فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ ہی جسٹس قاضی فائز کیخلاف ریفرنس کی بنیاد بنا وکیل

لندن کا پہلا فلیٹ جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ نے خریدا، دیگر دو فلیٹس بچوں نے لیے، وکیل منیر اے ملک


ویب ڈیسک October 14, 2019
لندن کا پہلا فلیٹ جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ نے خریدا، دیگر دو فلیٹس بچوں نے لیے، وکیل منیر اے ملک فوٹو:فائل

WASHINGTON DC: سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ ہی جسٹس قاضی فائز کیخلاف ریفرنس کی بنیاد بنا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی لارجر بینچ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواستوں کی سماعت کی۔

لاہور سے آئے اجمل نامی وکیل نے بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطاء بندیال پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ آپ بینچ سے الگ ہو جائیں، میں نے آپ کیخلاف ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ میرے خلاف ریفرنس کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرے گی۔ جب عدالت نے وکیل کو روسٹرم سے ہٹنے کا کہا تو اس نے شور مچانا شروع کردیا اور کہا کہ مجھ پر توہین عدالت لگانا ہے تو لگا لیں عدالت سے نہیں جاؤں گا۔

یہ بھی پڑھیں: اہلخانہ کی ملکیتی جائیدادوں کی منی ٹریل دینے کا پابند نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ

فل کورٹ بینچ کے حکم پر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کمرہ عدالت میں پہنچے اور اس وکیل کو روسٹرم سے ہٹایا۔

بعدازاں جسٹس قاضی فائزعیسی کے وکیل منیراے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل نے کسی معززجج کیخلاف تعصب یاذاتی عناد کاالزام نہیں لگایا، فل کورٹ اورالگ ہونے والے ججز پرکوئی اعتراض نہیں، اعلی عدلیہ کے ججز پر دبائو ڈالنا اس کیس کی جان ہے۔

منیراے ملک نے کہا کہ لندن کا پہلا فلیٹ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے 2004 میں لیا، پہلا فلیٹ خریدنے کے پانچ سال بعد جسٹس قاضی فائز عیسی جج بنے، دوسرا اور تیسرا فلیٹ 2013 میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے بچوں نے لیا، 2013 میں جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تھے، جسٹس قاضی فائز عیسی پر بے ایمانی یا کرپشن کا کوئی الزام نہیں، وہ براہ راست یا بالواسطہ فلیٹس کے بینیفیشل مالک نہیں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ 28 مئی 2019 سے جسٹس قاضی فائز عیسی کی کردار کشی کی مہم جاری ہے، انہوں نے مستقبل میں چیف جسٹس بننا ہے، ان سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، اعلی آئینی عہدوں پر بیٹھے افراد کے اخراجات سے اختلاف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومتی ارکان میڈیا پر میری کردار کشی کی مہم چلا رہے ہیں، جسٹس قاضی فائز

وکیل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ ہی جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف بنیاد بنا، فیض آباد دھرنا فیصلے کیخلاف 8 نظر ثانی درخواستیں آئیں جو تمام کی تمام باہمی مشاورت سے دائر ہوئیں، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، وزارت دفاع سمیت شیخ رشید نے نظر ثانی درخواستوں میں کہا کہ فوجی اہلکاروں اور افسران کے درمیان عدالتی فیصلے سے خلیج پیدا کی گئی اور افواج پاکستان کا مورال کم ہوا، جسٹس قاضی فائز عیسی کو سپریم کورٹ نے کوئٹہ کمیشن کا سربراہ بنایا، کوئٹہ کمیشن نے بھی انٹیلیجنس اداروں کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جج بنتے وقت بھی جسٹس قاضی فائز عیسی کے اثاثوں کا جائزہ لیا ہوگا، جب وہ جج بنے تو سالانہ تنخواہ ماہانہ آمدن کے برابر آگئی، 2009 میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی آمدن سالانہ 36 ملین روپے تھی، ان کی لا فرم سب سے زیادہ ٹیکس دیتی تھی۔

منیر ملک نے کہا کہ اتحادی جماعتوں نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف مشترکہ کوشش کی، 7 ماہ سے نظر ثانی درخواستوں پر سماعت نہیں ہوئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ممکن ہے درخواست گزار چاہتے ہوں جسٹس قاضی فائز عیسی نظر ثانی کیس نہ سنیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کیا عدالتی فیصلے کی بنیاد پرریفرنس دائر ہو سکتا ہے؟۔

منیر ملک نے کہا کہ وزیر قانون جانتے ہیں کہ جج کو اس انداز میں نہیں ہٹایا جا سکتا، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی دونوں اتحادی جماعتیں ہیں، دونوں کی درخواستوں میں ایک جیسے سوالات اٹھائے گئے۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ لگتا ہے دونوں جماعتوں کے وکلاء نے ڈرافٹ کا تبادلہ کیا ہے، دونوں جماعتوں نے کمپیوٹر بهی ایک ہی استعمال کیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دونوں درخواستیں ایک ہی فونٹ میں لکهی گئیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حیرت ہے ایم کیو ایم کی درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراض نہیں لگایا۔

جسٹس عمرعطاء بندیال نے کمرہ عدالت میں شور شرابا کرنے والے وکیل کے بارے میں صدر بار کونسل امان اللہ کرانی سے کہا کہ یقینی بنائیں کہ عدالت کو برا بھلا کہنے والے لوگ روسٹرم کو ٹیک اوور نہ کریں، تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کر رہے۔

عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑهے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