خان صاحب اور ان کا تصور ریاست مدینہ

ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا جامع مگر واضح منصوبہ اور اس پر عمل درآمد کا طریقہ کار کیا ہے؟


دلاور حسین October 16, 2019
خان صاحب اپنے فلسفہ ریاستِ مدینہ کی وضاحت کریں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان کی سیاست میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کوئی 'داعی و قائدِ انقلاب' اٹھا ہو اور کامیابی سے ہم کنار ہوجائے۔ عمران خان پاکستان کی سیاست کے وہ عظیم اور نایاب لیڈر ہیں جن کو لگ بھگ دو عشروں پر محیط سیاسی جدوجہد کے بعد یہ سعادت نصیب ہوئی ہے۔

آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد کو 'ریاست مدینہ' کے قیام کی تحریک کے طور پیش کیا۔ سیاسی و معاشی ناانصافی، اسٹیٹس کو اور بدعنوانی کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا۔ عوام کو ان کے سیاسی و معاشی حقوق اور ذمے داریوں کا احساس دلایا۔ انہیں ریاست مدینہ کے قیام کےلیے اتحاد اور جہاد کی دعوت دی۔ نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ کے اذہان سے سیاست و ریاست کی ذمے داریوں اور کردار سے متعلقہ شکوک وشبہات کو رفع کرکے انہیں عملی سیاست میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔ سیاسی سوچ و تنظیم اور فلاحی ریاست کے قیام کی آخری منزل تک عملی جدوجہد اور رہنمائی کی اور مبینہ 'بدعنوان و نااہل' حکمرانوں کو تختِ اقتدار سے ہٹانے کے بعد ایک 'منصوبے' کے تحت استصواب کے ذریعے عوام سے 'ریاست مدینہ' کے قیام کے حق میں فیصلہ حاصل کیا۔ پھر 'ریاست مدینہ' کی تدوین کےلیے اقتدارِ و کارِ حکومت 'متعلقہ اداروں' کے حوالے کردیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہے جو نہایت تدبروفراست، خلوص اور ذمے داری کی بہترین مثال قائم کرکے سرانجام دیا گیا ہے۔

آج پاکستان کو 'ریاست مدینہ' بنے لگ بھگ ایک سال گزر چکا ہے۔ بد عنوان اور نااہل مخالفین کی شدید محالفت اور ان کی طرف سے برپا کردہ اندرون و بیرون ملک بے شمار 'فتنوں' کے علی الرغم عمران خان خود، ان کے جاں نثار اور مخلص رفقا اور ذمے دار محب وطن 'متعلقہ ادارے' پوری استقامت کے ساتھ 'ریاست مدینہ' کے خدوخال درست کرنے میں دن رات بھرپور طریقے سے 'حق' ادا کر رہے ہیں۔ خدا کرے وہ اس کٹھن امتحان میں کامیاب و سرخرو ہوکر نکلیں۔

تاہم اس کے برعکس بیشتر 'حاسد' سیاستدان اور کچھ نابلد و بے خبر صحافی پاکستان میں قائم شدہ ریاست مدینہ میں عمران خان، ان کے 'نایاب و عظیم' رفقا اور محب وطن 'متعلقہ اداروں' کی نیک نیتی، سچی لگن، جذبہ خدمت عوام اور استقامت کے متعلق عوام کو پاکستان میں قائم شدہ 'ریاستِ مدینہ' کے کردار اور نظریہ کے متعلق 'گمراہ' کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ یہ مخصوص صحافی و سیاستدان طبقہ تاحال خان صاحب کے سیاسی، معاشی اور فلاحی افکار و نظریات اور ان کے نظریہ 'ریاست مدینہ' کو اپنی کم عقلی اور کم علمی کے باعث سمجھنے سے قاصر ہے۔

یہ مخصوص طبقہ اپنی جگہ، سچ تو یہ ہے کہ ایک عام پاکستانی بھی اب تک خان صاحب کے تصورِ ریاست مدینہ کا متمنی ہے کہ خان صاحب پاکستان کو کس قسم کی ریاست مدینہ میں ڈھالنا چاہتے ہیں؟ کن صفات کی بنیاد پر ریاست مدینہ کا سیاسی، سفارتی اور عسکری زمامِ کار چلانے کی غرض سے تقرریاں، تبادلے اور توسیع دی جارہی ہے؟ اس میں حاکمیت کا سرچشمہ کون ہے، عوام، عوامی نمائندے یا پھر 'متعلقہ ادارے'؟ یہ حکومت منتخب نمائندے چلا رہے ہیں، غیر منتحب ٹیکنوکریٹ یا کوئی 'اور'؟ خودمختار وزیراعظم ہے۔ اردگرد پریشر گروپس، مفاد پرسست اور بااثر چند وزرا، بھاری بھرکم پارٹی فنڈز دینے والے ترین، لودھروی، ملتانی و پاکپتنی پیر یا پھر پنڈی کے نفیس فائیو اسٹار ہوٹل کے عقبی ہمسائے؟ آئین بالا دست ہے، شخصتیں، چند ادارے، حکومتی جماعت اور اس کے اتحادی یا پھر جس کی بھینس اس کی لاٹھی کا قانون ہے؟ بلاتفریق احتساب ہورہا ہے، انتقام لیا جارہا ہے، حقیقی عوامی مسائل سے قطع نظری کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے یا پھر سستی شہرت کا ذریعہ؟ کشمیر پر تقریر کافی ہے، سفارتی محاذ پر رسوائی کا سامان یا کوئی عملی اقدام بھی ہے؟ ملک میں بڑھتی بیروزگاری، مہنگائی اور مایوسی کےلیے کوئی حکمتِ عملی ہے یا صرف تقریر سے پیٹ بھرنے، لنگرخانوں کے ذریعے عوام کو بھکاری بنانے اور صرف 'صبر' کی تلقین سے ہی کام چلایا جاتا رہے گا؟

