پیرالٰہی بخش‘ عہد ساز شخصیت

پچھلی دو صدیوں میں برصغیر میں جنم لینے والی نامور، قدآور، اور عہد ساز شخصیات کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے ۔۔۔



KARACHI: پچھلی دو صدیوں میں برصغیر میں جنم لینے والی نامور، قدآور، اور عہد ساز شخصیات کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے اگر پیر الٰہی بخش مرحوم کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ علم تاریخ سے ناواقفیت کی دلیل ہوگا۔ پیر الٰہی بخش مرحوم کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ تقسیمِ پاک و ہند سے فوری پیشتر کے عشرے میں سندھ کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے رکن اور وزیرِ تعلیم، قیام پاکستان کے بعد سندھ کے دوسرے وزیر اعلیٰ اور ان سب سے بڑھ کر قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کے انتہائی معتمد رفیق کار ہونے کا اعزاز ان کی بلند قامتی کا بیّن ثبوت ہے۔ اہالیان کراچی ان کے نام سے موسوم پیر الٰہی بخش کالونی کے حوالے سے بھی انھیں ہر دم یاد رکھتے ہیں۔ آج انھیں ہم سے جدا ہوئے 34 برس گزر چکے ہیں۔ ان کی برسی کے موقع پر یہ خصوصی تحریر ان کی نذر ہے۔پیر الٰہی بخش مرحوم 1890ء میں ضلع دادو (اُس وقت ضلع لاڑکانہ) کی بھان سید آباد کے قریب واقع پیر جو گوٹھ میں پیدا ہوئے، 9 سال کی عمر میں اُن کے والد پیر نواز علی اس دنیا سے رخصت ہو گئے جس کے بعد انھوں نے اپنے ماموں پیر لعل محمد کے زیر سایہ ہوش سنبھالا۔

اُن کے خاندان کا تعلق حضرت مخدوم سرور نوح ؒ کے پانچویں صاحبزادے مخدوم موسیٰ سے بتایا جاتا ہے۔ پیر صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم بھان سید آباد میں حاصل کی جس کے بعد وہ خیرپور میرس چلے گئے جہاں انھوں نے ناز ہائی اسکول خیرپور میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی چلے گئے۔ اگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایک عام طالبعلم کی طرح اعلیٰ اسناد لے کر واپس چلے جاتے اور اپنے آپ کو کسی سرکاری منصب میں کھپا دیتے تو آج اُن کا یہ عظیم روپ ہمارے سامنے نہ ہوتا۔ حالات نے اُنہیں مولانا محمد علی جوہر کی زیر قیادت چلنے والی خلافت تحریک سے بہت متاثر کیا جس کے نتیجے میں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہا اور دہلی میں واقع مولانا محمد علی جوہر کی زیر سرپرستی چلنے والی جامعہ ملیہ میں بطور طالبعلم شرکت اختیار کی اور بی اے کی سند حاصل کی خلافت تحریک کے نشے میں سرشار اور مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کے جذبے سے لبریز پیر الٰہی بخش نے اپنی مزید تعلیم ترک کر دی اور لاڑکانہ آ گئے اور مقامی طور پر تحریکِ خلافت کی قیادت سنبھال لی مگر یہ تحریک زیادہ عرصہ زور نہ پکڑ سکی اور بالآخر برطانوی حکومت کے جبر و استبداد نے اسے دبا دیا۔

بہرحال وقت تب تک ایک سیاستدان کو جنم دے چکا تھا۔ حالات نے کروٹ لی اور اُس وقت کے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ کے صدر مرحوم سر شاہنواز بھٹو نے پیر صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ واپس علی گڑھ جائیں اور اپنی منقطع تعلیم کی تکمیل کریں۔ سر شاہنواز بھٹو نے ا س مقصد کے لیے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کی جانب سے انھیں وظیفہ عطا کیا اور اس طرح پیر الٰہی بخش ایک مرتبہ پھر حصولِ تعلیم کی جانب راغب ہوئے اس دوسرے دور میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے اور بعد ازاں ایل ایل بی کیا۔ اپنے آبائی ضلع لاڑکانہ لوٹنے کے بعد اپنی قانونی پریکٹس کا آغاز کیا۔ اس مقام پر تاریخ نے اُن سے ایک بڑا کام لیا۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا یوں تو آغاز ایک زمانے سے ہو چکا تھا لیکن اس کا پہلا بنیادی سنگ میل 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان ہے جو آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل اجلاس منعقدہ لاہور میں شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔

واضح رہے کہ اس قرارداد کے محض تین سال پہلے تک یعنی 1937ء تک سندھ کو ایک علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل نہ تھی اور اگر وہ 1937ء میں بمبئی ریزیڈنسی سے الگ کرکے ایک خودمختار اور علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل نہ کرتا تو قرارداد پاکستان میں اُسے ایک مسلم اکثریتی صوبے کا درجہ نہ دیا جا سکتا اسی طرح قیامِ پاکستان سے فوراً پہلے سارے برصغیر کی پہلی صوبائی اسمبلی سندھ کی صوبائی اسمبلی تھی جس نے باقاعدہ قیامِ پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی۔ 1937ء میں سندھ کے علیحدہ صوبے کے قیام کے بعد سندھ کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے الیکشن ہوئے تو پیر الٰہی بخش اس کے رکن منتخب ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ہندستان میں عملاً دو بڑی سیاسی قوتیں کانگریس اور مسلم لیگ کی شکل میں موجود تھیں۔ کانگریس مخلوط انتخابات کی حامی تھی جب کہ مسلم لیگ جداگانہ انتخابات کی علمبردار، اس وقت سندھی رائے دہندگان کو ان دونوں بڑی جماعتوں کے منشور اور اُن کے متنازعہ مندرجہ بالا پہلو متاثر نہیں کر سکے اور اس طرح سندھ کے عوام نے صرف ان لوگوں کو منتخب کیا جو آنے والے دنوں میں سندھ کی تاریخی جغرافیائی اور ثقافتی بقا کے ضامن نظر آئے۔

گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت منتخب ہونے والی سندھ کی پہلی قانون ساز اسمبلی کا دورانیہ تقریباً 9 سال رہا، کیونکہ اسمبلی کی معینہ میعاد کے خاتمے سے قبل ہی دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا چنانچہ نئے انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکا اور اس طرح 1937ء میں منتخب ہونے والی یہ اسمبلی 1945ء کے اواخر تک کام کرتی رہی۔ 60 ارکان پر مشتمل اس اسمبلی میں 33 نشستیں مسلمانوں کے لیے اور ایک نشست مسلمان خواتین کے لیے مخصوص تھی جب کہ 18 عام نشستیں اُن کے علاوہ تھیں۔ نو منتخب سندھ اسمبلی کا پہلا اجلاس جو 27 اپریل 1937ء کو موجودہ سندھ ہائیکورٹ کی عمارت میں واقع اسمبلی ہال میں منعقد کیا گیا جس کی صدارت دیوان بہادر ہیرانند کھیم چند نے کی، یہ سیشن صرف 4 دن جاری رہا اور اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے چنائو کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہو گیا اس اجلاس میں 28 اپریل 1937ء کو سید غلام مرتضیٰ شاہ نے پیر الٰہی بخش مرحوم کا نام بطور اسپیکر تجویز کیا جب کہ خان بہادر سید غلام نبی شاہ اور خان بہادر امیر علی ٹھارو خان لاہوری نے شیخ عبدالمجید کا نام تجویز کیا ۔

پیر الٰہی بخش نے شیخ عبدالمجید کے حق میں اپنا نام واپس لے لیا لیکن دیوان بہادر بھوج 40 ووٹ حاصل کر کے سندھ اسمبلی کے پہلے اسپیکر منتخب ہوئے۔ سندھ کی پہلی کابینہ صرف تین افراد یعنی سر غلام حسین ہدایت اللہ بطور وزیر اعلیٰ جب کہ میر بندے علی خان تالپور اور مکھی گوبندداس پریتم داس بطور وزراء پر مشتمل تھی۔ اس وزارت کا خاتمہ 22 مارچ 1938ء کو ہوا جس کے بعد ایک بار پھر ایک 3 رکنی کابینہ جس میں خان بہادر اللہ بخش سومرو بطور وزیر اعلیٰ ، پیر الٰہی بخش بطور وزیر ریوینیو اور نیچلداس وزیرانی بطور وزیر پی ڈبلیو ڈی اور پبلک ہیلتھ شامل تھے۔ 18 مارچ 1940ء کو اللہ بخش سومرو کی حکومت بھی مستعفی ہو گئی جس کے بعد میر بندے علی خان تالپور سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کے طور پر سامنے آئے لیکن صرف ایک سال بعد 6 مارچ 1941ء کو ایک بار پھر کابینہ میں تبدیلی آئی جس کا سبب 3 وزراء کا استعفیٰ تھا۔

نئی کابینہ جو دوسری مرتبہ خان بہادر اللہ بخش سومرو کی سربراہی میں سندھ کے اقتدار پر فائز ہوئی اس میں پیر الٰہی بخش مرحوم بھی شامل تھے اور اس مرتبہ انھیں بیک وقت تعلیم، صنعت، محنت، آبکاری و جنگلات اور دیہی ترقیات کے اہم قلمدان سونپے گئے۔ اس کے بعد بھی وزارت اعلیٰ میں تبدیلی آتی رہی لیکن پیر الٰہی بخش مرحوم آخر تک انھیں محکموں کے وزیر کے طور پر برقرار رہے۔ پیر الٰہی بخش شروع ہی سے قانون سازی کے عمل میں مصروف کار رہے اور اس تمام عرصے میں انھوں نے منشیات آبکاری اور کاٹن جننگ جیسے اہم امور پر مناسب قانون سازی میں ایک بہترین پارلیمنٹرین کا کردار ادا کیا۔ تعلیم کے شعبہ کی طرف انھیں خصوصی شغف حاصل تھا جس کے نتیجے میں اولاً پورے سندھ میں پرائمری تعلیم کا حصول لازمی قرار دینے کی غرض سے 1941ء میں پرائمری ایجوکیشن بل ان کی مساعی سے پیش کیا گیا جسے اسمبلی نے منظور کرلیا۔

اس بل کے تحت پورے سندھ میں پرائمری تعلیم کو لازمی قرار دیتے ہوئے ان والدین کے لیے گوشمالی بھی تجویز کی گئی جو اپنے بچوں کو پرائمری تعلیم سے محروم رکھتے سندھ کے نوجوان طلباء میٹرک کا امتحان دینے کے لیے بمبئی یونیورسٹی کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ 1937ء میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہ وہ موقع تھا جب پیر الٰہی بخش مرحوم نے سندھ میں ایک علیحدہ یونیورسٹی کے قیام کا خواب دیکھا اور سندھ اسمبلی کے 22 ویں اجلاس منعقدہ 12 مارچ 1945ء میں اپنا معرکتہ الآرا یونیورسٹی بل 1945ء پیش کیا ۔ یہ بل صرف 2 ووٹوں کی سادہ اکثریت سے منظور کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس طرح سندھ کی پہلی یونیورسٹی یعنی سندھ یونیورسٹی کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں