وزیراعظم کی دوراندیشی کا مظہر ’لنگر خانہ‘
ملک کی معاشی حالت جس تیزی سے زوال پذیر ہے، وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ وطن عزیز میں لنگرخانوں کا آغاز کیا جائے
تبدیلی کے نعرے کے ساتھ برسر اقتدار آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ وطن عزیز کی ہر چیز تبدیل کردی جائے، خاص طور پر ہر وہ چیز جو گزشتہ حکومت نے شروع کی تھی۔ تبدیلی کا یہ سفر زور و شور سے جاری ہے اور اب اس کی زد میں سستی روٹی اسکیم بھی آچکی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی سرکار نے سستی روٹی اتھارٹی کو غیر فعال کرنے اور اس کا آڈٹ کروانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات میاں اسلم اقبال کے مطابق سستی روٹی اتھارٹی کا آڈٹ کروانے کے بعد کرپشن ثابت ہونے پر ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے پی ٹی آئی سرکار نے میٹرو کا آڈٹ بھی کروانے کا اعلان کیا تھا۔ اس آڈٹ کی تفصیل ایک سال گزرنے کے بعد اب تک سامنے نہیں آسکی۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ یہ آڈٹ دسمبر میں میٹرو کا افتتاح ہونے کے بعد کروایا جائے گا تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم میٹرو کو چلانا نہیں چاہتے۔ اگرچہ یہ بات انہوں نے فرانزک آڈٹ کا اعلان کرنے کے ایک سال بعد کہی۔
دوسری جانب حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے سیلانی ٹرسٹ کے ساتھ مل کر لنگرخانہ کا افتتاح بھی کردیا ہے۔ خان صاحب نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ اس سلسلے کو بڑھایا جائے گا۔
اگر آپ پی ٹی آئی حکومت کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو آپ بے اختیار حکومت کے حالیہ کارنامے پر داد دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ لنگرخانہ کا افتتاح کرکے وزیراعظم نے جس دور اندیشی کا ثبوت دیا، اس کی ماضی میں نظیر ملنا مشکل ہے۔
گزرے ایک سال میں ملک کی معاشی حالت جس تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے، وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ وطن عزیز میں لنگرخانوں کا آغاز کیا جائے۔ کیونکہ آنے والوں وقتوں میں غریب مزید غریب تر ہوگا۔ اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ایک بڑی تعداد لنگرخانوں کو تلاش کرتی دکھائی دے گی۔ ایسے میں وہ وزیراعظم کو دعائیں دے گی۔ اس سلسلے میں دوسری دور اندیشی محترم وزیراعظم نے یہ کی کہ یہ کام سیلانی ٹرسٹ کے ساتھ مل کر شرع کیا، کیونکہ کل کو اگر آنے والی حکومت اس منصوبے کو سستی روٹی اسکیم کی طرح بند کرنا چاہے گی تو امید ہے کہ سیلانی ٹرسٹ اس کارخیر کو جاری ساری رکھے گا۔ اگرچہ کچھ عاقبت نااندیش جو سستی روٹی اسکیم سے بغیر عزت نفس کو مجروح کیے مستفید ہورہے تھے، شاید وزیراعظم کے اس فیصلے سے نالاں نظر آئیں، مگر اس طرح ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
دوسری جانب کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے سفید پوش طبقے کا استحصال ہوگا، کیونکہ سفید پوش طبقہ سستی روٹی اسکیم سے بغیر عزت نفس مجروح کیے فائدہ اٹھا سکتا ہے، مگر لنگرخانہ پر جاتے ہوئے اس کی عزت پر حرف آئے گا۔ یعنی اگر یوں کہا جائے کہ حکومت کے اس فیصلے سے سفید پوش حضرات کی عزت تار تار ہونے کا خدشہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
مگر اس کے مدمقابل لنگرخانہ کے حامی اس بات کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ جس ملک لوگ کوڑے دانوں سے کھانا اٹھا کر کھاتے ہوں، جس ملک میں ایک بڑی تعداد کو زندگی کی بنیادی ضروریات ہی میسر نہ ہوں، وہاں پر لنگرخانوں کا آغاز ایک احسن اقدام ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر حکومت سستی روٹی اسکیم کو بھی کچھ اس طرح جاری رکھتی کہ ماضی کا فرانزک آڈٹ کروایا جاتا، قومی دولت کو نقصان پہنچانے والے افراد کا تعین کرکے سزا دی جاتی اور موجودہ وقت میں شفافیت کو یقینی بنایا جاتا، نہ کہ ایک چلتے ہوئے نظام کو ختم کرکے