تُرکی کا رول ماڈل

اکثر مذاکرات اور بعض مباحث پہلے ہی سے کچھ چیزیں طے شدہ سمجھ کے شروع کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور۔۔۔


Shaikh Jabir October 09, 2013
[email protected]

اکثر مذاکرات اور بعض مباحث پہلے ہی سے کچھ چیزیں طے شدہ سمجھ کے شروع کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر تُرکی کو جب بھی رول ماڈل کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہمیشہ یہ بنیادی سوال نظر انداز کر دیا گیا کہ آخر ترکی کس معاملے میں رول ماڈل ہو سکتا ہے؟ ترکی کو جب بھی بطور رول ماڈل کے پیش کیا گیا اس کی واحد وجہ اس کی معاشی ترقی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ ہمیشہ اسی پیرائے میں اور اسی قرینے سے بات کی گئی۔ بلا شک ہمارا برادر اسلامی ملک تُرکی 789.3 بلین ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ آج دنیا کی سترہویں بڑی معیشت ہے۔ ہم میں سے اکثر افراد کی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان بھی ترکی کی طرح معاشی ترقی کرے۔

سیاسی استحکام حاصل کرے اور اُن کا خیال ہے کہ یہ اُسی وقت ممکن ہو گا جب ہم سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر ترکی کی طرح پالیسیاں بنا کر ان پر عمل شروع کر دیں۔ اس طرح ترقی بھی ہو جائے گی اور ہم امریکا اور مغرب کے منظورِ نظر بھی رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مقصد صرف مادی ترقی ہی ہے، اور یہ ترقی سرمایہ داری کے تحت ''لبرل ویلیوز'' اپنا کر ہی ہو سکتی ہے تو ہم کیوں نہ براہ راست سرمایہ داریت اور لبرل ازم ہی کو اپنا لیں۔ سترہویں معیشت کے بجائے پہلی بڑی معیشت کو رول ماڈل کیوں نہ بنایا جائے؟ بھلا سرمائے اور دنیا داری کے لیے اسلامی عصبیت کس کام کی؟ جب تقلید سرمائے کی ہی کرنی ہے تو کیا اسلامی کیا غیر اسلامی؟

ترکی کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ یورپی یونین کا کارکن بننے کے لیے گزشتہ بیس سال سے ہاتھ پیر مار رہا ہے، تڑپ رہا ہے۔ نجم الدین اربکان سے لے کر طیب اردگان تک دونوں مذہبی قائدین کی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح یورپی یونین کا رکن بن جائے۔ کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ ہم یورپی ہیں۔ اس رکنیت کے باعث ترکی کا معیار زندگی، آمدنی، جی ڈی پی، جی این پی، سب کچھ برق رفتار ہو جائے گا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ یورپی کسی طور پر بھی ترکی کو اپنی یونین میں جگہ دینے پر تیار نہیں۔ جرمنی اور فرانس کی علی الاعلان مخالفتیں تو سامنے ہی کی بات ہیں ''پوپ'' صاحب نے بھی فتویٰ صادر فرما دیا تھا کہ ترکی غیر عیسائی ملک ہے، لہٰذا یہ یورپی یونین میں شامل نہیں ہو سکتا۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ اس میں ''رول ماڈل'' یا مثالی ہونے کی کون سی بات ہے؟ خوددار لوگ، خوددار اقوام تو ذلیل ہو کر کچھ پانے کے بجائے گردن کٹوا دینا سہل جانتی ہیں۔ یورپی یونین نے پہلی قسط کے طور پر سترہ ہزار صفحات کے قوانین کا مسودہ دیا کہ یہ نافذ کرنے ہوں گے۔ پھر اس بات پر غور کیا جائے گا کہ آپ کو یونین میں شامل کیا جائے یا نہیں؟ ان میں بے شمار قوانین ترکی میں موجود لنگڑے لولے اسلامی قوانین میں ترامیم پر زور دیتے تھے۔ ہمارے تُرک بھائیوں کو تو یورپی ہونے کا ایسا نشہ سوار ہے کہ انھوں نے فوراً تمام تر تجاویز کو مان لیا۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ مزید ذلت و خواری۔ اس سب کے باوجود ترکی کو رکنیت نہیں ملی۔ سوال یہ ہے کہ اس میں ایسا کیا ہے جس کی تقلید کی جائے؟ اس سے تو اخلاقی گراوٹ کا حد سے گزرنا نظر آتا ہے۔ اس میں تو ہم خود کفیل ہیں۔ اس کے لیے کسی رول ماڈل کی کیا ضرورت؟ کیا یورپی یونین کی رکنیت لینے کے بعد ترکی کی علامتی اسلامیت اور روایتی اسلامی عصبیت اسی طرح باقی رہے گی ؟

ترکی میں مذہبی اور لبرل قیادت کی مقبولیت کیسے ممکن ہوتی ہے؟ ترکی میں بائیں بازو کی سیاست کیا ہے؟ امریکا نے بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں ترکی کی اسلامی جماعت کے لیے نرم رویہ رکھ کر کیا سوشلسٹ انقلاب کو روکنے کے لیے کوئی حریف پیدا کیا ہے؟ کیا ترکی کے اسلام پسندوں پر ''نیو لیفٹ ریویو'' کا یہ الزام درست ہے کہ وہ ''نیٹو اسلامسٹ'' ہیں۔ اقبال نے فارسی شاعری کو اسی لیے اہمیت دی تھی کہ اس کے ذریعے تین بر اعظم تک ابلاغ ممکن تھا۔ پاکستان اور ترکی وسط ایشیا تک دین کی دعوت پہنچا سکتے تھے۔ مگر ہم تو احتجاجی سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر محلوں اور گلیوں کی سیاست میں محصور ہو گئے ہیں۔ کیا اس سے ماورا ہونے کا کوئی راستہ ہمارے پاس ہے؟

تُرک مسلمانوں سے کچھ سیکھنے کے بجائے کیا یہ درست وقت نہیں کہ تُرکوں کو خلافت کا بھولا ہوا درس یاد دلایا جائے؟ یوں تو وہاں جس تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، شاید کہ وہ خود ہی کسی وقت میں اسی نتیجے تک پہنچ سکیں۔ کمال اتا ترک کی لبرلائزیشن چند دہائیاں بھی نہ نکال سکی۔ خود ترکی کے لبرل آرڈر ہی سے مذہبیت بر آمد ہوتی چلی گئی۔ اتا ترک کے لبرلائزیشن پر غور کریں تو آپ کو دو واضح ادوار نظر آئیں گے۔ ایک وہ دور تھا جب بزور لوگوں کو لا دین بنایا جا رہا تھا۔ زدو کوب کیا جاتا تھا، مظالم توڑے جاتے تھے۔ یوں ایک حد تک معاشرتی ڈھانچے میں لبرلائزیشن عام کر دی گئی۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ آپ سیکولر ہیں۔ وہ بیچارے سیکولر ہو گئے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ غیر مذہبی سیکولر ازم تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترکی میں ایک عجیب تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ مسلم تاریخ کی بھی اور سیکولر تاریخ کی بھی۔

یہ ایک حیرت انگیز مظہر ہے۔ وہ یہ کہ ترکی کے سیکولرازم اور کمال ازم کے بطن سے مذہب کا پودا پُھوٹا۔ تُرک آج بھی سیکولر ازم کا ڈھول گلے میں لٹکائے ہوئے ہیں۔ لیکن آج یہ غیر مذہبی لا دینیت نہیں ہے۔ آج وہ علی الاعلان مذہبی لادینیت کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ریاستی سطح پر بھی۔ یہ اگرچہ اجتماع ضدین ہے لیکن ہے۔ تبدیلی یہ ہے اور یہ ایک بڑی اور واضح تبدیلی ہے کہ ترک اینٹی ریلیجئس سے ریلیجئس سیکولر ازم تک آ گئے ہیں۔ مغرب کو اصل خطرہ یہ ہے کہ تُرک مسلمان کسی بھی لمحے مزید ڈی ریڈیکلائزیشن کے عمل سے گزر کر صرف مذہبیت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ ترکو ں کی صدیوں پر محیط عظیم خلافت اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ ان میں جہاں بانی کی صلاحیتیں خفتہ ہیں۔ وہ کسی بھی وقت ذہنی غلامی کے تار وپود بکھیر کے انگڑائی لے کے بیدار ہو سکتے ہیں۔

مغرب میں ایک تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جمہوریت اور روشن خیالی کے بعد کسی بھی طرز کے ''ریڈیکل اسلام '' کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ مسلمانوں کی تاریخ حیرت ناک واقعات اور مظاہر سے پُر ہے لہٰذا ان کے ''سیکولرائزیشن'' اور ''جمہوری رویوں'' پر کوئی بھی کلیتاً بھروسا کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اسلام غالب ہونے اور رہنے کے لیے ہے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو تمام تر جدیدیت اور تمام تر روشن خیالی کے باوجود بھی بار بار ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ ترکی کے بارے میں اوپر ایک مضمون کا حوالہ آیا ہے۔ نیو لیفٹ ریویو، آج کے دور میں میرے خیال مین لیفٹ کا وقیع ترین رسالا ہے۔ اس کے شمارہ نمبر 44 میں ''سیہان ٹوگل'' کا مضمون ''نیٹوز اسلامسٹس'' شایع ہوا ہے۔

سیہان نے تفصیل سے اس فکر پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ رائے عالمی سطح کے کئی بڑے سوچنے والے رکھتے ہیں کہ تُرکی اور دیگر ممالک کے ارباب اقتدار نے جمہوریت اور سیکولرائزیشن کو ''حیلے'' کے طور پر اختیار کیا ہے۔ ان کا اصل مقصد جمہوریت نہیں نفاذِ شریعت ہے۔ ممکن ہے اس میں کسی درجہ سچائی ہو کیونکہ خود ہمارے ہاں بھی جمہوریت پسند بعض افراد یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اسلام جمہوری راستے سے بھی تو آ سکتا ہے؟ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ترکی کو رول ماڈل قرار دینے سے قبل یہ طے کر لینا ضروری ہے کہ وہ غیر مذہبیت سے مذہبیت کی طرف گامزن ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟ کیا پاکستان بھی مزید مذہبیت کی طرف چل پڑے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں