جنگ عظیم کی تلاش
سپر پاور ہونے کے ناتے دنیا میں امن کا بول بالا کرنا اور جنگ و جدل کا منہ کالا کرنا امریکا کا فرض ہے۔۔۔
KARACHI:
سپر پاور ہونے کے ناتے دنیا میں امن کا بول بالا کرنا اور جنگ و جدل کا منہ کالا کرنا امریکا کا فرض ہے اور مہلک اسلحے کی ایجادات، پیداوار اور تجارت اس کا پیشہ ہے۔ جب کہ لڑاؤ اور ڈنگ ٹپاؤ اس کی سیاست۔ جب امریکا کا فرض، پیشہ اور سیاست باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں تو دنیا میں ایک نیا عراق، افغانستان جنم لیتا ہے۔ اس وقت نیا شام لیبر روم میں ہے اور نیا ایران امید سے۔
A: اکتوبر 1973ء سے مارچ 1974ء کے دوران جب سعودی عرب نے تیل کی سپلائی کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا تو تقریباً ساڑھے چار ماہ کے اندر ہی امریکا میں 8 گیلن پٹرول فی ہفتہ فی کار کا راشن نافذ ہو گیا اور برطانیہ میں ہفتے میں تین دن کا راشن ہونے لگا۔ امریکا وہ وقت تو جھیل گیا لیکن اس کے بعد گلف کے تیل پر مکمل انحصار کی پالیسی ترک کر دی اور اپنے پڑوسی ممالک سے خریداری کرنے لگا۔ 2005ء میں امریکا اپنی ضرورت کا 60 فیصد تیل درآمد کرتا تھا جو گھٹ کر 2011ء میں 30 فیصد رہ گیا۔ 49 فیصد اپنے پڑوسی ممالک سے درآمد کرنے لگا۔ مثلاً کینیڈا، میکسیکو، برازیل، کولمبیا، وینزویلا، ایکواڈور وغیرہ سے۔ ویسے بھی دنیا کے تیل کے استعمال کا ایک آبرومندانہ حل موجود ہے یعنی مغربی نصف کرہ ارض کا تیل مغربی ممالک استعمال کریں اور مشرقی نصف کرہ ارض کا تیل مشرقی ممالک۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا کے نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب دنیا کے تیل کے ذخائر پر قبضہ نہیں تھا۔ ویسے بھی امریکا اپنی فوجوں سمیت سعودی عرب کی حفاظت کے لیے سعودی عرب میں موجود ہے ساتھ میں افواج کی ''دال روٹی'' کا بندوبست بھی۔
B: ویت نام کی جنگ کے دوران جب امریکی فوجیوں کے تابوتوں سے لدے بحری جہاز امریکا پہنچنے لگے تو امریکا میں کہرام مچ گیا۔ سارا امریکا چیخ پڑا، یہ کس کی جنگ ہے؟ امریکی جوان کس کے لیے جان دے رہے ہیں؟ اس کے بعد امریکا نے خود کو جنگ کا ایندھن بننے سے روکنے کے لیے بری افواج کی اہمیت کم کر دی اور اولیت بحری فوج کو دیدی۔ جو سیکڑوں میل دور سمندر سے دشمن ملک پر لیزر گائیڈڈ میزائل سے حملہ کر سکتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر فضائیہ ہے جو ہزاروں فٹ کی بلندی سے کارپٹ بمباری کر سکتی ہے۔ امریکی جانوں کا نقصان کیے بغیر۔ علاوہ ازیں فضا سے جدید ترین ٹیکنالوجیز کا بھرپور استعمال بھی کرنے لگا۔ مثلاً ڈرون، سیٹلائٹ، لیزر، روبوٹ، ریموٹ، کمپیوٹر وغیرہ۔ پچھلے مہینے F-16 کو ڈرون ٹیکنالوجی سے لیس کر کے اڑایا گیا اس نے وہی کام کیا جو فائٹر بمبار کرتا ہے کیونکہ امریکی فوج میں بری افواج کا کوئی کلیدی کردار نظر نہیں آتا اس لیے باور کیا جا سکتا ہے نیو ورلڈ آرڈر کا مقصد کسی ملک پر قبضہ کرنا نہیں ہے۔
امریکا کی آٹو انڈسٹری جاپان کو پیاری ہو گئی۔ اب اس کے پاس صرف اسلحہ سازی اور دفاعی ساز و سامان بنانے والی دیو قامت انڈسٹری بچی ہے جو ٹھپ پڑی ہے کیونکہ اس کے لیے دیوقامت ڈیمانڈ بھی چاہیے۔ جس کے سودے بلین ڈالر سے شروع ہو کر ٹریلین ڈالر پر بند ہوں۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ عظیم لڑی جا رہی ہو۔ یورپ نے دو عالمی جنگیں بھگت لیں اب ان کی خواہش، فرمائش اور پیش گوئی یہ ہے کہ اگر جنگ عظیم چھڑی تو اب کے میدان جنگ جنوبی ایشیا ہو گا۔ کیونکہ اس خطے میں تین ممالک بھارت، پاکستان اور چین ایٹمی طاقتیں ہیں۔ جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ جن کے درمیان شدید سیاسی اختلافات ہیں، جنوبی ایشیا (پاک بھارت) کے لوگ آدھی بات سنتے ہیں۔ پاؤ بات سمجھتے ہیں۔ سوچتے بالکل نہیں۔ مارنے مرنے پر تل جاتے ہیں۔ اور جذباتی اتنے ہیں کہ۔۔۔۔
ایک سردار جی ہوٹل کی چوتھی منزل کی کھڑکی سے نیچے رواں ٹریفک کا نظارہ کر رہے تھے۔ نیچے سے ایک شخص نے ہانک لگائی۔''کیکر سنگھ! تین سال سے نوکری کے چکر میں ادھر ہی پھنسے ہوئے ہو اب تو گاؤں کا چکر لگا لو۔ تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے۔'' یہ سن کر کیکر سنگھ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ چہرہ فق ہو گیا۔ غیرت نے جوش مارا اور اس نے کھڑکی سے باہر سڑک پر چھلانگ لگا دی۔ جب فضا میں قلابازیاں کھاتے ہوئے دوسری منزل سے گزر رہے تھے تب خیال آیا ان کی تو شادی ہی نہیں ہوئی۔ اور جب سڑک سے گزرتی ٹریفک پر گرنے ہی والے تھے تب ان پر انکشاف ہوا کہ ان کا نام تو بوٹا سنگھ ہے کیکر سنگھ نہیں۔
A: فرض کیجیے کہ امریکا افغانستان میں نہیں پھنستا سیدھا دندناتا ہوا وسط ایشیا پہنچ جاتا جس کے شمال میں واقع روس اور چین کیا اس امریکی حرکت کو ان کو دیوار سے لگانے کی سازش تصور نہیں کرتے؟ دنیا کا ''معنوی'' سپر پاور چین اور سابق سپر پاور روس آج کے ''روایتی'' سپرپاور امریکا کو گوادر کی بندرگاہ سے بے دخل کرنے کا ذمے دار نہیں گردانتا؟ نتیجہ کیا نکلتا اس کے لیے غیر معمولی جان کاری کی ضرورت نہیں۔ B:اوباما کے دوسرے صدارتی الیکشن سے کچھ پہلے جب امریکا کے دونوں صدارتی امیدواروں کو یہودی ووٹوں اور نوٹوں کی ضرورت پڑتی ہے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اوباما پر پورا دباؤ ڈالا کہ ایران پر فوری حملہ کر کے اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا جائے کیونکہ وہ ایٹم بم بنا چکا ہے یا بنانے کے قریب ہے۔ اگر یہ موقع نکل گیا تو ایران immunity zone میں داخل ہو جائے گا اور ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے گا۔
اگر یہ کام امریکا نہیں کرے گا تو اسرائیل کرے گا۔ اوباما نے جوابی پینترا بدلا اور P5+1 (امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس+جرمنی) اور ایران کے درمیان ایٹمی مسئلے پر مذاکرات شروع کرا دیے۔ یوں یہ مسئلہ ٹلا۔ یہاں بھی ایران کے شمال میں روس اور چین تھے جن کی پیداوار ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے عالمی منڈیوں میں پہنچتی تھی۔ یہاں بھی معاشی مفادات کا ٹکراؤ مسلح تصادم کی شکل اختیار کر سکتا تھا۔ C: امریکا واپس جاتے جاتے آخری پڑاؤ شام میں ڈال چکا ہے۔ یہاں بھی شمال میں روس ہے جس کی حمایت حسب معمول چین کر رہا ہے۔ یہاں بھی روس کے تجارتی مال کی عالمی منڈیوں تک رسائی کا ذریعہ موجود ہے۔ مستقبل ابھی غیر واضح ہے۔ جنگ عظیم کے تعلق سے مغربی ممالک کی خواہشات اپنی جگہ لیکن ایسا ہو گا نہیں۔ کیونکہ اس علاقے کی سپر پاور چین ہے۔ جو ''فروزن ڈپلومیسی'' کا ''موجد'' اور اس کو استعمال کرنے کا ''ماہر'' ہے۔
امریکا میں مالیاتی شٹ ڈاؤن جاری ہے ۔ امریکا نے 16 ہزار 7 سو ارب ڈالر قرضہ لے کر سیلنگ کی انتہائی حد عبور کر لی ہے۔ امریکی وزیر خزانہ نے امریکی ایوان نمایندگان کے اسپیکر کو خط لکھ کر آگاہ کیا ہے کہ 17 اکتوبر 2013ء سے پہلے اگر ڈیٹ سیلنگ میں اضافہ نہ کیا گیا تو امریکی حکومت دیوالیہ ہو جائے گی۔ محکمہ خزانہ کے فنڈز کا ذخیرہ 30 ارب ڈالر رہ گیا ہے جو 15 دن کے اخراجات کے لیے کافی ہے۔ یہ ہے امریکا کی مالیاتی صحیح صورت حال۔
پرانی دنیا سے الگ تھلگ، ہزاروں میل گہرے سمندروں سے گھرا ہوا امریکا دنیا کی طاقتور ترین بحریہ کے حصار میں ایک محفوظ ترین ملک ہے۔ یہ امریکی تھنک ٹینکس ہیں جو امریکا کو جارحانہ دفاع، پیشگی حملہ جیسی احمقانہ تھیوریاں تھما کر پرانی دنیا میں دربدر ٹھوکریں کھانے، مار کھانے، ٹکریں مارنے کے لیے بھیج دیتے ہیں تا کہ نئے نئے دشمن پیدا کیے جا سکیں۔ ان تھنک ٹینکوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ایشیائی باشندے ٹیڑھی میڑھی جلیبی میں شیرا کیسے بھرتے ہیں؟
سپر پاور ہونے کے ناتے دنیا میں امن کا بول بالا کرنا اور جنگ و جدل کا منہ کالا کرنا امریکا کا فرض ہے اور مہلک اسلحے کی ایجادات، پیداوار اور تجارت اس کا پیشہ ہے۔ جب کہ لڑاؤ اور ڈنگ ٹپاؤ اس کی سیاست۔ جب امریکا کا فرض، پیشہ اور سیاست باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں تو دنیا میں ایک نیا عراق، افغانستان جنم لیتا ہے۔ اس وقت نیا شام لیبر روم میں ہے اور نیا ایران امید سے۔
A: اکتوبر 1973ء سے مارچ 1974ء کے دوران جب سعودی عرب نے تیل کی سپلائی کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا تو تقریباً ساڑھے چار ماہ کے اندر ہی امریکا میں 8 گیلن پٹرول فی ہفتہ فی کار کا راشن نافذ ہو گیا اور برطانیہ میں ہفتے میں تین دن کا راشن ہونے لگا۔ امریکا وہ وقت تو جھیل گیا لیکن اس کے بعد گلف کے تیل پر مکمل انحصار کی پالیسی ترک کر دی اور اپنے پڑوسی ممالک سے خریداری کرنے لگا۔ 2005ء میں امریکا اپنی ضرورت کا 60 فیصد تیل درآمد کرتا تھا جو گھٹ کر 2011ء میں 30 فیصد رہ گیا۔ 49 فیصد اپنے پڑوسی ممالک سے درآمد کرنے لگا۔ مثلاً کینیڈا، میکسیکو، برازیل، کولمبیا، وینزویلا، ایکواڈور وغیرہ سے۔ ویسے بھی دنیا کے تیل کے استعمال کا ایک آبرومندانہ حل موجود ہے یعنی مغربی نصف کرہ ارض کا تیل مغربی ممالک استعمال کریں اور مشرقی نصف کرہ ارض کا تیل مشرقی ممالک۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا کے نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب دنیا کے تیل کے ذخائر پر قبضہ نہیں تھا۔ ویسے بھی امریکا اپنی فوجوں سمیت سعودی عرب کی حفاظت کے لیے سعودی عرب میں موجود ہے ساتھ میں افواج کی ''دال روٹی'' کا بندوبست بھی۔
B: ویت نام کی جنگ کے دوران جب امریکی فوجیوں کے تابوتوں سے لدے بحری جہاز امریکا پہنچنے لگے تو امریکا میں کہرام مچ گیا۔ سارا امریکا چیخ پڑا، یہ کس کی جنگ ہے؟ امریکی جوان کس کے لیے جان دے رہے ہیں؟ اس کے بعد امریکا نے خود کو جنگ کا ایندھن بننے سے روکنے کے لیے بری افواج کی اہمیت کم کر دی اور اولیت بحری فوج کو دیدی۔ جو سیکڑوں میل دور سمندر سے دشمن ملک پر لیزر گائیڈڈ میزائل سے حملہ کر سکتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر فضائیہ ہے جو ہزاروں فٹ کی بلندی سے کارپٹ بمباری کر سکتی ہے۔ امریکی جانوں کا نقصان کیے بغیر۔ علاوہ ازیں فضا سے جدید ترین ٹیکنالوجیز کا بھرپور استعمال بھی کرنے لگا۔ مثلاً ڈرون، سیٹلائٹ، لیزر، روبوٹ، ریموٹ، کمپیوٹر وغیرہ۔ پچھلے مہینے F-16 کو ڈرون ٹیکنالوجی سے لیس کر کے اڑایا گیا اس نے وہی کام کیا جو فائٹر بمبار کرتا ہے کیونکہ امریکی فوج میں بری افواج کا کوئی کلیدی کردار نظر نہیں آتا اس لیے باور کیا جا سکتا ہے نیو ورلڈ آرڈر کا مقصد کسی ملک پر قبضہ کرنا نہیں ہے۔
امریکا کی آٹو انڈسٹری جاپان کو پیاری ہو گئی۔ اب اس کے پاس صرف اسلحہ سازی اور دفاعی ساز و سامان بنانے والی دیو قامت انڈسٹری بچی ہے جو ٹھپ پڑی ہے کیونکہ اس کے لیے دیوقامت ڈیمانڈ بھی چاہیے۔ جس کے سودے بلین ڈالر سے شروع ہو کر ٹریلین ڈالر پر بند ہوں۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ عظیم لڑی جا رہی ہو۔ یورپ نے دو عالمی جنگیں بھگت لیں اب ان کی خواہش، فرمائش اور پیش گوئی یہ ہے کہ اگر جنگ عظیم چھڑی تو اب کے میدان جنگ جنوبی ایشیا ہو گا۔ کیونکہ اس خطے میں تین ممالک بھارت، پاکستان اور چین ایٹمی طاقتیں ہیں۔ جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ جن کے درمیان شدید سیاسی اختلافات ہیں، جنوبی ایشیا (پاک بھارت) کے لوگ آدھی بات سنتے ہیں۔ پاؤ بات سمجھتے ہیں۔ سوچتے بالکل نہیں۔ مارنے مرنے پر تل جاتے ہیں۔ اور جذباتی اتنے ہیں کہ۔۔۔۔
ایک سردار جی ہوٹل کی چوتھی منزل کی کھڑکی سے نیچے رواں ٹریفک کا نظارہ کر رہے تھے۔ نیچے سے ایک شخص نے ہانک لگائی۔''کیکر سنگھ! تین سال سے نوکری کے چکر میں ادھر ہی پھنسے ہوئے ہو اب تو گاؤں کا چکر لگا لو۔ تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے۔'' یہ سن کر کیکر سنگھ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ چہرہ فق ہو گیا۔ غیرت نے جوش مارا اور اس نے کھڑکی سے باہر سڑک پر چھلانگ لگا دی۔ جب فضا میں قلابازیاں کھاتے ہوئے دوسری منزل سے گزر رہے تھے تب خیال آیا ان کی تو شادی ہی نہیں ہوئی۔ اور جب سڑک سے گزرتی ٹریفک پر گرنے ہی والے تھے تب ان پر انکشاف ہوا کہ ان کا نام تو بوٹا سنگھ ہے کیکر سنگھ نہیں۔
A: فرض کیجیے کہ امریکا افغانستان میں نہیں پھنستا سیدھا دندناتا ہوا وسط ایشیا پہنچ جاتا جس کے شمال میں واقع روس اور چین کیا اس امریکی حرکت کو ان کو دیوار سے لگانے کی سازش تصور نہیں کرتے؟ دنیا کا ''معنوی'' سپر پاور چین اور سابق سپر پاور روس آج کے ''روایتی'' سپرپاور امریکا کو گوادر کی بندرگاہ سے بے دخل کرنے کا ذمے دار نہیں گردانتا؟ نتیجہ کیا نکلتا اس کے لیے غیر معمولی جان کاری کی ضرورت نہیں۔ B:اوباما کے دوسرے صدارتی الیکشن سے کچھ پہلے جب امریکا کے دونوں صدارتی امیدواروں کو یہودی ووٹوں اور نوٹوں کی ضرورت پڑتی ہے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اوباما پر پورا دباؤ ڈالا کہ ایران پر فوری حملہ کر کے اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا جائے کیونکہ وہ ایٹم بم بنا چکا ہے یا بنانے کے قریب ہے۔ اگر یہ موقع نکل گیا تو ایران immunity zone میں داخل ہو جائے گا اور ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے گا۔
اگر یہ کام امریکا نہیں کرے گا تو اسرائیل کرے گا۔ اوباما نے جوابی پینترا بدلا اور P5+1 (امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس+جرمنی) اور ایران کے درمیان ایٹمی مسئلے پر مذاکرات شروع کرا دیے۔ یوں یہ مسئلہ ٹلا۔ یہاں بھی ایران کے شمال میں روس اور چین تھے جن کی پیداوار ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے عالمی منڈیوں میں پہنچتی تھی۔ یہاں بھی معاشی مفادات کا ٹکراؤ مسلح تصادم کی شکل اختیار کر سکتا تھا۔ C: امریکا واپس جاتے جاتے آخری پڑاؤ شام میں ڈال چکا ہے۔ یہاں بھی شمال میں روس ہے جس کی حمایت حسب معمول چین کر رہا ہے۔ یہاں بھی روس کے تجارتی مال کی عالمی منڈیوں تک رسائی کا ذریعہ موجود ہے۔ مستقبل ابھی غیر واضح ہے۔ جنگ عظیم کے تعلق سے مغربی ممالک کی خواہشات اپنی جگہ لیکن ایسا ہو گا نہیں۔ کیونکہ اس علاقے کی سپر پاور چین ہے۔ جو ''فروزن ڈپلومیسی'' کا ''موجد'' اور اس کو استعمال کرنے کا ''ماہر'' ہے۔
امریکا میں مالیاتی شٹ ڈاؤن جاری ہے ۔ امریکا نے 16 ہزار 7 سو ارب ڈالر قرضہ لے کر سیلنگ کی انتہائی حد عبور کر لی ہے۔ امریکی وزیر خزانہ نے امریکی ایوان نمایندگان کے اسپیکر کو خط لکھ کر آگاہ کیا ہے کہ 17 اکتوبر 2013ء سے پہلے اگر ڈیٹ سیلنگ میں اضافہ نہ کیا گیا تو امریکی حکومت دیوالیہ ہو جائے گی۔ محکمہ خزانہ کے فنڈز کا ذخیرہ 30 ارب ڈالر رہ گیا ہے جو 15 دن کے اخراجات کے لیے کافی ہے۔ یہ ہے امریکا کی مالیاتی صحیح صورت حال۔
پرانی دنیا سے الگ تھلگ، ہزاروں میل گہرے سمندروں سے گھرا ہوا امریکا دنیا کی طاقتور ترین بحریہ کے حصار میں ایک محفوظ ترین ملک ہے۔ یہ امریکی تھنک ٹینکس ہیں جو امریکا کو جارحانہ دفاع، پیشگی حملہ جیسی احمقانہ تھیوریاں تھما کر پرانی دنیا میں دربدر ٹھوکریں کھانے، مار کھانے، ٹکریں مارنے کے لیے بھیج دیتے ہیں تا کہ نئے نئے دشمن پیدا کیے جا سکیں۔ ان تھنک ٹینکوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ایشیائی باشندے ٹیڑھی میڑھی جلیبی میں شیرا کیسے بھرتے ہیں؟