پاکستان کی ایران اور سعودی عرب کو اسلام آباد میں مذاکرات کی پیشکش
پاکستان نے تجویز دی ہے کہ وہ اسلام آباد میں دونوں ممالک کے درمیان براہ راست مذاکرات کرانے کیلیے تیار ہے، حکام
پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کے لیے بطور ثالث اپنی میزبانی میں اسلام آباد میں دونوں ممالک کو براہ راست مذاکرات کی پیش کش کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان خلیج فارس میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کی اپنی حالیہ سفارت کاری کے دوران انھیں براہ راست مذاکرات پرآمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان نے تجویز دی ہے کہ وہ اسلام آباد میں دونوں ممالک کے درمیان براہ راست مذاکرات کی میزبانی کرنے کے لیے تیار ہے۔
دونوں مسلمان ممالک کے درمیان سفارتی کوششوں کے مرحلے میں شامل دو اعلی حکام نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اتوار کے روز تہران میں ایرانی قیادت سے ملاقات کے دوران یہ تجویز پیش کی۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اتوار کے روز اپنے ایک روزہ دورہ ایران کے درمیان ایرانی قیادت کو بتایا کہ پاکستان نہ فقط دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کے لیے تیار ہے بلکہ اس کی خواہش ہے کہ یہ براہ راست مذاکرات اسلام آباد میں اس کی میزبانی میں ہوں، وزیراعظم کی اس تجویز پرایرانی قیادت نے محتاط ردعمل کا اظہارکیا۔
حکام کے مطابق وزیراعظم عمران خان امن کوششوں کے سلسلے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے آج ریاض میں ہونے والی ملاقات میں یہی تجویز ان کے سامنے بھی رکھیں گے۔ اعلی افسران کے مطابق پاکستان کی اس تجویزکا مقصد ایرانی اورسعودی حکام کے درمیان ایسے وقت میں روابط کے چینلزکھولنا ہے جب دونوں ممالک میں سعودی تیل تنصیبات میں ڈرون حملوں کے بعد کشیدگی کافی بڑھ چکی ہے۔
اعلی افسران نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کا اسٹریٹجک اتحادی جب کہ ایران کا ہمسایہ ہے، اگر ان دونوں ممالک میں تصادم ہوتا ہے تو اس صورت میں ملک اور پورے خطے پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوں گے، اگر سعودی عرب اورایران میں جنگ ہوتی ہے تو یہاں پاکستان میں حکومت کے لیے بہت ہی مشکل صورتحال پیدا ہو جائے گی۔
اسٹرٹیجک معاہدے کا پارٹنر ہونے کی حیثیت میں پاکستان حملوں کے بعد سعودی عرب کی آزادی و خودمختاری کی حفاظت کا ذمہ دار ہے لیکن یہ صورت حال پاکستان کو ایران سے براہ راست محاذ آرائی سے دوچار کر دے گی، جس کے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے تاہم اس پیچیدگی سے بچنے کے لیے ہم ایران اورسعودی عرب کے درمیان کشیدگی کو کم کرانا چاہتے ہیں۔
اس سوال پر کہ پاکستان کی سفارت کاری کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں؟ اعلی افسر نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان معاملات بہت پیچیدہ ہیں لیکن کوششوں سے تعلقات معمول پرلائے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان خلیج فارس میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کی اپنی حالیہ سفارت کاری کے دوران انھیں براہ راست مذاکرات پرآمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان نے تجویز دی ہے کہ وہ اسلام آباد میں دونوں ممالک کے درمیان براہ راست مذاکرات کی میزبانی کرنے کے لیے تیار ہے۔
دونوں مسلمان ممالک کے درمیان سفارتی کوششوں کے مرحلے میں شامل دو اعلی حکام نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اتوار کے روز تہران میں ایرانی قیادت سے ملاقات کے دوران یہ تجویز پیش کی۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اتوار کے روز اپنے ایک روزہ دورہ ایران کے درمیان ایرانی قیادت کو بتایا کہ پاکستان نہ فقط دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کے لیے تیار ہے بلکہ اس کی خواہش ہے کہ یہ براہ راست مذاکرات اسلام آباد میں اس کی میزبانی میں ہوں، وزیراعظم کی اس تجویز پرایرانی قیادت نے محتاط ردعمل کا اظہارکیا۔
حکام کے مطابق وزیراعظم عمران خان امن کوششوں کے سلسلے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے آج ریاض میں ہونے والی ملاقات میں یہی تجویز ان کے سامنے بھی رکھیں گے۔ اعلی افسران کے مطابق پاکستان کی اس تجویزکا مقصد ایرانی اورسعودی حکام کے درمیان ایسے وقت میں روابط کے چینلزکھولنا ہے جب دونوں ممالک میں سعودی تیل تنصیبات میں ڈرون حملوں کے بعد کشیدگی کافی بڑھ چکی ہے۔
اعلی افسران نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کا اسٹریٹجک اتحادی جب کہ ایران کا ہمسایہ ہے، اگر ان دونوں ممالک میں تصادم ہوتا ہے تو اس صورت میں ملک اور پورے خطے پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوں گے، اگر سعودی عرب اورایران میں جنگ ہوتی ہے تو یہاں پاکستان میں حکومت کے لیے بہت ہی مشکل صورتحال پیدا ہو جائے گی۔
اسٹرٹیجک معاہدے کا پارٹنر ہونے کی حیثیت میں پاکستان حملوں کے بعد سعودی عرب کی آزادی و خودمختاری کی حفاظت کا ذمہ دار ہے لیکن یہ صورت حال پاکستان کو ایران سے براہ راست محاذ آرائی سے دوچار کر دے گی، جس کے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے تاہم اس پیچیدگی سے بچنے کے لیے ہم ایران اورسعودی عرب کے درمیان کشیدگی کو کم کرانا چاہتے ہیں۔
اس سوال پر کہ پاکستان کی سفارت کاری کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں؟ اعلی افسر نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان معاملات بہت پیچیدہ ہیں لیکن کوششوں سے تعلقات معمول پرلائے جا سکتے ہیں۔