہیں نہیں ہیں، یہ آسمان سے برستا ہے اور اس کی موسلا دھار بارش ہوتی ہے لہٰذا اس بارش کو روکا جائے۔ دونوں طرف سے دلائل اتنی شدت سے دیے جاتے ہیں کہ میرا خیال ہے انڈے اور مرغی والا مسئلہ تو حل ہو جائے گا، یہ نہیں ہو گا۔
کوئی گیارہ سو برس پہلے چین نے گن پاؤڈر ایجاد کیا تھا اور اس کے پانچ سو برس کے بعد، چودھویں صدی میں دنیا کی پہلی ''گن'' تیار کی گئی۔ یہ جو ''گن پاؤڈر'' ایجاد ہوا تھا تو ابتداً اس کا استعمال اور بھی بہت کچھ تھا لیکن اسے خالصتاً انسانی جان لینے والے ہتھیار کا حصہ بننے میں پوری پانچ صدیاں لگیں۔ یہ فقط ٹیکنالوجی کا ارتقا نہیں تھا بلکہ انسانی قدروں کی زوال پذیری کی ابتدا بھی تھی۔ اس وقت سے اب تک کی کہانی بہت لمبی ہے۔ اس دوران اس نے انواع و اقسام کے بہت سے انڈے بچے دیے اور اس کا خاندان خوب پھولا پھلا۔ اب یہ ہماری ہر طرف ناچتا پھرتا ہے اور بہت دھوم مچاتا ہے۔ لیکن چند ہی برس پہلے یہ اس طرح جابجا کہاں دکھائی دیتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ایک چھوٹے شہر میں رہنے والے میرے ایک جاننے والے نے مجھ سے ایک فرمائش کی تھی۔ وہ ایک چھوٹے موٹے وی آئی پی تھے اور حکومت نے انھیں اجازت دی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی حفاظت کے لیے ایک عدد مشین گن رکھ سکتے ہیں، انھیں لائسنس دے دیا جائے گا لیکن پہلے یہ بتانا ہو گا کہ وہ مشین گن خریدیں گے کہاں سے۔ انھوں نے یہ کام میرے ذمے لگا دیا کہ میں اسلحہ ڈیلروں سے معلوم کروں کہ وہ سپلائی کر سکتے ہیں یا نہیں۔ میں نے کئی روز تک خود بھاگ دوڑ کی اور پتہ کیا۔ اِدھر اُدھر آدمی بھی دوڑائے مگر معلوم یہ ہوا کہ اسلحے کا کوئی بھی ڈیلر مشین گن مہیا کرنے سے معذور ہے۔ ہاں البتہ اگر حکومت سے امپورٹ لائسنس لے لیا جائے تو اس کے تحت خود سے گن کسی غیر ملک سے درآمد کی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی دو ایک نے کان میں راز کی بات بھی بتائی کہ ''بھائی! کس جھنجھٹ میں پڑے ہو، لائسنس والا اسلحہ بھی کوئی اسلحہ ہوتا ہے۔ یہ تو ہاتھی کے دانت ہیں دکھانے کے لیے۔ ذرا گڑبڑ ہو تو اسلحہ جمع کراؤ، تھانے میں پیشی بھگتو، سال کے سال تجدید کراؤ، کہیں آؤ جاؤ تو اولاد کو بھول جاؤ اسے سینے کے ساتھ لگا کے رکھو۔ وی آئی پی نہ رہو تو واپس اور حکومت بدل جائے تو واپس۔'' اس کے بعد اس نے بستہ ''ب'' کی دیگر بہت سی خصوصیات بھی بیان کر دیں۔
''پھر کیا کیا جائے؟'' میں نے دریافت کیا۔
ؔ''کلاشنکوف خریدو۔۔۔۔اب تو درے میں بھی بننے لگی ہے۔ میڈ ان پاکستان نہ لینا چاہو تو بیس بائیس ہزار میں روسی ساخت کی اصلی بھی مل سکتی ہے۔ مجاہدین بڑے تجارتی پیمانے پر روسی فوجوں سے چھین کے فروخت کر رہے ہیں۔''
''آپ کے پاس بھی ملتی ہے؟'' میں نے بھی اس کے کان میں سرگوشی کی۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یا تو مجھے یاد نہیں ہے اور یا پھر میں بتانا نہیں چاہتا۔