کیا ریاست مدینہ میں محض ذاتی انا کی تسکین کی خاطر مخالفین کی مال و عزت غیر محفوظ ہوتی تھی؟ کیا وہاں آئے دن معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل عام تھا؟ کیا وہاں سچ اور حق بولنے والوں کی آواز دبانے کے ساتھ ان کا معاشی قتل کیا جاتا تھا؟ کیا اس ریاست میں جس کے قائدؐ مانگنے اور بھکاریوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے، وہاں باعزت روزگار کے بندوبست کے بجائے نوجوانوں کےلیے لنگرخانے کھول کر اپاہج اور ذلیل و رسوا کیا جاتا تھا؟ کیا وہاں صاحب اقتدار عیاشی اور ڈھٹائی کے ساتھ عوامی خزانے لوٹتے تھے؟ کیا وہاں عوام حکمرانوں کی بے حسی کا ماتم کرتے دکھائی دیتے تھے؟ کیا وہاں حقدار کا حق مار کر 'اپنوں' کو نوازا جاتا تھا؟ کیا وہاں جھوٹ، بہتان طرازی اور ناانصافی کا دور دورہ تھا؟

ایک عام پاکستانی خان صاحب کا ممنون ہوگا اگر وہ اس تشنگی کو دور کرنے کےلیے اپنے عظیم نظریہ ریاست مدینہ کی وضاحت کردیں۔ جہاں یہ اندازہ ہوجائے کہ کیا مدینہ پاک میں قائم ریاست مدینہ قائم کرنے کےلیے رسولِ پاکؐ نے اس قسم کے ہی اقدامات کیے جیسے آپ اٹھا رہے ہیں؟

ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا جامع مگر واضح منصوبہ اور اس پر عمل درآمد کا طریقہ کار کیا ہے؟ عوام پوچھ رہے ہیں کہ ریاست مدینہ قائم ہونے کےلیے مزید کن مراحل اور مشکلات سے گزرنا ہوگا؟ موجودہ ملکی معاشی و سیاسی حالات کے استحکام کےلیے آپ کے پاس آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہے؟ ایک ماہرِ نباض اور حکیمِ حاذق کی طرح آپ نے کہاں تک ملک کے معاشی و سیاسی مسائل کی درست تشخیص کرکے ان کے درست علاج کی تجویز کر چکے ہیں؟ ان سوالات کے جواب دیے بغیر آپ کے تصورِ ریاست مدینہ کی نہ تو صحیح قدرو قیمت کا اندازہ ہوسکتا ہے، نہ ہی اس پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔

آپ کی وضاحت سے نہ صرف آپ کے فلسفہ ریاستِ مدینہ کا براہِ راست عوام کو علم ہوگا، بلکہ آپ کے حاسد اور ناسمجھ مخالفین کے منہ بند کرنے کا بندوبست بھی ہوجائے گا۔ آپ کے حامی آپ کا بھرپور دفاع کرسکیں گے، جبکہ آپ کے مخالفین عوام کو 'گمراہ' نہ کرسکیں گے۔ اس عمل سے پاکستان کے عوام بشمول آپ کے حامی ومخالفین کے درمیان اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ بنے گا۔ موجودہ صورت حال میں آپ کے نقطہ نظر سے عوام کا آگاہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ آپ کے اس اقدام سے جہاں عوام میں مایوسی کا عنصر کم ہوگا وہاں آپ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان حائل خلیج قدرے کم ہوگی، جس سے پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست کے قیام کے لیے دونوں گروہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چل سکیں گے۔

دوسری صورت میں عوام آپ کے اس تصور ریاست مدینہ کو سابقہ حکمرانوں کی جانب سے اسلام اور اسلامی شعار کو اپنے سیاسی و معاشی مقاصد کےلیے استعمال کیے جانے کے مترادف سمجھیں گے۔ جہنوں نے کبھی نام نہاد 'جہاد'، کبھی 'اسلامائزیشن'، کبھی کشمیر کی آزادی، تو کبھی 'ناموس رسالت' کے نام پر اسلام کو استعمال کرکے اپنوں اور غیروں دونوں کو اسلام کی حقیقی روح اور پیغام سے دور اور متنفر کیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں