پاکستان کی پہلی خاتون امپائر حمیرا فرح

حمیرا اپنے خاندان میں واحد ہیں، جو کھیل کے شعبے سے منسلک ہیں۔

حمیرا اپنے خاندان میں واحد ہیں، جو کھیل کے شعبے سے منسلک ہیں۔ فوٹو: فائل

یہ حیرت کی بات ہے کہ جب ہم کسی خاص کھیل کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میںسب سے پہلا وجود کسی کھلاڑی کا آتا ہے۔

ہم اس کے دیگر لوازمات اور نظام کو قبول نہیں کرتے، جس سے کسی کھلاڑیکو کھلاڑی کا درجہ ملتا ہے۔ کھیل کے دیگر لوازمات میں کھیل کی انتظامیہ، میدان کا عملہ، اسکورر، یہاں تک کہ ایسے بھی بہت سے افراد بھی شامل ہیں، جو کھیل کے وقفے کے دوران کھلاڑیوں کو مشروبات پیش کرتے ہیں۔ ہر کردار کسی کھلاڑی کے کیریئر کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ یہ کبھی بھی کسی فرد کی کوشش نہیں ہوتی، یہ ہمیشہ مشترکہ اور اجتماعی کام کا نتیجہ ہوتا ہے۔

جب بھی کھیلوں کا ذکر ہوا، تو زیادہ تر ہمارے ذہن میں مرد کھلاڑی ہی آئے۔ کھیل کوئی بھی ہو، چاہے کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، ٹینس یا اس کے علاوہ دیگر کھیل بھی ہوں، تو ہم نے ہمیشہ مردوں کو ہی امپائرنگ کرتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن حمیرا فرح پاکستان کی پہلی خاتون امپائر ہیں، جنہیں 'پاکستان کرکٹ بورڈ' کی پہلی خاتون امپائر کااعزاز خاصل ہے۔ حمیرا اب تک 170 سے زائد میچوں میں امپائرنگ کے فرائض انجام دے چکی ہیں۔

ماضی میں بھی حمیرا کھیلوں کے شعبے سے منسلک رہیں۔ جس کے تحت وہ گزشتہ 28 سالوں سے بطور رکن کھیلوں کی انتظامیہ میں بھی کام کر چکی ہیں، بلکہ ماضی میں قومی ہاکی ٹیم کی نمائندگی بھی کر چکی ہیں۔ حمیرا اس وقت اسپورٹس سائنسز SPORTS SCIENCES میں 'پی ایچ ڈی' کرنے کے ساتھ ساتھ لاہور گیریژن یونیورسٹی LAHORE GARRISSON UNIVERSITY میں کھیلوں کی ڈائریکٹر بھی ہیں۔


حمیرا کہتی ہیں کہ ''2005ء میں جب معلوم ہوا کہ پی سی بی ویمن ونگ کے قیام کا ارادہ رکھتا ہے، تو اسی دن سے ہی امپائر بننے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ 2005ء میں ہی پینل ون اور 'پینل ٹو' کے کورسز مکمل کر کے باقاعدہ امپائرنگ کا آغاز کر دیا تھا اور مجھے فخر ہے کہ میں پاکستان کی پہلی خاتون امپائر ہوں۔ اب میرے بعدمزید آٹھ خواتین امپائرنگ کا حصہ بن چکی ہیں۔''

حمیرا نے اس سال اگست میں لاہور میں منعقدہ ورکشاپ میں شرکت کی، تاکہ کھیل کے تازہ ترین قوانین میں رد وبدل کیا جا سکے۔ حمیرا اس بارے میں کہتی ہیں کہ خواتین امپائر بھی پاکستان کرکٹ کا ایک اثاثہ ہیں۔ وہ اس حوالے سے کافی محنت کر رہی ہیں۔

حمیرا اپنے خاندان میں واحد ہیں، جو کھیل کے شعبے سے منسلک ہیں۔ حمیرا کا کہنا ہے کہ ''ان کی والدہ نے ان کے خوابوں کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔'' حمیرا نے گورنمنٹ کالج برائے خواتین باغبان پورہ لاہور سے انٹر میڈیٹ اور گریجویشن کیا۔ کالج کی طرف سے حیدر آباد میں ہونے والے ہاکی ٹورنامنٹ میں شرکت کی۔ انہیں ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا۔ اس دوران کالج اور لاہور بورڈ کی ٹیموں کے لیے کھیلتے ہوئے 1985ء میں 300 روپے وظیفے پر پاکستان ریلوے خواتین ہاکی ٹیم کی نمائندگی کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔

ان دنوں کسی بھی طالب علم کے لیے یہ بہت بڑی رقم تھی۔ یونیورسٹی مکمل کرنے کے بعد حمیرا کو اپنے کالج باغبان پورہ سے اسپورٹس ٹیچر کے عہدے کی پیش کش ہوئی، جسے انہوں نے یہ کہتے ہوئے قبول نہیں کیا کہ وہ لاہور گیریژن یونیورسٹی میں ڈائریکٹر اسپورٹس کے عہدے کے لیے منتخب ہو چکی ہیں اور اب حمیرا گزشتہ 28 سالوں سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ اس دوران انہوں نے کھیلوںکے بہت سے کورسز کیے، جن میں بیڈمنٹن، ایتھلیٹکس، والی بال، ہاکی، ٹیبل ٹینس، باسکٹ بال شامل ہیں، چوں کہ اس زمانے میں خواتین کی کرکٹ اتنی ترقی نہیںکر رہی تھی، لہٰذا کرکٹ میں انہوں نے کوئی کورس نہیں کیا۔

جب 2005ء میں 'پی سی بی' نے خواتین ونگ قائم کیا، اس وقت شمسہ ہاشمی اس کی سربراہ تھیں۔ شمسہ ہاشمی حمیرا کے کالج میں پڑھتی تھیں اور ان سے سینئر تھیں۔ شمسہ ہی کے کہنے پہ حمیرا فرح نے اپنی یونیورسٹی کی طلبہ کو قذافی اسٹیڈیم میں ٹرائلز کے لیے بھیجا۔ وہاں انہوں نے تمام امپائرنگ کا جائزہ لیا۔ حمیرا کا کہنا ہے کہ ''سارا دن زمین پر کھڑے ہونا اور ہر گیند پر فیصلہ لینا اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔ ٹیم کے عہدے داروں جیسے کوچ، مینیجر اور میچ ریفری کا بھی دباؤ ہوتا ہے۔ آپ کو گیند پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔''
Load Next Story