ایک نیا نظام کھڑا کرنے پر وسائل خرچ کیے جاتے، اور اگر لنگرخانے ضروری ہی تھے تو سستی روٹی اسکیم کے ساتھ متوازی طور پر لنگرخانوں کا نظام بھی چلادیا جاتا، تاکہ غریب اور غریب تر دونوں کا بھلا ہوجاتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی سرکار نے سستی روٹی اتھارٹی کو غیر فعال کرنے اور اس کا آڈٹ کروانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات میاں اسلم اقبال کے مطابق سستی روٹی اتھارٹی کا آڈٹ کروانے کے بعد کرپشن ثابت ہونے پر ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے پی ٹی آئی سرکار نے میٹرو کا آڈٹ بھی کروانے کا اعلان کیا تھا۔ اس آڈٹ کی تفصیل ایک سال گزرنے کے بعد اب تک سامنے نہیں آسکی۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ یہ آڈٹ دسمبر میں میٹرو کا افتتاح ہونے کے بعد کروایا جائے گا تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم میٹرو کو چلانا نہیں چاہتے۔ اگرچہ یہ بات انہوں نے فرانزک آڈٹ کا اعلان کرنے کے ایک سال بعد کہی۔
دوسری جانب حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے سیلانی ٹرسٹ کے ساتھ مل کر لنگرخانہ کا افتتاح بھی کردیا ہے۔ خان صاحب نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ اس سلسلے کو بڑھایا جائے گا۔
اگر آپ پی ٹی آئی حکومت کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو آپ بے اختیار حکومت کے حالیہ کارنامے پر داد دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ لنگرخانہ کا افتتاح کرکے وزیراعظم نے جس دور اندیشی کا ثبوت دیا، اس کی ماضی میں نظیر ملنا مشکل ہے۔
گزرے ایک سال میں ملک کی معاشی حالت جس تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے، وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ وطن عزیز میں لنگرخانوں کا آغاز کیا جائے۔ کیونکہ آنے والوں وقتوں میں غریب مزید غریب تر ہوگا۔ اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ایک بڑی تعداد لنگرخانوں کو تلاش کرتی دکھائی دے گی۔ ایسے میں وہ وزیراعظم کو دعائیں دے گی۔ اس سلسلے میں دوسری دور اندیشی محترم وزیراعظم نے یہ کی کہ یہ کام سیلانی ٹرسٹ کے ساتھ مل کر شرع کیا، کیونکہ کل کو اگر آنے والی حکومت اس منصوبے کو سستی روٹی اسکیم کی طرح بند کرنا چاہے گی تو امید ہے کہ سیلانی ٹرسٹ اس کارخیر کو جاری ساری رکھے گا۔ اگرچہ کچھ عاقبت نااندیش جو سستی روٹی اسکیم سے بغیر عزت نفس کو مجروح کیے مستفید ہورہے تھے، شاید وزیراعظم کے اس فیصلے سے نالاں نظر آئیں، مگر اس طرح ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
دوسری جانب کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے سفید پوش طبقے کا استحصال ہوگا، کیونکہ سفید پوش طبقہ سستی روٹی اسکیم سے بغیر عزت نفس مجروح کیے فائدہ اٹھا سکتا ہے، مگر لنگرخانہ پر جاتے ہوئے اس کی عزت پر حرف آئے گا۔ یعنی اگر یوں کہا جائے کہ حکومت کے اس فیصلے سے سفید پوش حضرات کی عزت تار تار ہونے کا خدشہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
مگر اس کے مدمقابل لنگرخانہ کے حامی اس بات کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ جس ملک لوگ کوڑے دانوں سے کھانا اٹھا کر کھاتے ہوں، جس ملک میں ایک بڑی تعداد کو زندگی کی بنیادی ضروریات ہی میسر نہ ہوں، وہاں پر لنگرخانوں کا آغاز ایک احسن اقدام ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر حکومت سستی روٹی اسکیم کو بھی کچھ اس طرح جاری رکھتی کہ ماضی کا فرانزک آڈٹ کروایا جاتا، قومی دولت کو نقصان پہنچانے والے افراد کا تعین کرکے سزا دی جاتی اور موجودہ وقت میں شفافیت کو یقینی بنایا جاتا، نہ کہ ایک چلتے ہوئے نظام کو ختم کرکے ایک نیا نظام کھڑا کرنے پر وسائل خرچ کیے جاتے، اور اگر لنگرخانے ضروری ہی تھے تو سستی روٹی اسکیم کے ساتھ متوازی طور پر لنگرخانوں کا نظام بھی چلادیا جاتا، تاکہ غریب اور غریب تر دونوں کا بھلا ہوجاتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