اسلحے سے متعلق یہ سب باتیں مجھے اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ ان دنوں تواتر سے سندھ حکومت کی طرف سے اخبارات میں ایک مزاحیہ اشتہار شایع کیا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ خود اس مزاح میں سنجیدہ ہوں لیکن جب اس اپیل یا تنبیہ کا نتیجہ سامنے آئے گا تو ہنس ہنس کے سب کے پیٹ میں بل پڑ جائیں گے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 12 اکتوبر غیر قانونی اسلحہ جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے۔ اس وقت تک متعلقہ ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر کے دفاتر یا پولیس اسٹیشن میں جمع کرا دیں۔ رضاکارانہ طور پر اسلحہ جمع کرانے والوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی ورنہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے یا تمام جائیداد ضبط کر لی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔
یہ اپیل کتنی ثمر بار ہو گی، اس کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ہاں البتہ اگر اس کا مقصد اتمام حجت ہے اور اس کے بعد انتہائی سنجیدگی سے شہر کو غیر قانونی اسلحے سے پاک کرنے کا عمل شروع ہو جائے گا تو پھر لوگ یقینا اس ایکشن کے بزرگ کپتان کے ہاتھ چوم لیں گے۔
دراصل ہمارے ہاں لائسنس والا اسلحہ رکھنے کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ ذاتی حفاظت کے لیے کوئی شریف آدمی اسلحہ رکھنا چاہتا ہے تو لائسنس کا حصول نانگا پربت سر کرنے جتنی مشقت طلب کرتا ہے۔ لیکن جب کوئی سیاسی طور پر تقسیم کرنے لگے تو پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتا۔ درجنوں اور سیکڑوں کے حساب سے بانٹتا جاتا ہے۔ یوں اس اسلحے کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ گویا لاقانونیت کے فروغ میں حکومت کا حصہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ قانون اور قدر کو صحیح طور پر نافذ کرنے والے معاشروں میں اسلحہ رکھنے کی باسہولت اجازت عموماً خرابی کا باعث نہیں بنتی۔ امریکا میں ریاستوں کے قوانین الگ الگ ہیں۔ وہاں کئی جگہ ایسا بھی ہوا کہ کسی دل والے نے اپنے لیے طیارہ شکن توپ کا لائسنس حاصل کرنے کی درخواست دے دی اور کسی نے ٹینک کے لیے۔ ہمارے ہاں بغیر لائسنس کا اسلحہ، وی سی آر، ٹی وی اور ریڈیو رکھنا ہمیشہ سے آسان رہا ہے اور لائسنس کے ساتھ مشکل۔ وی سی آر ختم ہو گیا، ٹی وی کا لائسنس بجلی کے بلوں میں کھپ گیا اور ریڈیو کا لائسنس نواز شریف کی پچھلی حکومت نے ختم کر دیا ورنہ ان کا بہانہ بنا کے سرکاری کارندے ہمہ وقت جیب کے پاس چٹکیاں لیتے رہتے تھے۔
شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کے سلسلے میں ہمیشہ سے دو متضاد آراء کا ٹکراؤ جاری ہے۔ کوئی 23 ہزار برس سے ایک مسئلے کی وجہ سے دنیا پریشان ہے اور اس کا حل نہیں ڈھونڈ سکی۔ وہ یہ کہ دنیا میں انڈہ پہلے آیا تھا یا مرغی۔ ناجائز اسلحے کی موجودگی کے بارے میں بھی کچھ ایسی ہی بات کہی جاتی ہے۔ ایک فریق کی پختہ رائے ہے کہ شہر کے اندر ہی اسلحے کی فصل اگتی ہے، اس کے ہرے بھرے کھیت ہیں اور ان میں خوب پھل آتا ہے۔ اس فصل کو اجاڑ دیا جائے تو مسئلہ حل ہو گا۔ دوسرا فریق یقین سے خم ٹھونک کے کہتا ہے کہ کھیت کہیں نہیں ہیں، یہ آسمان سے برستا ہے اور اس کی موسلا دھار بارش ہوتی ہے لہٰذا اس بارش کو روکا جائے۔ دونوں طرف سے دلائل اتنی شدت سے دیے جاتے ہیں کہ میرا خیال ہے انڈے اور مرغی والا مسئلہ تو حل ہو جائے گا، یہ نہیں ہو گا۔